• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برِصغیر کی ممتاز گلوکارہ فریدہ خانم کی گائی ہوئی مشہور زمانہ غزل ’’آج جانے کی ضد نہ کرو… ہائے مر جائیں گے ہم تو لُٹ جائیں گے، ایسی باتیں کیا نہ کرو… محفل موسیقی میں شریک ایک ایک فرد کی سماعتوں میں رَس گھول رہی تھی۔ سامعین واہ واہ کی صورت داد دیے جا رہے تھے۔ یہ آواز تھی!! پڑھی لکھی اور تربیت یافتہ گلوکارہ فضا جاوید کی۔ پھر انہوں نے دوسرا گیت گانا شروع کیا، تو محفل لوٹ لی۔ آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز…مدہوش دل و جان کو بناتی ہوئی آواز۔ آواز سے ہوتی ہے سدا چہرہ نمائی… ایک رنگ میں سو رنگ دکھاتی ہوئی آواز… بخشے تیری آواز ہوائوں کو ترنّم، کھلتی ہوئی کلیوں کو سکھاتی ہیں تبسم… فضا جاوید نے اعلیٰ تعلیم کے ساتھ موسیقی کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی اور پھر اپنی آواز کے جادو سے محفل لوٹنے کا ہنر بھی سیکھا۔ فضا جاوید کو یُوں تو کم عمری سے ہی گانے کا شوق تھا، لیکن وہ پہلے اپنی ساری توجہ پڑھائی پر رکھنا چاہتی تھیں۔ بعدازاں محافل موسیقی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا سوچا کرتیں۔ جیو کی اسکرین پر سجا پاکستان آئیڈیل میں پہلی بار آواز کا جادو جگایا اور پھر اپنے فن کا لوہا منوانے کے لیے کوک اسٹوڈیو کا رُخ کیا۔ کوک اسٹوڈیو پر انہوں نے کلاسیکی موسیقی کے رنگ بکھیرے، جسے پاکستان سمیت بیرون ملک بھی بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ وہ نہایت قلیل عرصے میں ور اسٹائل سنگر کے رُوپ میں اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔ صوفی، فوک، فلمی موسیقی، غزل، ٹھمری اور ماڈرن میوزک کے ساتھ اپنی آواز کے رنگ بکھیرتی ہیں۔ او لیول، اے لیول کے بعد کراچی یونی ورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میں داخلہ لیا، مگر ایک برس بعد ہی اُسے ادھورا چھوڑ آئیں۔ امریکا، برطانیہ، یو اے ای، بحرین و دیگر ممالک میں منعقدہ کنسرٹ میں حصہ لے چکی ہیں۔ گزشتہ دنوں وہ امریکا کے کام یاب دورے سے واپس لوٹیں توہم نے ان کی رہائش گاہ پر ان کی ذاتی اور فنّی زندگی کے بارے میں بات چیت کی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

جنگ: موسیقی کی جانب کس طرح آئیں؟

فضا جاوید: مشہور کہاوت ہے کہ آرٹسٹ اور بے وقوف ہمیشہ پیدا ہوتےہیں، انہیں بنایا نہیں جاتا، یہی حال ہمارا تھا، کسی بھی محفل میں بیٹھے ہوتے، ہمارا ذہن اور دل ہمیشہ موسیقی کی جانب مبذول رہتا تھا۔ ہمیں آپ پیدائشی فن کار کہہ سکتےہیں۔ پیدائشی آرٹسٹ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ دُنیا بھر میں مشہور بھی ہو۔ شہرت کے آسمان پر جگمگاتا نظر آئے۔ آرٹسٹ تو آرٹسٹ ہوتا ہے، خواہ اُسے شہرت و مقبولیت حاصل ہو یا نہ ہو۔ آج بھی دُنیا بھر میں ایک سے بڑھ کر ایک آرٹسٹ موجود ہیں، مگر اُن کو زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ اُن کے فن کا کسی سے مقابلہ نہیں۔ ہم بہت پرانے آرٹسٹ تو نہیں ہیں۔ ابھی تک موسیقی کے میدان میں جو کام کیا، پُوری لگن اور سچائی کے ساتھ کیا، کیوں کہ ہم موسیقی سے منسلک ہوکر بہت خوش ہیں۔ ہمارا فن دھیمی آنچ میں کندن بن رہا ہے۔ جو کچھ رَبّ نے اب تک عطا کیا ہے، وہ ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔

جنگ: آپ کی فیملی کون کون ہیں؟

فضا جاوید: ہم کل پانچ بہن بھائی ہیں، بڑے بھائی کا 27 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اب دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ میری والدہ گائنا کولوجسٹ تھیں، اب ریٹائرڈ ہو چکی ہیں اور والد صاحب کا 13 برس قبل انتقال ہوگیا تھا۔ وہ اسسٹنٹ فلائٹ انجینئر کی حیثیت سے قومی ایئرلائن میں کام کرتے تھے۔ وہ اچھے شیف بھی تھے۔ مزیدار کھانے بناتے تھے۔ ان کی وجہ سے ہم نے پاکستان کے فائیو اسٹار ہوٹلز کے کھانوں کو خوب انجوائے کیا۔ والد کا تعلق لکھنؤ سے جب کہ والدہ لاہور سے ہیں۔ ہم نواب زادے ہیں۔ میرے والد دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے تھے، جب کہ والدہ بہت لائوڈ بولتی تھیں۔ میری تربیت میں تہذیبی رچائو والد صاحب کی وجہ سے ہے۔

جنگ: اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیں، تعلیم کہاں تک حاصل کی؟

فضا جاوید: میں 11 فروری کو کراچی میں پیدا ہوئی ہوں۔ ہر سال میری سال گرہ دُھوم دھام سے منائی جاتی رہی ہے۔ بہت اچھا تھا میرا بچپن، سال گرہ کے ایونٹ میں ملک کے شہرت یافتہ فن کار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ نامور گلوکار سجاد علی نے کئی بار میری سال گرہ کی تقریب میں آواز کا جادو جگایا۔ سینٹ جوزف سے پرائمری تک پڑھا اور پھر برٹش انٹرنیشنل اسکول سے او لیول اور اے لیول کیا۔ CBM میں داخلہ لیا، لیکن والد کے انتقال کے بعد پڑھائی میں وقفہ آ گیا۔ بعدازاں میں نے کراچی یونی ورسٹی میں صحافت پڑھنے کے لیے داخلہ لیا، مگر وہ بھی مکمل نہیں کر سکی۔ یہ سب نصیبوں کے کھیل ہیں۔

جنگ: ایک زمانہ تھا، جب گلوکاروں کے آڈیو کیسٹ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتے تھے، پھر گانے کی ویڈیوز کا دور آیا۔ ویڈیوز سے گلوکاروں کو کیا فائدہ ہوا؟

فضا جاوید: گانوں کی ویڈیوز سے گلوکاروں کو نقصان بھی اُٹھانا پڑا اور فائدہ بھی ہوا۔ مہدی حسن اور نورجہاں جیسے گائیک بننے کے لیے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا آج کی نئی نسل کے پاس اتنا وقت کہاں ہے۔ کوئی بھی نوجوان تھوڑا سا خُوب صورت نظر آتا ہے، وہ گانے کی ویڈیو بناتا ہے اور راتوں رات مشہور ہو جاتا ہے، جو تربیت یافتہ گائیک ہیں ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ مہنگے ترین ویڈیوز بنائیں تو وہ اس دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اب زمانہ بالکل بدل گیا ہے۔ اب گانا اچھا بُرا نہیں ہوتا، بلکہ مقبول ہوتا ہے۔ جو گانا مقبول ہوگا، اُسے اچھا کہا جاتا ہے۔

جنگ: ماضی کے مقابلے میں آج کی فلمی موسیقی مقبول کیوں نہیں ہوتی، جب کہ فلمیں کام یابی حاصل کر رہی ہیں؟

فضا جاوید: ماضی کی کیا بات تھی۔ فلم انڈسٹری سے بڑی بڑی اَدبی شخصیات بھی وابستہ تھیں۔ جوش ملیح آبادی، بہزاد لکھنوی، جمیل مظہری، قمر جلال پوری، مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی، حسرت جے پوری، قتیل شفائی، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی جیسے جیّد اور ممتاز شعراءنے فلمی گیت لکھے تو دُوسری جانب ایس ڈی برمن، خواجہ خورشید انور،مدن موہن، فیروز نظامی، ماسٹر غلام حیدر، روشن، خیام، شنکر جے کشن اور نثار بزمی نے ان شعراء کے کلام کو خوب صورت اور لازوال دُھنوں سے سجایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پُرانے گیت سُنتے ہیں تو دل خوش ہو جاتا ہے۔

جنگ: دورانِ گائیکی تلفّظ کا کتنا خیال رکھتی ہیں؟

فضا جاوید: آج کل موسیقی سُننے والوں میں سب سے بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ وہ تلفظ وغیرہ پر توجہ نہیں دیتے۔ میں نے ہمیشہ بامقصد موسیقی کو فروغ دیا ہے۔ آہستہ آہستہ ایک مرتبہ پھر سنجیدہ موسیقی پسند کی جا رہی ہے۔ اُستاد راحت فتح علی خان کے گائے ہوئے گیت بھی نئی نسل پسند کرتی ہے۔ میں ان کی بہت بڑی مداح ہوں۔ اُستاد نصرت فتح علی خان کی گائیکی سے ہم نے بہت سیکھا۔ شفقت امانت علی نے بھی زبردست گیت گائے ہیں۔ میں دورانِ گائیکی زبانِ صحت اور تلفظ کا خاص خیال رکھتی ہوں۔

جنگ: آپ نے ٹی وی ڈراموں کے لیے OST بھی کیے ہیں، ان کے بارے میں کچھ بتائیں؟

فضا جاوید: بہت سارے ڈراموں کے لیے OST گائے ہیں۔ ان ڈراموں میں جنم جلی، مینوں کا سُسرال، برف، کسک رہے گی، محبت کی آرزو، رانجھا وغیرہ شامل ہیں۔

جنگ: آپ انورمقصود کے شوز میں زیادہ نظر آتی ہیں، اس بارے میں کچھ بتائیں؟

فضا جاوید: وہ بہت ہی کمال شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کی تحریروں کا کون دیوانہ نہیں ہے۔ وہ مصوّر بھی ہیں، گائیک بھی ہیں، کمپیئرنگ شان دار کرتے ہیں۔ فنون کے ہر شعبے میں ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کا جادو بولتا ہے۔ بہت جرأت مند اور بہادر لکھاری ہیں۔ چند برس قبل میری ان سے ملاقات ہوئی۔ انہیں میری آواز و انداز گائیکی اچھا لگا، تو وہ مختلف شوز میں مجھے اپنے ساتھ رکھنے لگے۔ اب تک کئی شوز میں ان کے ساتھ پرفارم کر چکی ہوں۔ وہ جس انداز سے فن کاروں کا تعارف کے بعد گانے کے لیے اسٹیج پرمدعو کرتے ہیں۔ آرٹسٹ اور حاضرین کو ان کی یہ ادا اچھی لگتی ہے۔ وہ میری دھیمی اور کلاسیکی گائیکی کو سراہتے ہیں۔ ان کے صاحب زادے بلال مقصود اور اسٹرنگز کے فیصل کباڈیا کے ساتھ بھی کئی شوز کیے۔ ان شخصیات کی وجہ سے میری کوک اسٹوڈیو تک رسائی ہوئی۔

شہرت نصیبوں سے ملتی ہے، فضا جاوید
فیصل قریشی، انور مقصود،بلال مقصود اور فیصل کپاڈیا کے ساتھ

جنگ: آپ نے موسیقی کی تعلیم کس سے حاصل کی؟

فضا جاوید: جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ فن کار تو پیدائشی ہوتا ہے، اُسے کوئی بنانہیں سکتا، لیکن میں نے اپنے فن میں نکھار اور پختگی پیدا کرنے کے لیے استاد کرم عباس خان سے موسیقی کی باریکیاں اور راگ راگنیاں سیکھیں۔ وہ گوالیار گھرانے کے گائیک ہیں۔ ان کی آواز کا ایک زمانہ معترف ہے۔

جنگ: بے شمار شوز میں پرفارم کیا ہے، کوئی یادگار محفل موسیقی؟

فضا جاوید: یُوں تو میں نے ملک اوربیرون ملک کئی شوز کیے ہیں۔ چند یادگار بھی ہیں۔ ایک مرتبہ میں نامور اداکار فیصل قریشی کے پروگرام میں پرفارم کر رہی تھی۔ امیر خسرو کا کلام اپنی آواز میں گا رہی تھی، اسی دوران بین الاقوامی شہرت یافتہ فوک سنگر عارف لوہار بھی میرے ساتھ گانے لگے تو، مجھے بہت اچھا لگا۔ میں صُوفی موسیقی اور فوک گیتوں کی دیوانی ہوں۔ عارف لوہار کے والد عالم لوہار کو بھی شوق سے سُنتی رہی ہوں۔ جُگنی تو سب ہی شوق سے سُنتے ہیں۔ عارف لوہار ایک سچے گائیک ہیں۔ انہوں نے میری آواز کو سراہا تو دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔

جنگ: گزشتہ دنوں آپ نے عاطف اسلم کے ساتھ ایک بڑے کنسرٹ میں پرفارم کیا تھا، وہ شو کیسا رہا تھا؟

فضا جاوید: جی ہاں، وہ کنسرٹ ملیر کینٹ میں ہوا تھا۔ اس کنسرٹ کی پبلسٹی بھی غیرمعمولی کی گئی تھی۔ میں نے عاطف اسلم سے قبل اُستاد نصرت فتح علی خان کے گیت اور امیر خسرو کے کلام کو اپنے انداز سے گایا تو کنسرٹ میں موجود ہزاروں شائقین موسیقی نے اُسے پسند کیا۔ اس شو میں ہماری کام یابی کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئی، تو انہوں نے دورانِ شو سائونڈ سسٹم میں گڑبڑ کرا دی۔ اس کے باوجود بھی ہم نے رنگ جمایا۔

جنگ: ایک گائیکہ کو موسیقی کی دُنیا میں نام بنانے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

فضا جاوید: گائیک اور گائیکہ، سب کو ہی ایک جیسے مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ شوبزنس میں صبر اور برداشت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ آرٹسٹ برداشت کا دامن نہ چھوڑیں اور اپنے وقت کا انتظارکریں۔ ہر فن کار کی زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے، جب اس کی سب سُنتے ہیں۔

جنگ: فلمیں دیکھتی ہیں، پسندیدہ فن کار کون سے ہیں؟

فضا جاوید: مجھے ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ شاہد کپور، رنبیر کپور اور کنگنا رناوٹ کی اداکاری اچھی لگتی ہے۔ حال ہی میں، میں نے ثاقب ملک کی فلم ’’باجی‘‘ دیکھی، اس میں آمنہ الیاس اور میرا جی کا کام اچھا لگا۔ اس طرح کی فلمیں بننا شروع ہوں گی تو انڈسٹری ترقّی کرے گی۔ علی ظفر نے بھی طیفا اِن ٹربل عمدہ انداز میں بنائی۔ وہ فلم بھی اچھی تھی۔

جنگ: سوشل میڈیا نے فن کاروں کے مقبولیت کے سفر میں کتنی آسانیاں پیدا کی ہیں؟

فضا جاوید: اس سے یقیناً آرٹسٹوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ مقبول اور مشہور ہونا آسان ہوگیا ہے۔ اس سے نقصان یہ ہوا کہ ہر آرٹسٹ یہ محسوس کرتا ہے کہ میں سب سے اچھا کام کر رہا ہوں۔ میں سب سے اچھا گا رہا ہوں۔ پچھلے دنوں ’’کوکو کورینا‘‘ کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔ مومنہ اور اَحد رضا سے یہ گانا پرفارم کروایا گیا اور اس سے قبل ہمارے ملک کے بہت بڑے گلوکار احمد رشدی کا اوریجنل گانا یوٹیوب سے ہٹایا گیا اور مومنہ اور اَحد کی خوب صورتی کو پیش کیا گیا، جسے سامعین اور ناظرین نے قبول نہیں کیا۔ کتنا مذاق بنا۔ خوب صورتی اپنی جگہ، دِلوں میں اُترنے والی آواز اپنی جگہ اہم ہوتی ہے۔ میں نے جب کوک اسٹوڈیو کیا تو نیم کلاسیکل گیت کا انتخاب کیا تھا۔

جنگ: آپ ریچا شرما کو بہت پسند کرتی ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟

فضا جاوید: ریچا جی نے جس طرح کا صُوفی اور جدید میوزک کو پیش کیا ہے۔ اس کی مثال کم ملتی ہے۔ مجھے ان کی آواز میں مائے نیم خان فلم کا سپرہٹ گیت ’’تیرا سجدہ‘‘ بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ کنسرٹس میں جس انداز سے پرفارم کرتی ہیں کہ سُننے والوں کو اپنی آواز کے سحر سے دیوانہ بنا دیتی ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین