• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’البرٹ آئن اسٹائن‘‘ بیسویں صدی کے عظیم ترین سائنسدان

نظریۂ اضافیت (Theory of Relativity) پیش کرنے کی وجہ سے البرٹ آئن اسٹائن 20ویں صدی کےعظیم ترین سائنسدان شمار ہوتے ہیں۔ کونیات و طبعیات کے میدان میں خمیدہ کائنات اور ملفوظ وقت کے دھارے پر بہتی کائنات کا تصور پیش کرتے ہوئے ٹائم مشین کا خواب دکھایاکہ روشنی کی رفتارسے ماضی و مستقبل میں سفر کیا جاسکتا ہے۔ معروف مساوات E=mc2یعنی توانائی مادّہ اور مادّہ توانائی میں بدل سکتا ہے، نے ایٹم بم کی راہ دکھائی،تاہم جوہری توانائی سے بجلی کا حصول بھی ممکن ہوا۔ اضافیت سے کوانٹم میکانیات کی صورت لامحدود امکانات کی کھڑکی کھلی، ریڈیائی و نشری لہروں سے ان گنت کہکشائوں، بلیک ہولز اور سیاہ مادّے جیسے مظاہر ممکن ہوئے۔ جینیئس پروفیسر کہلانے والے آئن اسٹائن کے محفوظ دماغ کا جائزہ لیا گیاتوریاضیاتی خیال اورفضائی و مکانی تصویر کےمرکز انفیریئر پیریٹل لوب (دماغ کا پچھلا حصہ) کی غیرمعمولی مقدار پائی گئی، جو معلومات کو وصول کر کے باہم مربوط کرتا ہے۔

تعلیمی سفر اور سائنسی فتوحات

آئن اسٹائن 14مارچ 1879ء کوجرمنی کے شہر اُلم میں انجینئر والد ہرمن آئن اسٹائن اورموسیقار والدہ پائولین کوچ کے گھر پیدا ہوئے۔ 12سال کی عمر میں اپنی دلچسپی سے الجبرا اور اقلیدس جیومیٹری پڑھ کر فیثا غورث تھیوریم بنایا۔ 14برس میں انٹیگرل اور ڈفرینشل کیلکولس پر مہارت حاصل کی۔ 1896ء میں زیورخ کے فیڈرل پولی ٹیکنیک اسکول میں داخلہ امتحان دیا اور طبیعیات و ریاضی میں حیران کن مارکس حاصل کیے۔1900ء میں وہاں سے بی اے کیا جبکہ 1905ء میں یونیورسٹی آف زیوریخ سے پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ انھوں نے اپنے سائنٹیفک کیریئر کا آغاز 1908ء میں برن یونیورسٹی سے کیا۔ الیکٹرو ڈائنامکس اور اضافیاتی اُصولوں پر کامیاب لیکچر کے ذریعے 1909ء میں وہ زیوریخ یونیورسٹی میں نظری طبیعیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر لگے جبکہ 1911ء میں پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں پروفیسر بنے۔ اس کے علاوہ بھی وہ کئی یونیورسٹیوں اور انسٹیٹیوٹ میں لیکچرز دیتے رہے۔1915ء میں جب انھوں نے نظریہ اضافیت پیش کیا تو ٹائم نے سرخی لگائی :’’نیوٹن کی میکانیاتی سائنس کو شکست :آئن اسٹائن کی اضافی کائنات نے میدان مارلیا‘‘۔ اضافیت کے خمیدہ مکان کا پہلاثبوت تب ملا جب سورج گرہن کے وقت خمیدہ روشنی نظر آئی۔ فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ قوانین پر 1921ء میںانھیں نوبل انعام برائے طبیعیات ملا ۔

سائنسی کیریئر اور دانشورانہ خیالات

آئن اسٹائن کا سائنسی کیریئر 300سائنسی مقالات اور 150 غیرسائنسی مقالات پر مبنی رہا جب کہ 5 دسمبر 2014ء کو یونیورسٹیز اور آرکائیوز نے 30ہزار منفرد دستاویزات پر مبنی آئن اسٹائن پیپرز متعارف کروائے۔سائنس کی تاریخ میں آئن اسٹائن کا نام جینئس اور انتہائی اثرپذیر سائنسدانوں کی فہرست میںشامل ہوا۔ آئن اسٹائن نے اپنے دانشورانہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’ میں انسانوں کے مابین آزادی اور جمہوری نظام کا قائل ہوں۔ شخصیت پرستی سے دُور رہ کر انفرادی ذہانت کو فروغ دیا جائے۔ تعلیمی درسگاہیں بہت لیکن باوقار اور قابل اساتذہ بہت کم ہیں۔ سچ اور انصاف کی پیاس کم اور ہوس کا شمار زیادہ ہے۔ ہر شخص کو اپنے عقائد کی روشنی میں پرکھنے کی اجازت دی جائے۔ دانشورانہ کام اور تخلیق کو فروغ دیا جائے۔ معاشرے کی صحت افراد پر منحصر ہے،خود کو ریوڑ اور تقلید پرست نہ بنائیں۔ تحقیق اور تخیل کے لیے خاموشی اور تنہائی کو دوست اور کتاب کو رفیق بنائیں‘‘۔

سائنس، ادب اور موسیقی سے لگاؤ

آئن اسٹائن نے کہا تھا، ’’مذہبی اخلاقیات اور اَدب کے بغیر سائنس لولی لنگڑی ہے‘‘۔ وہ ریاضیاتی و تصویری ذہانت کے مالک تھے۔من موجی طبیعت اوربکھرے بالوں کا حلیہ سب سے زیادہ مزاح و تفریح اور کارٹونز کا موضوع بنا ۔ ان کی شخصیت اور اقوال و کام پر 100سے زائد کتب لکھی گئیں ۔وہ آج بھی ایک الجھی گتھی ہیں، جن کا اضافی کائنات کو جاننے کا دعویٰ بہت کم لوگ رکھتے ہیں۔ ان کا لڑکپن باخ، موزارٹ اور شوبرٹ کی موسیقی سنتے، وائلن بجاتے اور جیمز جوائس کے ناول پڑھتے گزرا۔ خدا کےوجود کا اثبات کرتے ہوئے کہا،’’کائنات جن فطری و مبہم قوانین پر قائم ہے، بچّے کو کیا پتہ کہ اس وسیع لائبریری میں کون سی کتاب کب اور کس نے لکھی؟‘‘ انسان دوست سوچ کے تحت برٹرینڈ رسل کے ساتھ تاعمر’’ امن و محبت کی جدوجہد‘‘ کا فعال حصہ رہے۔ انھیں ’’صدی کا شخص‘‘ بھی قرار دیا گیا۔

امریکی شہریت اور وفات

آئن اسٹائن فروری 1933ء میں امریکا گئے لیکن جرمنی ہٹلر کے زیراقتدار آیا توواپسی کی راہیں مسدود ہوگئیں۔ 1940ء میں پرنسٹن ریاست کے شہر نیوجرسی میں امریکی شہریت حاصل کی۔ تامرگ انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈی سے وابستہ رہے۔ وہ سوشلزم کے حامی اور سرمایہ داری کے مخالف تھے۔ بعداز مرگ حیات کے قائل نہیںتھے۔ اندرونی خون رسیدگی کی شکایت ہوئی تو پرسٹن ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔سرجری سے انکار کرتے ہوئے کہا، ’’طویل بےثمر مصنوعی زندگی سے کہیں بہتر ہے چلا جائوں۔ اب جانے کا وقت آ گیا ہے۔ مجھے باوقار انداز سے زندگی کو الوداع کہنے دیجئے۔‘‘ 76برس کی عمر میں بسترِ علالت پر17اپریل 1955ء کو آنکھیں موندیں۔ ان کا دماغ نیورو سائنس ریسرچ کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔

تازہ ترین