• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پاکستان کی جنوبی افریقا کے خلاف کامیابی سے ایونٹ میں واپسی

کرکٹ شائقین بڑے تجسس یا تفریح طبع کے لئے بار بار سوال کرتے ہیں کہ 1992 ورلڈ کپ کی نشانیا ں ختم ہوئی ہیں یا نہیں تو اہم بات یہ ہے کہ 5 میچز کے بعد چھٹے میچ میں جنوبی افریقا کے خلاف فتح کے بعد کامیابی کی راہ پکڑنے کی آخری نشانی بھی پوری ہوچکی ہے،آگے اپنی لازمی درکار فتوحات ہیں اور یا پھر اگر مگر کے چند میچز۔اتوار کو لارڈز کے تاریخی گرائونڈ میں سرفراز الیون گزشتہ میچز سے کچھ مختلف دکھائی دی،اہم ٹاس جیت کرا سکور بورڈ پر 308 کا مجموعہ سیٹ کیا،یہ اسکور 20 سے 30 زائد ہوسکتے تھے،محمد حفیظ ایک مرتبہ پھر ناکام رہے البتہ شعیب ملک کی جگہ لینے والے حارث سہیل نے اب تک کی نا انصافی کا بھر پور جواب دیا اور کلاس کے ساتھ تیکنیک سے بھر پور شاٹس کھیلیں اور سب کو گرویدہ بناڈالا، 59 گیندوںپر 89 رنزکی اننگ نے یہ میسج بھی دیا کہ انہیں شعیب ملک کی جگہ کب کا ٹیم میں ہونا چاہئے تھا اور یہ بھی کہ اس میچ میں انہیں حفیظ سے پہلے بیٹنگ کے لئے بھیجنا چاہئے تھا، شاہین آفریدی کی سلیکشن کے بعد بولنگ اٹیک مکمل طور پر لیفٹ سائیڈ کا ہوگیا،محمد حسنین زیادہ بہتر بن سکتے تھے، پاکستان نے اس میچ میں کامیابی سے ایونٹ میں خود کو برقرار رکھا ہے، اگلے میچوں میں اسے پھر بھی مشکل حریفوں کا سامنا ہے، جبکہ آگے بڑھنے کے لئے دوسری ٹیموں کے نتائج پر بھی انحصار کرنا ہوگا،ہفتہ کو افغانستان نے فیورٹ و ناقابل شکست بھارت کو ٹف ٹائم دیا لو سکورنگ شو میں ٹیم کامیابی کے قریب آکر بھی تاریخی فتح سے محروم رہی،محمد شامی نے اس ایونٹ کی پہلی،ورلڈ کپ کی 10 ویں ہیٹ ٹرک کی، دوسرے میچ میں کارلس بریتھویٹ کی جارحانہ اور یادگار سنچری ہمیشہ کے لئے امر ہوتے ہوتے رہ گئی جب کالی آندھی نیوزی لینڈ کے خلاف محض 5 رنزسے ہارگئی۔یہ دونوں میچز نہایت دلچسپ اور سنسنی خیز رہے اس سے ایک روز قبل میزبان انگلینڈ کی سری لنکا کے ہاتھوں شکست نے ایونٹ کا بڑا اپ سیٹ دکھایا،گویا ورلڈ کپ کا روایتی حسن جوبن پر ہے،تیزی اور سنسنی خیزی عروج پر ہے اور غیر یقینی آخری اوور تک قائم ہے،شائقین دھڑکتے دلوں کے ساتھ میچ دیکھنے یا آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہیں۔

ٹیم کو ہارنا بھی ہوتا ہے،بھارت سے شکست کے بعد جس طرح کپتان سرفراز احمد سمیت دیگر کھلاڑیوں کو شائقین کے غصے و نفرت کا سامنا کرناپڑا وہ افسوسناک ہے،ایسی حرکتوں سے پاکستان اور پاکستانیوں کی ہی بدنامی ہوئی ہے ، پاکستان بھارت کے بعد دنیائے کرکٹ میں انگلینڈ اور آسٹریلیا میں خوب جوڑ پڑتا ہے۔ دونوں ممالک کی عوام میں بھی وہی جذبے اور احساسات ہوتے ہیں جو پاک بھارت مقابلے کا خاصا ہیں۔ موجودہ ورلڈ کپ میں منگل 25 جون کو لارڈز کے تاریخی گرائونڈ میں ایک بڑا اور جاندار میچ ہو گا۔ دونوں ٹیموں کا یہ ساتواں مقابلہ ہو گا اس وقت تک میزبان ٹیم دو ناکامیوں کا شکار ہو چکی ہے، سیمی فائنل کی سیٹ کے لئے اسے خطرہ ہے ۔ دوسری جانب دفاعی چیمپئن آسٹریلیا اگرچہ 10پوائنٹس حاصل کرچکا ہے مگر اسکے اس سمیت باقی میچز سخت ہیں،دوڑ میں سری لنکا،افغانستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان (جنوبی افریقا سے فتح کی صورت میں ) پیچھے آرہے ہیں تو آسٹریلیا کے لئے یہ اہم اور انگلینڈ کے لئے اہم ترین معرکہ ہوگا۔ تاریخی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو اب تک مجموعی 147 ون ڈے میچوں میں کینگروز کا غلبہ ہے اس نے 81 میچ جیتے ہیں جبکہ انگلش ٹیم 61 میچ اپنے نام کر سکی ہے۔ دونوں روایتی حریف 11 ورلڈ کپ کھیل چکے ہیں، تاہم 7 بار آمنے سامنے آئے۔ اس میں بھی آسٹریلیا کو بھرپور برتری حاصل ہے۔ 5 فتوحات اس کے کھاتے میں ہیں جبکہ انگلش ٹیم صرف 2 ورلڈ کپ میچ جیت سکی ہے۔ انگلینڈ نے 1979 میں لارڈز اور 1992 میں سڈنی میں کامیابی حاصل کی۔گذشتہ ورلڈ کپ میں آخری مرتبہ دونوں میلبورن میں مدمقابل ہوئے، آسٹریلیا 111 رنز سے فاتح رہا۔ ورلڈ کپ کے آخری 3میچ 2003 و 2007 اور 2015 میں انگلینڈ مسلسل ہارا ہے۔ آسٹریلیا کی انگلش سرزمین پر ورلڈ کپ کی تاریخ میں واحد کامیابی لیڈز میں 1975 کی ہے۔ اس طرح ورلڈ کپ کی تاریخ میں موجودہ میچ کے حوالہ سے میزبان ٹیم کو یہ ایڈوانٹیج ضرور حاصل ہو گا کہ وہ یہاں لارڈز میں ناقابل شکست ہے اور 1979 میں آسٹریلیا کو ورلڈ کپ کا میچ ہرا چکا ہے۔ لارڈز میں آسٹریلیا نے 14 میچوں میں سے 8 جیتے ہیں جبکہ میزبان انگلینڈ صرف 5 اپنے نام کر سکاہے۔نتائج دلچسپ ہیں، مقابلہ سخت ہونے کا امکان ہے۔کل 26 جون بدھ کو ایج باسٹن کرکٹ گرائونڈ برمنگھم میں قومی ٹیم ایک اور بقا کی جنگ لڑے گی ،جارحیت اور صلاحیت سے مالا مال کیوی ٹیم کے لئے بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اب تک ورلڈ کپ نہ جیت سکے۔ یہی کیویز 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کا سامنا کرنے سے قبل تک ناقابل شکست تھے اور پھر ہارے تھے ،اب بھی اس میچ سے قبل وہ ناقابل شکست ہیں ، برمنگھم کے ایج باسٹن کرکٹ گراؤنڈ میں یہ ایک خوبصورت شو ہو گا، دونوں ممالک میں اب تک جو 106 ون ڈے میچ ہوئے ہیں ان میں گرین شرٹس کو غلبہ حاصل ہے اس نے 54 جیتے اور 48 ہارے ہیں گویا پاکستان کی کامیابی کا تناسب 53 فیصد کے قریب ہے۔ ورلڈ کپ کی تاریخ میں یہ دونوں ٹیمیں 8 مرتبہ آمنے سامنے آ چکی ہیں۔ پاکستان کو 6 کامیابیوں کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے لیکن کیویز کے لئے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس نے اب تک کھیلے گئے 8 میچوں میں سے یا تو تاریخ کا پہلا میچ جیتا ہے اور یا اب تک کا آخری میچ اس کے نام رہا ہے۔ درمیان میں 1983 سے 1999 تک پاکستان مسلسل 6 میچ جیتا۔ جس میں 2 سیمی فائنل بھی شامل ہیں۔ انگلش سرزمین پر کھیلے گئے 4 میچوں میں پاکستان کو 3-1 سے سبقت حاصل ہے مگر اس کے باوجود اس میں ایک تاریک پہلو موجود ہے اور وہ یہ کہ واحد شکست اسے اسی میدان میں ہوئی جہاں موجودہ ایونٹ کا میچ ہو گا۔ دونوں ممالک آخری مرتبہ ورلڈکپ2011 میں پالی کیلے میں 8مارچ کو آمنے سامنے ہوئے جس میں نیوزی لینڈ 110 رنز سے کامیاب رہا انگلش سرزمین پر دونوں ممالک کے درمیان مجموعی طور پر 4 ون ڈے میچ ہوئے۔ پاکستان 3-1 سے آگے ہے۔برمنگھم میں یہی واحد میچ تھا جس میں نیوزی لینڈ اتفاق سے ورلڈ کپ میں کامیاب رہا۔ گذشتہ چار سال کی باہمی کارکردگی پاکستان کے لئے تشویشناک ہے ۔ دونوں ممالک گذشتہ اور موجودہ ورلڈ کپ کے درمیان11 مرتبہ آمنے سامنے آئے۔ گرین شرٹس کو 8 میں شکست ہوئی صرف ایک کامیابی حاصل کی۔ 2 میچ بے نتیجہ رہے۔ اس اعتبار سے بلیک کیپس کو حالیہ عرصہ کے اعتبار سے بڑی برتری حاصل ہو گی۔پاکستانی ٹیم مسلسل فتوحات کے ساتھ،کیویز کی اگلی تمام شکستیں(انگلینڈ ،آسٹریلیا اور بھارت کے آگے نکلنے کی صورت میں )گرین کیپس اور بلیک کیپس کے پوائنٹس ایک جیسے کردیں گی اور پاکستان رائونڈ میچ جیتنے کی بنیاد پر کوالیفائی کرجائے گا مگر یہ آسان نہیں ،سری لنکا اور بنگلہ دیش کے میچز نظر میں رکھنے پڑیں گے، دوسری صورت میں انگلینڈ کی مسلسل ناکامیاں یا آسٹریلیا کے خلاف میچ کی کامیابی اور باقی میچز میں ناکامی اور اسی طرح کینگروز کی بھی تمام ناکامیاں پاکستان اور نیوزی لینڈ کو آگے کردیں گی مگر اس صورت میں بھی سری لنکا و بنگلہ دیش کو کڑی نگاہوں میں رکھنا ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین