• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر یاسمین شیخ

عورت اور گھرداری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک عورت معاشرے میں خواہ کتنا ہی اونچا مقام حاصل کرلے، لیکن اس کے لیےپہلی ترجیح اُس کاگھراور اہلِ خانہ ہی ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی بیش تر خواتین گھریلو کام کاج مثلاً کھانا پکانے،برتن، کپڑے دھونے اور گھر صاف ستھرا رکھنے میں اس قدر مشغول رہتی ہیں کہ انہیں اپنی صحت اور خُوب صُورتی کا بھی خیال نہیں رہتا۔ نتیجتاً وقت سے قبل نہ صرف ان کی جِلد کا قدرتی حُسن ماند پڑجاتا ہے، بلکہ بڑھاپا بھی جھلکنے لگتا ہے۔یاد رکھیے، اگر آپ اپنا خیال نہیں رکھیں گی، تو نہ صرف ان گنت پریشانیوں کا شکار ہوجائیں گی،بلکہ مختلف طبّی مسائل سمیت بعض جِلدی عوارض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔مثلاًعام طور پر خواتین کوصابن، سوڈے، بلیچ، فنائل، سرف وغیرہ کے استعمال سے الرجی ہوجاتی ہے۔ چوں کہ اچھی صفائی ستھرائی کے لیے ان اشیاء کا استعمال ضروری ہےاور استعمال عموماً ہاتھوں ہی سے ہوتا ہے، تو زیادہ تر خواتین کے ہاتھ جلد متاثر ہوجاتے ہیں۔ بعدازاں پائوں بھی لپیٹ میں آجاتے ہیں، مگر چوں کہ ہاتھ کی جِلد نازک ہوتی ہے، تو الرجی کی ابتدا بھی یہیں سے ہوتی ہے۔ شروع میں خارش کے ساتھ جِلد خشک ہونے لگتی ہے، پھر ناخنوں کے کناروں کی کھال ادھڑنے لگتی ہے۔ ساتھ ہی ہتھیلی میں باریک باریک پانی سے بَھرے دانے نمودار ہوجاتے ہیں، جن میں بے انتہا خارش ہوتی ہے اور یہ دانے کھجانے سے پھٹ جائیں، تو پانی بھی رِستا ہے۔ اگر پیاز، لہسن، ادرک، ٹماٹر اور سبزی وغیرہ کاٹے جائیں، تو شدید خارش کی شکایت ہوجاتی ہے۔ بعض خواتین چُھری سے کھرچ کر جِلد تک ادھیڑ دیتی ہیں، یوں جراثیم آسانی سے اندر داخل ہونے کے نتیجے میں زخم بن جاتے ہیں۔یہ مسئلہ ان مائوں کے لیے توسوہانِ روح ہوتا ہے، جودوچار بچّوں کو پال رہی ہوتی ہیںکہ جب بچّوں کے کپڑے دھوتی ہیں، تو کاسٹک سوڈالگنے سے خارش مزید بڑھ جاتی ہے۔ بعض اوقات خواتین کے دونوں ہاتھ پک جاتے ہیں اور وہ کچھ بھی کرنے سے معذور ہوجاتی ہیں۔یاد رکھیے، اگر آپ کے ہاتھوں کی جلد خشک ہوکر آئے دِن پھٹنے لگے، تو خاص احتیاط برتیں۔ جیسے پانی، صابن، سرف کے بے دریغ استعمال سے بچا جائے۔ جب بھی ہاتھ دھوئیں،یہ اطمینان کرلیں کہ اچھی طرح دُھل گئے ہیں،کیوں کہ بعض اوقات انگوٹھی کے نیچے صابن رہ جاتا ہے۔سو اگر انگوٹھی پہنی ہو، تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ اُتار کرہاتھ دھوئیں، بصورتِ دیگر اسے انگلی کے گرد گھمالیں، تاکہ اس کے نیچے صابن نہ رہے، پھر ہاتھ خشک کرکے تیل یا ویزلین لگالیں، تاکہ جِلد نرم رہے۔ اگر سبزیوں اور پھلوں کو چُھونے یا کاٹنے سے خارش/کھجلی ہو، تو ان کاموں کے لیے دوسروں سے مدد لیں، لیکن اگر کوئی مددگار نہ ہو، تو دستانے پہن کر کٹنگ بورڈ پر کاٹیں، البتہ کام ختم کرتے ہی دستانوں سمیت ہاتھ دھو کر تولیے سے خشک کرلیں اور پھر دستانے بھی اُتار کر ہاتھوں کو ہوا لگائیں۔ دستانے بھی زیادہ دیر تک نہ پہنیں، ورنہ پسینہ آنے سے خارش بڑھ سکتی ہے۔ اگر ہاتھوں کو بار بار بلاوجہ دھونے کی عادت پڑ گئی ہے، تو اس سے نجات کے لیے سفید سوتی دستانے استعمال کریں، تاکہ ہاتھوں کو بار بار بھگونے میں قباحت محسوس نہ ہو۔ واضح رہے کہ ہاتھوں کو ضرورت سے زیادہ پانی لگانے سےقدرتی چکنائی کم ہو کر بھی جِلد پھٹ جاتی ہے، جو آگے چل کر الرجی کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرز، نرسز اور ڈینٹیسٹس کے ہاتھوں کی جِلد میں بھی الرجی کی شکایت ہوسکتی ہے کہ انہیں بار بار ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔

گرمی دانے ہر عُمر کے افراد کو متاثر کرتے ہیں، لیکن یہ خواتین میں زیادہ تکلیف کا باعث بنتے ہیں، کیوں کہ ان کا بیش تر وقت باورچی خانے میں آگ کے سامنےکھانا پکاتے اور دیگر کاموں میں گزرتا ہے۔اکثر گھروں میں ہوا کی آمدورفت کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، لہٰذا جسم پسینے میں شرابور رہتا ہے۔ یوںپسینے میں شامل نمکیات جِلد پر جمع ہو کر جلن یا خارش کا سبب بن جاتے ہیں۔ بعدازاں بغل، ران، پیشانی، پیٹ، پیٹھ اور بازوئوں پر باریک باریک دانے بن جاتے ہیں، جنہیں زیادہ کھجالیں، تویہ پھوڑوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔اس کے علاوہ ذیابطیس کے مریضوں میں بھی اگر دانے، پھوڑےزخم بن جائیں،تو جلدی ٹھیک نہیں ہوتے۔ گرمی دانوں کا دوسرا اہم سبب خواتین کا لباس ہے کہ ماضی کی نسبت اب پیراہن فیشن کےمطابق زیبِ تن کیے جاتے ہیں اور حفظانِ صحت کے اصول کو نظرانداز کرکے سوتی کپڑوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔خواتین کی اکثریت مصنوعی ریشوںسے تیارملبوسات خریدتی ہیں، جنہیں زیبِ تن کرکے نہ صرف گھر سے باہر شدید دھوپ اور گرمی میں جاتی ہیں، بلکہ باورچی خانے میں بھی کام کرتی ہیں۔حالاں کہ انہیں شدید گرمی لگ رہی ہوتی ہے، مگر مصنوعی ریشوں سے تیار پیراہن پہننا ترک نہیں کرتیں۔ گرمیوں میں سوتی، ہلکے اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں، تاکہ پسینہ جذب ہو اور جِلد کو تازہ ہوا لگ سکے۔ نیز،روزانہ نہائیں ضرور،اگر گرمی دانوں کی شکایت ہے، تو ان پر ٹالکم پائوڈر لگائیں۔ کمرے ہوادار ہوں اور باورچی خانے میں ایگزاسٹ فین ضرورلگوائیں۔اگر بارش ہوجائے، تو اس کے پانی سے ضرور نہائیں کہ یہ عمل مختلف جلدی امراض سے جلد شفا کا باعث بنتا ہےاور کسی بھی مرض کو معمولی نہ جانیں ،بعض اوقات معمولی سی تکلیف کوئی بڑا جِلدی مرض لاحق ہونے کی وجہ بن جاتی ہے۔قدرتی طور پر ہمارے ناخنوں کے گرد ایک سفید باریک سی حفاظتی لکیر پائی جاتی ہے،اگر یہ متاثر ہوجائے تو جراثیم حملہ آور ہوکر ناخنوں کی ساخت متاثر کردیتے ہیں۔یہ مرض خواتین، باورچیوں، ہوٹلز میں برتن دھونے اور لانڈری میں کام کرنے والوں میں عام ہے کہ ان کے ہاتھ پانی میں زیادہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں،ذیابطیس میں مبتلا مریض بھی اس مرض سے متاثر ہوجاتے ہیں، بلکہ بعض اوقات ذیابطیس کی تشخیص ہی ناخن دیکھ کر کی جاتی ہے۔ اصل میں جب ہاتھوں کے پانی میں تر رہنے سے انگلی کے سِرے پر ناخن کی جڑ اور جِلد پر موجود باریک سی لائن، جسے قدرت نے جراثیم کو ناخن کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے بنایا ہے، بھیگ کر نرم پڑجائے، تو یہ ناخنوں سے علیحٰدہ ہوجاتی ہے، نتیجتاً جراثیم ناخن کی جڑ پر باآسانی حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ بعض کیسز میں فنگس بھی اس مرض میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے اور ناخن کے گرد جِلد متوّرم، سُرخ اورپکی ہوئی دکھائی دینے لگتی ہے۔ پھر درد، جلن کے علاوہ پیپ بھی رِستی ہے اور ناخن کی ساخت متاثر ہوجاتی ہے۔ ایسے ناخنوں پر لائنیں اور کھردرا پن باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے خاتونِ خانہ کو چاہیے کہ ہاتھوں کو پانی سے حتی الامکان بچائے۔ جونہی کپڑے یا برتن دھوئے، فوراً چھوٹے تولیے سےہاتھ خشک کرکے ویزلین یا تیل لگالے۔ اسی طرح دیگچی کے پیندے میں اگر مسالا چپک جائے، تو اسے دھونے کے لیے ناخنوں سے ہرگز نہ کُھرچے، ورنہ ناخن کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یاد رکھیں، اگر ناخن یا جِلد کی ساخت میں فرق محسوس ہو تو نظرانداز کرنے کی بجائے علاج پر فوری توجّہ دیں، تاکہ جِلد صحت مند ہوسکے اور ناخن دوبارہ اپنی اصل حالت میں آجائیں۔ اسی طرح ذیابطیس کا مرض لاحق ہو، تو اس کا مناسب علاج کروائیں کہ اگر مرض پر قابو نہ رہے، تو آئے دِن انگلیاں پکتی رہتی ہیں۔ ایک اور مرض جِلد کا اُدھڑنا بھی ہے، جو زیادہ تر خواتین، فربہ افراد، بچّوں اور ذیابطیس سے متاثرہ مریضوں میں پایا جاتاہے۔اس کی وجہ پسینے کی زیادتی اور جِلد کا آپس میں رگڑ کھا کر کٹ جانا ہے۔ جراثیم کی وجہ سے جِلد سے رگڑ کھانے والی جگہیں پک جاتی ہیں،جن سے ناگوار بُو بھی آتی ہے۔ خاص طور پر ذیابطیس کے مریضوں میں جِلد، اُن جگہوں پر رگڑ کھاکر کٹ جاتی ہے، جہاں پسینہ رکتا ہے۔ متاثرہ جگہ کی جِلد سُرخ ہوجاتی ہے، جلن محسوس ہوتی ہے اور درد بھی ہوتا ہے۔ذیابطیس میں مبتلا افراد کو کسی بھی وقت اس مرض کی شکایت ہوسکتی ہے۔اس صورت میں کٹی ہوئی جلِد پر بے تحاشا پائوڈر یا مرہم کا لیپ لگا کر اسے ڈھکنے کی کوشش نہ کریں، ورنہ مزید خرابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ذیابطیس کے مریض اپنے مرض پر کنٹرول رکھیں، تاکہ ناخنوں کی تکالیف سے محفوظ رہ سکیں۔ فربہ افراد وزن کم کرنے کی کوشش کریں،جس کے لیے ماہرِ اغذیہ سے رابطہ کیا جائے۔نیز، باقاعدگی سے ورزش بھی کی جائے، تاکہ جسم سڈول رہے۔

(مضمون نگار،معروف ماہرِامراضِ جِلد ہیں اور انکل سریا اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہی ہیں)

تازہ ترین