• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑی آئل کمپنیاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی ذمہ داری کے حوالے سے مقدمات کی لہر کیلئے تیار

ماحولیات اور صاف توانائی کے نمائندے لیسلی ہک

ایک دہائی قبل ایک ہائی پروفائل کیس میں کیوالینا کے الاسکن گاؤںنے تیل کی بڑی پیداوار کرنے والوں اداروں سے کہا کہ سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے وہ خطرے میں ہیں اس لیےدیہات کو منتقل کرنے کی لاگت کی ادائیگی کریں۔ عدالت نے بالآخر کیوالینا کے خلاف فیصلہ دیا اور کہا کہ مقدمہ کی فیڈرل کامن لاء کے تحت سماعت نہیں ہوسکتی۔
امریکا میں گزشتہ موسمیاتی ذمہ داری کے مقدمات کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ مقدمات کو مشکل جنگ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ گزشتہ عشروں کے متعدد تاریخی مقدمات میں، ججوں نے آئل کمپنیوں کا ساتھ دیا، جس میں ایک فیڈرل کورٹ میں اہم فیصلہ کہ کارپوریشنز کو ان کی گرین ہاؤس گیس کے اخراج کیلئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

فوسل فیول کی کمپنیاں پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات ،انتہائی موسم کے طبیعاتی خطرے سے لے کر صاف کرنے والی توانائی میں بدلنے کے چیلنج سے دوچار ہیں۔ اب ان کی بڑھتی ہوئی تشویش کی فہرست میں ان پر ذمہ داری کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی کا اضافہ بھی شامل ہوگیا ہے۔

گزشتہ دوسال میں امریکا میں شہروں، کاؤنٹیز اور رہوڈ آئی لینڈ کی ریاست کی جانب سے قانونی مقدمات میں اضافہ ہوا ہے جو ماحولیاتی مسائل سے متعلق درخواستوں کے لیے انرجی کمپنیوں سے نقصانات کی تلافی چاہتے ہیں۔

بالٹی مور بدترین طوفان کی تیاری کیلئے طوفانی نالوں کی تبدیلیوں پر آنےوالی لاگت کے لیے معاوضہ چاہتا ہے۔سان فرانسسکو کا کہنا ہے کہ بلند ہوتی سمندری سطح کیلئے شہر کی سمندری دیوار کو اونچا کرنے پر 5 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ دریں اثناء رہوڈ آئی لینڈ کو بھی اس صدی کے اختتام تک 3.6 ارب ڈالر کی ساحلی جائیداد کو خطرے کی توقع ہے۔

ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے سماجی کارکنوں کو امید ہے کہ مجموعی طور پر بڑے جرمانے عائد کرنے سے ان مقدمات کی قانونی رقم کی کثیر مالیت تیل اور گیس کے پیداوار کرنے والوں پر گہرے مالیاتی اثرات مرتب کرے گی۔مثال جس کی جانب انہوں نے توجہ مبذول کرائی تمباکو کی کمپنیوں کے خلاف کئی سال کی مقدمہ بازی جو ابتدائی 25 سال میں امریکا کی 46 ریاستوں کو 206 ارب ڈالر کی ادائیگی کی ضمانت کے سمجھوتے پر ختم ہوئی۔

ماحولیات کے حوالے سے سرگرم رہوڈ آئی لینڈ سے ڈیموکریٹک سینیٹر شیلڈن وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اس وقت آئل کمپنیوں کیلئے قانونی چارہ جوئی سب سے بڑی تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جو کچھ کرچکے ہیں اس پروہ ذمہ داری کے امکان اور عدالتوں سے خوفزدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان مقدمات کا تمباکو کی کمپنیوں کے مقدمات کے ساتھ موازنہ موزوں ہے۔اگر آپ لفظ تمباکو کو انٹرنیٹ پر پاپ آؤٹ کریں اور فوسل فیول ڈال دیں، لفظ صحت اور ماحولیاتی نقصان کو پاپ آؤٹ کریں توشکایت از خود لکھی آجاتی ہے۔

تاہم ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ماحولیات سے متعلق قانونی چارہ جوئی ابھی تک تمباکو کے مقدمات کی سطح پر نہیں ہے،ابھی تک کسی مقدمے میں کامیابی نہیں ہوئی اور متعدددرخواستوں  کو خارج کردیا گیا ہے۔

4 بڑے شہروں نیویارک،سان فرانسسکو،آکلینڈ اور بالٹی مور، اور ایک ریاست رہوڈ آئی لینڈ سمیت 10 کاؤنٹیز کی جانب سے لائے گئے اس وقت ایک درجن سے زائد ماحولیاتی ذمہ داری کے10 مقدمات امریکا میں چل رہے ہیں۔ ماحولیاتی مسائل سے متعلق مقدمات دائر کرنے کرنے کیلئے آئندہ شہر ہونولولو اور واشنگٹن ڈی سی کا امکان ہے جو پہلے ہی وکیلوں کے لیے کال کرچکے ہیں۔

تاہم انرجی کمپنیوں اور لابی گروپ کی نمائندگی کرنے والوں کو شک ہے کہ یہ مقدمات میرٹ پر ہیں۔

واشنگٹن میں لابی گروپ نیشنل ایسوسی ایشن آف مینوفیکچررز جس کے اراکین فوسل فیول کمپنیوں میں شامل ہیں، کے خصوصی مشیر فل گولڈبرگ نے کہا کہ اس مقدمے کی ایک طویل تاریخ رہی ہے جو کامیاب نہیں ہوئے۔

فل گولڈ برگ نے کہا کہ ان مقدمات میں بنیادی خامی یہ ہے کہ کمپنیوں نے کچھ غلط نہیں کیا،وہ ایک فائدہ مند پروڈکٹ فروخت کررہے ہیں۔ یہ پوری کوشش محض بے فیض ہے۔

تاہم انہوں نے جلد ہی مقدمات کو مکمل طور پر ختم ہونے کے خیال کو مسترد کردیا۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی وقت جب آپ پر مقدمہ قائم کیا جائے،آپ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ایسوسی ایشن کو انہیں حل کرنے کیلئے ایک نیا ونگ مینوفیکچررز کا احتساب پروجیکٹ قائم کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔

عین اسی وقت پر شیل اور برٹش پیٹرولیم سمیت چند انرجی کمپنیوں نے نئے کاربن ٹیکس بل کیلئے لابنگ میں کئی ملین ڈالر انویسٹ کیے، جو ماضی میں فروخت ہونے والی فوسل فیول مصنوعات کیلئے ذمہ داری سے استثنیٰ کو بھی اس میں شامل کرے گا،جس سے ان کے متعدد مقدمات ختم ہوجائیں گے۔

جبکہ ہر مقدمے کی تفصیلات مختلف ہوتی ہیں، تیل اور گیس کی پیداوار کرنے والوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے اخراجات کا احاطہ کرنے کیلئے زرتلافی نکلوانے کیلئے زور اسی طرح ہے۔

زیادہ تر مقدمات میں بڑی پیداوار کرنے والوں کا نام لیا گیا ہے،جیسے ایکزون،برٹش پیٹرولیم، کونکو فلپس،رائل ڈچ شیل اور شیوران بطور مدعا علیہ ہیں،اگرچہ نامزد کمپنیوں کی تعداد 5 سے 37 تک ہے۔

11 مقدمات میں مدعیوں کی نمائندگی کرنے والی نجی لاء فرم شیر ایڈلنگ میں شراکت دار وک شیر نے کہا کہ یہ مخصوص غلط کام کرنے والی کمپنیوں کے خلاف متاثرہ عوامی اداروں کی جانب سے مقدمات ہیں،جو نقصانات کیلئے رقم چاہتے ہیں،یہ گزشتہ رویے کیلئے تلافی کے بارے میں ہیں۔ کمیونٹیوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے لاگت غیر معمولی ہے۔

امریکا میں گزشتہ موسمیاتی ذمہ داری کے مقدمات کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ مقدمات کو مشکل جنگ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ گزشتہ عشروں کے متعدد تاریخی مقدمات میں، ججوں نے آئل کمپنیوں کا ساتھ دیا، جس میں ایک فیڈرل کورٹ میں اہم فیصلہ کہ کارپوریشنز کو ان کی گرین ہاؤس گیس کے اخراج کیلئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔

ایک دہائی قبل ایک ہائی پروفائل کیس میں کیوالینا کے الاسکن گاؤںنے تیل کی بڑی پیداوار کرنے والوں اداروں سے کہا کہ سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے وہ خطرے میں ہیں اس لیےدیہات کو منتقل کرنے کی لاگت کی ادائیگی کریں۔ عدالت نے بالآخر کیوالینا کے خلاف فیصلہ دیا اور کہا کہ مقدمہ کی فیڈرل کامن لاء کے تحت سماعت نہیں ہوسکتی۔

تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے وکلاء نے کہا کہ چیزیں تازہ ترین بیچ کے ساتھ تبدیل ہوگئی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف یہ مقدمات وفاقی عدالتوں کی بجائے ریاستوں کی عدالتوں میں دائر کیے گئے ہیں(جس کا مطلب ہے کہ کیلوانیا میں فیصلہ اور دیگر ایسے ہی مقدمات کا براہ راست قابل اطلاق نہیں ہوتا) بلکہ انہیں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کی جدید سائنسی تفہیم سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔

وک شیر نے کہا کہ نئی پیشرفت سائنسی ہیں۔ ہماری نئی صلاحیت موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اثرات جیسے سمندر کی سطح میں اضافہ اور گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے تعلق کا تعین کرنا اور اس اخراج کو مخصوص کمپنیوں سے منسوب کرنا ہے۔

پیشرفت ابھی تک ملی جلی ہے۔یہ سوال کہ آیا دعویٰ کی سماعت ریاست یا وفاقی عدالتوں میں ہونی چاہیے ،نے زیادہ تر کارروائیوں کو گھیرا ہوا ہے۔سان فرانسسکو،آکلینڈ اور نیویارک کی جانب سے لائے گئے مقدمات اپیل کے تحت ہیں،ابتدائی طور پر انہیں خارج کردیا گیا تھا۔

مدعی کیلئے ایک اضافی چیلنج یہ ہے کہ چونکہ فوسل فیول بہت زیادہ اقتصادی سرگرمیوں کا انجن رہا ہے،یہ تعین کرنا مشکل ہوگا کہ صارفین کی بجائے انرجی کمپنیوں کو ذمہ داری برداشت کرنی چاہیے۔ تاہم، سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کا علم اور تیل اور گیسوں کے اخراج کے اثرات جو وہ فروخت کررہے تھے،کے بارے میں عوام کو متنبہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

نقصانات کے لیےرقم کے اعدادوشمار کا حوالہ دینے کیلئے مقدمات ابھی کافی ابتدائی مراحل میں ہیں،جبکہ امریکا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی قیمت کا تخمینہ کھربوں ڈالر میں کیا جارہا ہے۔

اسی وقت، انرجی کمپنیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے متعلق سرمایہ کاروں کو دھوکہ دینے کیلئے علیحدہ مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

گزشتہ سال، نیویارک کی ریاست نے ایکزون موبائل پر مقدمہ دائر کیا،الزام لگایا کہ اس نے سرمایہ کاروں کو گمراہ کیا،اس الزام کو کمپنی نے سختی سے مسترد کردیا۔ جاری مقدمے کو پوری انڈسٹری کافی قریب سے مشاہدہ کررہی ہے،خاص طورپر نیویارک کے دھوکہ دہی کے خلاف قوانین، جو مارٹن ایکٹ کے نام سے معروف ہیں، ملک میں سب سے سخت ہے۔

کمپنیوں کے حوالے سے،وہ اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ موسمیاتی یتبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے مخالفت نہیں، تعاون زیادہ مؤثر ہوگا۔

مدعا علیہ کے طور پر نامزد کمپنیوں کا کہنا ہے کہ مقدمات میرٹ کے بغیر ، گمراہ کن اورغیر تعمیری ہیں۔

شیل کا کہنا ہے کہ ہم نہیں سمجھتے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمی چیلنج پر توجہ دینے کیلئے عدالت مناسب جگہ ہے،جبکہ ایکزون نے تبصرہ کیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر بامعنی طریقہ سے توجہ دینے کیلئے عالمی شراکت داری،حکومتوں ،کارپوریشنوں اور صارفین کی جانب سے کارروائی کی ضرورت ہے۔

شیوران نے کہا کہ اسی طرح کے مقدمات مسلسل طور پر مسترد کیے جاتے رہے ہیں اوریہ کہ حقیقی حل اور بامعنی کارروائی جیسا کہ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور کم کاربن والے کاروباری مواقع پر توجہ مرکوز کی گئی ۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے مقدمات میں مدعیوں کے حامی غیر منافع بخش کلائمٹ انٹیگریٹی کیلئے مرکز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رچرڈ ولز نے کہا کہ چیلنجوں کے باوجود، مدعیوں کو ایک فائدہ حاصل ہے جبکہ انرجی کمپنیوں کو ہر صورت ہر مقدمہ لڑنا ہے،مدعیوں کو صرف اور صرف جیتنا ہوگا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اصل حکمت عملی یہ ہے کہ آپ زیادہ مقامات پرمزید مقدمات دائر کریں۔ اگر ہم ایک بھی مقدمہ جیت جاتے ہیں تو اس سے نظیر قائم ہوجاتی ہے پھر ہم مقدمات کی برسات کردیں گے۔اسی طرح تمباکو کی کمپنیوں کے خلاف مقدمات جیتے تھے۔

امریکا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اہم مقدمات

اپریل 2007

میساچوسٹس کے انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے خلاف مقدمےمیں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ آلودگی کی ایک قسم ہے جو صاف ہوا ایکٹ کے تحت ای پی اے کی جانب سے ریگیولیٹ کیا جانا چاہیے۔اس سے قبل کاربن ڈائی آکسائیڈ کو وفاقی سطح پر ریگولیٹ نہیں کیا گیا تھا۔

فروری 2008

کیوالینا کے الاسکن گاؤں نے ایکزون موبائل اور دیگر آئل پروڈیوسر کے خلاف مقدمہ دائر کیا،جس میں دیہات کو سیلاب کی وجہ سے پہنچنے والے مالیاتی نقصانات پورا کرنے کا مطالبہ کیا۔بالآخر عدالت نے کیوالینا کے دلائل کو مسترد کردیا۔

جون 2011

کنیکٹی کٹ کے اے ای پی کے خلاف مقدمے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ پاور کمپنیوں کو ان کے کاربن گیس کے اخراج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو وفاق سے ریگیولیٹ کیا جاتا ہے۔

اگست 2015

جولیانا کے امریکا کے خلاف مقدمہ میں،نوجوانوں کے ایک گروپ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کارروائی میں کمی کیلئے امریکا کی حکومت کے خلاف مقدمہ کیا،انہوں نے الزام لگایا کہ امریکا کا موسمیاتی نظام ان کے جینے کے حق،آزادی اور جائیداد کے حقوق کیلئے تشویش ناک ہے۔ مقدمہ اس وقت زیرسماعت ہے۔

جولائی 2017

کیلیفورنیا میں تین علاقوں کاؤنٹی سان ماٹیو،کاؤنٹی مارن اور سٹی آف امپیریل بیچ نے آئل کمپنیوں کے خلاف مقدمہ دائر کیا،کیلی فورنیا کے ریاستی قوانین کے تحت آئل کمپنیوں پر ان کی مصنوعات کے موسمیاتی اثرات کی وجہ سے غفلت اور نقصانات کے الزامات عائد کیے گئے۔

ستمبر 2017

سان فرانسسکو اور آکلینڈ نے آئل پروڈیوسرز کے خلاف موسمیاتی تبدیلی کی ذمہ داری کا مقدمہ دائر کیا،جوسمندر کی سطح میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے دیگر اثرات سے نمٹنے کے لیے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے نقصانات کی تلافی چاہتے ہیں،ان مقدمات کو جون 2018 میں خارج کردیا گیا تھا تاہم اب ان فیصلوں پر اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔

جنوری 2018

نیویارک نے آئل کمپنیوں کے خلاف ذمہ داری کا مقدمہ دائر کیا،نقصانات کا دعویٰ کرتے ہوئے موسمیات سے متعلق انفرااسٹرکچر کے اخراجات کیلئے تلافی کا مطالبہ کیا۔مقدمے کو خارج کردیا گیا اور مقدمہ خارج کرنے کیخلاف اپیل کی گئی ہے۔

جولائی 2018

رہوڈ آئی لینڈ اور بالٹی مور نے الگ الگ فوسل فیول کمپنیوں کے خلاف موسمیاتی نقصانات کا مقدمہ کیا ہوا ہے، جس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصان دہ اثرات سے نمٹنے کیلئے ادائیگی ، نقصانات کو پورا کرنے کے لیے امدادکا مطالبہ کیا ہے۔

اکتوبر 2018

نیویارک کے اٹارنی جنرل نے ایکزون موبائل کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ دائر کیا ہے، الزام عائد کیا ہے کہ اس نے سرمایہ کاروں کو اس کے کاروبار کو موسمیاتی تبدیلیوں کے قوانین سے درپیش خطرات سے متعلق فریب دیا۔

مارچ 2019

نیویارک اور کیلیفورنیا سمیت 10 ریاستوں کے ایک گروپ نے سان فرانسسکو اور آکلینڈ کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمہ داری کے مقدمات میں کورٹ فرینڈلی بریفنگ فائل کی،جیسا کہ شہروں نے اپنے مقدمات ختم ہونے کے خلاف اپیل کی ہے۔

تازہ ترین