• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ اور پھر شہزادے نےجِن کا سر قلم کرکے شہزادی کو چھُڑالیا ۔ دونوں شادی کے بعد ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘۔ اکثر چھوٹے بچوں کو سونے سے قبل اسی قسم کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بہت سی کہانیاں اخلاقیات، ایمانداری، اخوت و مساوات کا سبق بھی دیتی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بچپن میں سنائی گئی کہانیوں کا دماغ پر طویل عرصے تک اثر رہتاہے۔ آجکل چونکہ والدین کی اکثریت کے پاس وقت کم ہوتا ہے تو وہ خود بچوں کو تصویری کہانیاں خریدکر دے دیتے ہیں، جوکہ الٰہ دین، سنڈریلا اور الف لیلوی داستانوں پر بھی مشتمل ہوتی ہیں۔ بچے جب ان سبق آموز کہانیوں کو پڑھتے ہیں تو ان کی مطالعہ کی عادت پختہ ہوتی ہے اور ان کو تلفظ، لفظوںکی پہچان اور جملوں کی بنت سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ مطالعہ انسانی ذہن پر دور رس اثرات مرتب کرتا، ذہنی تناؤ کو کم کرتا، یادداشت کو بڑھاتا اور ذہنی استطاعت میں اضافہ کرتاہے، غرض انسانی شخصیت کو مثبت راہوں پر ڈالتاہے۔

بچے کی زندگی کے ابتدائی پانچ سال انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہی وہ دور ہوتاہے جب بچے کے ذہن میں زبان و ادب کی بنیادیں مضبوط ہورہی ہوتی ہیں ا ور اس کے سیکھنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہورہا ہوتا ہے۔

ابتدائی بنیادی مہارتیں

بچوں کی اسی جبلت کو سامنے رکھتے ہوئے بنیادی رپورٹس تیار کی گئیں، جن کے مطالعے سے پتہ چلا کہ بچوں کو کتابیں پڑھوانا یا انہیں پڑھ کر سنانا، انہیں کنڈر گارٹن کیلئے تیار کرتا ہے بلکہ ان کے پیدا ہونے سے قبل بھی یہ مشق ان کے کام آتی ہے اور وہ شکم ماد ر میں ہی وہ زبان سیکھ رہے ہوتے ہیں، جو ان کے گھر میں بولی جار رہی ہوتی ہے۔ بہر حال مدعا یہ ہے کہ بچے جب کتابیں پڑھنے کے اہل ہو جائیں تو ان کو STEM(سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھس) کے ہلکے پھلکے موضوعات بھی پڑھنے کو دیے جائیں اور اگر ان کے ذہن میں سوالات آئیں تو ان کے آسان جوابات دے کر انہیں مطمئن کیا جائے تاکہ جب وہ اسکول جائیں تو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ریاضی سیکھنے میں دقت محسوس نہ کریں۔ ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہو اور وہ آسا ن سائنسی تجربے بیان کرنے کے قابل ہوجائیں۔

STEMسیکھنے کی حوصلہ افزائی

STEMدراصل ایک مائنڈ سیٹ ہے، سوچ کا ایک طریقۂ کار ہے، جو ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ منطقی سوچ، اشتراک اور تخلیقی عمل کی راہ اپنائیں۔ گذشتہ دہائی سے کاروباری اذہان اور مجلس قانون ساز STEMپر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں تاکہ مستقبل میں درکار ورک فورس تیار کی جاسکے اور یہ لائحہ عمل بہت سے اسکولوں کی پہلی ترجیح بنتا جارہاہے۔ لیکن اس حوالے سے گھروں یا کمیونٹیزکا کیا کردار ہوگا جہاں بچے پروان چڑھتے ہیں؟ ان کی روزانہ کی زندگی یاماحول میں STEM ایجوکیشن انہیں کیسے سکھائی جاسکے گی؟ سب سے اہم یہ کہ گھروں ، اسکولوں، کمیونٹیز وغیرہ میں بچے جب سوالات پوچھیں گے تو ان کی تشفی کیسے ہوگی؟ کیا ہم ان کے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے ان پر تنقید کریں گے کہ وہ خود کیو ںلاعلم ہیں ؟ یا ہم ان کو سپورٹ کریں گے، ان کے تجسس کو اُبھاریں گے اور ان کے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کریںگے؟ بچے جنونی ہوتے ہیں، وہ کسی چیز کے پیچھے لگ جائیں تو پھر کچھ نہیں دیکھتے۔ آپ نے بھی مشاہد ہ کیا ہوگا کہ بچہ اگر کوئی کھلونا روبوٹ بنا رہاہو تو وہ اتنا مگن ہوجاتاہے کہ اسے کھانا پینا بھی یاد نہیں رہتا۔ لہٰذا ہم میں برداشت یا صبر کا مادہ ہونا چاہیے کہ STEM ایجوکیشن کے حوالے سے نہ صرف ان کی مدد کریں بلکہ ان کی راہیں متعین کرنے کیلئےہر ممکن اقدامات کریں تاکہ وہ جب جوانی کی سرحدوں پر قدم رکھ رہے ہوں تو ان میں بلا کا اعتماد ہو ، وہ اپنی کامیابی کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کررہے ہوں۔

ہمارے اسکولوں، گھرانوں اور کمیونٹیز کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو سپورٹ کریں ، جیسے کہ :

٭وقت کے ایک مخصوص دورانیے میں ان مددگاروں (سائنسی علوم رکھنے والوں )کی خدمات حاصل کی جائیں، جو حقیقی مشقوں پر مل کر کام کرکے اس کا حل نکالیں اور وہ مشقیں280الفاظ سے زیادہ کی نہ ہوں۔

٭تخلیق کار ایسے نت نئے آئیڈیاز اور پراڈکٹس سامنے لائیں، جو بچوں کو STEMکی مشکل اصطلاحات اور عوامل کو آسان طریقے سے  سمجھنے میں معاون ثابت ہوں ۔

٭بچوں کو ابتدا ہی سے تجزیہ کرنا، اندازہ لگانا اور تخمینہ لگانا سکھایا جائے، تاکہ وہ آسان مسائل کو حل کرتے کرتے مشکل مسائل کو حل کرنے میں مشکلات کا سامنانہ کریں۔

یہی وہ مہارتیں ہیں جو بچوں کو مستقبل میں نت نئی ایجادات اور آئیڈیاز پیش کرنے میں مدد کریں گی۔ اس سے ملک کا مستقبل روشن و تابناک ہوگا۔ ہمیں نئے موجد، انٹرپرینیورز، ٹیچرز، لیڈرز، کارآمد شہری اور ملازمین ملیں گے، جو ملک وقوم کی بہتری کیلئے کام کررہے ہوں گے۔

تازہ ترین