• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزری صدیوں میں داستانیں سُننے، سُنانے کا رواج عام تھا، لیکن وہ زمانہ خُوب ہونے کے باوجود خواب ہوا اور قصّہ گوئی کی جگہ افسانے نے لے لی۔ زمانے کی تیز رفتاری یا کج رَوی کو اس پر بھی سکون نہ ملا، تو مختصر افسانے کی جانب رُخ کیا گیا۔ تاہم، چین پھر بھی حاصل نہ ہو سکا اور مصروفیت کے اس دَور میں داستان سے شروع ہونے والا سفر افسانے اور مختصر افسانے کی راہوں سے ہوتا ہوا ’’سو لفظوں کی کہانی‘‘ تک آن پہنچا۔ ان تمام میں جو قدرِ مشترک ہے، وہ کہانی ہے۔ سو، کہانی سُننا ، سُنانا بڑے لُطف کی چیز ہے۔ ہمارے بزرگ عموماً رات سوتے وقت ہمیں قصّے، کہانیاں سُناتے تھے۔ گویا کہانی کا مقصد جاگے ہوؤں کو سُلانا ہوتا تھا۔ پھر ایک شخص آیا اور اُس نے پوری’’ کہانی‘‘ ہی بدل ڈالی اور کہانی بھی یوں بدلی کہ جو پہلے ’’سُلانے‘‘ کا کام کیا کرتی تھی، پھر وہی کہانی’’ جگانے‘‘ لگی۔ اوراپنے افسانوں سے خوابیدہ لوگوں کو جگانے والے اس شخص کا نام مُنشی پریم چند تھا۔ ممتاز ادیب، افسانہ نگار، ناول نگار اور نقّاد، عزیز احمد نے اپنی کتاب،’’ترقّی پسند ادب‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’’پریمؔ چند نے سرشارؔ اور شررؔ کی ماضی پرستی کو بالائے طاق رکھ کے سیدھی سادی، مگر پُر اثر زبان میں گرد و پیش کی زندگی کا مطالعہ شروع کیا۔ اُن کے نقطۂ نظر میں قوم پرستی وہ جذبۂ اصلاح ہے، جو قوم پرستی کی پیداوار ہے۔ یہ جذبۂ اصلاح کبھی کبھی پریمؔ چند کی حقیقت نگاری میں مخل بھی ہو جاتا ہے، مگر اپنے افسانوں ، ناولوں میں اُنہوں نے پہلی بار قصّے کو سیاسی اور قومی اصلاح کے لیے آلۂ کار بنایا ۔ اگر پریم ؔچند نے اُردو افسانہ نگاری کو اتنی ترقّی نہ دی ہوتی، تو ترقّی پسند افسانے کا یہ کام یاب دَور تصوّر میں نہیں آ سکتا تھا۔ ‘‘

31جولائی 1880ء کو ضلع وارانسی، بنارس کے لمہی نامی گائوں میں کایستھوں کے ایک گھرانے میں، جس کے سربراہ عجائب لال اور آنندی دیوی تھے، ایک بچّہ پیدا ہوا۔ اس خاندان میں لڑکے کی پیدایش سے پیش تر تین لڑکیاں پیدا ہوئی تھیں۔ تاہم، پہلی اور آخری لڑکی حیات نہ رہ سکی۔ پیدا ہونے والا بچّہ، دھن پت رائے کے نام سے پرورش پانے لگا۔ دھن پت رائے سے سب ہی پیار کیا کرتے تھے ، جب کہ اُس کے تایا، مہاویر لال اُسے پیار سے ’’نواب‘‘ کہا کرتے تھے۔ دادا، گرسہائے لال پٹواری تھے اور خاصے خوش حال بھی۔ وہ اچّھی خاصی اراضی کے مالک تھے۔ اُن کے چار بیٹے، کولیشور لال، مہاویر لال، عجائب لال اور ادت نرائن لال تھے۔ گرسہائے لال نے وراثت کی تقسیم میں برابری کی بہ جائے من مانی کا روّیہ اپناتے ہوئے اپنی تین چوتھائی سے زاید جائیداد مہاویر لال کے نام کر دی اور باقی جائیداد مہاویر کے بیٹے، بلدیو لال کے سُپرد کر دی، جب کہ دیگر بیٹے منہ تکتے رہ گئے۔ وراثت کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے پیچھے یہ سوچ کار فرما تھی کہ جائیداد اُس بیٹے کو منتقل کی جانی چاہیے کہ جو جسمانی طور پر سب سے مضبوط ہو اور یوں قرعۂ فال مہاویر لال کے نام نکلا۔

دھن پت رائے کے والد، عجائب لال یوں تو ڈاک خانے میں کلرک تھے، لیکن کھیتی باڑی بھی زندگی کا لازمی جُزو تھی۔ گاؤں میں اَن پڑھ کُرمی (پورب کے ہندو زمین داروں کی ایک ذات سے تعلق رکھنے والے باشندے) بھی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ عجائب لال، کُرمیوں کی طرف سے اُن کے عزیزوں کو خط تحریر کرتے اور پھر اُن کے جوابی خطوط کُرمیوں کوپڑھ کر سُناتے۔ نیز، منی آرڈر کے سلسلے میں درکار لکھت پڑھت بھی خوشی خوشی کر دیا کرتے۔ آدمی شریف تھے اور گاؤں والوں کے خیر خواہ بھی، سو اُن میں معتبر قرار پائے اور لوگ اُن کی خدمات کے عوض انہیں دودھ، سبزی، گندم اور چاول وغیرہ بہ خوشی پیش کیا کرتے۔ یوں عجائب لال دوسرے کسانوں کی نسبت کچھ بہتر پیسے کما لیتے ۔ 1885ء میں جب دھن پت رائے پانچ برس کے ہوئے، تو اُس زمانے کے رواج کے مطابق ایک مولوی صاحب کی نگرانی میں اُردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اُنہیں پڑوس کے ایک گاؤں بھیج دیا گیا، کیوں کہ لمہی میں اس قسم کی تعلیم عام نہیں تھی۔ والدین کی محبت اور استاد کی شفقت سے دھن پت رائے نے تعلیم پر توجّہ دینا شروع کردی۔ تاہم، تعلیم کے آغاز کے محض تین برس بعد ہی 1888ء میں اُن کی والدہ انتقال کر گئیں۔ دھن پت رائے کو ماں کی موت کا شدید صدمہ پہنچا۔ تاہم، تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہونے پایا اور دادی کی بھرپور توجّہ نے کسی حد تک ماں کی کمی پوری کر دی۔ دوسری جانب بیوی کی موت کے بعد گھریلو اُمور میں پیدا ہونے والی رُکاوٹوں کے باعث1892 ء میں عجائب لال نے دوسری شادی کر لی۔

اب گھر میں سوتیلی ماں کی حُکم رانی تھی۔ دھن پت رائے اُنہیں ’’چاچی‘‘ کہتے تھے۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ دادی بھی چل بسیں۔ دادی کا انتقال کیا ہونا تھا کہ سوتیلی ماں نے قدم قدم پر دھن پت رائے کے لیے مسائل پیدا کرنا شروع کر دیے۔ کم سِن بچّہ، سوتیلی ماں کے سلوک سے بالکل ٹوٹ گیا ۔ تنہائی میں اپنی ماں کو یاد کر کر کے رویا کرتا۔ اگلے ہی برس عجائب لال کا تبادلہ گورکھ پُور کر دیا گیا۔ یہ تبادلہ دھن پت رائے کے مستقبل کے لیے کچھ یوں بہتر ثابت ہوا کہ1893ء میں انہیں گورکھ پور مِشن اسکول میں چھٹی جماعت میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں کی فضا اور دوستوں کی صحبت میں دھن پت رائے میں پتنگ بازی کا شوق پیدا ہوا۔ تاہم، خریدنے کے پیسے نہ ہونے کے باعث وہ دوستوں کو رنگ برنگی پتنگیں اُڑاتے دیکھ کر لطف اندوز ہونے ہی پر اکتفا کرتے۔ اسکول میں داخلے سے انہیں دو فائدے ہوئے۔ ایک تو سوتیلی ماں سے بچنے کے لیے کئی گھنٹے میسّر آ گئے ، دوسرا چند اچّھے اساتذہ کی تربیت اور دوستوں کی صحبت مل گئی۔ محض ایک برس کے اندر ہی دھن پت رائے نے کئی کُتب پڑھ ڈالیں۔ داستانیں، ناولز، افسانے غرض جو کچھ ملتا گیا، دھن پت رائے کی ذہنی غذا میں تبدیل ہوتا رہا۔ لکھنے کی تحریک تو پیدا ہوتی، تاہم کچھ سمجھ میں نہ آتا اور دھن پت رائے انٹ شنٹ لکھ لکھ کر ورق پھاڑتے رہتے۔

دھن پت رائے کے عہدِ طفولیت اور لڑکپن میں ہندوستان پُر آشوب دَور سے گزر رہا تھا اور کسان گھرانے کا فرد ہونے کے باعث بھی انہیں محنت کَش افراد خصوصاً کسانوں کی مشکلات و مصائب کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ اُن کے شعور نے ذات پات اور درجہ بندی میں گِھرے سماج کی بد صُورتی کو پورے طور پر محسوس کیا ۔ 1895ء میں انہوں نے وارانسی میں واقع، کوئنز کالج میں نویں درجے میں داخلہ حاصل کر لیا۔ اب لکھنے کی تحریک شدّت اختیار کر چُکی تھی اور تحریر میں ٹھہراؤ بھی آ چُکا تھا۔ اسی اثناء میں دھن پت رائے کو سوتیلی ماں کے ساتھ دو سوتیلے بھائیوں کا ساتھ بھی میسّر آ گیا۔ اُسی زمانے میں دھن پت رائے کے دُور پرے کے ایک ماموں اُن کے ہاں قیام کرنے لگے۔ ادھیڑ عُمر کو پہنچنے کے بعد بھی اُن کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ جس گاؤں میں اُن کا گھر تھا، وہاں ایک گھریلو ملازمہ سے دست درازی کر بیٹھے تھے۔ نتیجتاً، چماروں کی ایک جماعت سے خُوب مار کھائی اور وہاں سے بے عزّت ہو کر نکالے جانے کے بعد دھن پت رائے کے ہاں رہنے لگے۔ اُسی دَور میں دھن پت رائے نے یہ پوری کہانی تحریر کی اور دوستوں کو سُنائی۔ سب کہانی سُن کر خُوب لوٹ پوٹ ہوئے۔ اب دھن پت رائے کو کہانی کہنے کا گُر آ گیا تھا۔

پھرآٹھویں درجے میں کام یابی نے دھن پت رائے کا حوصلہ بہت بڑھا دیا تھا ۔ وہ جی جان سے نویں درجے کے امتحان کی تیاریوں میں منہمک ہو گئے۔ 1896ء میں کہ جب عُمر کا سولہواں برس تھا، دھن پت رائے کی مرضی معلوم کیے بغیر اُن کی شادی کر دی گئی۔ تاہم، محنت رنگ لائی اور دھن پت رائے نے نویں جماعت میں بھی کام یابی حاصل کر لی اور اب دسویں درجے کی منزل آگئی۔ جہاں تک شادی کا معاملہ تھا، تو وہ بھی باپ نے نہیں، بلکہ سوتیلے نانا نے کروائی تھی۔ ابھی شادی کے جھمیلوں سے پوری طرح فرصت ہی نہیں پائی تھی کہ اگلے ہی برس یعنی 1897ء میں والد، عجائب لال نے بھی دُنیا سے منہ موڑ لیا۔ یہ خانگی ذمّے داریوں میں اُلجھے اور تعلیم کی راہوں پر بڑھتے دھن پت رائے کے لیے سخت دھچکا تھا۔ باپ کی موت نے مالی طور پر شدید نقصان یوں پہنچایا کہ کمانے والا ایک مضبوط ہاتھ نہ رہا اور اب دھن پت رائے کو نہ صرف اپنا اور اپنی بیوی کا، بلکہ سوتیلی ماں اور دو سوتیلے بھائیوں، گلاب اور مہتاب کی کفالت کا بوجھ بھی برداشت کرنا تھا۔ اس کا اوّلین نقصان تو یہ ہوا کہ میٹرک کے امتحان کے لیے درکار امتحانی رقم یا فیس جمع نہیں کروائی جا سکی۔ سوتیلی ماں کا کہنا تھا کہ گھر کی کفالت تعلیم سے زیادہ ضروری ہے۔ سو، دھن پت رائے نے سوتیلی ماں کے حُکم کے سامنے سرِ تسلیم خَم کر دیا۔ تعلیم کا ایک سال تو ضائع ہو گیا، تاہم اگلے ہی برس کسی نہ کسی طرح پیسے پس انداز کر کے میٹرک کا امتحان دیا اور یوں 1898ء میں سیکنڈ ڈویژن میں کام یابی حاصل کی۔ اس کام یابی نے دھن پت رائے کے حوصلوں کو مزید تقویّت دی۔ گرچہ پیسوں کی اب تک محتاجی تھی اور گھر پر غُربت نے ڈیرے بھی ڈال رکھے تھے، لیکن اس کے باوجود ایف اے کرنے کا ارادہ کیا۔

اُس زمانے میں ایف اے میں ریاضی ایک لازمی مضمون تھا۔ دھن پت رائے کے سامنے اب دو مجبوریاں تھیں۔ ایک یہ کہ ریاضی انہیں پسند نہیں تھی اور دوسری یہ کہ ایف اے میں داخلے کے لیے درکار رقم بھی موجود نہیں تھی۔ کوشش کی کہ کسی سے کہہ سُن کر کالج میں داخلہ مل جائے، مگر ایسا نہ ہوا اور دھن پت رائے کی آگے پڑھنے کی تمنّا پوری نہ ہو سکی۔ تعلیم کا سلسلہ تو رُک گیا، مگر آگے بڑھنے کی تمنّا ختم نہ ہو سکی۔ سب سے بڑی دُشواری تو گھر کی کفالت تھی۔ بہ ہزار دِقّت عارضی طور پر مسئلہ یوں حل ہوا کہ ایک صاحبِ ثروت وکیل کو اپنے بچّوں کی پڑھائی کے لیے اچھا اُستاد درکار تھا۔ دھن پت رائے کو یہ موقع میسّر آ گیا اور پانچ روپے ماہانہ کی بنیاد پر ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ وکیل نے سَر چُھپانے کے لیے چھت بھی دے دی۔پھر دھن پت رائے نے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ روپے میں سے اپنے خرچ کے دو روپے رکھ کر باقی تین روپے گھر بھیجیں گے۔ بازار سے چند ایک برتن بھی خرید لیے اور رُوکھی سوکھی کھا کر گزارہ ہونے لگا۔

اس دوران پڑھنے کی دُھن شدید تر ، مطالعے کی رفتار تیز ہو چلی تھی۔ نیز، تحریر بھی خاطر خواہ حد تک نکھر گئی۔ شاید یہیں سے آیندہ زندگی کے لیے بہتری کی راہیں بھی کُھلنے والی تھیں۔ اگلے ہی برس یعنی1899ء میں مرزا پور میں واقع، قصبہ چنار کے مِشن اسکول میں اسسٹنٹ ماسٹر کے طور پر ملازمت مل گئی۔ تن خواہ اٹھارہ روپے ماہ وار مقرّر ہوئی، تو کچھ معاشی آسودگی میسّر آئی۔ اُن ہی دنوں ایک عجیب واقعہ یہ پیش آیا کہ مِشن اسکول کے طلبا کا گوروں کی ٹیم سے فُٹ بال میچ ہوا۔ گورے میچ ہار گئے۔ اسکول کے طلبا خوشی میں نعرے بازی کرنے لگے اور چند ایک نعرے فرنگی قبضے کے خلاف بھی لگائے گئے۔ بس پھر کیا تھا، گورے طیش میں آ گئے اور اسکول کے ایک طالبِ علم کو جوتوں سے مارنا شروع کر دیا۔ خاموش طبع دھن پت رائے یہ سب برداشت نہ کر پائے اور میدان میں پہنچ کر گورے کو ایک لکڑی سےجا پیٹا۔ اُس وقت انہیں اپنے طالبِ علم کا بدلہ لینے کی خوشی تو بہت ہوئی، مگر اس جسارت کے عوض انہیں اسکول کی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ خوش قسمتی سے محض ایک برس کے اندر ہی1900ء میں پہلے گورنمنٹ اسکول، بہرائچ اور پھر ڈسڑکٹ اسکول، پرتاپ گڑھ میں بالتّرتیب اسسٹنٹ ٹیچر اور فرسٹ ایڈیشنل ماسٹر کے طور پر تعیّناتی عمل میں آئی۔ اب تن خواہ بِیس روپے ماہ وار تھی۔ خیال آیا کہ اگر تدریس ہی کو اپنانا ہے، تو ٹیچر ٹریننگ کی سند کا ہونا ضروری ہے۔ سو، ٹیچرز ٹریننگ کالج، الہ آباد میں دو برس کے کورس میں داخلہ لے لیا۔

پرتاپ گڑھ میں دھن پت رائے کو اپنے ہی ایک ہم مزاج، بابو رادھا کرشن کی رفاقت میسّر آئی اور اس طرح لکھنے کی تحریک نے مزید زور پکڑ لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹریننگ کے دو برس گزر گئے۔1903ء میں بنارس سے شایع ہونے والے ہفتہ وار اخبار، ’’آوازۂ خلق‘‘ میں دھن پت رائے کا پہلا قسط وار مضمون، ’’آلیور کرام ویل‘‘ شایع ہوا اور پھر مذکورہ اخبار ہی میں انہوں نے ’’اسرارِ معابد‘‘ کے عنوان سے اپنا پہلا قسط وار ناول تحریر کرنا شروع کیا۔ یہ ناول دو برس تک شایع ہوتا رہا۔ ناول کے مصنّف کا نام مُنشی دھن پت رائے صاحب عرف نواب رائے الہ آبادی تحریر تھا ۔ نواب رائے کا نام دھن پت رائے کے تایا کا دیا ہوا تھا۔ 1904ء میں دھن پت رائے نے جونیئر انگلش ٹیچرز کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ یہی وہ سال بھی تھا کہ جب دھن پت رائے نے حسرت ؔ موہانی کے مشہور رسالے، ’’اُردوئے معلّیٰ‘‘ کے لیے ایک تحریر، ’’ہاتھی دانت‘‘ بھیجی۔ یہ کوئی افسانہ یا ناول نہیں تھا، بلکہ ہاتھی دانت کے بارے میں معلومات تھیں۔ 1905ء تک دھن پت رائے اسکول میں فرسٹ ایڈیشنل ماسٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ مُنشی دیا نرائن نگم ’’زمانہ‘‘ کے مدیر تھے اور دھن پت رائے کے دوست بھی۔ اُن کے پرچے میں دھن پت رائے کے کئی مضامین شایع ہوئے، جو سماجی، تاریخی اور سوانحی نوعیت پر مبنی تھے۔ 1905ء میں دھن پت رائے کا الہ آباد ٹریننگ کالج کے ذیلی اسکول میں بہ طور ہیڈماسٹر تقرّر ہوا۔ اس ملازمت پر کام کرتے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ انہیں ڈسٹرکٹ اسکول، کان پور بھیج دیا گیا، جہاں انہوں نے 1909ء تک فرائض انجام دیے۔ 1906ء میں ’’ہم خُرما و ہم ثواب‘‘ کے عنوان سے دھن پت رائے کا ناول شایع ہوا۔1907ء میں اُن کی دوسری شادی انجام پائی اور اسی سال ’’روٹھی رانی‘‘ کے عنوان سے ایک ناول شایع ہوا۔ تاہم، یہ طبع زاد کی بہ جائے ماخوذ تھا۔ 1908ء ادبی لحاظ سے دھن پت رائے کے لیے اہم ترین تھا۔ اس سال ’’زمانہ پریس‘‘ سے ’’سوزِ وطن‘‘ کے عنوان سے اُن کی پانچ کہانیوں پر مبنی مجموعہ شایع ہوا۔ کہانیوں کے نام، ’’دُنیا کا سب سے اَن مول رتن‘‘، ’’شیخ مخمور‘‘، ’’یہی میرا وطن ہے‘‘، ’’صلۂ ماتم‘‘ اور ’’عشقِ دُنیا اور حبّ وطن‘‘ تھے۔ یہ کہانیاں لوگوں میں وطن سے محبت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے تحریر کی گئی تھیں۔ گویا ہم وطنوں سے کہا جا رہا تھا کہ اب سونے کا نہیں، بلکہ جاگنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ان کہانیوں کا دیباچہ دھن پت رائے ہی کا تحریر کردہ تھا۔ ’’نواب رائے‘‘ کے نام سے تحریر کیے گئے مختصر دیباچے کا ایک ایک لفظ ایک سچّے اور اپنے عہد کی سیاسی و سماجی ضرورتوں کو محسوس کرنے والے ادیب کے دِل سوز احساسات کی تصویر تھا۔ یہ دیباچہ کچھ یوں ہے کہ ’’ہر ایک قوم کا علم و ادب اپنے زمانے کی سچّی تصویر ہوتا ہے۔ جو خیالات قوم کے دماغوں کو متحرک کرتے اور جو جذبات قوم کے دلوں میں گونجتے ہیں، وہ نظم و نثر کے صفحوں میں ایسی صفائی سے نظر آتے ہیں، جیسے آئینے میں صورت۔ ہمارے لٹریچر کا ابتدائی دَور وہ تھا کہ لوگ غفلت کے نشے میں متوالے ہو رہے تھے۔ اس زمانے کی ادبی یادگار بجز عاشقانہ غزلوں اور چند سِفلہ قصّوں کے اور کچھ نہیں۔ دوسرا دَور اُسے سمجھنا چاہیے کہ جب قوم کے نئے اور پُرانے خیالات میں زندگی ، موت کی لڑائی شروع ہوئی اور اصلاحِ تمدّن کی تجاویزسوچی جانے لگیں۔ اس زمانے کے قصص و حکایات زیادہ تر اصلاح اور تجدید ہی کا پہلو لیے ہوئے ہیں۔ اب ہندوستان کے قومی خیال نے بلوغت کے زینے پر ایک قدم اور بڑھایا ہے اور حُبِ وطن کے جذبات لوگوں کے دلوں میں سَر اُبھارنے لگے ہیں۔ کیونکر ممکن تھا کہ اس کا اثر ادب پر مرتّب نہ ہوتا۔ یہ چند کہانیاں اس اثر کا آغاز ہیں اور یقین ہے کہ جوں جوں ہمارے خیال رفیع ہوتے جائیں گے، اس رنگ کے لٹریچر کو روز افزوں فروغ ملتا جائے گا۔ ہمارے مُلک کو ایسی کتابوں کی اشد ضرورت ہے، جو نئی نسل کے جگر پر حُبِ وطن کی عظمت کا نقشہ جمائیں۔‘‘

یہ کتاب ایک وسیع حلقے میں پسند کی گئی۔ اس بارے میں ممتاز ترقّی پسند نقّاد، پروفیسر احتشام حسین کہتے ہیں کہ ’’پریم چند کا دائرۂ خیال ذاتی، سماجی، انفرادی، قومی اور خیالی کی بہ جائے حقیقی واقعات کا احاطہ کرتا اور زندگی کے اعلیٰ تقاضوں کو نصب العین بنا کر افسانے کی حدیں متعین کرتا ہے۔ اُن کا پہلا افسانہ، ’’دُنیا کا سب سے اَن مول رتن‘‘ داستانی فضا، شاعرانہ زبان، رومانی اندازِ نظر اور آزادی کے اعلیٰ انسانی نصب العین کے امتزاج سے وجود میں آیا تھا، لیکن اس میں بھی مقصد کی وہ آگ تھی کہ جس نے برطانوی استعمار کے سکون اور عیش کو جلا دیا تھا۔‘‘ دھن پت رائے اُس زمانے میں محکمۂ تعلیم میں سب ڈپٹی انسپکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ کتاب کی اشاعت کو چھے، آٹھ ماہ سے بھی زیادہ بیت چُکے تھے کہ ایک رات دھن پت رائے کو کلکٹر کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ ’’ملاقات کو پہنچو۔‘‘ دھن پت رائے کو کچھ شُبہ ہوا کہ طلبی کسی خوش خبری کی نہیں، بلکہ بدشگونی کی علامت ہے۔ بہرحال، طویل سفر طے کر کے اگلے دن کلکٹر کی خدمت میں حاضری دی، تو اُس کی میز پر ’’سوزِ وطن‘‘ موجود تھی۔ کلکٹر نے کتاب کی اشاعت کا مقصد دریافت کیا اور جاننے کے بعد کہا کہ ’’تمہاری باتوں سے بغاوت کی بُو محسوس ہوتی ہے۔ تم نے انگریز سرکار کی توہین کی ہے۔ اگر یہی توہین تم مغلوں کے عہد میں کرتے، تو تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جاتے۔ کتاب کے سارے نُسخے حاضر کرو اور آیندہ کوئی کتاب ہماری اجازت کے بغیر شایع نہ کرنا۔‘‘ سرکار نے یہ پابندی بھی عاید کر دی کہ آیندہ ’’نواب رائے‘‘ کے نام سے کچھ تحریر نہیں کیا جا سکتا۔

جنگ نیوز
پریم چند اپنی اہلیہ،شیورانی دیوی کے ساتھ

بعد ازاں، مُنشی دیا نرائن نگم نے ’’پریم چند‘‘ کا قلمی نام تجویز کیا۔ اس نام کے ساتھ جو پہلی کہانی سامنے آئی، وہ بھی ’’زمانہ‘‘ میں دسمبر 1910ء کے شمارے میں ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ کے نام سے شایع ہوئی۔ اسی سال چند اور بھی کہانیاں شایع ہوئیں، تاہم اُن میں مختلف نام استعمال کیے گئے ۔1911ء میں پریم چند کی ملازمت عارضی سے مستقل ہو گئی اور اسی مناسبت سے تن خواہ بھی بڑھا کر ساٹھ روپے ماہ وار کر دی گئی۔ اُسی زمانے میں الہ آباد سے شایع ہونے والے پرچے، ’’ادیب‘‘ میں اُن کی کئی تخلیقات سامنے آئیں۔ تاہم، مضمون نگار کے نام کے ساتھ ’’د،ر‘‘ لکھا جاتا۔ پرچے کے مُدیر، پیارے لال شاکرؔ نے پریم چند سے استفسار کیا کہ ’’آپ ’’پریم چند‘‘ کے نام کے ساتھ کیوں نہیں لکھتے اور یہ ’’د،ر‘‘ کا کیا مطلب ہے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’پریم چند کچھ وقت کے لیے صرف ’’زمانہ‘‘ میں استعمال ہو سکتا ہے اور ’’د،ر‘‘سے مراد ’’دھن پت رائے‘‘ ہے۔‘‘1912 ء میں پریم چند کی کئی نگارشات کے ساتھ ناول،’’جلوۂ ایثار‘‘ بھی سامنے آیا۔ نیز،1913ء میں بھی اُن کے کئی افسانے اہلِ ادب تک پہنچے۔ مشہور افسانہ، ’’نمک کا داروغہ‘‘ بھی مذکورہ سال ہی کی تحریر تھی۔ ’’پریم پچیسی‘‘(حصّہ اوّل) 1915ء میں شایع ہونے والا کہانیوں کا سلسلہ تھا۔ اس پورے عہد کے قوم پرستانہ خیالات اور اصلاحی تحاریک، سماجی تبدیلیاں اور کروٹیں لیتی اقدار پریم چند کے افسانوں اور کہانیوں میں بھی نظر آئیں۔

اگلے چند برس ہندوستان اور عالمی منظر نامے پر دُور رس اثرات مرتّب کرنے والے تھے۔1917ء کے بالشویک انقلاب نے دُنیا بَھر کے مزدوروں ، کسانوں میں اُمید وں، آرزوئوں کی شمع روشن کر دی۔ ہندوستانی شاعر اور ادیب بھی اُس فضا سے پوری طرح متاثر تھے۔ 1918ء میں پہلی عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ تاہم، عالمی اقتصادی کساد بازاری کا اثر ہندوستان پر بھی مرتّب ہوا۔ اشیائے صَرف کی قیمتیں قابو سے باہر ہونے لگیں۔ عوام کی آواز کُچلنے کے لیے رولٹ ایکٹ نافذ کیا گیا۔ 1919ء میں ’’جلیانوالہ باغ‘‘ کا سانحہ پیش آیا، جس نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ تاہم، انتہائی پُر لُطف بات یہ ہے کہ اُسی دَور کے آس پاس اُردو میں رومانی افسانے لکھے جا رہے تھے۔ سجّاد حیدر یلدرمؔ اور نیازؔ فتح پوری ایسے ہی افسانوں کی نمایندگی کرتے نظر آتے۔ خلیل الرحمٰن اعظمی نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے، ’’ترقّی پسند ادبی تحریک‘‘میں صاف الفاظ میں تحریر کیا ہے کہ ’’بعد میں پریم چند کے ہاتھوں اُردو افسانہ نگاری میں ایک نئی حقیقت نگاری فروغ پانے لگی اور پہلی بار اُردو کہانیوں میں صدیوں کے کُچلے ہوئے عوام کا دُکھ درد سمویا جانے لگا۔‘‘ گویا یہ پریم چند تھے کہ جنہوں نے وقت کی پکار اور آواز پر لبّیک کہا اور اپنے افسانوں میں زمینی، سماجی اور عصری حقائق پیش کیے۔ اُن کی کہانیوں میں سسکتا، بِلکتا اور بُھوکا ہندوستان قدم قدم پر نظر آتا ہے۔ کہانیوں میں سماج ہے، تو اُس سے جُڑے کردار بھی۔ عورت ہے، تو اُس کے مختلف رُوپ بھی۔ مَرد ہے، تو اُس کی غالب آنے کی خواہش بھی۔ غرض مختلف کردار اپنی مختلف نفسیات کے ساتھ موجود ہیں۔ اُن کے کردار کسی خیالی سماج کی تخلیق نہیں کرتے، بلکہ ایک طبقاتی سماج کی تصویر کشی کر کے لوگوں تک یہ بات پہنچاتے ہیں کہ جس سماج میں غریبوں کی آواز نہ سنی جائے، وہ تہذیب یافتہ کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ کسان، دہقان، مزدور، افلاس سے لڑتے محنت کَش، ساہو کار کے جال میں گرفتار، غریب اور بھولے بھالے مظلوم عوام پریم چند کا محبوب موضوع قرار پائے۔ انسانیت نوازی غالباً پریم چند کی زندگی کا سب سے طاقت وَر محرّک تھی۔ شاید اسی بنیاد پر نام وَر نقّاد، پروفیسر آل احمد سُرور نے ’’نئے اور پُرانے چراغ‘‘ کے دیباچے میں یہ تحریر کیا کہ ’’اپنے شعر و ادب میں مُجھے غالبؔ کی عظمتِ فکر، اقبالؔ کی ہمہ گیری اور حالیؔ اور پریمؔ چند کی انسان دوستی نے بڑا متاثر کیا۔‘‘ پریم چند نے ناول بھی لکھے اور افسانے بھی۔ تخلیقات کی تعداد بھی کم نہیں رہی۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں تک پریم چند نے بہت کچھ لکھا۔ ان میں ’’چوگانِ ہستی‘‘، ’’گئودان‘‘، ’’میدانِ عمل‘‘، ’’بیوہ‘‘، ’’پردۂ مجاز‘‘، ’’بازارِ حُسن‘‘ ’’نرملا‘‘ اور ’’گوشۂ عافیت‘‘سمیت دیگر بہت سے افسانے شامل ہیں۔ اُن کا آخری افسانہ، ’’کفن‘‘1935 ء میں شایع ہوا۔ تین کرداروں گھیسو، مادھو اور بدھیا کے، جو بالتّرتیب باپ، بیٹا اور بہو ہیں، گرد گھومنے والی یہ کہانی بدھیا کے یہاں ہونے والی ممکنہ ولادت سے شروع ہوتی ہے۔ باپ، بیٹا اوّل درجے کے کام چور اور حریص۔ بدھیا کی چیخ پکار سے بے نیاز باپ، بیٹا اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے بعد خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگتے ہیں۔ بدھیا زندگی کی بازی ہار دیتی ہے۔ صبح بیدار ہو کر باپ، بیٹا رونے دھونے کی اداکاری کرتے ہیں، تو پڑوسیوں کو خبر ہوتی ہے۔ گھیسو اور مادھو زمین دار کے پاس فریاد لے کر پہنچتے ہیں کہ کفن کے پیسے نہیں۔ زمین دار دو روپے دیتا ہے۔ باپ، بیٹا چندہ کر کے مزید تین روپے حاصل کرتے ہیں اور یوں کفن کے لیے پانچ روپے جمع ہو جاتے ہیں۔ دونوں کفن خریدنے بازار جاتے ہیں، تاہم شراب خانے پہنچ کر ساری رقم عیّاشی میں اُڑا دینے کے بعد بد مست ہو جاتے ہیں۔ اس لازوال افسانے کے بارے میں اُس عہد کے ممتاز ترین نقّاد، ڈاکٹر شمس الرحمٰن فاروقی کا کہنا ہے کہ’’مَیں کفن کو بے تکلّف دُنیا کے افسانوں کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔‘‘

پریم چند نے ہندی زبان میں بھی لکھا۔ 8اکتوبر 1936ء کو کہانی لکھنے والا یہ بے مثل تخلیق کار، جسے وقار عظیم نے ’’اردو افسانہ نگاری کا بادشاہ‘‘ قرار دیا، دُنیا سے کُوچ کر گیا۔ پریم چند نے کہانی کو اس طور سے اپنایا کہ کہانی اور پریم چند’’ لازم و ملزوم‘‘ ہو کر رہ گئے۔ عجائب لال نے اپنے بیٹے، پریم چند کا نام ’’دھن پت رائے‘‘ یہ سوچ کر رکھا تھا کہ بچّہ آگے چل کر’’دھن‘‘ یعنی دولت کمائے گا۔ دھن پت رائے نے دھن کما کر اپنے خزانے میں تو زیادہ اضافہ نہیں کیا، تاہم تن من دھن سے کہانیاں لکھ لکھ کر ادب کے خزانے میں ضرور معتد بہ اضافہ کر دیا۔ 1919ء میں جب اُن کا ایک مضمون، ’’دورِ قدیم و جدید‘‘ رسالہ ’’زمانہ ‘‘ میں شایع ہوا، تو اکبر ؔ الہ آبادی نے اُس کی تحسین کرتے ہوئے یہ قطعہ تحریر کیاکہ؎ لکّھا ہے خُوب دورِ قدیم و جدید پر…کیوں کر کرے نہ دیدۂ حق بیں اسے پسند…مَیں تو کہوں گا آج ’’زمانہ‘‘ کو دیکھ کر…بس مستحق ہیں مدح کے منشی پریمؔ چند۔

تازہ ترین