• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت الیاس علیہ السّلام
قدیم بعلبک شہر کے کھنڈرات، حضرت الیاسؑ نے اسی شہر کو اپنی دعوت کا مرکز بنایا

حضرت الیاس علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے نبی اور حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے تھے۔ آپؑ تقریباً نو سو قبلِ مسیح اُردن کے شہر’’جِلعاد‘‘ میں پیدا ہوئے۔ قرآنِ کریم اور مستند احادیث میں حضرت الیاسؑ کی زندگی کے حالات تفصیل سے مذکور نہیں۔ قرآنِ کریم میں آپؑ کا ذکرِ مبارک دو مقامات پر آیا ہے۔ ایک سورۂ انعام میں کہ جہاں دیگر انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ آپؑ کا اسمِ گرامی بھی مذکور ہے اور دوسرا، سورۂ صافات میں، جہاں نہایت اختصار کے ساتھ آپؑ کی دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا ذکر ہے۔ سورۂ صافات کی آیت123میں ارشاد ہے’’اور الیاسؑ بھی پیغمبروں میں سے تھے۔‘‘قرآنِ کریم میں آپؑ کا نام الیاس، جب کہ انجیل یوحنا میں آپؑ کا ذکر’’ایلیا نبی‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ علّامہ ابنِ کثیرؒ نے آپؑ کا نسب نامہ یوں تحریر کیا ہے،’’الیاسؑ بن یاسین بن فخاص بن یعزاز بن ہارون یا الیاسؑ بن العاز بن الیعزاز بن ہارون ؑ۔‘‘

حضرت الیاسؑ کی بعثت

قرآن و حدیث سے یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ حضرت الیاس علیہ السّلام کب اور کہاں مبعوث ہوئے؟ لیکن تاریخی اور اسرائیلی روایات اس بات پر تقریباً متفّق ہیں کہ آپؑ، حضرت حزقیل علیہ السّلام کے بعد اور حضرت الیسع علیہ السّلام سے پہلے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب بنی اسرائیل کی سلطنت دو حصّوں میں بٹ چُکی تھی۔ ایک حصّہ یہودا یا یہودیہ کہلاتا تھا اور اس کا مرکز، بیت المقدِس تھا اور دوسرا حصّہ، اسرائیل کہلاتا تھا، جس کا پایۂ تخت سامرہ (موجودہ نابلس) تھا۔ اُس وقت اسرائیل میں جو بادشاہ حکم راں تھا، اُس کا نام بائبل میں’’اخی اب‘‘ اور عربی تواریخ و تفاسیر میں’’اجب یا اخب‘‘ مذکور ہے۔ اُس کی بیوی، ایزبل،’’ بعل‘‘ نامی بُت کی پرستار تھی اور اُس نے بعل کے نام پر ایک بڑی قربان گاہ تعمیر کر کے بنی اسرائیل کو بُت پرستی کی راہ پر لگا دیا تھا۔ حضرت الیاس علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ اس خطّے میں جا کر توحید کی تعلیم دیں اور اسرائیلیوں کو بُت پرستی سے روکیں۔ (تفسیر ابنِ جریر، ج 23، ص53)مؤرخین اور مفسرّین اس بات پر متفّق ہیں کہ حضرت الیاس علیہ السّلام کو مُلکِ شام کے یہودیوں اور اسرائیلیوں کو توحید کی دعوت دینے کے لیے بھیجا گیا تاکہ کفر و شرک اور بُت پرستی میں غرق قوم کو راہِ راست پر لایا جا سکے اور یہ لوگ ایک اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لے آئیں۔

قومِ الیاسؑ کا سب سے بڑا دیوتا

بعل بُت یہودیوں اور اسرائیلیوں کا سب سے بڑا اور مشہور دیوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بُت سونے کا تھا۔ اس کا قد 20گز تھا، چار منہ تھے اور چار سو افراد اُس کی خدمت پر مامور تھے۔(روح المعافی جلد 23، ص 627)یمن اور شام کے عوام کا پسندیدہ دیوتا یہی تھا، جس کی سیکڑوں سالوں سے پوجا کی جا رہی تھی۔ روایت میں ہے کہ بعل کے پجاری ،حضرت یوشع ؑ بن نون کے زمانے میں بھی تھے اور آپؑ نے شام کی فتح کے دَوران اُن سے جنگ کی تھی۔ سال کے مخصوص مہینوں میں اُس دیوتا کے گرد میلے لگتے، منّتیں مانی جاتیں، سونے چاندی کے نذرانے چڑھائے جاتے، طرح طرح کی خوش بُوئوں کی دھونی دی جاتی۔ اُس کی قربان گاہ میں جانوروں کو قربان کیا جاتا اور خاص خاص مواقع پر انسانوں کی بھینٹ بھی چڑھائی جاتی تھی۔ عبرانی اور سامی زبانوں میں بعل کے معنی آقا، پروردگار، مالک اور سردار کے ہیں، اسی لیے عرب کی خواتین بھی اپنے شوہروں کو بعل کہتی تھیں۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حجاز کا مشہور بُت، ہبل بھی بعل ہی کی ایک شکل تھا۔قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے ’’اور الیاسؑ بھی پیغمبروں میں سے تھے، جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ’’ تم ڈرتے کیوں نہیں، کیا تم بعل کو پکارتے (اور اُسے پوجتے ہو) اور سب سے بہتر پیدا کرنے والے کو چھوڑ دیتے ہو۔ یعنی اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے باپ، دادا کا پروردگار ہے‘‘، تو اُن لوگوں نے اُن کو جھٹلا دیا۔ سو، وہ دوزخ میں حاضر کیے جائیں گے۔ ہاں! اللہ کے خاص بندے مبتلائے عذاب نہیں ہوں گے اور ہم نے بعد کے لوگوں میں (الیاسؑ) کا ذکر باقی رکھا۔ اِل یاسین ( الیاسؑ) پر سلام ہو۔ بلاشبہ ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔‘‘ (سورۂ صافات 132۔123)

حضرت الیاسؑ کا مرکز

حضرت الیاس علیہ السّلام نے مُلکِ شام کے سب سے مشہور شہر ’’بعلبک‘‘ (Baalbek) کو رُشد و ہدایت کا مرکز بنایا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ بعل دیوتا کا بُت اسی شہر میں تھا اور یہ بُت پرستی، ستارہ پرستی اور کفر و شرک کا سب سے بڑا اور قدیم مرکز تھا۔ اس شہر کا نام بعلبک بھی اسی بُت، بعل کے نام سے منسوب تھا، چناں چہ حضرت الیاس علیہ السّلام نے اس کفرستان سے وعظ و نصیحت کا آغاز کیا۔آج بعلبک لبنان کا قدیم ترین شہر ہے، اس کے کھنڈرات آج بھی اس کی عظمت اور شان و شوکت کے مظہر ہیں۔ سطحِ سمندر سے1150میٹر بلند یہ شہر ملکۂ بلقیس کو بہ طور حق مَہر دیا گیا تھا اور یہاں قصرِ سلیمان بھی تھا۔ یونانیوں نے اسے’’ شہرِ آفتاب‘‘ یا’’ مدینۃ الشمس‘‘ کا نام دیا۔نیز، رومی عہد میں اس شہر کی بڑی اہمیت تھی اور رومی حکم راں، آگسٹس نے اسے اپنی نوآبادی بنا لیا تھا۔ 1154عیسوی (549ہجری) میں نور الدّین زنگیؒ نے اسے فتح کیا۔ 1170عیسوی (565ہجری) میں ایک زلزلے کی وجہ سے یہ شہر تباہ ہو گیا، مگر پھر نئے سرے سے آباد ہوا۔ یہیں حضرت الیاسؑ کا مزار ہے۔

توحید کی دعوت اور قوم کا رویّہ

حضرت الیاس علیہ السّلام کے حالات و واقعات اور قوم کے ساتھ اُن کی کش مکش کی تفصیل’’ تفسیرِ مظہری‘‘ میں علّامہ بغویؒ اور دیگر تفاسیر میں حضرت وہب بن منبہؒ اور حضرت کعب الاحبارؒ وغیرہ کے حوالے سے بیان کی گئی ہے، جو اکثر اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہے۔ ان تمام روایات سے خلاصے کے طور پر جو قدرِ مشترک نکلتی ہے، اُسے حضرت مولانا مفتی محمّد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے’’ معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرما دیا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت الیاس علیہ السّلام نے اسرائیل کے بادشاہ’’اخی اب‘‘ اور اُس کی رعایا کو بعل نامی بُت کی پرستش سے روکا اور اُنھیں توحید کی دعوت دی مگر ایک، دو افراد کے سوا کسی نے آپؑ کی بات نہیں مانی، بلکہ آپؑ کو طرح طرح سے پریشان کرنے لگے، یہاں تک کہ اخی اب اور اُس کی بیوی، ایزبل نے آپؑ کو شہید کرنے کے بھی منصوبے بنائے، جس پر آپؑ نے ایک دُور افتادہ غار میں پناہ لی اور عرصۂ دراز تک وہیں مقیم رہے۔ بعدازاں، آپؑ نے دُعا فرمائی کہ اسرائیل کے لوگ قحط سالی کا شکار ہو جائیں تاکہ اس قحط کو دُور کرنے کے لیے آپؑ اُن کو معجزات دِکھائیں، تو شاید وہ ایمان لے آئیں۔ چناں چہ اُنہیں شدید قحط میں مبتلا کر دیا گیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس علیہ السّلام، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اخی اب سے ملے اور اُس سے کہا کہ’’ یہ عذاب، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے اور اگر تم اب بھی باز آ جائو، تو یہ عذاب دُور ہو سکتا ہے۔ میری سچّائی کے امتحان کا بھی یہ بہترین موقع ہے۔ تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمہارے معبود، بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن اُن سب کو میرے سامنے جمع کر لو۔ وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں اور مَیں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ آ کر بھسم کر دے گی اُس کا دین سچّا ہو گا۔‘‘ سب نے اس تجویز کو خوشی خوشی مان لیا۔ چناں چہ کوہِ کرمل کے مقام پر یہ اجتماع ہوا۔ بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی اور صبح سے دوپہر تک بعل سے التجائیں کرتے رہے، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس علیہ السّلام نے اپنی قربانی پیش کی۔ اس پر آسمان سے آگ نازل ہوئی، جس نے حضرت الیاس علیہ السّلام کی قربانی کو جلا کر بھسم کر دیا۔ یہ دیکھ کر بہت سے لوگ سجدے میں گر گئے، کیوں کہ اُن پر حق واضح ہو گیا تھا، لیکن بعل کے جھوٹے نبی اب بھی نہ مانے۔ اسی طرح، بادشاہ کی بیوی، ایزبل بھی حضرت الیاس علیہ السّلام پر ایمان لانے کے بجائے، الٹی اُن کی جان کی دشمن ہو گئی۔ حضرت الیاسؑ کو اُس کے عزائم کا پتا چلا، تو آپؑ روپوش ہو گئے اور کچھ عرصے بعد بنی اسرائیل کے دوسرے مُلک، یہودیہ میں تبلیغ شروع کر دی، کیوں کہ رفتہ رفتہ بعل پرستی کی وبا وہاں بھی پھیل چُکی تھی۔ وہاں کے بادشاہ نے بھی آپ کی بات نہ سُنی ،یہاں تک کہ وہ حضرت الیاس علیہ السّلام کی پیش گوئی کے مطابق تباہ و برباد ہوگیا۔ چند سال بعد آپؑ دوبارہ اسرائیل تشریف لائے اور بادشاہ کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی، مگر وہ بدستور اپنی بداعمالیوں میں مبتلا رہا۔ یہاں تک کہ اُنہیں بیرونی حملوں اور مہلک بیماریوں کا شکار بنا دیا گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو واپس بلا لیا۔ (معارف القران، جلد 7، ص470)

حضرت الیاس کی رُوپوشی

حضرت کعب احبارؒ سے منقول ہے کہ حضرت الیاسؑ بادشاہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر ایک غار میں رہنے لگے تھے اور اُنھوں نے تقریباً دس سال کا عرصہ رُوپوشی میں بسر کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُس بادشاہ کو ہلاک کردیا، دوسرا بادشاہ تخت نشین ہوا، تو حضرت الیاسؑ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُسے دعوتِ توحید دی، جس پر ایک خلقِ عظیم اُن پر ایمان لے آئی، صرف دس ہزار باقی رہ گئے، جنھیں قتل کر دیا گیا۔ (ابنِ کثیرؒ)

کیا ’’الیاسؑ‘‘ حضرت ادریسؑ کا دوسرا نام ہے؟

مفسرّین میں سے ایک مختصر گروہ کا کہنا ہے کہ ’’الیاس‘‘، حضرت ادریس علیہ السّلام ہی کا دوسرا نام ہے اور ان دونوں شخصیات میں کوئی فرق نہیں۔ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت الیاسؑ اور حضرت خضرؑ میں کوئی فرق نہیں۔ (در منشور، ج5، ص285)۔ لیکن محققّین نے ان اقوال کی تردید کی ہے۔ قرآنِ کریم نے بھی حضرت ادریسؑ اور حضرت الیاس ؑکا اس طرح جدا جدا تذکرہ فرمایا ہے کہ دونوں کو ایک قرار دینے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی، اس لیے حافظ ابنِ کثیرؒ نے اپنی تاریخ میں دونوں کو الگ، الگ نبی قرار دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ، ج 1، ص339)۔حضرت ادریس علیہ السّلام، حضرت نوح علیہ السّلام کے بعد اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے پہلے نبوّت پر سرفراز ہوئے، جب کہ حضرت الیاس علیہ السّلام ایک اسرائیلی نبی ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے بعد مبعوث ہوئے، یوں دونوں میں سیکڑوں سال کا فاصلہ ہے۔ چناں چہ طبریؒ لکھتے ہیں کہ حضرت الیاس علیہ السّلام، حضرت الیسع علیہ السّلام کے چچا زاد بھائی تھے اور اُن کی بعثت حضرت حزقیل علیہ السّلام کے بعد ہوئی۔

بادشاہی میں فقیری

حضرت الیاس علیہ السّلام اُن انبیائے کرامؑ میں سے ہیں، جنہوں نے پوری زندگی جاہ و حشمت، دولت ثروت سے بے نیاز ہو کر بسر کی۔ رہنے کو مکان بنایا اور نہ کھانے پینے کی فکر رہی۔ ملا تو کھا لیا، نہ ملا تو پانی ہی پر گزارہ کر لیا۔ دن بھر درس و تبلیغ میں مصروف رہتے اور شب یادِ الہٰی میں گزارتے۔ جب نیند زیادہ ستاتی، تو جہاں جگہ میّسر آ جاتی، سو رہتے۔ سفرنامہ ارضِ قرآن میں تحریر ہے کہ وادیٔ سینا میں واقع، جبلِ طور پر’’ مقامِ الیاس‘‘ وہ جگہ ہے، جہاں حضرت الیاس علیہ السّلام سامرہ سے بھاگ کر روپوش ہوئے تھے۔

حضرت الیاسؑ حیات ہیں یا وفات پا چُکے؟

حضرت الیاس علیہ السّلام زندہ ہیں یا وفات پا چُکے؟ مؤرخین اور مفسرّین کے درمیان یہ مسئلہ بھی زیرِ بحث آیا۔ تفسیرِ مظہری میں علّامہ بغویؒ کے حوالے سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے، اُس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت الیاس علیہ السّلام کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کر کے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی طرح زندہ ہیں۔ (تفسیرِ مظہری، ج8، ص141) علّامہ سیوطیؒ نے بھی ابنِ عساکرؒ اور حاکمؒ وغیرہ کے حوالے سے کئی ایسی روایات نقل کی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ کعب الاحبارؒ سے منقول ہے کہ چار انبیاء علیہم السّلام اب تک زندہ ہیں۔ دو زمین پر حضرت خضرؑ اور حضرت الیاسؑ اور دو آسمان پر حضرت عیسیٰؑ اور حضرت ادریسؑ۔ (در منشور، ج5، ص285) یہاں تک کہ بعض افراد نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت خضرؑ اور حضرت الیاسؑ ہر سال رمضان کے مہینے میں بیت المقدِس میں اکٹھے ہوتے اور روزے رکھتے ہیں۔ (تفسیر قرطبی، ج15، ص116) لیکن حافظ ابنِ کثیرؒ جیسے محقّق علماء نے اِن روایات کو صحیح قرار نہیں دیا۔ وہ اِن جیسی روایات کے بارے میں لکھتے ہیں’’ یہ اُن اسرائیلی روایات میں سے ہیں، جن کی نہ تصدیق کی جاتی ہے اور نہ تکذیب، بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ان کی صحت بعید ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایہ، ج1 ص338)بائبل میں لکھا ہے کہ ’’اور وہ آگے چلتے اور باتیں کرتے جاتے تھے کہ دیکھو ایک آتشی رتھ اور آتشی گھوڑوں نے اُن دونوں کو جدا کر دیا اور ایلیاہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا۔‘‘ (2۔ سلاطین11:2)۔قرآن و حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، جس سے حضرت الیاس علیہ السّلام کی زندگی یا آپؑ کا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہو۔ صرف ایک روایت مستدرک حاکمؒ میں ملتی ہے ،جس میں مذکور ہے کہ تبوک کے راستے میں آنحضرتﷺ کی حضرت الیاسؑ سے ملاقات ہوئی، لیکن محدّثین نے اسے موضوع حدیث قرار دیا ہے۔ بہرحال، حضرت الیاس علیہ السّلام کا زندہ ہونا کسی معتبر اسلامی روایت سے ثابت نہیں ، لہٰذا اس معاملے میں سلامتی کی راہ یہی ہے کہ سکوت اختیار کیا جائے اور اسرائیلی روایات کے سلسلے میں آنحضرتﷺ کی تعلیم پر عمل کیا جائے کہ ’’نہ اُن کی تصدیق کرو، نہ تکذیب۔‘‘ (معارف القرآن، ج7، ص472)

تازہ ترین