• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امن و امان کے قیام کے لئے افواج پاکستان، سیکورٹی و قانون نافذ کرنے والے اداروں، رینجرز، پولیس کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہم لوگ آج جس پرامن ماحول میں سانس لے رہے ہیں اس کا سہرا بلاشبہ ہمارے سیکورٹی اداروں کو جاتا ہے، جنہوں نے اپنی جانوں کی بیش بہا قربانیاں دے کر ملک کی مخدوش صورت حال کا خاتمہ کرنے کے بعد امن و امان کی فضاء بحال کی۔ ایک جانب افواج پاکستان نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے تو دوسری جانب ڈاکوئوں، جرائم پیشہ و سماج دشمن عناصرکے خلاف پولیس بھی بھرپور انداز سے کریک ڈائون کررہی ہے، جس میںاب تک لاتعداد پولیس اہل کار و افسران شہید ہوچکے ہیں۔ سکھر و شکارپور کے کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوں سے مقابلے کے دوران 2پولیس افسران کی شہادت کے بعد پولیس کی جانب سے کچے کے جنگلات میں آپریشن کو تیز کردیا گیا ہے۔

عیدالفطر کے ایام میں بھی ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن جاری رہا اور عید کے بعد سکھر و شکارپور کے کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوں کے خلاف جاری آپریشن تیز کرتے ہوئے پولیس نے 3ڈاکوئوں کو گرفتار کرلیا ہے جب کہ متعدد افرادکو سہولت کاری کے شبہے میں حراست میں لے کر ڈاکوئوں کی متعدد پناہ گاہوں کو مسمار و نذر آتش کردیا گیاہے۔ ڈاکوئوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور پولیس کی نقل و حرکت میں آسانی کے لئے ہیوی مشینری کے ذریعے کچے کے راستوں کو ہموار کیا جارہا ہےجب کہ مختلف مقامات پر پولیس چوکیاں، دریائے سندھ کی نہروں پر عارضی پل بھی قائم کئے جارہے ہیں۔

سندھ میں ماضی میں کچے کے جنگلات ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کی جاتی تھیں، ضلع سکھر کے کچے کے جنگلات خیرپور، سمیت کندھکوٹ، کشمور، گھوٹکی اور شکارپور سے ملتے ہیں، عیدالفطر سے قبل سکھر اور شکارپور اضلاع کے کچے کے علاقے شاہ بیلو بچل بھیو تھانے کی حدود میں پولیس کی بھاری نفری ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لئے شاہ بیلو میں پہنچی تو کچے کے جنگلات میں چھپے ہوئے ڈاکوؤں نے پولیس پر فائرنگ کردی، پولیس نے بھی جوابی فائرنگ کی اور مقابلے کے دوران تھانہ لکھی غلام شاہ کے ایس ایچ او، غلام مرتضیٰ میرانی اور اے ایس آئی ذوالفقار علی پہنور گولیاں لگنے سے شہید ہوگئے جب کہ چاراہل کار، اے ایس آئی شاہ زیب ، صدام دایو، غلام رسول اور صدام مارفانی زخمی ہوگئے۔ آئی جی سندھ پولیس، ڈاکٹر کلیم امام نے واقعے پر ایڈیشنل آئی جی سکھر ڈاکٹر جمیل احمد اور ایس ایس پی شکارپور ساجد امیر سدوزئی سے رابطہ کیا اور مقابلے کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔ آئی جی نے متعلقہ پولیس افسران کو ہدایات دیں کہ واقعہ میں ملوث ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ عناصرکے خلاف تمام تر وسائل اور صلاحیتیں بروے کار لائے جائیں اور ٹھوس حکمت عملی کے ذریعے بھرپور کارروائی کرکے سماج دشمن عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔آئی جی سندھ کے احکامات کے بعد پولیس کی جانب سے جاری آپریشن تیز کردیا گیا ہے۔

ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن، ڈاکٹر جمیل احمد نے نمائندہ جنگ سے گفتگوکرتے ہوئےبتایا کہ شاہ بیلو کے جنگلات میں ماضی میں بھی متعدد آپریشن کئے جاچکے ہیں تاہم اس مرتبہ پولیس نے دوررس حکمت عملی کے تحت ڈاکوئوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے اور ان کے اصل سرغنہ منیر مصرانی اور اس کے دیگر ساتھیوں کے خلاف ہر گزرتے دن کے ساتھ گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ محدود وسائل میں رہتے ہوئے پولیس بہتر انداز سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سکھر کی تاریخ میں پہلے کبھی اتنا کامیاب آپریشن نہیں ہوا۔ پولیس کے افسران و جوان جنگل کو کھنگال رہے ہیں۔ وسیع علاقہ ڈاکوئوں سےصاف کرالیا گیا ہے، ڈاکوئوں کی متعدد پناہ گاہوں کو مسمار و نذر آتش کیا جاچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈاکوئوں کا سرغنہ منیر مصرانی ہمارا اصل ہدف ہے۔ آپریشن میں پولیس کمانڈوز، جدید اسلحے، بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں، ڈی آئی جی لاڑکانہ عرفان علی بلوچ اور ایس ایس پی شکارپور ساجد امیر، ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموںسے مسلسل رابطے میں ہوں ۔جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ مہیا کی جارہی ہے۔ وقتاً فوقتاً انہیں ضروری ہدایات بھی دی جارہی ہیں۔ آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہل کار نہ صرف جدید اسلحے سے لیس ہیں بلکہ طویل فاصلے تک دیکھنے والی دور بینوں سمیت دیگر جدید آلات و ہتھیار بھی استعمال کئے جارہے ہیں۔

ماضی میں کچے کے یہ جنگلات ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کئے جاتے تھے، ڈاکواور ان کے سہولت کار اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم کی وارداتیں کرنے کے بعد کچے کے ان جنگلات میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچ جاتے تھے اور ان پناہ گاہوں میں پہنچنے کے بعد پولیس کی ڈاکوئوں تک رسائی انتہائی مشکل کام تھا، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے دوران سکھر سمیت مختلف علاقوں سے لوگوں کو اغوا کر کے کچے کے ان جنگلات میں رکھا جاتا تھا جہاں جنگل اور دریا ہونے کی وجہ سے پولیس کو ڈاکوئوں کیخلاف موثر کارروائی یا نقل و حرکت کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا رہتاتھا، تاہم پولیس کی جانب سے کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کرکے ان کی پناہ گاہوں کو نہ صرف ختم کردیا گیابلکہ بڑی حد تک ڈاکوئوں کی کمین گاہوں کو مسمار اور نذر آتش کردیا گیا تھا۔ اس دوران متعدد ڈاکو پولیس مقابلے میں مارے بھی گئے اور زخمی حالت میں گرفتار بھی ہوئے، جس کے بعد ضلع کے کچے کے تمام علاقوں میں پولیس کی جانب سے مستقل چوکیوں کے قیام کے ساتھ ساتھ پٹرولنگ میں بھی اضافہ کیا گیاہے۔ پولیس کی جانب سے ڈاکوئوںکے خلاف جاری کامیاب آپریشن کے باعث بڑی حد تک پولیس چوکیوں کا قیام اور ڈاکوئوں کی نقل و حرکت کا خاتمہ ہوا ہےاور یہ آپریشن جاری ہے۔ آپریشن کے دوران پولیس نے کچے کے جنگلات میں مستقل پولیس چوکیوں کے قیام اور پولیس کی کسی بھی وقت نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لئے راستے بھی بنائے ہیں جس کے بعد اب پولیس کسی بھی وقت کچے کے جنگلات میں بہتر انداز میں نقل و حرکت کرسکتی ہے۔

دوسری جانب ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں کے مطابق ضلع سکھر کی حدود میں آنے والے شاہ بیلو کچے کے جنگلات میں آپریشن کے دوران پولیس نے 3ڈاکوئوں کو گرفتار کیا ہے جبکہ متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے، جن سے تفتیش کی جارہی ہے، آپریشن کا مقصد کچے کے ان جنگلات کو ڈاکوئوں سے پاک کرنا ہے۔ آپریشن میں پولیس کے 300سے زائد جوان حصہ لے رہے ہیں جو کہ جدید ہتھیار و آلات سے لیس ہیں، اے پی سی چین، بکتر بند گاڑیوں کا استعمال بھی کیا جارہا ہے، کچے کے جنگلات میں پولیس کو نقل و حرکت کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا تھا اس لئے ہیوی مشینری کے ذریعے کچے کے راستوں کو ہموار کیاجارہا ہے تاکہ پولیس کی نقل و حرکت میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ دریائے سندھ کی نہروں پر عارضی پل بھی تعمیرکئے جارہے ہیں۔ کچے کے جنگلات میں مختلف مقامات پر پولیس چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں تاکہ ڈاکوئوں کی نقل و حرکت کو محدود کیا جاسکے، ان کے گرد پولیس کا گھیرا تنگ کردیا گیا ہے اورفرار کے راستے مسدود کردیے ہیں، آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں کے پاس دور تک دیکھنے والی دوربینیں، جدید ہتھیار و دیگر آلات بھی موجود ہیں، ڈاکوئوں کے سرغنہ منیر مصرانی اور اس کے دیگر ساتھیوں کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا اور کچے کے جنگلات کو ڈاکوئوں سے پاک کرنے تک آپریشن جاری رہے گا۔

علاوہ ازیں ایس ایس پی شکارپور کے مطابق آئی جی سندھ کی جانب سے شہید ہونے والے ایس ایچ او اور اے ایس آئی کے لئے ایک ایک کروڑ روپے اور شہداء کے ورثاء کو 2-2اے ایس آئی کی نوکریاں اور 60 سال تک بیواؤں کو تنخواہیں دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین