• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا، ایران کشیدگی کے حوالے سے جون کا مہینہ بڑا ہیجان انگیز تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے تنائو کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملے کا حُکم دے دیا تھا، لیکن پھرانسانی جانوں کے زیاں کے خدشےکے پیشِ نظر اسے واپس لے لیا۔ البتہ دونوں ممالک کے مابین تلخ بیانات کے تبادلے کا سلسلہ جاری رہا اور پھر جولائی کے آغاز میں ایک غیر متوقع خبر سامنے آئی۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجینسی نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایران نے یورینیم افزودگی کی وہ حد عبور کر لی ہے،جو ایران اور عالمی طاقتوںکے درمیان 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے میں مقرّر کی گئی تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایران نے ایسا کیوں کیا؟ یاد رہے کہ آج سے چند ماہ قبل ٹرمپ نے یہ اعلان کیا تھا کہ امریکا جوہری معاہدے سے دست بردار ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں، ٹرمپ نے اپنی انتخابی مُہم کے دوران کئی مرتبہ مذکورہ معاہدے کو ’’بدترین ڈِیل‘‘ قرار دیتے ہوئے اقتدار میں آتے ہی منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس ضمن میں امریکی صدر کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اُن کے پیش رو، باراک اوباما نے اس جوہری معاہدے کی صورت میں ایران کو وہ مراعات دیں، جن کا وہ کسی صورت مستحق نہیں۔ نیز، تہران ہی مشرقِ وسطیٰ میں پائی جانے والی بد امنی کا ذمّے دار ہے۔ دوسری جانب ایران کا ماننا ہے کہ امریکا، اس کے عرب اتحادیوں اور اسرائیل کا مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں بڑا کردار ہے۔ واضح رہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان اختلافات کا آغاز 1979ء کے انقلابِ ایران کے بعد ہوا تھا۔ بہر کیف، ایران کی جانب سے یورینیم افزودگی کی مقرّرہ حد عبور کرنے کے بعد یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا وہ ایٹم بم بنانے میں کام یاب ہو جائے گا۔ نیز، اگر ایسا ہوا، تو اس کے خطّے پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے اور کیا امریکا اور ایران کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی جنگ پر منتج ہو گی۔

ٹرمپ کا بےلچک رویہ اور ایران کے جوہری عزائم
خلیجِ اومان میں حملے کی زد میں آنے والے آئل ٹینکر سے دھویں کے بادل اُٹھ رہے ہیں

ماضی میں ایران نے ہمیشہ خود پر عاید ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے اور ایرانی رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای بھی ایک موقعے پر ایٹمی ہتھیاروں کو حرام قرار دے چُکے ہیں۔ علاوہ ازیں، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجینسی بھی ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی پاس داری کی تصدیق کر چُکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، رُوس اور چین نے امریکا کے معاہدے سے نکلنے کے باوجود بھی ایران کا ساتھ دیا۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدہ برقرار ہے۔ وہ ایک جانب ایران سے ڈِیل کی پاس داری کا مطالبہ کرتے رہے، تو دوسری جانب امریکا کو بھی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کا مشورہ دیتے رہے۔ نومبر 2018ء میں جب ٹرمپ نے ایران پر پابندیوں کی بوچھاڑ کی، تو اُس وقت بھی ان ممالک کی یہی خواہش تھی کہ دونوں ممالک مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں تاہم، انہیں اُس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ جب امریکی صدر نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عاید کر دیں۔ ناقدین کے مطابق ٹرمپ اپنے اُن مشیروں کی بات پر زیادہ کان دھرتے ہیں، جو کوئی انتہائی قدم اُٹھا کر ایران کو سبق سکھانے پر یقین رکھتے ہیں اور ان میں امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو اورامریکی قومی سلامتی کے مُشیر، جان بولٹن قابلِ ذکر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رواں برس مئی میں امریکا نے اُن ممالک پر بھی ایران سے تیل درآمد کرنے پر پابندی عاید کر دی، جنہیں استثنیٰ حاصل تھا، جس کے بعد ایران کے لیے تیل برآمد کرنا ممکن نہ رہا۔ ان ممالک میں امریکا کا قریبی حلیف، بھارت بھی شامل ہے۔ امریکی دباؤ کے تحت بھارت نے ایران سے تیل کی درآمد کا سلسلہ روک دیا ہے، جب کہ اس سے پہلے امریکی پابندیوں کے باوجود بھارت، ایران سے تیل خریدتا رہا۔ ایران اور بھارت ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ ایرانی بندرگاہ، چاہ بہار پورٹ بھارتی سرمائے سے تیار کی گئی اور اس وقت مذکورہ بندرگاہ کا انتظام و انصرام بھی بھارت ہی کے پاس ہے۔ اسی طرح ایران میں ایک سڑک بھی تعمیر کی گئی ہے، جس کی مدد سے بھارت، افغانستان سے براہِ راست تجارت کر سکتا ہے۔ اس سے قبل بھارت، پاکستان کے راستے افغانستان سے تجارت کرتا تھا، لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد پاکستان نے یہ سہولت ختم کر دی۔ تیل کی برآمد پر پابندی کے بعد ایرانی صدر، حسن روحانی نے کہا کہ اب ایران 300کلو گرام یا 4فی صد تک یورینیم افزودہ کرنے کی حد کا پابند نہیں۔ بعد ازاں، رواں ماہ کے اوائل میں ایرانی وزیرِ خارجہ، جواد ظریف کے حوالے سے یہ خبر سامنے آئی کہ ایران نے جوہری معاہدے کے تحت مقرّر کی گئی حد عبور کر لی ہے۔

ٹرمپ کا بےلچک رویہ اور ایران کے جوہری عزائم
آبنائے ہرمز پر ایرانی میزائل کا نشانہ بننے والے امریکی ڈرون کا ملبہ

ماہرین کا ماننا ہے کہ اس وقت امریکا، ایران پر زیادہ سے زیادہ دبائو ڈالنا چاہتا ہے اور غالباً ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران پر دباؤ ڈال کر وہ وہاں حکومت تبدیل کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے یا پھر کم از کم ایران کو ایک ایسا معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیں گے، جو موجودہ نیوکلیئر ڈِیل سے مختلف ہو گا۔ ماہرین کے مطابق اس وقت ایران میں ایسی دو جوہری تنصیبات موجود ہیں کہ جہاں یورینیم کو افزودہ کر کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پہلا اور بڑا جوہری پلانٹ نتانز شہر سے 18میل کے فاصلے پر واقع ہے اور جوہری معاہدے کے تحت اس پر بہت سی پابندیاں عاید کی گئی ہیں، بالخصوص اسے مزید توسیع دینے سے روک دیا گیا ہے۔ ایران کا دوسرا نیوکلیئر پلانٹ، فردو کے مقام پر واقع ہے ، جسے زیرِ زمین ہونے کی وجہ سے بم باری کے ذریعے تباہ کرنا ممکن نہیں۔ اگر ایران پر پابندیوں کی صورت دبائو بڑھانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، تو اسے اپنے جوہری عزائم کو توسیع دینے سے روکنا نا ممکن ہو گا اور عین ممکن ہے کہ وہ ان دونوں اہم ایٹمی تنصیبات کی کارکردگی میں مزید اضافہ کرے۔ اطلاعات کے مطابق نتانز کے ایٹمی پلانٹ ہی میں یورینیم افزودگی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ تاہم، تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران کے لیے فوری طور پر جوہری ہتھیار بنانا ممکن نہیں ، اس مقصد کے لیے اسے کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا، البتہ وہ یورینیم افزودگی میں اضافے کو امریکا پر دبائو کے حربے کے طور پر استعمال کرے گا۔ اگر معاملہ یہیں تک محدود رہتا ہے، تو یہ قابلِ فہم بات ہو گی، لیکن امریکا اور ایران میں موجود سخت گیر عناصر دونوں ممالک کی قیادت کو کوئی انتہائی قدم اُٹھانے پر مجبور کر سکتے ہیں اور نتیجتاً کشیدگی، جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے، حالاں کہ اس وقت ایران جنگ چاہتا ہے اور نہ ہی ٹرمپ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایران کے جوہری عزائم اور امریکی صدرکے بے لچک رویّے کی وجوہ کیا ہیں۔ واضح رہے کہ ایرانی صدر، حسن روحانی نے پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات لڑتے وقت سب سے زیادہ زور ایران کی اقتصادی صورتِ حال پر دیا تھا۔ اس موقعے پر اُن کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں مغربی ممالک سے کسی قسم کا سمجھوتا کر لینا چاہیے، تاکہ ایران کی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔‘‘ ایرانی صدر نے اپنی اس سوچ کو عملی شکل دینے کے لیے سابق امریکی صدر، باراک اوباما کے دَور میں عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدہ کیا اور اس کے سبب بڑی حد تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں کام یاب بھی ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مذکورہ نیوکلیئر ڈِیل کا سب سے بڑا چیمپئن حسن روحانی کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ حسن روحانی اور ان کے وزیرِ خارجہ، جواد ظریف نے معاہدے میں سب سے اہم کردار ادا کیا اور اس ضمن میں انہوں نے تقریباً 3برس تک بڑی تن دہی اور عرق ریزی سے کام کیا۔ تاہم، ٹرمپ کی جانب سے نیوکلیئر ڈِیل مسترد کیے جانے کے بعد ایران میں حسن روحانی پر وہ سخت گیر عناصر حاوی ہو چُکے ہیں، جو ابتداء ہی سے جوہری معاہدے کو بے سود اور امریکا کی جانب سے دھوکا قرار دے رہے تھے اور حال ہی میں ایران کی جانب سے کیے گئے جارحانہ اقدامات کا پس منظر بھی یہی ہے۔ دوسری جانب حسن روحانی بھی سخت مؤقف اپنانے پر مجبور ہو گئے، کیوں کہ اس کے بغیر اُن کے لیے اندرونِ مُلک اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔

ٹرمپ کا بےلچک رویہ اور ایران کے جوہری عزائم
جاپانی وزیرِ اعظم، شنزو ایبے اور ایرانی رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای کے درمیان ملاقات کا ایک منظر

اگر ایران کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کے لیے امریکا کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے، تو ٹرمپ یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ انہیں اپنے ایرانی ہم منصب سے ضرور بات چیت کرنا پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کئی بار غیر مشروط پیش رفت کی پیش کش کر چُکے ہیں اور ایران بھی بات چیت پر آمادہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک ہی مذاکرات کی اہمیت بہ خوبی سمجھتے ہیں اور اس پر آمادہ بھی ہیں۔ ماہرین اس سلسلے میں جاپان کے وزیرِ اعظم، شنزو ایبے کے حالیہ دورۂ ایران کا ذکر کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ جاپانی وزیرِ اعظم، ٹرمپ کے ذاتی دوست ہیں اور امریکا کی جانب سے انڈو چائنا پالیسی کے نفاذ میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شنزو ایبے نے دورۂ ایران میں دونوں ممالک کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی پر تفصیلی بات چیت کی ہوگی اور ان کی ایرانی رہبرِ اعلیٰ سے غیر معمولی ملاقات کو مذاکرات کی سمت پیش قدمی کہا جا سکتا ہے۔ پھر ایران کی قیادت اتنی نا سمجھ نہیں کہ اُسے اپنی دگرگوں معیشت کا احساس نہ ہو، لیکن اس کے ساتھ ہی اُس نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والا امریکی ڈرون گرانے سمیت دیگر جارحانہ اقدامات سے اپنے عوام اور دُنیا کو یہ باور کروانے کی بھی کوشش کی کہ اگر امریکا اس پر حملہ آور ہوتا ہے، تو اسے ہر صُورت اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

اُدھر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے بھی ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاز پر سعودی عرب سے آنے والے آئل ٹینکرز اور سعودی شہروں پر حملوں کا الزام عاید کیا ہے۔نیز ، ان واقعات کو فوجی جارحیت میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ان نا خوش گوار واقعات سے تو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ امریکا، ایران کشیدگی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے، لیکن حربی اور بین الاقوامی اُمور کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران اور امریکا کی قیادت جنگ نہیں چاہتی۔ اگر ایران اور امریکا یا عربوں کی دفاعی طاقت کا موازنہ کیا جائے، تو اندازہ ہو گا کہ ایران کا دفاعی بجٹ سعودی عرب کے مقابلے میں 5گُنا، جب کہ امریکا کے مقابلے میں 50گُنا سے بھی کم ہے۔ یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا کہ آخر ایران کے جارحانہ عزائم کے پس پُشت کیا عوامل کار فرما ہیں۔ ایران یقیناً یہی چاہتا ہے کہ اُس پر عاید اقتصادی پابندیاں اُٹھا لی جائیں، کیوں کہ ان کی وجہ سے اسے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت ایرانی معیشت بحران کا شکار ہے، ایک یو ایس ڈالر ایک لاکھ 60ہزار ایرانی ریال کا ہو چُکا ہے اور تیل کی برآمد پر پابندی کے بعد ایران کے لیے راستے محدود ہو چُکے ہیں۔ اس وقت بھارت جیسا قریبی دوست بھی ایران سے سے تیل خریدنے پر آمادہ نہیں، کیوں کہ وہ امریکا کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ نیز، پاکستان، رُوس، چین اور یورپی ممالک بھی امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران سے لین دین میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیرِ اعظم، عمران خان کے دورۂ ایران میں بھی دونوں ممالک کے درمیان کوئی ٹھوس معاہدہ طے نہیں پا سکا، حتیٰ کہ پاک، ایران گیس پائپ لائن بھی سرد خانے کی نذرہو گئی۔

ماہرین اس اَمر پر زور دیتے ہیں کہ اگر ایران اپنی معیشت کو سہارا دینا چاہتا ہے، تو اسے ہر حال میں وہ اقدامات کرنا پڑیں گے کہ جن کے نتیجے میں اس پر عاید پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ایران کے اعتبار سے ایک مایوس کن بات یہ بھی ہوئی کہ وہ اپنے یورپی حلیفوں اور رُوس اور چین پر تکیہ کیے بیٹھا تھا کہ وہ امریکا کو اس پر مزید اقتصادی پابندیاں عاید کرنے سے روکنے میں کام یاب ہو جائیں گے، لیکن وہ ٹرمپ کو اس پر آمادہ نہ کر سکے۔ بعد ازاں، امریکا کی جانب سےایرانی رہبرِ اعلیٰ سمیت دیگر اعلیٰ عُہدے داران پر پابندیاں لگانے اور پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے بعد ایرانی صدر نے اپنے یورپی حلیفوں کو 7جولائی کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اس تاریخ تک امریکا کو پابندیوں میں نرمی پر آمادہ کر لیں، تو ممکن ہے کہ ایران بھی اپنے جوہری عزائم پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے یورینیم افزودگی کا سلسلہ ملتوی کر دے، لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ نے ایران پر دباؤ میں اضافے ہی کو اپنی پالیسی کا حصّہ بنارکھا ہے۔ تاہم، وہ ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ اپنی صدارتی مُہم کے آغاز پر کسی جنگ کا سایہ پڑنے دیں۔ اس ضمن میں شمالی کورین رہنما، کِم جونگ اُن سے خوش گوار ماحول میں ملاقات کو مثال کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان ہونے والی مفاہمت امریکا، ایران تعلقات کے لیے رول ماڈل بن سکتی ہے۔ واضح رہے کہ آج سے صرف ایک برس قبل کِم جونگ اور ٹرمپ کے درمیان تلخ بیانات کا تبادلہ ہو رہا تھا اور دونوں رہنما ایک دوسرے کے مُلک کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دے رہے تھے، لیکن پھر اچانک ہی ٹرمپ اور کِم کے درمیان سنگاپور میں ملاقات کے نتیجے میں برف پگھلنا شروع ہوئی اور اب معاملات بہ تدریج بہتری کی جانب گام زن ہیں۔ اگر ٹرمپ دباؤ بڑھانے کی پالیسی ترک کر کے ایران کو اپنی معیشت بہتر کرنے کی مُہلت دینے پر آمادہ ہو جائیں اور اُن کے ایرانی ہم منصب اندرونِ مُلک موجود سخت گیر عناصر کو ایک مرتبہ پھر مفاہمت پر قائل کر لیں، تو مذاکرات کے لیے حالات سازگار ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین