• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

علیحدہ صوبے کیا قیام ،کیا علیحدہ سیکرٹریٹ تک محدود رہے گا؟

پنجاب کے بجٹ میں جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ کے لئے تین ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ حکومت نے پہلے ہی اعلان کررکھا ہے کہ یہ علیحدہ سیکرٹریٹ یکم جولائی سے کام شروع کردے گا۔ کیا حکومت جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ پورا نہیں کرنا چاہتی ؟ اور اس کا مقصد علیحدہ سیکرٹریٹ دے کر اس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کی حکمت عملی ہے، اگرچہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں صوبہ جنوبی پنجاب کی قرارداد پیش کی تھی اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس پر تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے علیحدہ صوبہ کے قیام کو قابل عمل بنایا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی تھی مگر اس کمیٹی کا بھی وہی حشر ہورہا ہے جو موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے فوراً بعد شاہ محمود قریشی اور خسرو بختیار پر مبنی کمیٹی بنا کر اسے چند ہفتوں میں تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں سے مشاورت کرکے علیحدہ صوبے کے خدوخال کو نمایاں کرنے کا ٹاسک دیا تھا مگر اس کمیٹی کا ایک اجلاس بھی نہیں ہوا، اس طرح پنجاب حکومت نے بھی علیحدہ صوبہ کے لئے 11رکنی کمیٹی طاہر بشیر چیمہ کی کنوینئر شپ میں بنائی تھی اس کا بھی کچھ پتا نہیں کہ کہاں ہے۔ اب یہ تیسری کمیٹی بھی منظر سے غائب ہوچکی ہے اور صرف قرارداد منظور کرانے کی حد تک علیحدہ صوبہ کے لئے حکومت کی کوششیں نظر آتی ہیں مگر اس کے آگے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ اب پنجاب کے بجٹ میں علیحدہ سیکرٹریٹ کے لئے تین ارب روپے مختص کرکے گویا اس بات کو واضح کردیا گیا ہے کہ علیحدہ صوبے کا قیام صرف علیحدہ سیکرٹریٹ تک محدود ہے اس سے آگے صوبہ بننے کی امید نہ رکھی جائے۔ ذرائع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی سخت مخالفت کی ہے۔ اس مخالفت کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اگر ملک میں ایک نیا صوبہ بنا تو پھر فیڈریشن کے لئے باقی علاقوں میں اٹھنے والے علیحدہ صوبوں کے مطالبات کو دبانا ممکن نہیں رہے گا، ہر جگہ انتظامی یونٹ بنانا ممکن اس لئے بھی نہیں ہے کہ اقتصادی طور پر پاکستان برے حالات سے گزر رہا ہے اور جگہ جگہ انتظامی یونٹ قائم کرکے اخراجات میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک جنوبی پنجاب کے لئے پنجاب کے بجٹ میں علیحدہ فنڈز رکھے جانے کا تعلق ہے تو پنجاب حکومت کا دعویٰ یہی ہے کہ اس بار تقریباً 35 فیصد بجٹ جنوبی پنجاب کو دیا گیا ہے اور اس کی آبادی کے تناسب سے بجٹ کا خاص حصہ مختص کرکے اس خطہ کی محرومیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے مگر حیران کن امر یہ ہے کہ اس بجٹ میں چھ نئی یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان کرکے پنجاب حکومت تعلیم کو اہمیت دینے کا دعویٰ تو کررہی ہے مگر پورے جنوبی پنجاب کو ایک یونیورسٹی بھی نہیں دی گئی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ابھی بھی پنجاب کی بیوروکریسی اور منصوبہ ساز یہ سمجھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو پسماندہ رکھنا صوبہ کے مفاد میں ہے تاکہ وسطی پنجاب کی برتری قائم رہے اور لاہور کا تخت اپنا سکہ جمائے رکھے۔ نشتر ٹو کے لئے اگرچہ فنڈز مختص کئے گئے ہیں مگر ان کا حجم اتنا کم ہے کہ اس بڑے منصوبے پر اس سال کے دوران ابتدائی کام بھی نہیں ہوپائے گا اس طرح یہ منصوبہ اگلے کئی برسوں میں مکمل ہوگا۔ جب تک یہاں کے کروڑوں عوام علاج معالجہ کی سہولتوں سے محروم رہیں گے پنجاب کے بجٹ میں 26 فیصد نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں پہلے ہی وفاقی بجٹ میں 11 کھرب کے نئے ٹیکسوں نے عوام کو معاشی مسائل کا شکار کر رکھا ہے اس پر چھوٹے پیشوں اور ضروریات زندگی کی اشیاء پر پنجاب حکومت نے ٹیکسوں کا جو نیا بوجھ ڈالا ہے وہ عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ پنجاب حکومت نے ٹیکسوں کی تعداد تو بے تحاشا بڑھا دی ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کے پاس کوئی مؤثر نظام بھی ہے کہ جس سے وہ ان ٹیکسوں کو شفاف طریقے سے اکٹھا کرسکے۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا صوبائی محکمہ بذات خود کرپشن کا گڑھ ہے، پراپرٹی ٹیکس، موٹر وہیکل ٹیکس اور دیگر مدات کے ٹیکس اکٹھا کرنے میں اس کا کرپٹ نظام سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے اور نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے فیصلے پر اس محکمے کے ذریعے عملدرآمد کیسے ہوگا ؟ اس کے نتیجے میں سرکاری حکام اور ملازمین کے وارے نیارے نہیں ہوجائیں گے ؟ اور وہ لوگوں کو ٹیکس دینے پر آمادہ کرنے کی بجائے ٹیکس چوری کی راہ نہیں دکھائیں گے ؟ تاکہ ان کی اپنی جیبیں بھی بھری رہیں۔ بہر حال وفاق اور صوبائی بجٹوں نے عوام کو بری طرح مایوس کیا ہے، سرکاری ملازمین کو سندھ حکومت نے تنخواہ اور پنشن میں 15 فیصد بڑھائی ہے جبکہ پنجاب میں 17 سے 21 گریڈ تک 5 فیصد اور 1سے 16 گریڈ تک 10فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت کے پاس کیا بہت زیادہ وسائل ہیں کہ اس نے سرکاری ملازمین کو مہنگائی کے جبر سے بچانے ے لئے 15 فیصد اضافہ کیا ہے ؟ کیا پنجاب ایک غریب صوبہ ہے کہ اس نے صرف 5 سے 10 فیصد اضافہ کیا ہے، اس حوالے سے سرکاری ملازمین اگر سراپا احتجاج ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ ان بد ترین معاشی حالات کے باوجود اپوزیشن عوام کو مہنگائی کے خلاف احتجاج کے لئے تیار نہیں کر پارہی، غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام ابھی تک یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید وزیر اعظم عمران خان حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوجائیں ؟ بلاول بھٹو زرداری کی افطار پارٹی میں مریم نواز کی شرکت اور بعد ازاں مریم نواز کی دعوت پر بلاول بھٹو کی جاتی امرا آمد اس بات کا اشارہ ہیں کہ اب ان دونوں سیاسی جماعتوں کی نئی قیادت آپس میں سیاسی انڈر سٹینڈنگ پیدا کرکے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ مریم نوز نے بلاول بھٹو کو دعوت شہباز شریف اور مسلم لیگ کی دیگر قیادت کو اعتماد میں لے کر دی اس کا مطلب یہ ہے کہ مریم نواز مسلم لیگ (ن) کی غیر اعلانیہ باگ ڈور سنبھال چکی ہیں اور ان کے جلسے بھی جاری ہیں، دوسری طرف بلاول بھٹو بھی احتجاجی جلسوں کا سلسلہ شروع کرنے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں پہلا جلسہ 21 جون کو نواب شاہ میں کریں گے جبکہ دوسرا جلسہ وہ پنجاب اور سندھ کی سرحد پر واقع شہرکوٹ سبزل میں 23 جون کو کریں گے، ایسا بھی امکان ہے کہ جب لاہور میں بڑا جلسہ ہو تو مریم نواز اور بلاول بھٹو مشترکہ طور پر اس میں موجود ہوں اور ایک بڑی تحریک کا آغاز ہوجائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین