• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے دور میں دنیا ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو معیاری تعلیم دی جائے ، جو کہ ہر بچے کی دسترس میں ہو۔ بچوں کو معیاری تعلیم دینے کے کئی فوائد ہیں، جس میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ تعلیم انھیں بتاتی ہے کہ روئے زمین پر موجود لامحدود سمجھے جانے والے وسائل محدود ہیں اور انھیں ذہانت اور میانہ روی سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنا لائف اسٹائل نہ بدلا تو ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال ’زمین‘ کے نام سے معروف ہمارے سیارے کو چند دہائیوں بعد رہنے کے قابل نہیں چھوڑےگا۔

تعلیم ایک قوت ہے، جو غربت، جہالت، ناانصافی، عدم برداشت اور عدم مساوات کے خلاف لڑسکتی ہے۔ جن معاشروں میں تعلیم کی اہمیت کو سمجھا جاتا ہے، وہاں معیشتیں دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی ہیں۔ ان معاشروں میں امن، خوشحالی اور استحکام کی اہمیت کو سمجھا جاتا ہے۔ چاہے کیسے بھی حالات ہوں، تعلیم ہر شخص کو خود اعتمادی عطا کرتی ہے اور وہ اپنے مستقبل سے پراُمید رہتا ہے۔

اس کے برعکس، وہ معاشرے جہاں تعلیم کےبجائے جہالت کے ڈیرے ہوتے ہیں، وہاں امید کی جگہ ناامیدی لے لیتی ہے۔ مثلاً افریقا کی دہشت گرد تنظیم ’بوکو حرام‘کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو نظام تعلیم سے باہر رکھا جائے، تاکہ آنے والی پوری ایک نسل جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی رہے۔ ناامید نسل کو انتہا پسندی کے پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھانا آسان ہوتا ہے۔

تحقیق بتاتی ہے کہ ہر سال طلباء کا بیچ (Batch)جب ایک کلاس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اگلی کلاس میں جاتا ہے تو اس سے عالمی معیشت میں 0.37فی صد کا اضافہ ہوتا ہے جبکہ ایک اضافی سال کی تعلیم ایک فرد کی آمدنی میں اوسطاً 10فی صد اضافہ کرتی ہے۔ اگر عالمی سطح پر ہر لڑکی 12سال کی معیاری تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہے تو لڑکیاں اپنی عملی زندگی میں دُگنی آمدنی حاصل کرسکتی ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، دنیا کی تمام لڑکیوں کے لیے 12ویں کلاس تک کی معیاری تعلیم معیشت میں 30ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرسکتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر دنیا کے تمام لڑکے اور لڑکیاں معیاری ثانوی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہیں تو اندازہ ہے کہ دنیا بھر سے تقریباً 42کروڑ افراد کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔ عالمی بینک کی 2018ء میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ہر لڑکے اور لڑکی کو معیاری ثانوی تعلیم دے دی جائے تو دنیا سے کم عمری کی شادیوں (چائلڈ میریج) کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

اقوامِ متحدہ نے 2000ء میں ’ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز‘ کا تعین کیا تھا، جس کے تحت ایک ہدف آئندہ 15 برسوں کے دوران تمام بچوں کو پرائمری تعلیم دینا بھی تھا۔ ہرچندکہ یہ ہدف مکمل طور پر حاصل نہیں کیا جاسکا لیکن 2000ء سے 2015ء کے دوران ترقی پذیر دنیا میں پرائمری اسکولوں میں داخلہ کی شرح 83فیصد سے بڑھ کر 91فیصد ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد 10کروڑ سے کم ہوکر 5کروڑ 70لاکھ ہوگئی۔ 1990ء سے لے کر 2015ء کے دوران 15سے 24سال کی عمر کے افراد میں شرحِ خواندگی 83فی صد سے بڑھ کر 91فی صد ہوگئی، جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان شرحِ خواندگی کے فرق میں بھی قابلِ ذکر حد تک کمی دیکھی گئی۔

تاہم، دنیا کو اس سلسلے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ 2016ء میں عالمی سطح پر تقریباً 26کروڑ 30لاکھ بچے اسکولوں سے باہر تھے۔ مزید برآں، پری اسکول جانے کی عمر کے آدھے بچے ’اَرلی چائلڈ ہوڈ ایجوکیشن‘ کے پروگراموں میں داخلہ نہیں لے پاتے، حالانکہ بچے کے سیکھنے اور صلاحیتیں حاصل کرنے کے لیے یہ اس کی زندگی کا اہم ترین دور ہوتا ہے۔

دنیا کے وہ ممالک، جو تنازعات کی زد میں ہیں، وہاں مستحکم ممالک کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکول سے باہر رہنے کے امکانات ڈھائی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اس میں دنیا بھر میں پرائمری اور لوئر سیکنڈری تعلیم حاصل کرنے کی عمر کے وہ 61کروڑ 70لاکھ بچے ( تقریباً 58فیصد بچے) شامل نہیں ہیں، جو ریاضی اور روانی سے پڑھنے کی کم از کم اہلیت بھی نہیں رکھتے۔

ان کوتاہیوں کو ختم کرنے کے لیے ’ملینیم ڈیویلپمنٹ گولز‘ کے بعد اقوامِ متحدہ نے ’’سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز‘ (پائیدار ترقی کے اہداف) کا اعلان کیا ہے۔ ان اہداف میں تعلیم کو بھی خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ پاکستان نے بھی اقوامِ متحدہ کے ان اہداف کو چیلنج سمجھتے ہوئے قبول کیا ہے۔ تخمینہ ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کے تقریباً 2کروڑ 40لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت پاکستان نے اقوامِ متحدہ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2030ء تک اپنے ہر بچے کو لازمی بنیادوں پر معیاری پرائمری تعلیم فراہم کرے گا۔

تاہم، پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کو اپنے تمام بچوں کو تعلیم کے زیور سے روشناس کرانے کے لیے مالیاتی مسائل کا سامنا ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت تعلیم پر جتنی سرمایہ کاری کی جارہی ہے، وہ اس ہدف کے حصول کے لیے ناکافی ہے۔ اندازہ ہے کہ پوری دنیا کے ہر بچے کو معیاری پرائمری تعلیم دینے کے لیے ہر سال 40ارب ڈالر اضافی درکار ہونگے۔ فنڈنگ کے اس فرق کو ختم کرنے کے لیے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو نہ صرف قومی وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا بلکہ اس کیلئے بین الاقوامی امداد دینے والے اداروں کی مالی معاونت بھی درکار ہوگی۔

تازہ ترین