• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اسلام

ہر سیاسی جماعت کو چاہیے کہ لیڈیز وِنگ ، یوتھ اور سوشل میڈیا وِنگ کی طرز پر ایک جوتا مارونگ بھی قائم کرے

دیکھئے صاحب!جوتا بڑے کام کی چیز ہے۔ ہمارے ادارے جتنا ہمارے کام نہیں آتے اس سے کہیں زیادہ جوتاہمارے کام آتا ہے یعنی۔

اداروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

جس طرح مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے،اسی طرح جوتے کو جوتی پر برتری حاصل ہے۔ واضح رہے کہ جوتیوں میں دال بٹ سکتی ہے، مگر جوتے میں نہیں۔ اسی طرح جوتا چھپائی کی جگہ جوتی چھپائی کا بھی کوئی چلن نہیں۔ بعض اوقات جس طرح جوتا پرانا ہو کر دادا ابا کی طرح چوں چرا کرتا ہے، وہ چوں چرا جوتی کے نصیب میں کہاں؟

چپل،جوتی، کھڑائوں ، سینڈل اور اسی قبیل کی دیگر چیزوں میں جوتے کو وہی مقام حاصل ہے جو جنگل میں شیر کو حاصل ہے ۔ ہم نے دانستہ طور پر بوٹ کو اس معاملے سے علیحدہ رکھا ہے۔ آپ بھی اسے علیحدہ ہی رکھیے، ورنہ نتائج کے ذمے دار ہم نہ ہوں گے۔

جوتے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ انسان بچپن سے اس سے روشناس ہوجاتا ہے۔ شریر بچوں کا علاج بھی جوتے سے کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ بچوں کی عمدہ تربیت کے لیے مائیں بھی جوتے کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہوتی ہیں۔ بعض اساتذہ بھی جوتے مارنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ یہی وجہ ہے کہ جوتے کھانے والے بیش تر خوش نصیب بچے آج سائنس دان ، ڈاکٹر ، انجینئر ، وکیل ، صحافی ، مفتی اور پروفیسر بنےہوئے ہیں۔

جوتا آپ کا ہم سفر ہے۔ یہ آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، لیکن یاد رہے کہ جوتے پہن کر ہی نہیں چلا جاتا بلکہ بعض جوتے بھی چل جاتے ہیں۔ میاں، بیوی میں بھی جوتے چلتے ہیں اور محفلوں میں بھی۔ حکیم شرارتی کا خیال ہےکہ چلنے والے جوتوں اور عام جوتوں میں قیمت کا فرق ضرور ہونا چاہیے اور چلنےوالے جوتے خاص آرڈر پر بھی تیارکیے جانےچاہییں، کیوں کہ ان کا استعمال مخصوص ہوتا ہے۔

دیکھئے جناب ! جوتے جوتے کی بات ہوتی ہے، بعض جوتے تاریخی ہوتے ہیں۔ سابق امریکی صدر جاج بش کو جو جوتا مارا گیا تھا، کیا آپ اسے تاریخی قرار نہیں دیں گے؟ اسی طرح بھارتی وزیراعظم مودی کو جو جوتا مارا گیا تھا، اسے بھی تاریخی مقام حاصل ہے۔یہ سعادت کسی کسی جوتے کے نصیب میں ہوتی ہے۔ لہٰذا ان جوتوں کو میوزیم میں رکھا جانا چاہیے اور یہ جوتے اگر وطن عزیز میں کسی صاحب کے پاس ہیں تو وہ ان کی نیلامی کرکے خطیر رقم حاصل کرسکتے ہیں اور اگر وہ چاہیں تو اس رقم سے ملکی قرضوںکابوجھ بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

جوتے قومی اہمیت کے حامل بھی ہوتے ہیں،جو کبھی کبھی چلتے ہیں۔ کئی قومی رہنما جوتے سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔ نوازشریف کے تیسرے دور حکومت میں انہیں بھی جوتا مارا گیا تھا۔ لیکن جوتا لگنے کےبعد انہوں نے صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور اداکار علائو الدین کی طرح انہوں نے یہ ڈائیلاگ نہیں بولا: ’’کس نے بنایا ہے یہ جوتا ، کہاں سے آیا ہے یہ جوتا ، کس نے مارا ہے یہ جوتا ‘‘ ۔ ایسے موقعوں پر پر بعض اوقات نشانہ درست نہیں لگتا ۔ مخالف سیاسی کارکن اوچھا وار کر بیٹھتاہے۔ ایسی صورت سے بچنے کے لیے حکیم شرارتی نے تجویز پیش کی ہےکہ سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو چاہیے کہ اپنے کارکنوں کی جوتا مار سیاست پر بھرپور توجہ دیں۔ انہیں جوتا اٹھانے، پکڑنے اور مارنے کی خصوصی تربیت دی جائے، بلکہ ریہرسل کے طور پر کارکن ایک دوسرے کو جوتے مار کر نشانہ پکّا کرسکتے ہیں۔ چوں کہ ایسا بار بار ہوتا ہے لہذا آپ اسےجوتا گردی بھی کہہ سکتےہیں۔ ہر سیاسی جماعت کو چاہیے کہ لیڈیز ونگ ، یوتھ اور سوشل میڈیا ونگ کی طرز پر ایک جوتا مارونگ بھی قائم کرے۔

اگر آپ دفاتر پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کچھ لوگوں کا کام صرف جوتے چاٹناہوتا ہے۔ حکیم شرارتی کا غیر متفقہ فیصلہ ہے کہ جوتے مارنے اور جوتے چاٹنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔

سرکاری دفاتر میں بھی قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اب قومی خزانہ کھانے والوں کو جوتے بھی کھانے چاہییں۔ وطن عزیز میں اگر ایک گروہ جوتے چاٹنے والوںکا ہے تو ایک اور گروہ جوتے پالش کرنےوالوں کا بھی ہے جنہیں بوٹ پالشیے بھی کہتے ہیں۔ اس گروہ میں خاص طور پر بڑے سیاست داں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ ایسی شخصیات بھی گزری ہیں جو کبھی بھی بوٹ پالش کرنے پر تیار نہیں ہوئیں۔ آپ سب جوتوں کو ایک ہی تصور کرتے ہیں، لیکن میں واضح کردوں کہ پہننے ، کھانے ، مارنے، چاٹنے اور چرانے والے جوتوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔ اس معاملے میں ہمارے بزرگوںکی فہم و فراست عمدہ تھی۔ اب آپ دیکھئے، خبر لینے کے بہت سے ذرائع ہوتے ہیں، مگر وہ ایک ذریعہ یہ بھی بتاتے تھے کہ ابھی جوتے سےخبر لیتاہوں تیری۔

ہم برسوں سے یہ جملہ سنتے آئے ہیں : ’’میرے جوتے کی نوک پر‘‘۔ آپ یقین جانیے کہ جوتے کی اس چھوٹی سی نوک نےہمارے بڑے بڑے مسائل کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ اگرچہ ماضی میں جوتے کی نوک بھی کچھ قابل ذکر نہیں ہوتی تھی، مگر عصرِ حاضر میں چائنا کے جوتوں نے عمدہ قسم کی نوک بھی متعارف کرادی ہے۔ اب ہم جوتے کی نوک پر اپنے ہی نہیں بلکہ اجتماعی مسائل کا بوجھ بھی ڈال سکتے ہیں۔ اس نوک سے جوتے کی قدر و قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ویسے تو پہلے ہی ہمارے معاشرے میںجوتوں کو شوکیس میں رکھا جاتا ہے، وہ بھی ایئرکنڈیشنڈ شاپ میں۔

ہم نے مذکورہ سطور میں جوتا مارنے کا ذکر کیا تھا ، یہاں یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ سیاست دانوں کے علاوہ بھی کئی ایسے طبقات اور محکمے ہیں جو جوتے کھانے کے مستحق ہیں۔ اگر اسٹریٹ کرائم ہورہے ہیں تومتعلقہ ایس ایچ اوکو جوتے مارے جائیں، اگر علاقے میں گندگی ہے تو بلدیہ کے اہل کاروں کو جوتے لگانے چاہییں۔ اسی طرح پانی یا بجلی غائب ہو تو ان محکموں کے اہل کاروں کو جوتے مارنےچاہییں۔ مجھے قومی امید ہےکہ اگر آپ اس تلاش میں نکل گئے تو جوتے کھانے کے بہت سے مستحق مل جائیں گے۔

دیکھئے صاحب ! جوتے گھسنا معمولی بات نہیں،بعض لوگ رشتے کے حصول کے لیے جوتے گھس دیتے ہیں، بعض ملازمت کےلیےاوربعض لوگوں کے جوتے اتنے گھسے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان سے ان کی غربت کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح باپ اولاد کی پرورش کے لیے زندگی بھر جوتے گھستا رہتا ہے۔ جوتے گھسنے کا کوئی مقصد ہو تو ٹھیک ہے، لیکن کچھ لوگ بلاوجہ ہی جوتے گھستے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھی جوتے کھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

اب آخری بات یہ عرض کردوں کہ جوتا ضرور پہنیے مگر جوتا پہننے سے پہلے یہ اطمینان کرلیں کہ کوئی آستین کا سانپ جوتے میں چھپ کر تو نہیں بیٹھا ہوا ہے۔

تازہ ترین