• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ تعالیٰ سے کوہِ طور پر ہم کلامی

حضرت موسیٰ علیہ السّلام طورِ سینا کی طرف چل دیئے۔ قریب پہنچے، تو ایک حیرت انگیز منظر دیکھا کہ ہرے سبز درخت کے اوپر آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، مگر درخت کی کوئی شاخ جلتی ہے، اور نہ کوئی پتّا۔ دھواں ہے اور نہ تپش، جب کہ درخت کی سرسبزی و شادابی اپنے عروج پر ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جب آگ اُن کی طرف بڑھی، تو وہ گھبرا کر پیچھے ہٹے اور جیسے ہی واپسی کے لیے مُڑے، آواز آئی’’اے موسیٰ ؑ! یقیناً میں ہی تمہارا پروردگار ہوں، تم اپنی جوتیاں اُتار دو، تم طویٰ کی مقدّس وادی میں ہو۔ مَیں نے تم کو منتخب کر لیا ہے، تو جو حکم دیا جائے، اُسے کان لگا کر سُنو۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ 13-12)۔حضرت موسیٰؑ نے جب اللہ ذوالجلال کی آواز سُنی، تو مبہوت کھڑے رہ گئے۔ آپؑ نے فوری طور پر جوتے اُتار دیئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو شریعت کی تعلیم دی اور پھر فرمایا’’اے موسیٰؑ! تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ یہ میری لاٹھی ہے، اِس سے مَیں ٹیک لگاتا ہوں، بکریوں کے لیے پتّے جھاڑتا ہوں، اس میں میرے لیے اور بھی کئی فائدے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’موسیٰؑ ! اِسے اپنے ہاتھ سے نیچے پھینک دو‘‘ اُنہوں نے اُسے پھینکا تو وہ سانپ بن کر دوڑنے لگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اِسے پکڑ لو اور ڈرنا مت، ہم اِسے ابھی اس کی پہلی حالت میں لَوٹا دیں گے اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال لو، تو وہ سفید چمکتا ہوا نکلے گا، بغیر کسی عیب (اور بیماری) کے، یہ دوسرا معجزہ ہے۔ یہ اس لیے کہ ہم تمہیں اپنی بڑی بڑی نشانیاں دِکھانا چاہتے ہیں۔ اب تم فرعون کے پاس جائو، اُس نے بڑی سرکشی مچا رکھی ہے۔‘‘(موسیٰ علیہ السّلام) نے کہا’’اے میرے پروردگار! میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں اور میرے گھر والوں میں سے (ایک کو) میرا وزیر(یعنی مددگار) مقرّر فرما دے۔ یعنی میرے بھائی ہارونؑ کو۔ تُو اس سے میری کمر کس دے اور اُسے میرا شریکِ کار کر دے تاکہ ہم دونوں بہ کثرت تیری تسبیح بیان کریں اور بہ کثرت تجھے یاد کریں۔‘‘ اللہ تبارک تعالیٰ نے فرمایا’’موسیٰؑ تمہاری تمام دعائیں قبول کر لی گئی ہیں۔‘‘(سورۂ طٰہٰ 17 تا36)

مِصر واپسی اور فرعون کو توحید کی دعوت

حضرت موسیٰؑ طورِ سینا سے لَوٹے اور اپنی اہلیہ کو لے کر مِصر روانہ ہو گئے۔ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارونؑ کو نبوّت کے منصب پر فائز فرما کر حضرت موسیٰؑ کے مِصر آنے کی خبر دے دی تھی، چناں چہ حضرت ہارونؑ نے آپؑ کا استقبال کیا اور گھر لے گئے۔ حضرت موسیٰؑ دس سال بعد گھر والوں سے ملے تھے۔ حکمِ الٰہی کی تکمیل کے لیے دوسرے ہی دن دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچ گئے۔ حضرت موسیٰؑ نے فرعون سے فرمایا ’’(اے فرعون!) ہم ربّ العالمین کی طرف سے بھیجے گئے ہیں، تُو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو روانہ کر دے۔‘‘ فرعون نے کہا ’’اے موسیٰؑ ! کیا تُو نے میرے گھر پرورش نہیں پائی اور کیا تُو نے یہاں رہتے ہوئے قتل نہیں کیا تھا اور تم تو ناشُکرے معلوم ہوتے ہو۔‘‘ موسیٰؑ نے کہا’’ہاں وہ حرکت مجھ سے ناگہاں سرزد ہو گئی تھی اور مَیں خطا کاروں میں تھا۔ جب مجھے تم سے ڈر لگا تو مَیں یہاں سے نکل گیا۔ پھر ربّ العالمین نے مجھے دانائی عطا فرمائی اور اپنا رسول بنایا۔ مجھ پر تیرا کیا یہی احسان ہے، جو تُو مجھے جتا رہا ہے اور تُو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔‘‘ فرعون نے کہا ’’ربّ العالمین کیا (چیز) ہے؟‘‘(حضرت موسیٰؑ) نے فرمایا’’وہ آسمان اور زمین اور جو کچھ اِن دونوں میں ہے، سب کا مالک ہے۔ بہ شرط یہ کہ تم لوگوں کو یقین ہو۔‘‘ فرعون نے اپنے اہالیوں، موالیوں سے کہا’’کیا تم سُن نہیں رہے؟ (یعنی کیا تم کو اس بات پر تعجب نہیں کہ میرے سِوا بھی کوئی اور معبود ہے)‘‘۔ حضرت موسیٰؑ نے فرمایا’’وہ تمہارے اور تمہارے اگلے باپ، دادوں کا پروردگار ہے۔‘‘ فرعون نے کہا ’’(لوگو) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، یہ تو یقیناً دیوانہ ہے۔‘‘ (موسیٰؑ) نے کہا’’مشرق و مغرب اور جو کچھ اِن دونوں میں ہے، وہ سب کا مالک ہے، بہ شرط یہ کہ تم کو سمجھ ہو۔‘‘ (فرعون) نے کہا’’اگر تم نے میرے سِوا کسی اور کو معبود بنایا، تو مَیں تمہیں قید کر دوں گا۔‘‘ (حضرت موسیٰؑ نے) کہا ’’خواہ میں آپ کے پاس روشن چیز (یعنی معجزہ) لائوں؟‘‘ (فرعون نے) کہا’’اگر سچّے ہو، تو لائو اور دِکھائو۔‘‘ پس اُنہوں نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈالی، تو وہ اسی وقت اژدھا بن گئی اور اپنا ہاتھ جو(بغل سے) نکالا، تو وہ سفید چمکیلا نظر آنے لگا۔ یہ دیکھ کر فرعون اپنے آس پاس بیٹھے سرداروں سے کہنے لگا ’’بھئی یہ کوئی بڑا جادوگر ہے۔ یہ تو چاہتا ہے کہ تمھیں اپنے جادو کے زور سے تمہارے مُلک سے نکال دے، تو تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ اُن سب نے کہا’’ آپ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجیے اور تمام شہروں میں ہرکارے روانہ کر دیجیے، جو آپ کے پاس ماہر جادوگروں کو جمع کر کے لے آئیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء: 16،37)۔فرعون نے حضرت موسیٰؑ سے کہا کہ’’ہم بھی تمہارے مقابل ایسا ہی جادو لائیں گے، ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرّر کر لو کہ نہ تو ہم اس کے خلاف کریں اور نہ تم، اور یہ مقابلہ صاف میدان میں ہو گا۔‘‘ موسیٰ (علیہ السّلام) نے کہا’’ زینت اور جشن کے دن کا وعدہ ہے اور یہ کہ لوگ اُس دن چاشت کے وقت اکھٹے ہو جائیں۔‘‘ (سورۂ طٰہٰ: 58-59)

عصائے موسیٰ ؑکا کمال

جشن والے روز ہزاروں کی تعداد میں جادوگر میدان میں جمع کر لیے گئے۔ بادشاہ بھی اپنے مصاحبین کو لیے شاہانہ کرّوفر کے ساتھ تختِ شاہی پر براجمان ہو گیا۔ میدان کے چاروں جانب لاکھوں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا، جو حق و باطل کے اس معرکے کو دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ ایک طرف مِصر کے چوٹی کے جادوگر اپنے جادوئی سازو سامان کے ساتھ بڑے متکبّرانہ انداز میں کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔تو دوسری طرف، اللہ کے دو نیک بندے اور نبی، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت ہارونؑ کھڑے بارگاہِ الٰہی میں دُعاگو تھے۔ جادوگر بولے’’موسیٰؑ یا تو تم (اپنی چیز) ڈالو یا ہم (اپنی چیزیں) پہلے ڈالتے ہیں۔‘‘ موسیٰ (علیہ السّلام) نے کہا ’’پہلے تم ڈالو‘‘ (جب اُنہوں نے چیزیں ڈالیں، تو اُن کی رسّیاں اور لاٹھیاں(جادو کے زور) سے دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ اُس وقت موسیٰ (علیہ السّلام) کے دِل میں خوف پیدا ہوا، تو اللہ نے وحی بھیجی’’اے موسیٰؑ! ڈرو نہیں۔ بلاشبہ تم ہی غالب آئو گے۔ ذرا اپنا عصا زمین پر پھینکو اور پھر دیکھو۔‘‘ چناں چہ لاٹھی کا زمین پر پھینکنا تھا کہ وہ ایک بڑے خوف ناک اژدھے میں تبدیل ہو گئی اور جو کچھ جادوگروں نے بنایا تھا، اُن سب کو نگل لیا۔ یہ دیکھ کر جادوگر سجدے میں گر گئے اور پکار اٹھے’’ہم تمام جہان کے مالک پر ایمان لائے، جو موسیٰ ؑاور ہارونؑ کا ربّ ہے۔‘‘(سورۃ الشعراء، سورہ طٰہٰ)۔فرعون کے لیے یہ سب کچھ بڑا عجیب، نہایت حیرت انگیز اور بہت غم ناک تھا۔ وہ جن جادوگروں کے ذریعے فتح اور غلبے کی آس لگائے بیٹھا تھا، وہ سب نہ صرف مغلوب ہو گئے، بلکہ موسیٰ ؑکے ربّ پر ایمان بھی لے آئے۔ فرعون نے غضب ناک ہو کر کہا’’میری اجازت کے بغیر تم لوگ اس شخص پر ایمان لے آئے، یقیناً یہ تم سب سے بڑا جادوگر ہے۔ مَیں تم سب کے ہاتھ پائوں کاٹ کر سولی پر لٹکا دوں گا۔‘‘ اُنہوں نے کہا’’ کوئی حرج نہیں۔ ہم اپنے پروردگار کی طرف لَوٹ جانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الشعراء، سورۂ طٰہٰ)روایت میں ہے کہ فرعون نے ان سب جادوگروں کے ہاتھ پائوں کٹوا کر اُنہیں سولی پر لٹکا دیا۔

حضرت موسیٰؑ کے نو معجزات

جادوگروں کے ایمان لانے اور اُنہیں بے دردی سے شہید کر دینے کے بعد بھی فرعون کی سرکشی اور بداعمالیاں جاری رہیں۔ مفسرّین کے مطابق ،اس واقعے کے بعد حضرت موسیٰؑ مزید بیس برس مِصر میں مقیم رہے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ اس عرصے میں اللہ عزّوجل نے حضرت موسیٰؑ کو نو معجزات عطا فرمائے تاکہ فرعون اور اس کی قوم کو راہِ راست پر لایا جا سکے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے’’ اور ہم نے موسیٰ کو نو معجزے عطا فرمائے۔‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل: 101)۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے یہ نو معجزات اس طرح شمار فرمائے ہیں۔ (1) عصائے موسیٰ، جو اژدھا بن جاتا تھا (2) یدِ بیضا، گریبان میں ڈال کر نکالنے سے ہاتھ چمکنے لگتا تھا (3) زبان میں لکنت تھی، جو دُور کر دی گئی (4) بنی اسرائیل کے دریا پار کرنے کے لیے دریا کو پھاڑ کر اس کے دو حصّے کر دیئے اور راستہ بنا دیا (5) ٹڈی دَل کا عذاب غیرمعمولی صُورت میں بھیجا (6) طوفان بھیجا گیا (7) بدن کے کپڑوں میں بے حد جوئیں پیدا کر دی گئیں، جن سے بچنے کا کوئی راستہ نہ رہا (8) مینڈکوں کا عذاب مسلّط کیا گیا کہ ہر کھانے پینے کی چیز میں مینڈک آ جاتے تھے (9) خون کا عذاب بھیجا گیا کہ ہر برتن اور کھانے پینے میں خون مل جاتا تھا (معارف القرآن، ج 5، ص 599)۔ یہ سب موسیٰ علیہ السّلام کے کُھلے معجزے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان معجزات کو دیکھ کر قومِ فرعون راہِ راست پر آ جاتی، لیکن وہ پھر بھی تکبّر اور شرک میں مبتلا رہی۔

قومِ فرعون پر چھے عذاب

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’پھر ہم نے اُن پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گُھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون۔‘‘ (سورۃ الاعراف: 133)۔ اس آیت میں قومِ فرعون پر مسلّط ہونے والے پانچ قسم کے عذابوں کا ذکر ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی تفسیر کے مطابق، ان میں سے ہر عذاب ایک معیّن وقت تک رہا، پھر موقوف ہو گیا اور کچھ مہلت دی گئی۔ اس کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا عذاب الگ، الگ وقتوں میں آیا۔ ابنِ منذر نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے ہر عذاب قومِ فرعون پر سات روز تک مسلّط رہا ۔ ہفتے کے دن شروع ہو کر دوسرے ہفتے کے دن رفع ہو جاتا اور پھر تین ہفتے کی مہلت دی جاتی تھی۔ (معارف القرآن)

طوفان کا عذاب

امام بغوی نے بہ روایت ابنِ عبّاسؓ نقل کیا ہے کہ جب پہلی مرتبہ قومِ فرعون پر قحط کا عذاب مسلّط ہوا، تو موسیٰ علیہ السّلام کی دُعا سے رفع ہو گیا، مگر یہ لوگ سرکشی سے باز نہ آئے۔نیز، حضرت موسیٰؑ نے دُعا کی’’اے میرے پروردگار! یہ ایسے سرکش لوگ ہیں کہ عذابِ قحط سے بھی متاثر نہ ہوئے اور معاہدہ کر کے پِھر گئے۔ اب ان پر کوئی ایسا عذاب مسلّط فرما دیجیے، جو ان کے لیے درد ناک ہو اور ہماری قوم کے لیے وعظ اور بعد میں آنے والوں کے لیے درسِ عبرت بنے‘‘۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر طوفان کا عذاب بھیج دیا۔ قومِ فرعون کے گھروں اور زمینوں کو پانی کے طوفان نے تباہ و برباد کر دیا، جب کہ بنی اسرائیل کے مکانات اور زمینیں اس پانی کے طوفان سے محفوظ رہیں۔ (معارف القرآن)

ٹڈیوں کا عذاب

اس طوفان سے گھبرا کر قومِ فرعون نے موسیٰ علیہ السّلام سے التجا کی’’اپنے پروردگار سے دعا کیجیے کہ یہ عذاب ہم سے دُور فرما دیں، تو ہم ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے۔‘‘ حضرت موسیٰؑ کی دُعا سے عذاب دُور ہوگیا اور اُن کی کھیتیاں پہلے سے زیادہ ہری بھری ہو گئیں، تو کہنے لگے’’ درحقیقت یہ طوفان کوئی عذاب نہیں تھا، بلکہ ہمارے فائدے کے لیے آیا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری زمینوں کی پیداوار بڑھ گئی، اس لیے موسیٰ علیہ السّلام کا اس میں کچھ دخل نہیں‘‘ اور یہ کہہ کر سب عہد و پیماں نظرانداز کر دیئے۔یہ لوگ ایک مہینہ امن و عافیت میں رہے۔ اللہ نے اُن کو غورو فکر کی مہلت دی، لیکن اُنہیں ہوش نہ آیا، تو پھر اُن پر دوسرا عذاب، ٹڈیوں کی صُورت مسلّط کر دیا گیا۔ ٹڈی دَل نے اُن کی ساری کھیتیوں اور باغوں کو کھا لیا۔ بعض روایات میں ہے کہ لکڑی کے دروازوں، چھتوں اور گھریلو سازو سامان تک کو ٹڈیاں کھا گئیں۔ اس عذاب کے وقت بھی حضرت موسیٰ کا یہ معجزہ سامنے تھا کہ یہ ساری ٹڈیاں صرف قِبطی یعنی قومِ فرعون کے باغوں، کھیتوں اور گھروں پر چھائی ہوئی تھیں، جب کہ بنی اسرائیل کے مکانات، زمینیں اور باغات سب محفوظ تھے۔ (معارف القرآن)

کیڑے مکوڑوں کا عذاب

قومِ فرعون چلّا اٹھی اور حضرت موسیٰ سے درخواست کی’’ اگر آپ اللہ تعالیٰ سے دُعا کر دیں کہ یہ عذاب ہٹ جائے، تو ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں کہ ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد کر دیں گے۔‘‘ موسیٰ علیہ السّلام نے پھر دُعا کی اور یہ عذاب ہٹ گیا، مگر عذاب ہٹنے کے بعد اُنہوں نے دیکھا کہ اُن کے پاس اب بھی غلّے کا اتنا ذخیرہ موجود ہے کہ سال بھر کھا سکتے ہیں، تو پھر سرکشی اور عہد شکنی پر آمادہ ہو گئے۔ ایمان لائے، نہ بنی اسرائیل کو آزاد کیا۔ ایک مہینہ پھر اللہ تعالیٰ نے مہلت دی۔ اس مہلت کے بعد تیسرا عذاب، قمل کا مسلّط ہوا۔’’ قمل‘‘ اس جوں کے لیے بھی بولا جاتا ہے، جو انسان کے بالوں اور کپڑوں میں پیدا ہو جاتی ہے اور اس کیڑے کو بھی کہتے ہیں ،جو غلّے میں لگ جاتا ہے، جسے گُھن بھی کہتے ہیں۔ قمل کا یہ عذاب ممکن ہے کہ دونوں اقسام کے کیڑوں پر مشتمل ہو کہ غلّوں میں گُھن لگ گیا اور انسانوں کے بدن اور کپڑوں میں جوئوں کا طوفان امڈ آیا ہو۔ اس گُھن نے غلّوں کا حال ایسا کر دیا کہ دس سیر گیہوں پیسنے کے لیے نکالتے، تو اس میں تین سیر آٹا بھی نہ نکلتا اور جوئوں نے اُن کے بال، پلکیں اور بھوئیں تک کھا لیں۔ (معارف القرآن)

مینڈکوں کا عذاب

آخر ایک بار پھر قومِ فرعون بلبلا اٹھی اور حضرت موسیٰؑ سے فریاد کی کہ’’ اب کی مرتبہ ہم ہرگز وعدے سے نہ پھریں گے، آپؑ دُعا کریں۔‘‘ حضرت موسیٰؑ کی دُعا سے یہ عذاب بھی ٹل گیا، مگر وہ کہاں عہد پورا کرتے۔ پھر عافیت ملتے ہی سب کچھ بھول گئے اور منکر ہو گئے۔ پھر بھی اُن کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی، مگر اس مہلت سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، تو ان پر چوتھا عذاب، مینڈکوں کا مسلّط کر دیا گیا اور ان کے گھروں میں اس کثرت سے مینڈک پیدا ہو گئے کہ جہاں بیٹھتے، مینڈکوں کا ڈھیر لگ جاتا۔ سوتے، لیٹتے تو سارا بدن اُن سے دَب جاتا، کروٹ لینا ناممکن ہو جاتا۔ پکتی ہوئی ہنڈیا میں، رکھے ہوئے کھانے میں، آٹے میں، غرض ہر چیز میں مینڈک بھر جاتے۔ اس عذاب سے عاجز آ کر سب رونے لگے اور پہلے سے پختہ وعدوں کے ساتھ معاہدہ کیا، تو پھر حضرت موسیٰؑ کی دُعا سے یہ عذاب بھی رفع ہو گیا۔ (معارف القرآن)

خون کا عذاب

اس عذاب سے نجات پا کر یہ پھر اپنی ہٹ دھرمی پر جَم گئے اور کہنے لگے کہ’’ اب تو ہمیں اور بھی یقین ہو گیا کہ موسیٰ علیہ السّلام بہت بڑے جادوگر ہیں اور یہ سب ان کے جادو کے کرشمے ہیں۔ یہ رسول، نبی کچھ بھی نہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے پھر ایک ماہ کی مہلت عطا فرمائی، مگر اس مہلت سے بھی فائدہ نہ اٹھایا، تو پانچواں عذاب، خون کا مسلّط کر دیا گیا کہ اُن کے ہر کھانے اور پینے کی چیز خون بن گئی۔ کنویں سے، حوض سے، جہاں کہیں سے پانی نکالتے، خون بن جاتا، کھانا پکانے کے لیے رکھتے، تو وہ خون بن جاتا۔ ان سب عذابوں میں حضرت موسیٰؑ کا یہ معجزہ مسلسل تھا کہ ہر عذاب سے اسرائیلی بالکل مامون و محفوظ تھے۔ خون کے عذاب کے وقت قومِ فرعون کے لوگوں نے بنی اسرائیل کے گھروں سے پانی مانگا، جب وہ اُن کے ہاتھ میں گیا، تو خون بن گیا۔ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھ کر قِبطی اور اسرائیلی کھانا کھاتے، تو جو لقمہ اسرائیلی اٹھاتا، وہ اپنی اصلی حالت میں ہوتا اور جو لقمہ یا پانی کا گھونٹ قِبطی کے منہ میں جاتا، وہ خون بن جاتا۔ یہ عذاب بھی سات روز رہا۔ بالآخر پھر وعدے کیے، دُعا کی گئی اور عذاب پھر ہٹ گیا، مگر یہ لوگ اپنی گم راہی پر قائم رہے۔ اسی کو قرآنِ کریم نے فرمایا’’ان لوگوں نے تکبّر سے کام لیا اور یہ لوگ بڑے عادی مجرم تھے۔‘‘

وبائی امراض کا عذاب

بعد کی آیت میں رجز کے نام سے ایک چھٹے عذاب کا ذکر آیا ہے۔ یہ لفظ اکثر طاعون کے لیے بولا جاتا ہےاور چیچک وغیرہ جیسے وبائی امراض کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ تفسیری روایات میں ہے کہ ان لوگوں پر طاعون کی وبا مسلّط کر دی گئی، جس میں ان کے ستّر ہزار آدمی ہلاک ہوئے۔ اُن لوگوں نے پھر فریاد کی اور دُعا کرنے پر یہ عذاب ہٹا اور پھر بدستور ان لوگوں نے عہد شکنی کی۔ اتنی مسلسل آزمائشوں اور مہلتوں کے بعد جب ان میں کوئی احساس پیدا نہ ہوا، تو آخری عذاب آ گیا کہ سب کے سب اپنے مکان، زمینیں، سامان چھوڑ کر موسیٰ علیہ السّلام کے تعاقب میں نکلے اور بحیرۂ احمر کا لقمہ بن گئے۔(معارف القرآن، جلد چہارم، صفحہ46 تا49)

(جاری ہے)

تازہ ترین