• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اور اب سوڈان....
خرطوم میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہونے والے مظاہرے کا ایک منظر ، احتجاجی تحریک کے نتیجے میں سوڈانی صدر، عُمرالبشیرکو30سال بعد اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا 

سوڈان آج ایک مرتبہ پھر بدترین افراتفری سے دوچار ہے۔ افریقا کا یہ بدقسمت مُلک ایک مصیبت سے نکل نہیں پاتا کہ دوسری اسے گھیر لیتی ہے۔ رواں برس اپریل میں مُلک گیر احتجاجی تحریک شروع ہونے کے بعد سوڈانی صدر، عُمر البشیر کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ انہوں نے 30برس تک ایک مطلق العنان حُکم ران کی طرح مُلک پر حکومت کی، جو افریقا اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں کوئی اَن ہونی بات نہیں۔ تاہم، عُمر البشیر کی اس مطلق العنانیت کا نتیجہ ان کے خلاف مُلک گیر تحریک کی صُورت نکلا ۔ان کی اقتدار سے دست برداری پر جَشن منائے گئے۔ نیز، اس موقعے پر سوڈانی فوج نے بھی، جو ان کے اقتدار کو دوام دینے کا اہم ذریعہ تھی، ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ عُمر البشیر کے اقتدار چھوڑنے کے بعد اکثر سوڈانی باشندوں کا خیال تھا کہ اب مُلک میں سیاسی عمل بحال ہو جائے گا اور ایک سِول جمہوری حکومت اقتدار میں آئے گی، لیکن دیگر اسلامی ممالک کی طرح سوڈان میں جاری احتجاجی تحریک بھی مشکلات سے دوچار ہو گئی اور اب وہاں فوج، سیاسی جماعتوں اور دوسرے طاقت وَر گروپس کے درمیان جاری اقتدار کی کشمکش خوں ریز تصادم کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔ اس وقت سوڈانی فوج میں دو دھڑے بن چُکے ہیں، جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں اور مفاہمت کی ہر کوشش دَم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر ناقدین سوڈان کے شام بننے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا، تو یہ پہلے سے لہو لہان اسلامی دُنیا کے لیے کسی سانحے سے کم نہ ہو گا۔

سوڈان، شمال مشرقی افریقا میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں 7ممالک مصر، لیبیا، ایریٹیریا، سینٹرل افریقن ری پبلک، چاڈ، ایتھوپیا اور جنوبی سوڈان سے ملتی ہیں۔ یہ بحرِ احمر کے ساحل پر ہے۔ 4کروڑ نفوس پر مشتمل یہ اسلامی مُلک افریقا اور مشرقِ وسطیٰ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور عُمر البشیر کے طویل دَورِ صدارت میں اس کا تاثر ایک طاقت وَر مُلک کے طور پر قائم ہوا، جس کا ایک سبب تیل کے وسائل بھی تھے۔ تاہم، حقیقتاً ایسا نہیں تھا، کیوں کہ انہی کے دَور میں ایک طویل خانہ جنگی کے بعد سوڈان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا۔ سوڈان کا دارالحکومت، خرطوم دریائے نیل کے کنارے واقع ہے۔ اس مُلک کی قومی زبان سوڈانی عربی ہے، جب کہ عربی اور انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ سوڈان میں اسلام 14ویں صدی میں آیا اور اگلی پانچ صدیوں میں یہ مسلم اکثریتی علاقے میں تبدیل ہو گیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے دَور میں مصر کے گورنر نے اسے اپنی سلطنت کا صوبہ بنا لیا اور اس کے بعد یہ مصر کا باقاعدہ حصّہ بن گیا۔ سوڈان میں مہدی محمد احمد بھی حُکم راں رہے، جنہیں برطانیہ نے شکست دی اور اس کے بعد یہ مُلک سلطنتِ برطانیہ کا باج گزار بن گیا۔ 20ویں صدی میں سوڈان میں قوم پرستی کی تحریک اُٹھی، جس کے نتیجے میں 1956ء میں برطانیہ کو اسے آزادی دینا پڑی۔ صدر غفار نمیری اس تحریک کے رُوحِ رواں تھے، جو غیر وابستہ تحریک کے سرکردہ رہنمائوں میں شامل تھے۔ اسی زمانے میں ایفرو ایشیا اتحاد کے نعرے زوروں پر تھے، لیکن سوڈان اپنے اندرونی حالات کی وجہ سے اس سلسلے میں زیادہ عرصے تک کردار ادا نہ کر سکا۔ بعد ازاں، سوڈان کے جنوبی حصّے، دارفور نے، جس میں عیسائی آبادی کی اکثریت تھی، مرکز سے بغاوت کر دی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ صدر عُمر البشیر کی حکومت اپنی فوجی طاقت کے باوجود اس خُوں ریز علیحدگی پسند تحریک کو نہ روک سکی اور بالآخر 2011ء میں سوڈان دو لخت ہو گیا اور جنوبی سوڈان کے نام سے ایک نیا مُلک وجود میں آیا۔

سوڈان میں خانہ جنگی کا بنیادی سبب سابق صدر، عُمر البشیر کا یہ اعلان بنا کہ وہ آیندہ انتخابات میں حصّہ نہیں لیں گے اور انتخابات میں فتح حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کو اقتدار سونپ دیں گے، لیکن استحکام کے نام پر وہ اپنے اس اعلان پر عمل درآمد کے لیے آمادہ نہ تھے، جب کہ دوسری جانب مُلک دو لخت ہونے کے بعد سوڈانی عوام اُن سے بے زار ہو چُکے تھے اور ایک نئی حکومت کے متمنّی تھے۔ نتیجتاً، عُمر البشیر کو مُلک گیر احتجاجی تحریک کے سبب نہ صرف اقتدار چھوڑنا پڑا، بلکہ وہ قید بھی کر لیے گئے۔ مذکورہ احتجاجی تحریک کے دوران اور اس کے بعد مخالف طاقتوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں سیکڑوں شہری جاں بحق ہوئے۔ واضح رہے کہ کرنل عُمر البشیر نے 1989ء میں سِول حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد انہوں نے جتنے بھی انتخابات کروائے، اُن میں وہ واحد صدارتی امیدوار ہوتے اور اُن کے اقتدار چھوڑنے تک یہی صورتِ حال برقرار ہی۔

غیر مُلکی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے والے اسلامی ممالک کا المیہ یہ ہے کہ ان کے رہنما اور فوج اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ عوامی طاقت کے بَل پر آزادی کی جنگ لڑتے ہیں، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد مُلک و قوم کو اپنی جاگیر سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ اپنے مُلک کے عوام کو اتنا دباتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتیں کھو بیٹھتے ہیں ، غلامانہ زندگی کے عادی بن جاتے ہیں، جب کہ طاقت وَر ہونے کی وجہ سے انہیں کوئی اقتدار سے ہٹا نہیں پاتا۔ عُمر البشیر بھی ایسے ہی رہنمائوں میں شامل تھے۔ یاد رہے کہ مشرقِ وسطیٰ سے نکلنے کے بعد اُسامہ بن لادن انہی کی دعوت پر سوڈان میں اُس وقت تک مقیم رہا کہ جب تک وہ افغانستان جانے پر مجبور نہ ہوا۔ اسی طرح سوڈان کو دُنیا بھر کی جانب سے انتہا پسندی کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے یہ بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں رہا اور اس کی معیشت تباہ ہو گئی۔ واضح رہے کہ سوڈان کے جنوبی حصّے میں تیل کے زیادہ ذخائر تھے ، جس کی علیحدگی کے بعد یہ تیل کی دولت کے ایک بڑے حصّے سے بھی محروم ہو گیا اور 2015ء میں تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بھی فائدہ نہ اُٹھا سکا۔ عُمر البشیر کے دَورِ حکومت میں مُلک کی اقتصادی پالیسی بدترین تھی۔ مخالفین پر طاقت کا غیر معمولی استعمال کیا جاتا، انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا۔ اُن کے دَور میں عوام کے بنیادی حقوق تک سلب کر لیے گئے اور جب بدترین طرزِ حُکم رانی نے عوام کی قیادت میں ایک احتجاجی تحریک کو جنم دیا ،تو بالآخر عُمر البشیر کو بہت بے آبرو ہو کر اقتدار سے نکلنا پڑا۔ تاہم، وہ جاتے جاتے بھی سوڈان کو بدترین معاشی بُحران اور خانہ جنگی کے دہانے پر چھوڑ گئے۔

اور اب سوڈان....
دورانِ اسیری وفات پانے والے سابق مصری صدر، ڈاکٹر محمد مُرسی

سوڈان میں رواں برس کے آغاز میں شروع ہونے والی عوامی تحریک کو بہ ظاہر اپوزیشن کی تحریک قرار دیا گیا، لیکن اس کے اصل قائد عوام تھے ، جب کہ اس میں سوشل میڈیا نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ سوڈانی عوام نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے عوامی اجتماعات کی کالز دیں، جو بعد ازاں بڑے بڑے جلسوں میں تبدیل ہو تی گئیں ۔ مُلک میں ہر طرف ان کے مطالبات کی گونج سُنائی دینے لگی۔ فوج نے حتی الامکان عُمر البشیر کا ساتھ دینے کی کوشش کی، لیکن وہ بھی عوامی دبائو کے آگے نہ ٹھہر سکی۔ اس وقت مُلک کو ایک عبوری انتظام کے تحت چلایا جا رہا ہے اور یہ وہی طریقۂ کار ہے، جو عرب اسپرنگ کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں دیکھا گیا۔ گرچہ اس انقلاب کو ناکام قرار دیا گیا، لیکن اب یہ ہر علاقے اور مُلک میں رُوپ بدل بدل کر آ رہا ہے۔ یاد رہے کہ انقلابِ فرانس بھی پہلی کوشش میں کام یاب نہیں ہوا تھا، بلکہ چار کوششوں کے بعد اسے کام یابی ملی۔ اس وقت افریقا اور مشرقِ وسطیٰ میں عرب اسپرنگ کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اس کی دو خامیاں تا حال برقرار ہیں۔ اوّل، طویل عرصے تک برسرِ اقتدار رہنے والے حُکم رانوں کو ہٹا نے کے بعد متبادل قیادت سامنے نہیں آتی اور نہ ہی اقتدار کی پُر امن منتقلی کے لیے کوئی طریقۂ کار موجود ہوتا ہے۔ دوم، فوج اقتدار پر قابض ہوکر مُلک میں ایک بار پھر آمریّت نافذ کر دیتی ہے اور سوڈان بھی اس وقت اسی کشمکش سے گزر رہا ہے۔

اس وقت سوڈان میں عبوری ملٹری کائونسل کا راج ہے، جس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالفاتح البرہان ہیں۔ احتجاجی تحریک سرد پڑنے پر انہوں نے مُلک میں نئے انتخابات کے ذریعے سِول حکومت بحال کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ایسا اب تک نہیں ہو سکا، کیوں کہ فوج ہی کا ایک دھڑا ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے نام پر اپنی طاقت عوام پر آزما رہا ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک ایک سو سے زاید افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔ آر ایس پی پر بڑی بے دردی سے مظاہرین پر گولیاں برسانے کا الزام ہے۔ یہ درحقیقت ایک ملیشیا ہے اور اس کے سربراہ، محمد حمدان ڈاگلو ہیں، جنہیں موجودہ فوجی سربراہ کا نائب سمجھا جاتا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ آر ایس پی کی ظالمانہ کارروائیوں سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں فوجی سربراہ ہی اقتدار کے مالک ہوں گے۔ یعنی ایک بار پھر مُلک پر طاقت کا راج ہو گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ شام میں صدر، بشار الاسد نے طاقت کے بے محابا استعمال سے اپنے ہی شہریوں کو ہلاک کرنے کی جو روایت قائم کی، دیگر ممالک میں آمریّت پسند حُکم راں بھی اس کی تقلید کر رہے ہیں۔ ایران اور رُوس کی حمایت سے حاصل ہونے والی فتح سے یہ پیغام دیا گیا کہ طاقت ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، جب کہ اس کے برعکس اقوامِ عالم بالخصوص اسلامی ممالک کو لاکھوں ہلاکتوں کا کوئی احساس نہیں۔ عالمی طاقتیں انسانی حقوق کے دعوے تو بہت کرتی ہیں، لیکن درحقیقت یہ ان کے مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ سوڈان کی موجودہ صُورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے ناقدین کا کہنا ہے کہ اب وہاں منتقلیٔ اقتدارکا مرحلہ ایک پیچیدہ شکل اختیار کر چُکا ہے، جس کی وجہ سے عوام مایوس ہیں، کیوں کہ اُن کی جمہوریت اور سِول حکومت کی امیدیں دَم توڑ رہی ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ سوڈان کے مختلف شہروں میں جاری خوں ریز جھڑپوں نے پورے مُلک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔ اگر فوج، آر ایس ایف اور عوام کے درمیان تصادم ہو گیا، تو غیر ریاستی عناصر اس میں شامل ہو کر اسے مزید سنگین بنا سکتے ہیں۔

اور اب سوڈان....
سوڈان کے موجودہ سربراہِ ریاست لیفٹیننٹ جنرل، عبدالفتاح البرہان

دوسری جانب شام کی طرح سوڈان میں بھی بیرونی طاقتوں نے اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے اور اس وقت مصر، سعودی عرب اور متّحدہ عرب امارات فوجی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ طاقت وَر طبقہ ہی مُلک کو استحکام کی جانب لے جا سکتا ہے اور عوام کو ملیشیاز سے نجات دلا کر نئے انتخابات کروانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ گرچہ سوڈانی عوام بھی فوج کی جانب امید بھری نظروں دیکھ رہے ہیں، لیکن وہ کسی بھی صُورت سیاست میں اس کا کردار برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے منتقلیٔ اقتدار کے ایک فارمولے پر اتفاق کرنا پڑے گا، تاکہ تمام عناصر مطمئن ہو سکیں اور اس کے بعد ہی نئے انتخابات کی جانب پیش رفت کی جائے۔ سعودی عرب اور متّحدہ عرب امارات جنوبی حصّے کی علیحدگی کے باعث تیل کی آمدنی میں ہونے والی شدید کمی کے بعد سے سوڈان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے مالی امداد فراہم کر رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک ہی کسی مثبت اقدام کے لیے موجودہ عبوری حکومت پر دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں بھی ہیں۔ اس وقت سوڈان ایک آتش فشاں کے دہانے پر ہے ۔ ایک معمولی سی غلطی بھی اسے آگ میں جھونک سکتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی طاقتوں کو علاقائی ممالک اور مقامی قیادت کے ساتھ مل کر سوڈان کو تباہی سے بچانے کی ذمّے داری ادا کرنی چاہیے۔

اسی عرصے میں آبادی کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کے سب سے بڑے مُلک، مصر سے مُلکی تاریخ کے پہلے منتخب صدر، محمد مُرسی کے انتقال کی خبر سامنے آئی۔ وہ موجودہ مصری صدر، جنرل عبدالفتّاح السّیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جیل میں قید تنہائی میں تھے اوران کی موت انتہائی الم ناک حالات میں ہوئی۔ مُرسی اپنے اوپر عاید کیے گئے الزامات کی پیروی کے لیے عدالت میں موجود تھے کہ اُنہیں دل کا دورہ پڑا اور اُن کی رُوح پرواز کرگئی۔ سابق مصری صدر، محمد مُرسی کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا۔ ان کی حکومت صرف ایک سال قائم رہی ۔ عوامی مظاہروں کے بعد مصری فوج نے اس کا تختہ اُلٹا۔ قبل ازیں، عرب اسپرنگ کے نتیجے میں اُس وقت کے مصری صدر، حسنی مبارک کو اپنے44سالہ دَورِ اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا اور اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں اخوان المسلمون کی کام یابی کے باعث مُرسی صدر منتخب ہوئے تھے۔ عرب اسپرنگ کے دوران مصر کے التّحریر اسکوائر پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی یادیں آج بھی تازہ ہیں، جن میں مصری عوام نے پہلی بار ایک جمہوری حکومت کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ محمد مُرسی پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے اور انہوں نے امریکا سے انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ وہ ایک معتدل مزاج حُکم ران تھے، لیکن ان کی حکومت کو متعدد مشکلات کا سامنا تھا، جن میں مصری فوج کی مداخلت اور سابق صدر، حسنی مبارک کے حامیوں کی مزاحمت شامل تھی۔ محمد مُرسی سے غلطی یہ ہوئی کہ صدر بننے کے بعد وہ اپنے سیاسی مخالفین سے مفاہمت کی بجائے فوری طور پر اخوان المسلمون کی پالیسیاں نافذ کرنے میں مصروف ہو گئے، جس کی وجہ سے مُلک مزید تقسیم ہو گیا اور اپوزیشن کی مخالفت میں شدّت آگئی۔ نتیجتاً، التّحریر اسکوائر پر اُن کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے اور اُن کی حکومت کی پہلی سال گرہ، برسی بھی بن گئی۔ جنرل عبدالفتّاح السّیسی نے مُرسی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھالنے کے بعد مُرسی کو قید کر دیا اور سابق صدر پر اتنے مقدّمات قائم کیے کہ انہیں بُھگتتے بُھگتتے ہی اُن کی موت واقع ہوئی۔ اس وقت مصر میں اخوان المسلمون پر پابندی عاید ہے اور اس کے سرکردہ رہنما جیلوں میں قید ہیں۔ سابق مصری صدر، محمد مُرسی کی دورانِ اسیری موت نے اُن کی حکومت کی ناکامی اور عرب دُنیا میں جمہوریت ،نیز عرب اسپرنگ کی کام یابی پر بھی ایک مرتبہ پھر سوالیہ نشان لگادیا ۔

تازہ ترین