• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دانتوں، مسوڑھوں کے امراض منہ کی صفائی نہ رکھنے کے سبب بڑھ رہے ہیں

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

عکاسی: اسرائیل انصاری

ڈاکٹر سیّد محمّد کیفی اقبال کا شمار ڈینٹیسٹری کی فیلڈ’’ڈینٹل میڑیل سائنسز‘‘ کے بانیان میں ہوتا ہے۔انہوںنے1997ء میں بقائی میڈیکل کالج، کراچی سے بیچلرز آف ڈینٹل سرجری (بی ڈی ایس) کرنے کے بعد2004ء میں یونی ورسٹی آف لندن(کوئین میری) سےایم ایس سی اور2011ء میں بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد کیریئر کا آغاز 1999ء میں بقائی میڈیکل یونی ورسٹی سے بطور لیکچرار کیا۔ بعدازاں 2014ء میں جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کی فیکلٹی آف ڈینٹیسٹری سے بہ حیثیت پروفیسر اور ڈین وابستہ ہوگئے اور تاحال ان ہی عُہدوں پر فائز ہیں۔ڈاکٹر کیفی نے پاکستان میں پہلی بار ڈینٹل کمپائونڈنگ کا طریقۂ کار (Concept of Dental Compounding)متعارف کروایا۔واضح رہے کہ ڈینٹل کمپائونڈنگ کی اصطلاح سے مُراد دانت کا کوئی ایسا مرض ہے، جس کی دوا دستیاب نہ ہو اوراُس کے علاج کے لیے باقاعدہ ایک فارمولا تیارکرنا پڑے۔ڈاکٹر کیفی پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن، سینٹرل کاؤنسل کے سینئر وائس پریذیڈنٹ بھی رہ چُکے ہیں،جب کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پران کے 42سائنٹیفک پیپرز کے علاوہ دو کتب بھی شایع ہوئی ہیں۔

انسانی جسم مختلف اعضاء کا مجموعہ ہے اور ہر عضو کی اپنی ہی افادیت ہے۔ دانت، مسوڑھے، مُنہ اور زبان وہ اعضاء ہیں، جو مختلف افعال انجام دینے کے ساتھ نظامِ انہضام کا بھی ایک اہم حصّہ ہیں، لیکن عمومی طور پر لوگ ان کی طرف سے لاپروائی ہی برتتے ہیں۔ حالاں کہ بعض اوقات معمولی سی کوتاہی بھی دانتوں کے مختلف عوارض کا سبب بن سکتی ہے۔ دانتوں کے عوارض، ان کے علاج معالجے اور دیکھ بھال سے متعلق ہم نے معروف ڈینٹل سرجن، جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی کی فیکلٹی آف ڈینٹیسٹری کے ڈین، پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمّد کیفی اقبال سے خصوصی بات چیت کی، جس کی تفصیل پیشِ خدمت ہے۔

دانتوں، مسوڑھوں کے امراض منہ کی صفائی نہ رکھنے کے سبب بڑھ رہے ہیں
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: دانتوں کے امراض اس قدر عام کیوں ہو رہے ہیں؟

ج:دانتوں کے عوارض عام ہونے کی بڑی وجہ منہ کی صفائی کا خیال نہ رکھنا ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر افراد تب تک کسی ڈینٹیسٹ کے پاس نہیں جاتے، جب تک تکلیف شدّت اختیار نہ کرلے،حالاں کہ دانتوں کی کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو، ہر چھے ماہ بعد دانتوں کا باقاعدہ معائنہ کروانا ضروری ہے۔پھر پاکستان میں چوں کہ پان، گٹکے، مین پوری اور چھالیا وغیرہ کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے، تو منہ کے عوارض، خاص طور پر منہ کا سرطان ایک عام مرض کی صُورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق منہ کے سرطان سے متاثرہ مُمالک میں پاکستان اب دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے، جب کہ یہ مرض تین سے چار سال کے اندر موت کا پروانہ بن جاتا ہے۔

س:دانتوں کے عام عوارض کون سے ہیں اور ان کی ابتدائی علامات کیا ہوتی ہیں، جن کی بدولت تشخیص ممکن ہو سکے؟

ج:زیادہ تر افراد درد کی شکایت کے ساتھ ہی معالج سے رجوع کرتے ہیں۔ تب ایک ماہرمعالج سب سے پہلے یہ تشخیص کرتا ہے کہ درد کی اصل وجہ کیا ہے۔عمومی طور پر یہ درد دانت ، گال، زبان یا پھر تالوکے کسی مسئلے کے باعث ہوسکتا ہے۔بہرحال،حتمی تشخیص کے بعد ہی علاج کیا جاتا ہے۔ تاہم، جو عوارض عام ہیں، اُن میں دانت میں کیڑا لگنا یادانت کاسڑجانا، دانت میں سوراخ یا درد ہونا، مسوڑھوں کی سوزش، ٹھنڈا، گرم لگنا، پائیوریا(ماس خورا) دانتوں پر میل جمنا یا بد رنگ ہوجانا اورمنہ سے بدبو آنا وغیرہ شامل ہیں۔

س:ان عوارض کی وجوہ اور علاج معالجےسے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج: دانت میں کیڑا لگنےیا دانت سڑنے کی وجہ مُنہ میں پائے جانے والے مختلف اقسام کے جراثیم یا بیکٹیریا ہیں، جو دانتوں کی سطح پر نہ صرف تیزابیت پیدا کرتے ہیں،بلکہ ان کی سخت تہہ کو بھی متاثر کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ابتدائی مرحلے میں دانت کا کچھ حصّہ متاثر ہو کر سیاہ پڑ جاتا ہے۔ یہ تکلیف طبّی اصطلاح میں ڈینٹل کیریز کہلاتی ہے، جو آگے چل کر دانت میں گڑھے یا سوراخ کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ اگر مرض ابتدائی مرحلے میں ہے، تو فِلنگ کردی جاتی ہے، بصورتِ دیگر آر سی ٹی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی وجہ سے دانتوں کی حفاظتی سطح متاثر یا مسوڑھے کم زور ہوجائیں، تو کوئی بھی کھانے پینے کی ٹھنڈی یا گرم شے دانتوں کو شدّت سے محسوس ہوتی ہے، جسے "Sansitivity"کہتے ہیں۔ پائیوریامیں دانتوں کی جڑیں کم زور ہو جاتی ہیں اور دانت ہلنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً کھانے پینے میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ اس کا علاج اسکیلنگ ہے۔ مُنہ سے بدبو آنے کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ مثلاً بعض خواتین کو دورانِ حمل یہ شکایت ہوجاتی ہے، جو زچگی کے بعدخودبخود ختم بھی ہو جاتی ہے، جب کہ ذیابطیس، جگر، معدے اور گُردوں کے عوارض میں مبتلا مریضوں کے منہ سے بھی بدبو آتی ہے ،مگر ہر مرض کی بُو مختلف ہوتی ہے،جسے ایک ماہر معالج شناخت کرکے اُسی کےمطابق علاج کرتا ہے۔

س:کیا دانتوں کے مختلف عوارض کے علاج معالجے کےلیے بھی الگ الگ اسپیشلیسٹس ہوتے ہیں؟

ج:جی، بالکل ایسا ہی ہے۔جیسے دانت نکالنے کے ماہر اورل سرجن(Oral surgeon)کہلاتے ہیں، تو آر سی ٹی کے ماہرکو اینڈوڈونٹیسٹ(Endodontist)کہا جاتا ہے۔اسی طرح ڈینچر(Denture) یعنی نقلی بتیسی بنوانے کے لیے پروستھو ڈونٹیسٹ (Prosthodontist) کے پاس ریفر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جب بھی کسی ڈینٹیسٹ کے پاس جائیں، تو اس سے اس کی اسپیشلیٹی اور اپنے مرض کے بارے میں ضرور پوچھیں۔ نیز، جو آلات استعمال کیے جارہے ہیں، وہ اسٹرلائز ہیں یا نہیں، یہ بھی لازماً پوچھا جائے۔

س:کیا دانت کا کوئی مرض موروثی بھی ہو سکتا ہے؟ اور کیا معدے کی خرابی کا کوئی تعلق، دانتوں کے امراض سے بھی ثابت ہے؟

ج: دانت کاکوئی مرض براہِ راست تو موروثی نہیں ہوتا، لیکن اگر فیملی ہسٹری میں ذیابطیس ہونےیا پھر کسی اور مرض کی وجہ سے دانت متاثر ہوئے ہوں، تو وہ مرض اگلی نسل میں منتقل ہو کر دانت متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ البتہ دانت باہر کی جانب نکل آناکسی حد تک موروثی ضرورہے۔ رہی بات معدے کی خرابی کےدانتوں سے تعلق کی، تو اس سے انکار نہیں۔ کئی کیسز میں معدے کی خرابی ہی دانتوں کے عوارض کاسبب بنتی ہے۔

س:کیا ہمارے یہاںمریضوں کی تعداد کی نسبت ماہرین کی تعداد تسلی بخش ہے؟

ج:ہر گز نہیں۔ اس وقت پاکستان بَھر میں25ہزارڈینٹیسٹس رجسٹرہیں،تواس اعتبار سےآٹھ ہزار مریضو ںکے لیےبہ مشکل ایک ڈاکٹردستیاب ہے۔

س: فلورائیڈ کی کمی کے باعث جنم لینے والے دانتوں کے مختلف عوارض کون کون سے ہیں؟

ج:دیکھیں، ہمارے مُلک میں فلورائیڈ کی کمی تو نہیں، البتہ زیادتی کے باعث دانتوں کے مختلف عوارض لاحق ہوجاتے ہیں،جس کی ایک وجہ ٹوتھ پیسٹس ہے۔ بدقسمتی سے ہر دوسرے ٹوتھ پیسٹ پر نمایاں طور پر درج ہوتا ہے، ’’فلورائیڈ کے ساتھ‘‘۔ ہماری 70فی صد آبادی گائوں دیہات میں آباد ہے، جہاں کنووں،نلکوں کا پانی استعمال کیا جاتا ہے، جس میں فلورائیڈ خاصی مقدار میں پایا جاتا ہے،اور اسی وجہ سے ان لوگوں میں فلوروسس ڈیزیز (Fluorosis Disease) عام ہے۔ یہ مرض ہڈیوں اور دانتوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اب اگر ٹوتھ پیسٹ بھی فلورائیڈ والا استعمال کیا جا رہا ہو، تو اس کے مضر اثرات بھی ظاہر ہوں گے۔ اس ضمن میں ہر سطح تک آگاہی پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔پھرکئی ٹوتھ پیسٹس میں اسٹرائیڈز بھی پائے جاتے ہیں، جن کے استعمال سےکسی تکلیف سے فوری افاقہ تو ہوجاتا ہے،لیکن بعد میں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ پہلے لوکل ٹوتھ پیسٹس پر پاکستان ڈینٹل کاؤنسل کی مُہرلگی ہوتی تھی۔ اب آپ کو وہ مُہربھی نظر نہیں آئے گی۔

س:دانت پیسنے کی وجہ کیا ہے اور یہ دانتوں پر اثرانداز ہوتو ردِّ عمل کیا ہوسکتا ہے؟

ج:اس کی بنیادی وجہ اسٹریس ہے۔ اِس عادت کے سبب دانت گِھس جاتے ہیں، تو "TMJ:Temporomandibular joints"میں درد کی شکایت ہوجاتی ہے۔ یاد رہے،ٹی ایم جے ہمارے چہرے کا سب سے بڑا جوڑ ہے اور دانت پیسنے کا عمل دانتوں سے کہیں زیادہ اس جوڑ پر اثر انداز ہوتا ہے۔

س:عام طور پر بچّے دانت نکالنے کی عُمر میں مسوڑھوں پر زبان پھیرتے رہتے ہیں، کیا اسی سبب دانت ٹیڑھے نکلتے ہیںاور اس صورت میں مائوں کو کیا کرنا چاہیے؟ نیز،ماضی کی نسبت آج کل کے بچّوں کے دانت زیادہ خراب کیوں نکل رہے ہیں؟

ج:بچّوں کا مسوڑھوں پر زبان پھیرنا ایک فطری عمل ہے، جو نقصان دہ نہیں۔اصل میں جن بچّوں کے دودھ کے دانت قبل از وقت کسی بھی وجہ سے ٹوٹ جائیں، تو ان کے پکّے دانت ٹیڑھے نکلتے ہیں۔تاہم، مائوں کو چاہیے کہ وہ اس عُمر کے بچّوں کو انگلی، انگوٹھا یا ہونٹ چُوسنے سے منع کریں، کیوں کہ ان عادات کے سبب دانت آگے کی جانب نکل آتے ہیں۔ علاوہ ازیں، بہت سی مائیں جب بچّوں کو فیڈر کے ذریعے دودھ پلاتی ہیں، تو بچّہ عموماً نِپل منہ میں رکھ کر سو جاتا ہے اور ماں، بچّے کی نیند خراب نہ ہونے کے خیال سے فیڈر منہ سے نہیں نکالتی،جو بہت غلط ہے۔ اس سے بچّے کے پورے دانت متاثر ہوسکتے ہیں۔ رہی بات دانت خراب نکلنے کی، تو ماضی میں مسواک کا استعمال عام تھا اور بڑے ہی نہیں، بچّے بھی اس کا استعمال ذوق و شوق سے کرتے تھے۔مسواک، دانتوں کے لیےفائدہ مند ٹوتھ پیسٹ ہی کا کام نہیں کرتی، ایک بہترین ٹانک بھی ہے۔

س:کیا مسواک، ٹوتھ پیسٹ کی نسبت بہتر ہے؟

ج: جی بالکل۔ اب ترقّی یافتہ مُمالک میں تو ٹوتھ پیسٹ کی جگہ مسواک کا استعمال عام ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس ہم مسواک ترک کر کے ٹوتھ پیسٹ کو فوقیت دے رہے ہیں۔نیز، ایک جدید تحقیق کے مطابق دانتوں کے عوارض میں مختلف اقسام کی مسواک کا استعمال فائدہ مند ثابت ہوا ہے، لیکن مسواک سے علاج کے ضمن میں معالج سے مشورہ ضروری ہے۔

س:اکثر لوگ ڈینٹیسٹ سے کہتے ہیں کہ ’’دانت میں کیڑا لگ گیا ہے یا کیڑےنے دانت خراب کر دیا ہے‘‘تو کیا واقعی دانت میں کیڑا لگ جاتا ہے؟

ج:طبّی اصطلاح میں اس مرض کو ڈینٹل کیریز کہاجاتا ہے۔ کیڑا لگنے سے مُراد، دانت پر جراثیم کا حملہ آور ہونا ہے اور چوں کہ ماضی میں اس عارضے کو دانت میں کیڑا لگنا کہا جاتا تھا،تو اب تک یہی اصطلاح عام ہے۔

س:کہتے ہیں، 18،19سال کی عُمر میں ’’عقل داڑھ‘‘ نکلتی ہے اور شدید تکلیف کے ساتھ نکلتی ہے،یہ درست ہے؟

ج:جی بالکل،عقل داڑھ نکلتی ہے، اور اس کا تکلیف کے ساتھ نکلنا ایک قدرتی عمل ہے، جو پریشانی کا باعث نہیں۔ ہاں، زیادہ درد کی صُورت میں معالج کے مشورے سے دوا وغیرہ استعمال کرلی جائے،تو بہتر ہے۔ویسے لازمی نہیں کہ عقل داڑھ سب ہی کی نکلے اور پوری نکلے۔ بعض اوقات یہ داڑھ آدھی یا ٹیڑھی بھی نکل آتی ہے۔

س:دانت کا درد عموماً رات ہی میں کیوں شدّت اختیار لیتا ہےاور گھریلو ٹوٹکوں مثلاً لونگ وغیرہ کا استعمال کس حد تک فائدہ مند ثابت ہوتا ہے؟

ج:دانت کا درد جب رات میں شدّت اختیار کرتا ہے، تو اسے طبّی اصطلاح میں Closed Pulpitisکہا جاتا ہے۔ اصل میںجب ہم سونے کے لیے لیٹتے ہیں، تو خون کا دبائو نیچے کی جانب زیادہ ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے درد شدّت اختیار کر لیتا ہے۔ رہی بات لونگ وغیرہ کی، تو اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ ہمارے پاس کئی ایسے میٹریل ہیں، جن میں لونگ کا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔

س:بچّوں میں دانتوں کے کون کون سے امراض عام ہیں؟

ج:سب سے عام مرض تو کیڑا لگنا ہی ہے۔یہاں میں ماؤں سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے شیرخوار بچّوں کے بھی منہ کی صفائی پر دھیان دیں۔یعنی دودھ پلانے کے بعد ان کے مسوڑھے ململ کے سفید کپڑے سے لازماً صاف کریں۔ اسی طرح بچّے کو دِن میں ایک بار میٹھی اشیاء جیسے چاکلیٹ وغیرہ چاہےزیادہ مقدار میں کھانے کے لیے دے دیں، مگر بار بارنہ کھانے دیں۔ کیوں کہ میٹھی اشیاء کا زائد استعمال دانتوں کے لیےمضر نہیں، مگر دِن بَھر وقفے وقفے سےکھانا نقصان دہ ہے۔

س:آپ کون سا ٹوتھ پیسٹ، برش تجویز کریں گے اور برش کرنے کا آئیڈیل وقت کون سا ہے؟

ج:پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی ایک پیسٹ مستقل طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ جس طرح ایک ہی اینٹی بائیوٹک بار بار استعمال کرنے سے بے اثر ہو جاتی ہے، اسی طرح ایک ہی برانڈ کی پراڈکٹ مستقل استعمال کرنے سے اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ برش کرنےکا آئیڈیل وقت رات سونے سے قبل اور صبح ناشتے کے بعد کا ہے، لیکن ایک بات کا دھیان رہے کہ سونے سے ایک گھنٹہ قبل کچھ کھایا نہ جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سونے سے قبل دودھ کا گلاس پیا، ٹوتھ برش کیا اور پھر فوراً سوگئے۔ یہ غلط ہے، کیوں کہ جب ہم دودھ پی کر یا کوئی شے کھا کر برش کرتے ہی سو جاتے ہیں، تو تیزابیت بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں دانتوں کا کوئی مرض لاحق ہوسکتا ہے،البتہ سونے سے قبل پانی پینے میں کوئی حرج نہیں۔ رہی بات ٹوتھ برش کرنے کے طریقے کی، تو برش کے ایک سے دوسرے سرے تک پیسٹ لگانے کی بجائے مٹر کے دانے کے برابر لگائیں۔ پھر سامنے سے مسوڑھوں اور دانتوں کے درمیان برش رکھ کر، نیچے سے اوپر کی جانب اور اوپر سے نیچے کی جانب کم از کم دس بار برش کریں اور زبان بھی لازماًصاف کی جائے۔

س:روٹ کینال تھراپی کیا ہے؟

ج:جب ڈینٹل کیریز دانت کے Pulpتک رسائی حاصل کر لیں، تو پھر روٹ کینال تھراپی کی جاتی ہے۔اس طریقۂ علاج میں دانت کی جڑ کو جراثیم سے اچھی طرح پاک کیا جاتا ہے۔ بعض کیسز میں روٹ کینال تھراپی ایک ہی دِن میں مکمل ہو جاتی ہے، تو کبھی دو سے چار دِن بھی لگ سکتے ہیں۔

س:بار بار اسکیلنگ کروانا دانتوں کے لیے سود مند ہے یا نقصان دہ؟

ج:قطعاً سود مند نہیں۔ اگر ضرورت ہےتو کروائیں، شوقیہ طور پر ہرگز نہیں، کیوں کہ اس عمل سے دانت کا قدرتی اینامل گِھس جاتا ہے، جو دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتا۔

س:آرتھوگنیتھک سرجری (Orthognathic Surgery)کیا ہے اور کیوں کی جاتی ہے؟

ج:اس طریقۂ علاج میں مسوڑھے کی ہڈی، جو باہر کی جانب نکلی ہو، اُسے نارمل حالت میںلایا جاتا ہے۔ اس سرجری میں ایک پوری ٹیم شامل ہوتی ہے۔ آرتھوگنیتھک سرجری اور ایمپلانٹ دونوں ہی مہنگے طریقۂ علاج ہیں۔ پاکستان میں آرتھوگنیتھک سرجری بہت کم کروائی جاتی ہے،جس کی ایک وجہ اسپیشلیسٹس کا کم ہونا بھی ہے۔

س:گائوں، دیہات ہی نہیں، شہروں میں بھی کئی مریض سڑک کنارے بیٹھے ’’دانتوں کے مستند معالجین‘‘ سے علاج کرواتے ہیں، تو ان اتائیوں کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج:بدقسمتی سے ان اتائیوں کے خلاف کئی تحریکوں نے زور پکڑا، مگر عملی طور پر کچھ نہ ہو سکا اور اب تو چوں کہ بعض اتائیوں کے بچّے باقاعدہ طورپر ڈینٹیسٹری کی تعلیم حاصل کر کے’’طبیبِ دندان بن‘‘چُکے ہیں، تو انہیں اپنی دکان چلانے کے لیے مستند معالج کا لائسنس بھی حاصل ہوگیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اتائیوں کو کمائی کے لیے کوئی مناسب متبادل فراہم کیا جائے۔

س:کراچی میں بعض مقامات پر عام دکانوں کی طرح ایک لائن میں ’’ڈینٹل کلینکس‘‘قائم ہیں۔ جن پر موٹے موٹے حروف میں ’’چائنا کا مشہور دندان ساز ‘‘لکھا نظر آتا ہے، تو یہ کیا ماجرا ہے؟

ج:اصل میں جو طلبہ بی ڈی ایس کرتے ہیں، انہیں اُردو میں ’’طبیبِ دندان‘‘ کہا جاتا ہے اور جو ٹیکنیشنز ہوتے ہیں، وہ دندان ساز کہلاتے ہیں۔ تو یہ سب ٹیکنیشنز ہی ہیں، معالجین نہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے بیش تر ٹیکنیشنز بھی نہ ہوں۔ یہ سب اتائیوں کے مختلف رُوپ ہیں،لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ ان کے جھانسے میں ہرگز نہ آئیں۔

س:دیکھ بھال کے ضمن میں دانت خاصی احتیاط کے متقاضی ہیں، تو ان کی طویل، صحت مند عُمر کے لیے کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ؟

ج:ہر چھے ماہ بعد دانتوں کا معائنہ ضرور کروائیں، چاہے معمولی سی تکلیف ہو، نظر انداز نہ کریں۔ پان، چھالیا، گٹکےاور مین پوری کا استعمال ترک کر دیں۔ نیز، ٹوتھ پِکس کے استعمال سے بھی گریزکریں، کیوں کہ یہ مسوڑھوں کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔ ان کی بجائے ڈینٹل فلاس (Dental Floss) کے ذریعے دانتوں کی درمیانی سطح اور مسوڑھوں کو صاف کر لیا جائے۔

تازہ ترین