• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست کی ہنگامہ خیزی اور قیاس آرائیاں
بجٹ سیشن کے دوران ارکانِ اسمبلی احتجاج کرتے ہوئے

عدالتی فیصلوں کی روشنی اور احکامات کی تعمیل میں زیرِ حراست، سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف اور سابق صدر، آصف علی زرداری، جو مُلک کی دو بڑی جماعتوں بالتّرتیب پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ رہ چُکے ہیں، اور اُن کے رفقاء کے بارے میں متضاد خبریں اور مختلف قیاس آرائیاں زیرِ گردش اور سرگوشیوں میں زیرِ بحث ہیں۔ تاہم، وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں جاری سرگرمیوں کے پیشِ نظر ان خبروں اور قیاس آرائیوں کو یک سَر مسترد نہیں کیا جا سکتا اور اسی تناظر میں انہیں زیرِ بحث بھی لایا جا سکتا ہے۔ نیز، اس حوالے سے کچھ واقعاتی شواہد بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جیل میں قید، میاں نواز شریف کے طرزِ عمل میں دھیما پن، علاج کے حوالے سے پہلے احتجاج اور پھر خاموشی، گرفتاری کے موقعے پر آصف علی زرداری کی انتہائی پُرسکون انداز میں سیکوریٹی افسران سے گفتگو اور سابق صدر کی ہم شیرہ، فریال تالپور کو جیل بھیجنے کی بہ جائے اسلام آباد میں واقع، زرداری ہائوس کو سب جیل قرار دینا۔ اسی طرح سابق وزیرِ اعظم کی صاحب زادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر، مریم نواز کا، جو ضمانت پر ہیں، حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ رویّہ اپنا نا اور پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، حمزہ شہباز شریف کا نیب کی تحویل میں مطلوبہ سہولتوں کے ساتھ آرام دہ دن گزار نا (جب کہ پروڈکشن آرڈر جاری کر کے اسمبلی کے اجلاسوں میں اُن کی شرکت بھی یقینی بنائی جا رہی ہے) قیاس آرائیوں کے مطابق یہ تمام واقعات پہلے سے طے شُدہ حکمتِ عملی کا حصّہ ہیں۔

یادش بخیر، انٹیلی جینس ایجنسیز نے بعض سیاست دانوں کے اثاثہ جات، جن میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سرِ فہرست ہیں، اُن کے دَورِ اقتدار میں ہونے والی مبیّنہ مالی بدعنوانیوں اور اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی شکایات کے ضمن میں تحقیقات شروع کی تھیں اور یہ عمل کئی برس تک انتہائی خاموشی اور راز داری سے جاری رہا۔ ہر چند کہ یہ تحقیقات اُسی انداز میں ہو ئیں، جس طرح بعض سیاست دانوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے نتیجے میں ہوتی ہیں، لیکن چُوں کہ ان تحقیقات کا ایک خاص پس منظر تھا، اس لیے ایجنسیز پوری طرح فعال رہیں، لہٰذا چناں چہ غیر روایتی انداز سے کی جانے والی تحقیقات میں بعض ناقابلِ یقین حد تک ہوش رُبا انکشافات سامنے آئے، جن کے ناقابلِ تردید شواہد بھی موجود تھے ۔پھر تحقیقات کے بعد جب سابق حُکم رانوں، بیورو کریٹس اور با اثر شخصیات کے فرنٹ مین گرفتار ہوئے، تو انہوں نے بھی وعدہ معاف گواہ بننے کی استدعا کر کے سب کچھ اُگل دیا۔ تحقیقاتی اداروں نے اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک سے حاصل ہونے والی تمام تفصیلات اور ان کی ہر پہلو سے تصدیق کے بعد ہی انہیں نیب کے حوالے کیا۔ اب یہ صورتِ حال ہے کہ ایسے تمام افراد چاروں جانب سے شکنجے میں پھنس چُکے ہیں اور ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ یہ لُوٹی ہوئی رقم واپس کر دیں یا پھر سزا بُھگتنے پر آمادہ ہو جائیں، جو شاید ان کے لیے ممکن نہیں۔

اسے مِن حیث القوم ہمارا رویّہ سمجھا جائے یا اجتماعی سطح پر حالات کی پس ماندگی کے تسلسل کا ردِ عمل کہ چند طبقات اور شعبہ جات کو چھوڑ کر پوری قوم ہی مُلکی و اجتماعی مفادات کے مقابلے میں ذاتی منفعت کو ترجیح دیتی ہے۔ اگر ہمیں پانی وافر مقدار میں دست یاب ہے، تو چاہے مُلک میں کوئی نیا ڈیم بنے یا نہ بنے یا سارے آبی ذخائر خُشک ہو جائیں، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اگر ہمارے گھر میں برقی رَو بحال ہے اور سارا شہر تاریکی میں ڈوباہوا ہے، تو ہمیں چنداں پریشانی نہیں۔ جس زمانے میں پاکستانی شہری لوڈ شیڈنگ کے مفہوم سے نا آشنا تھے، اُس وقت جب اچانک اپنے گھر کی بجلی چلی جاتی ، تو باہر نکل کر سب سے پہلے پڑوسی کے گھر جھانکا جاتا اور اگر اُس کے ہاں بجلی کا سلسلہ بحال ہوتا، تو پھر پریشانی ہوتی، وگرنہ یہ سوچ کر قدرے سکون مل جاتا کہ اگر ہمارے گھر بجلی نہیں آرہی توکیا ہوا، پڑوس میں بھی تو نہیں آرہی ہے۔ اگر ہمارے گھر کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پُختہ ہے اور باقی سارا شہر کھنڈر میں تبدیل ہو چُکا ہے، تو بھی ہمیں کوئی ملال نہیں۔ المختصر، محرومیوں نے ہمیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ہماری اجتماعی سوچ ہی مفقود ہو کر رہ گئی ہے۔ کسی مہذّب قوم کے نظم و ضبط اور شعور کی سطح کا اندازہ وہاں کے ٹریفک سسٹم سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے، جہاں شہری خود کو مشکل میں ڈال کر دوسروں کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں عالم یہ ہے کہ اگر ہمیں اس بات کا ایک سو فی صد بھی یقین ہو کہ اگر ہم رش میں کسی تنگ راستے یا غلط انداز سے گاڑی نکالنے میں کام یاب ہو بھی گئے، تو پہلے سے آنے والی ٹریفک گھنٹوں منجمد رہے گی، تو بھی ہم ضرور نکلنے کی کوشش کریں گے اور نکلنے کے بعد پیچھے مُڑ کر بھی نہیں دیکھیں گے۔

سیاست کی ہنگامہ خیزی اور قیاس آرائیاں
آل پارٹیز کانفرنس میں شریک حزب ِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کا گروپ فوٹو

بادی النّظر میں اسے ایک قومی المیہ کہا جائے گا، لیکن جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں عرض کیا گیا کہ اس کی وجوہ ہیں اور یہ انہی وجوہ کے باعث نے اپنی سوچ کو صرف اپنے مسائل و مشکلات کے حل تک ہی محدود کر لیا ہے اور ہمیں قومی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایّوب خان کے دَور میں چینی کی قیمت میں معمولی سا اضافہ ہوا، تو عوام نے سڑکوں پہ نکل کر اتنے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ کیا کہ حکومت کو بِلا تاخیر یہ اضافہ واپس لینا پڑا، لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں بہ تدریج اضافہ ہو رہا ہے، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، گوشت کھانا امارت کی نشانی اور پھلوں کی خریداری تعیّشات میں شمار ہونے لگی ہے اور متوسّط طبقے کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ رات کے خبرنامے میں ڈالر کی قدر میں اضافے کی خبر سُن کر گلی، محلّے کے دُکان دار صبح اشیائے صَرف کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔نیز، فی تولہ سونے کی قیمت 80ہزار روپے سےتجاوز کر چُکی ہے، تو اس کے اثرات کس طبقے پر پڑیں گے۔ جن افراد نے بدعنوان ، لُوٹ مار کرنے والے حُکم رانوں سے جان چُھڑوانے اور نئے حُکم رانوں کی خاطر جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر دُعائیں مانگی تھیں، وہ اب جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر اشک بار آنکھوں کے ساتھ کچھ اور دُعائیں مانگ رہے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کس مُلک سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، کون سی غیر مُلکی شخصیت پاکستان کے دورے پر آ رہی ہے، سینیٹ کا نیا چیئرمین کون بنے گا، ایوانوں میں کیا ہورہا ہے یا کس کے پروڈکشن آرڈر کیوں جاری کیے جا رہے ہیں اور کس کے کیوں نہیں۔

بہر کیف، گزشتہ ماہ منہگائی میں ہوش رُبا اضافے کے ساتھ میدانِ سیاست میں بھی خاصی ہنگامہ خیزی دیکھی گئی۔ جُون میں گرما گرم بجٹ سیشن کے علاوہ حزبِ اختلاف میںشامل جماعتوںنے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیےکُل جماعتی کانفرنس بھی منعقد کی۔ اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (فے) کی سربراہی میں ہونے والی اس آل پارٹیز کانفرنس میں مختلف فیصلوں کے علاوہ یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کی تحقیق اور حقائق سامنے لانے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ نیز، اے پی سی نے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ارکانِ قومی اسمبلی، محسن داوڑ اور علی وزیرکے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا، جب کہ خیبر پختون خوا میں ضم کیے گیے سابقہ قبائلی علاقہ جات میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے دوران فوج کو پولنگ اسٹیشنز کے اندر تعیّنات کرنے کی مخالفت کی گئی ۔ اے پی سی میں شریک اپوزیشن کے تمام ارکان نے الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات سے متعلق تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کو جان بوجھ کر غیر فعال بنانے پر کمیٹی میں شامل اپوزیشن ارکان کے فی الفور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ علاوہ ازیں، آل پارٹیز کانفرنس میں 25جولائی 2019ء کو دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف یومِ سیاہ منانے کا متّفقہ فیصلہ بھی کیا گیا۔ نیز، یہ بھی طے پایا کہ حزبِ اختلاف میں شامل تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج جاری رکھیں گی اور عوام کو جعلی مینڈیٹ کی حامل، دھاندلی زدہ اور نا اہل حکومت کی جانب سے پیدا کردہ اذیّت ناک منہگائی اور معاشی مشکلات کے کرب سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی اور اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں تمام سیاسی جماعتیں عوامی رابطہ مُہم شروع کریں گی۔ اے پی سی میں ججز کے خلاف سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ریفرنسز کو عدلیہ پر حملہ قرار دیتے ہوئے ان ریفرنسز کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ کُل جماعتی کانفرنس میں سیاسی جماعتوں نے عدلیہ میں اصلاحات، ججز کے تقرّر کے طریقۂ کار پر نظرِ ثانی اور از خود نوٹس استعمال کرنے کے اختیارات سے متعلق قانون سازی کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے لاپتا افراد کی بازیابی اور پُر تشدّد طریقوں کے استعمال کے خلاف قانون سازی اور سیکوریٹی اداروں کی تحویل میں موجود افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں میڈیا پر عاید اعلانیہ و غیر اعلانیہ پابندیوں اور سنسر شپ کی مذمّت کی گئی اور ان پابندیوں کو فوری طور پر ہٹانے کا تقاضا کیا گیا۔ اے پی سی نے سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف سے ملاقات پر پابندی اور ان کے ذاتی معالج کو ان تک رسائی نہ دینے کی بھی مذمّت کی اور مطالبہ کیا کہ قانون کے مطابق میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور دیگر اسیران کو زندگی کے بنیادی، دستوری اور قانونی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے چیئرمین سینیٹ کو آئینی طریقے سے ہٹانے اور نئے چیئرمین سینیٹ کے لیے متّفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ یاد رہے کہ سب سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے منصب سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ چُوں کہ بادی النّظر میں عوامی نیشنل پارٹی کو اس فیصلے سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا، لہٰذا غالب امکان ہے کہ اے این پی نے یہ مطالبہ مولانا فضل الرحمٰن کی خواہش پر کیا ہو، کیوں کہ مولانا فضل الرحمٰن کی یہ تمنّا ہے کہ بلوچستان سے منتخب کیے جانے والے چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کو ہٹا کر یہ منصب اُسی صوبے سے تعلق رکھنے والی کسی اور شخصیت کو دینا چاہیے، جس کے لیے اُن کے پاس اپنی جماعت کے مرکزی سیکریٹری جنرل اور معتمدِ خاص، مولانا عبدالغفور حیدری کا نام موجود ہے، لیکن اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ مولانا اے پی سی میں شرکت کرنے والی تمام جماعتوں کو اس بات پر قائل کر لیں کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے نئے امیدوار کا نام تجویز کرنا اُن کا استحقاق ہو گا اور وہ اس عُہدے کے لیے اپنے برادرِ خورد، مولانا عطاء الرحمٰن کا نام پیش کر دیں، جو اس وقت سینیٹ کے رُکن ہیں۔ البتہ اے پی سی میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نئے چیئرمین سینیٹ کا نام کمیٹی کے ارکان کی منظوری اور اتفاقِ رائے سے پیش کیا جائے گا۔ سو، شاید مولانا کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے یہ تجویز رکھی گئی تھی کہ اگر فوری طور پر قومی اسمبلی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، تو چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جا سکتی ہے، لیکن بعض حلقے یہ مؤقف بھی رکھتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا آسان نہیں ہوگا، کیوں کہ اس وقت ایک انتہائی طاقت وَر لابی ان کی پُشت پناہی کر رہی ہے۔ اب جہاں تک نمبر گیم کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے سینیٹ میں اپوزیشن کا پلڑا واضح طور پر بھاری ہے۔ اس وقت 104رُکنی ایوان میں سینیٹرز کی تعداد 103ہے اور چیئرمین سینیٹ کے منصب کے لیے 53ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ متّحدہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتوں کے سینیٹ میں مجموعی طور پر 60ارکان موجود ہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتوں کی ایوانِ بالا میں موجودہ نشستوں کو دیکھا جائے، تو مسلم لیگ (نون) کے سینیٹرز کی تعداد 28ہے، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 20ارکان ہیں۔ اپوزیشن اتحاد میں شامل نیشنل پارٹی کے 5، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 4، پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے 2اور اے این پی کا ایک سینیٹر ہے۔ چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کو ایوانِ بالا کی چیئرمین شپ سے ہٹانے کے لیے پہلے مرحلے میں ایک چوتھائی ارکان کے دست خطوں کے ساتھ قرارداد لانے کی تحریک جمع کروائی جائے گی۔ اگلے مرحلے میں سینیٹ کے رُولز آف پروسیجر کے تحت چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے جمع کروائی گئی تحریک پر رائے دہی کے لیے7روز بعد اجلاس طلب کیا جائے گا، جس میں قرارداد پر ووٹنگ کروائی جائے گی۔ اگر چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کام یاب ہو گئی، تو وہ چیئرمین شپ کا عُہدہ چھوڑ دیں گے۔ بعد ازاں، سینیٹ سیکریٹریٹ نئے چیئرمین کے انتخاب کے لیے شیڈول جاری کرے گا اور پھر ایوانِ بالا کے چیئرمین کے عُہدے کے لیے اُمیدواروں کو نام زد کیا جائے گا، لیکن یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی میں تقسیم پائی جاتی ہے۔ گرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یک زباں ہیں، لیکن آدھی جماعت سینیٹر میاں رضا ربّانی کو چیئرمین سینیٹ دیکھنے کی خواہش مند ہے اور باقی نصف ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سلیم مانڈوی والا کے ساتھ ہے۔

سیاست کی ہنگامہ خیزی اور قیاس آرائیاں
اے پی سی میں شرکت کے دوران بلاول بھٹو ، مریم نوازکا استقبال کرتے ہوئے

اپوزیشن کے نقطۂ نگاہ سے اے پی سی میں کیے گئے کئی مطالبات ایسے ہیں کہ جن پر فوری توجّہ دینے کی ضرورت ہے اور حکومت کو اس حوالے سے اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں، لیکن بعض مطالبات ایسے بھی ہیں کہ جن میں قومی و مُلکی ترجیحات و مفادات کم اور انفرادی دل چسپی کے ساتھ محض سیاسی بیان بازی کا عُنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی بڑی شدّت سے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ارکانِ قومی اسمبلی، محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کُل جماعتی کانفرنس کے علاوہ پورے بجٹ اجلاس کے دوران بھی اپوزیشن کی جماعتوں نے ان دونوں ارکان کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہ کرنے کو جمہوریت کے خلاف اور ایوان کی رُوح کے منافی عمل بنا کر پیش کیا ، لیکن جن سرگرمیوں کی پاداش میں اُنہیں قید کیا گیا اور وہ ایوان میں نہیں آ سکے، اُن پر اپوزیشن کے کسی رُکن نے کوئی بات نہیں کی۔ اسی طرح آصف علی زرداری، خواجہ سعد رفیق اور حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر، میاں شہباز شریف پر بھی سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، لیکن اس کے باوجود اُنہیں پروڈکشن آرڈرز پر ایوان میں لایا جاتا رہا ، تو یہ بات قابلِ غور ہے کہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دونوں ارکان کے پروڈکشن آرڈرز کیوں نہیں جاری کیے جا رہے۔

سیاست کی ہنگامہ خیزی اور قیاس آرائیاں
چیئرمین سینیٹ، صادق سنجرانی

دوسری جانب قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ’’بخیر و خوبی‘‘ اختتام پذیر ہو چُکا ۔ بجٹ اجلاس کے دوران ایوان میں ایجنڈے کی کارروائی کے ساتھ اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں بھی عُروج پر رہیں ۔ یہ سرگرمیاں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (نون) کے اہم رہنما، خواجہ سعد رفیق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین، آصف علی زرداری کے گرد گھومتی رہیں، جو عدالتی احکامات کے نتیجے میں زیرِ حراست ہیں اور انہیں پروڈکشن آرڈرز پر قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں شرکت کے لیے ایوان میں لایا جاتا رہا۔ تاہم، اب ایک مرتبہ پھر نیب نے سابق صدر کی آزاد فضا میں جاری سرگرمیاں مقیّد کر دی ہیں اور اُن کے علاوہ سابق وفاقی وزیر برائے ریلویز، خواجہ سعد رفیق بھی لاہور میں نیب کے سیل میں محدود ہو گئے ہیں۔ بجٹ اجلاس کے حوالے سے یوں تو کئی اہم واقعات اور سوالات ہیں، لیکن ایک بات، جس نے سب کو تجسّس کا شکار کر دیا اور کرتی رہے گی، وہ یہ ہے کہ بجٹ اجلاس کے آغاز پر جس انداز اور شدّت سے اپوزیشن اور حکومتی نشستوں سے ہنگامہ آرائی کا آغاز ہوا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نئے نئے حوالوں سے مزید شدّت آتی جارہی تھی، تو اس سے تو بالکل بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ بات بجٹ منظوری تک پہنچ پائے گی اور یہ بھی پارلیمانی تاریخ کا پہلا اور عجیب واقعہ تھا کہ نہ صرف اپوزیشن ایوان میں ہنگامہ آرائی کر رہی تھی، بلکہ خود حکومتی ارکان بھی متعدد بار افراتفری پھیلا کر اجلاس ختم کروانے کا سبب بنے۔ بجٹ اجلاس کے دوران ایوان میں ہنگامہ آرائی اس نہج تک پہنچ چُکی تھی کہ کئی مرتبہ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ دست و گریباں ہونے والے ارکان اشتعال کے عالم میں کوئی ’’ نئی مثال‘‘ نہ قائم کر دیں۔ اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے مابین اسپیکر چیمبر میں مذاکرات کا عمل بھی جاری رہتا، جس کا کوئی قابلِ ذکر نتیجہ نہ نکلتا، لیکن پھر اچانک ہی ماحول ساز گار ہو گیا۔ دونوں اطراف کے اراکین ایک دوسرے کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنے لگے اور ایک دوسرے کی تقاریر بھی بڑے تحمل اور توجّہ کے ساتھ سُنیں ۔ نیز، سابق صدر، آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری ہو گئے ، وہ ایوان میں آکر کارروائی میں حصّہ لینے لگے۔ بادی النّظر میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ شاید ساری ہنگامہ آرائی آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈر کے لیے تھی، لیکن بعد میں پیش آنے والے واقعات اس تاثر کی نفی کرتے ہیں ۔ اصل حقائق شاید کچھ عرصے بعد منظرِ عام پر آئیں۔

بجٹ اجلاس کے دوران رُونما ہونے والا ایک اور اہم واقعہ قائدِ ایوان، عمران خان کے لیے ’’سلیکٹڈ وزیرِ اعظم‘‘ جیسے لفظ کے استعمال سے متعلق ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان کے نام کے ساتھ یہ سابقہ سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بُھٹّو زرداری نے ایوان میں ہونے والی کارروائی کے دوران لگایا اور پھر جب بھی وہ اُن کا ذکر کرتے، تو اسی سابقے کے ساتھ کرتے۔ ابتدا میں تو اس حوالے سے حکومتی ارکانِ اسمبلی نے اعتراض نہیں کیا، لیکن جب اپوزیشن کے تمام ارکان نے اس سابقے کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا، تو وفاقی وزیر برائے توانائی، عُمر ایّوب نے لفظ ’’سلیکٹڈ وزیرِ اعظم‘‘ پر احتجاج کرتے ہوئے اسپیکر سے درخواست کی کہ اس کا نوٹس لیں (ہو سکتا ہے کہ کہیں سے یہ ہدایت آئی ہو کہ اس الفاظ کا استعمال روکا جائے) جس پر ڈپٹی اسپیکر، قاسم سوری نے ایوان میں وزیرِ اعظم کے لیے ’’سلیکٹڈ وزیرِ اعظم‘‘ کہنے پر پابندی عاید کر دی، لیکن اس کے باوجود بھی گاہے گاہے اپوزیشن کے ارکان اشاروں کنایوں میں یہ لفظ استعمال کرتے رہے۔ اجلاس ختم ہونے سے پیش تر جب بجٹ منظوری کے آخری مرحلے میں تھا اور ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی تحاریک پیش کی جا رہی تھیں، تو وزیرِ اعظم، عمران خان بھی ایوان میں موجود تھے۔ اس موقعے پر اپوزیشن لیڈر، شہباز شریف کٹوتی کی تحاریک پر اپنا مؤقف پیش کر رہے تھے، تو انہوں نے وزیرِ اعظم کو ’’سلیکٹڈ وزیرِ اعظم‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، جس پر ایوان میں ہنگامہ شروع ہو گیا۔ حکومتی اراکین نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر زبردست احتجاج کیا۔ وزیرِ اعظم کی موجودگی کی وجہ سے اُن حکومتی ارکان نے بھی، جو عموماً محض علامتی انداز میں احتجاج کرتے تھے، اپنے لیڈر کے دفاع میں اور اپوزیشن لیڈر کے خلاف گلے پھاڑ پھاڑ کرنعرے لگا کر حقِ وفاداری ادا کیا، جس کی وجہ سے احتجاج میں شدّت آ گئی۔ بعد ازاں، اسپیکر نے یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہ قومی اسمبلی کے ریکارڈ سے حذف کیے جانے والے الفاظ ایوان میں دُہرانے یا نشر ہونے سے ایوان کا استحقاق مجروح ہو گا، یہ رُولنگ دی کہ ’’سلیکٹڈ وزیراعظم‘‘ کا لفظ ایوان میں ادا کرنے اور شایع و نشر کرنے پر پابندی عاید کی جاتی ہے۔ اس طرح پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ جب اسپیکر کی جانب سے کوئی لفظ ادا کرنے پر پابندی عاید کی گئی ۔

چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی میں تقسیم پائی جاتی ہے۔ گرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قومی اسمبلی اور سینیٹ میں یک زباں ہیں، لیکن آدھی جماعت سینیٹر میاں رضا ربّانی کو چیئرمین سینیٹ دیکھنے کی خواہش مند ہے اور باقی نصف ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سلیم مانڈوی والا کے ساتھ ہے
’’پس ِ پردہ ڈِیل‘‘ کی کوششیں جاری

وزیرِ اعظم، عمران خان بار بار اس عزم کا اعادہ کر رہے ہیں کہ جن سیاسی شخصیات اور سابق حُکم رانوں پر مُلکی دولت لُوٹنے اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں، اُنہیں کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ نہ اُن سے ڈِیل ہو گی اور نہ اُنہیں ڈھیل دی جائے گی اور نہ ہی کوئی این آر او ہو گا۔ ’’سرکاری اعلانچی‘‘ بھی میڈیا پر آکر یہی راگ الاپ رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ایسی خبریں اور قیاس آرائیاں موجود ہیں کہ دونوں سابق حُکم رانوں، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اپنی رہائی کے لیے خطیر رقوم کی پیش کش کر دی ہے۔ البتہ تاخیر ڈِیل کا طریقۂ کار طے نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ گرچہ اس حوالے سے خبروں میں کبھی شدّت اور کبھی نرمی آتی رہتی ہے، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ دونوں سابق حُکم ران اب کسی طویل اسیری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ میاں نواز شریف کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ مختلف عوارض میں مبتلا ہیں اور پھر اُن کی مثال اُس بچّے کی سی ہے کہ جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا اور ساری زندگی ہی شاہانہ انداز سے گزاری۔ شاید وہ اسیری کا کچھ مزید عرصہ تو کسی نہ کسی طرح گزار لیں، لیکن اگر رہائی کے انتظار میں اسیری کی مشکلات کا دورانیہ بڑھ گیا، تو صورتِ حال آخری حد تک بھی جا سکتی ہے۔

جہاں تک آصف علی زرداری کا تعلق ہے، تو یہ بات دُرست ہے کہ انہوں نے ماضی میں 11سال جیل میں گزارے، لیکن یہ اُن کے بَھلے وقتوں کی بات ہے کہ اُس وقت وہ ’’سیاسی اسیر‘‘ تھے، جب کہ اس وقت اُن پر مختلف نوعیت کے جرائم کے الزامات ہیں۔ لانڈھی جیل میں اُنہیں غیر معمولی اور جیل مینوئل سے ہٹ کر بھی سہولتیں اور مراعات حاصل تھیں، لیکن اب صورتِ حال قطعی طور پر مختلف ہے۔ سہارا لے کر چلنے والے 63سالہ آصف علی زرداری کی کی نقل و حرکت کا تسلسل فوری اثر کرنے والی ادویہ کے مرہونِ منّت ہے۔ لہٰذا، وہ اپنی رہائی کی خاطر حکومت کی کڑی شرائط بھی قبول کر سکتے ہیں۔ ڈِیل، ڈھیل، رہائی اور بیرونِ مُلک جانے کی اجازت کے حوالے سے خبروں اور قیاس آرائیوں میں ایک بار پھر اُس وقت تیزی آئی کہ جب قطر کے امیر، شیخ تمیم بن حمد الثّانی پاکستان کے دورے پر آئے، جب کہ بعض حلقے ابھی تک اپنے اس دعوے پر قائم ہیں کہ امیرِ قطر کی پاکستان آمد محض معمول کا دورہ نہیں تھا، بلکہ اس دوران سابق وزیرِ اعظم، میاں نوازشریف کی رہائی اور بیرونِ مُلک روانگی کے حوالے سے بھی کچھ پیش رفت ہوئی ہے، لیکن ان دعوے داروں کے پاس اس بات کے کوئی مصدّقہ ثبوت نہیں ہیں۔ البتہ یہ بات دُرست ہے کہ قطر کے حُکم رانوں سے میاں نوازشریف کے دیرینہ و خاندانی مراسم ہیں اور اُن کی آمد کا ایک پس منظر بھی ہے، جس کے پیشِ نظر ایسے دعوے کیے گئے۔ ماضی میں جب جنرل (ر) پرویز مشرف کے دَورِ حکومت میں میاں نوازشریف کو پابندِ سلاسل کیا گیا تھا، تو 2000ء میں وہ انتہائی غیر متوقّع انداز میں اپنے بھائی، شہباز شریف اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ جدّہ منتقل ہوگئے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کی روانگی سے متعلق اُن کے قریبی رفقاء اور پارٹی کے سینئر راہ نما بھی قطعاً بے خبر تھے۔ بعد ازاں، علم ہوا کہ میاں نواز شریف اور اُن کا خاندان پرویز مشرف کی حکومت سے 10سال تک پاکستان نہ آنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ نہ لینے کے معاہدے کے تحت سعودی عرب منتقل ہوا تھا۔ تاہم، شریف برادران کئی برس تک اس معاہدے سے لاعلمی کا اظہار کرتے رہے، لیکن جب یہ معاہدہ منظرِ عام پر آیا، تو انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ معاہدے کے تحت 5برس کے لیے جِلا وطن ہوئے تھے۔ اُس معاہدے میں سعودی عرب نے ضامن کا کردار ادا کیا تھا اور اب اس حوالے سے قطر کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ 

پورا گھرانا پارلیمنٹ کی چھت تلے…

قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پروڈکشن آرڈر پر ایوان میں لائے گئے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین، آصف علی زرداری ایوان کی کارروائی کے دوران اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے توجّہ اور خبروں کا مرکز بنے رہے۔ آصف علی زرداری نے جب پارلیمنٹ میں اظہار خیال کیا، تو اُن کی دونوں صاحب زادیاں، بختاور بُھٹّو اور آصفہ بُھٹّو بھی اسپیکر گیلری میں موجود رہیں، جب کہ بختاور بُھٹّو تو اپنے والد کو دیکھ کر مسکراتی اور وکٹری کا نشان بناتی رہیں۔ یعنی کئی مواقع پر آصف زرداری اور بلاول بُھٹّو ایوان میں موجود تھے، تو بختاور اور آصفہ اسپیکر گیلری میں۔ یوں یہ پورا چھوٹا سا گھرانا ایک ایوان کی چھت تلے موجود نظرآیا۔ یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے مرکزی گیٹ نمبر 5سے ملحقہ لابی میں بلاول بُھٹّو کو ایک چیمبر فراہم کر دیا گیا ہے۔ ہرچند کہ یہ آفیشل اپوزیشن چیمبر نہیں ، لیکن سیاسی اور پارلیمانی سرگرمیاں اسی چیمبر میں ہوتی ہیں، جب کہ آصف علی زرداری کو ایوان میں لائے جانے کی وجہ سے یہ چیمبر پیپلز پارٹی کے ارکان کے علاوہ دیگر جماعتوں کے رہنمائوں کی آماج گاہ بھی بنا رہا۔ جب آصف زرداری نیب حُکّام کی تحویل میں پارلیمنٹ ہاؤس آتے، تو اُنہیں گیٹ ہی پر قومی اسمبلی کے سارجنٹ ایٹ آرمز کی تحویل میں دے دیا جاتا۔ چیمبر میں سابق صدر کی آمد کے پیشِ نظر بعض ’’اضافی سہولتوں‘‘ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، جب کہ چیمبر کے اندر ہمہ وقت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور ارکانِ اسمبلی کا جمگھٹانظر آیا، جن میں آصف زرداری کے ’’خاص ملاقاتی‘‘ بھی شامل ہوتے۔ نیز، چیمبر سے باہر پیپلز پارٹی کے کارکنان بھی اپنے قائد کی ایک جھلک دیکھنے، اُن سے ملنے اور اُن کے ساتھ سیلفیز بنانے کے لیے بڑی تعداد میں موجود نظر آئے۔ چیمبر کے سامنے واقع لابی میں خصوصی طور پر صوفے بھی رکھے گئے ، جہاں اُن سے طے شدہ ملاقات کے منتظر مہمان براجمان رہتے۔ اس سے پہلے ایسا انتظام پارلیمنٹ ہاؤس کے کسی چیمبر کے باہر دیکھنے میں نہیں آیا۔ چیمبر کے باہر پارلیمنٹ کی حفاظت پر مامور سیکوریٹی افسران ، اہل کاروں کے علاوہ بعض انٹیلی جینس ایجنسیز اور تحقیقاتی اداروں کے افسران بھی سادہ کپڑوں میں متعیّن رہے، جو تمام وقت آصف علی زرداری اور بلاول بُھٹّو سے ملاقات کے لیے آنے والے افراد پر نہ صرف نظر رکھتے، بلکہ اُن کی تفصیل بھی مرتّب کرتے رہے۔

تازہ ترین