• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

نسل نو کی اکثریت زندگی کی قدر و منزلت سے بے خبر ایک بے ہنگم ہجوم کی طرح بس زندگی بسر کر رہی ہے۔ بعض نوجوان اپنی زندگی کو منفی سرگرمیوں اور خطرناک مشغلوں کی نظر کرکے اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کردیتے ہیں۔ درحقیقت جوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے، جب انسان کے ارادے، جذبے اور توانائی عروج پر ہوتے ہیں۔ اگر ان جذبوں اور توانائی سے ملک و قوم فائدہ نہ اٹھا سکیں، تو یہ انتہائی افسوس ناک اور نقصاندہ ہے۔ صحت مند نوجوانوں سے ہی صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور صحت مند معاشرہ پائیدار ترقی کا ضامن ہے، جو نوجوان صحت کی قدر کرنا جانتے ہیں، وہ ہی صحرائوں کو گلشن بنا دیتے ہیں، فضائوں پر قبضہ کر سکتے ہیں، پہاڑوں کے جگر پاش کرسکتے ہیں، وہ ہی زمانے کی قیادت سنبھال سکتے ہیں، اس کے بر عکس جو نوجوان صحت و زندگی کی قدر نہیں کرتے وہ خسارے میں رہتے ہیں۔ نسل نو کی اکثریت اپنی زندگی بے پروائی اور غیر ذمے دارانہ طور پر گزارنا چاہتی ہے، لیکن اگر وہ صحت مند زندگی کی اہمیت کو جان لیں، تو اس کی قدر کرنے لگیں۔ چوں کہ نوجوانوں میں ہمت و جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کی ضمانت ان میں مضمر ہے۔ اُس قوم کی راہِ ترقی میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوسکتی، جس کے نوجوان محنتی و ذمہ دار ہوں، جن کی زندگی کے مقاصد مثبت ہوں اور وہ اپنے ملک کے مستقبل کے ضامن ہوں، جن قوموں کے نوجوان ان صفات سے عاری یعنی سست و کاہل، بے پروا اور منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہوں، وہ قومیں بربادی کی طرف رواں ہوجاتی ہیں۔ نوجوانوں کا نام ذہن میں آتے ہی، قوت، جوش، جنون، انقلاب، حرکت پزیری جیسے تصورات نظروں کے سامنے آجاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔ تحقیق و تصنیف، سائنس و ٹیکنالوجی اور ادب کی ترقی کے ذریعے ان ہی نوجوانوں نے انسانیت کو زیب و زینت عطا کی۔ وہ نوجوان جنہوں نے شعور کے راستے کو اپنایا وہ کام یاب ہوگئے۔ نوجوانوں میں اجتماعی و حدت، شعور اور جدوجہد بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ وہ منفی سرگرمیوں سے دور رہیں، اجتماعی وحدت شعور اور جدوجہد واضح نصب العین سے پیدا ہوسکتا ہے۔ نصب العین ہی زندگی کو حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔ ملک و قوم کو حقیقی نصب العین بہادر، باغیرت اور ایمان دار نوجوان ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح اس طرح کرنا کہ وہ اس متوازن طبقہ میں شامل ہوکر ایک ایسی زندگی گزاریں، جو دین فطرت کو مطلوب ہے۔ اس کے لیے علم، تربیت اور سماج کا فہم و شعور ہونا بے حد ضروری ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں والدین اور اہل خانہ کا سب سے اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہر بچے کی اولین تربیت گاہ اس کا گھر ہے، جہاں سے وہ نہ صرف ابتدائی اور بنیادی باتیں سیکھتا ہے بلکہ زندگی بھر ان پر عمل بھی کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے نوجوانوں کی سرگرمیوں اور مشاغل پر بھرپور نظر رکھیں۔ بعض نوجوانوں کے مشاغل انتہائی خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے موت اور معذوری تک لاحق ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک مشغلہ ’’ون ویلنگ‘‘ ہے۔ نوجوانوں میں ون ویلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان تشویش کا باعث ہے، یہ شوق تیزی سے نوجوانوں میں سرایت کر چکا ہے۔

ون ویلنگ کرنے والے اپنے انجام سے بے خبر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے شوق میں اکثر اپنے ہنستے بستے خاندان کو غمناک المیے سے دو چار کر دیتے ہیں۔ یہی نوجوان شعور کی کمی کا شکار ہوتے ہیں اور لا شعوری میں زندگی کے ہاتھوں کھیل کر موت یا معذوری کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔ ون ویلنگ کے دوران نوجوان مختلف کرتب کا مظاہرہ کرتے، موٹر سائیکل کو تیز رفتاری سے چلاتے ہیں، سیٹ اور پیٹرول ٹنکی پر لیٹ جانا، ایک پائوں سیٹ پر رکھ کر ایک ٹانگ ہوا میں رکھنا اور جھک کر ہینڈل پکڑنا، موٹر سائیکل ٹیڑھی کرکے چلانا، زگ زیگ بنانا، ہینڈل سے دونوں ہاتھ چھوڑنے سمیت دیگر خطرناک طریقے معمول بن گئے ہیں، خطرناک انداز میں ڈرائیونگ کے باعث یہ نوجوان نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی دائو پر لگادیتے ہیں۔ اگر موٹر سائیکل قابو سے باہر ہوجائے یا سلپ ہوجائے تو سر کی چوٹ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو بہادر دکھانے کے لیے ون ویلنگ کرتے ہیں، جب کہ بعض نوجوان شرطیں بھی لگاتے ہیں۔ اس شرط کے چکر میں زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں، جو والدین اپنے بچوں کو موٹر سائیکل خرید کر دےدیتے ہیں، مگر ان کی سرگرمیوں پرنظر نہیں رکھتے وہ بھی قابل گرفت ہیں۔ والدین کئی جتن کرکے اپنے بچوں کو موٹر سائیکل دلاتے ہیں کہ ان کے بچے کو تعلیمی ادارے تک جانے میں پریشانی کا سامنا نہیں ہو، مگر بچے اپنے والدین کی طرف سے دی جانے والی اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ موٹر سائیکل کے ساتھ ہیلمٹ بھی دلائیں کیوں کہ ہیلمٹ سے سر محفوظ رہتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں ہیڈ انجری نہیں ہوتی اور بچنے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔ عموماً نوجوان ہیلمٹ کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ ہر والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھے مقام پر فائز ہو اور والدین کا نام روشن کریں، لیکن ون ویلنگ کے دوران زخمی ہونے یا معذور ہوجانے کے سبب وہ، والدین پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ جوان اولاد کی معذوری والدین کی موت ہے۔ ون ویلنگ کا شوق، صرف کچھ داد و تحسین سمیٹ نے کی خاطر یا چند فیس بک لائیکز کے لیے لڑکے اپناتے ہیں اور موت کا یہ خونی کھیل صرف ان کو ہی نہیں ان کے خاندان کو بھی تباہ کرجاتا ہے۔ نسل نو صرف شعبدہ بازی کی آڑ میں اپنی قیمتی جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔ جوان بیٹے کی موت کا صدمہ والدین و خاندان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے، کوئی بھی مہذب معاشرہ خونی کھیل کی آڑ میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کے ہر فرد کو ون ویلنگ روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر کسی کا بھائی یا دوست ون ویلنگ کرتا ہے اور وہ اسے نہیں روکتا تو حقیقتاً وہ اس کا دشمن ہے۔ دوستی کا مفہوم اپنے دوست کو برائی سے روکنا اور برے کام اور اس کے انجام سے بچانا ہے۔ معاشرے کے تمام افراد کو شفقت و دیانتداری سے نوجوانوں کی اصلاح کرنا چاہیے۔ ہم سب کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ اس خونی کھیل کو ہم خود روکیں، اس معاملے میں خاص کر والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اولاد کی ہر جائز خواہش کو پورا ضرور کریں، مگر ساتھ ہی اس خواہش سے مرتب ہونے والے نتائج کا بھی بغور جائزہ لیتے رہیں کہ کہیں اولاد غلط راستے پر تو نہیں بھٹک رہی یا پھر کہیں کسی منفی سرگرمیوں میں تو ملوث نہیں ہے۔ مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی جان بچائے اور برے عمل سے روکے۔ ون ویلنگ نشے سے زیادہ خطرناک ہے۔ ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ، ون ویلنگ کرنے والوں میں احساس کمتری اور معاشرتی مسائل جیسے والدین کی عدم توجہ، گھریلو ماحول، غربت، جہالت، بے روزگاری، بے راہ روی اور بری صحبت وغیرہ عوامل شامل ہیں۔ نوجوان اپنے آپ میں تنہا، عدم تحفظ اور عدم توجہی کا شکار ہو رہے ہیں، اس طرح کے نفسیاتی دبائو اور غصہ کی حالت میں ون ویلنگ سمیت دیگر منفی سرگرمیوں کے ذریعے توجہ حاصل کرنے پر مجبور ہیں، کچھ نووجوان تھرلنگ کا شوق ون ویلنگ کے ذریعے پورا کرتے ہیں۔ دوسری جانب موٹر میکنک اچھی خاصی رقم کے عوض موٹر سائیکل کی از سر نو مرمت کرتے ہیں اور اس میں خطرناک پرزے نصب کر کے اس کی رفتار کو بڑھا دیتے ہیں۔ ایسے مستریوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چایئے جو موٹر سائیکل کو ون ویلنگ کے لیے تیار کرکے دیتے ہیں۔

نوجوانوں کے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ایک بڑی وجہ کھیلوں کے میدان، پارک، اور اسٹیڈیمز کی کمی بھی ہے۔ جب انہیں تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع میسر نہیں کیے جائیں گے، تو ان کا غیر صحت مند اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونا لازم ہے۔ علاوہ از وہ نوجوان جن کے پاس مالی وسائل کی کمی ہو وہ بھی اکثر اپنے جنون کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر ون ویلنگ کے خطرناک کرتب دکھاتے ہیں۔ جب ملک کے معماروں کو محدود وسائل کا سامنا ہو، ان کی ترقی کے راستے بند کر دیئے جائیں، انہیں طبقاتی فرق میں الجھا کے رکھ دیا جائے تو وہ اپنا جنون سڑکوں پر تخریبی اور خطرناک کھیلوں کے ذریعے ہی پورے کریں گے۔ ون ولنگ کی ایک اہم وجہ جگہ جگہ شاپنگ مالز تعمیر بھی ہے، جس کی وجہ سے کھیلوں کے میدان اور پارک کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ناں کہ ’’جس ملک کے میدان ویران ہونگے، وہاں کے اسپتال آباد ہوتے ہیں‘‘۔ ہمیں چاہے کہ اپنے میدانوں کو آباد کریں، کھیل کے میدانوں کی تعمیر حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا بے حد ضروری ہے۔ مہذب ممالک کی طرح اگر نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے نت نئے طریقے اور جدید کھیل دریافت کیے جاتے تو آج ہم سماجی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ انتہا پسند معاشرے کی بنیاد نہیں رکھتے۔ اگر کھیلوں کے میدان ہوں گے تو یہ نوجوان اپنے شوق کی تسکین کے ساتھ صحت مند سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں گے۔ جس سے باہمی بھائی چارے اور معاشرے میں امن کی فضا کو قائم کرنے میں مدد فراہم ہوگی۔ اس کے علاوہ ملک کی سطح پر نسل نو کے لیے بحث و مباحثے کے پروگرام منعقد کروائے جائیں، جن کے موضوعات نوجوانوں کی نمائندگی اور مستقبل کی عکاسی کرتے ہوں، اس کے علاوہ سائنسی میلوں کا انعقاد بھی بے حد ضروری ہے۔ جس سے نسل نو کو نت نئی ایجادات میں دل چسپی بڑھے گی، بیت بازی، نوجوانوں کا محفل مشاعرہ، اسٹیج ڈراموں، فنون لطیفہ سمیت دیگر مقابلوں کا انعقاد کیا جائے، تاکہ مثبت نتائج برآمد ہوسکے، ملکی ترقی کی راہ ہموار ہو، نوجوانوں کا تعمیری کردار سامنے آسکے۔

ان اقدامات سے ون ویلنگ اور دیگر منفی سرگرمیوں میں کمی واقع ہوگی۔ دنیا بھر میں نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جاتے ہیں، لیکن دنیا میں وہی قومیں ترقی کررہی ہیں، جن کے نوجوان درست سمت پر چل رہے ہیں۔ ہماری نسل نو میں قابلیت اور ذہانت کی کمی نہیں، ہمارے بیشتر نوجوانوں نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں، جو کسی کام یاب نوجوان کے شایان شان اور اعلیٰ مرتبہ ہیں۔ ان میں عزم و حوصلہ، ذہانت، بہادری اور لگن ہے، وہ محنتی ہیں۔ زمانہ جتنا بھی آگے بڑھتا جائے گا، نوجوانوں کی اہمیت، کردار اور حیثیت بھی بڑھتی جائے گی۔ زندہ قومیں نوجوانوں کے مستقبل پر خصوصی توجہ دیتی ہیں اور ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے کہ ملک کی باگ ڈور، نظم و ضبط اور ترقی میں ہمیشہ نوجوانوں کا اہم کردار ہے۔ اجتماعی شعور اس وقت تک بیدار نہیں ہوسکتا، جب تک ہم انفرادی مفادات سے نکل کر اجتماعی مفاد کے لیے سوچنا شروع نہ کردیں۔ نوجوان ہمارا مستقبل اور معمار ہیں۔ انہیں اگر اپنی پروا نہیں تو ہم سب افراد کو مل کر ان کی تربیت اور حفاظت کرنی ہے۔ ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو کہ ہمارے نوجوان درست نصب العین پر گامزن ہوں۔ یہ کام حکومت، والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں نے مل کر کرنا ہے۔ اپنے اپنے محلوں میں بزرگ اور با اثر شخصیات نوجوانوں کی بے راہ روی اور ان کے ناپسندیدہ حرکات سے چھٹکارا دلانے کے لیے نصیحت کریں اور ان کو مختلف فن سیکھنے کی ترغیب دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موت کے کھیل کو روکنے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے جائیں۔ نوجوان دوستو! زندگی کو ضرور انجوائے کرو، لیکن اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر نہیں۔ زندگی بہت خوب صورت ہے، اسےفضول سر گرمیوں میں ضائع نہ کرو۔

تازہ ترین