• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭… ضبطی یا ضبطگی؟

ایک اخبار میں خبر دیکھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ امسال حکام نے جو رقوم ضبط کی ہیں ان کی مقداراتنی ہے جبکہ پچھلے سال ضبط کی گئی رقوم کی مقدار اتنی تھی۔ اس خبر میںایک لفظ ’’ضبطگی‘‘ استعمال ہوا ہے حالانکہ ’’ضبطگی ‘‘ صحیح لفظ نہیں ہے ۔ درست لفظ ہے’’ ضبطی ‘‘۔ عدالت کے حکم یا قوانین کے تحت کسی کے مال یا رقم کو قرق کرلیا جائے یا قبضے میں لے لیا جائے تو اسے ضبطی کہتے ہیں ، گویا ضبط کرنے کا عمل ضبطی کہلاتا ہے ۔ خبر یوں لکھنی چاہیے تھی کہ امسال ہونے والی’’ ضبطی ‘‘کی رقوم اتنی ہیں ، وغیرہ۔

آج کل کے اخبار نویسوں نے اکبر الہٰ آبادی کا یہ مشہور شعرشاید نہیں سنا:

ہم ایسی کُل کتابیں قابل ِ ضبطی سمجھتے ہیں

کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

گویا درست لفظ ضبطی ہے ۔

٭… ہراسگی کوئی لفظ نہیں ہے

ضبطی اور ضبطگی پر یاد آیا کہ آج کل لفظ ’’ہراسگی ‘‘اخبارات بہت لکھ رہے ہیں حالانکہ ضبطگی کی طرح ہراسگی بھی کوئی لفظ نہیں ہے۔

فارسی میں ایک لفظ ہے ہِراس (یعنی ’’ہ‘‘ کے نیچے زیر کے ساتھ)۔ اس کے معنی ہیں خوف یا ڈر۔ اسی لیے اردو میں ’’خوف و ہراس‘‘کی ترکیب عام استعمال ہوتی ہے ۔ جو خوف زدہ یعنی ڈرا ہوا ہو اسے ہِراساں کہتے ہیں ، اسی سے ہراساں کرنااور ہراساں ہونا جیسے مرکبات بنے ہیں ۔

ہراساں ہونے یا کرنے کی کیفیت یا حالت یا عمل کو ہراسانی کہتے ہیں ۔ آج کل ہراساں کیے جانے کا بڑ ا چرچا ہے اور بالخصوص خواتین اس سلسلے میں مقدمات بھی دائر کررہی ہیں ۔ جنسی طور پر یا ویسے ہی ستائے جانے کو انگریزی میں ہیرسمنٹ (harassment) کہتے ہیں ۔ اردو میں اب اس کے لیے ہراسانی کا لفظ عام استعمال ہونے لگا ہے لیکن بعض لوگ غلطی سے اسے ہراسانی کی بجاے ’’ہراسگی‘‘ لکھ رہے ہیں ۔درست لفظ ہراسانی ہے ۔ ہراسگی کوئی لفظ نہیں ہے، نہ اردو میں نہ فارسی میں۔

اس ضمن میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’گی ‘‘ایک لاحقہ ہے جو اسمیت اور وصفیت کے لیے استعمال ہوتاہے۔ جن فارسی الفاظ کے آخر میں ’’ہ‘‘ ہو ان سے اسمیت یا وصفیت بنانے کے لیے ’’ہ‘‘ ہٹا کر ’’گی‘‘ لگادیتے ہیں ، جیسے خستہ سے خستگی، آراستہ سے آراستگی، آلودہ سے آلودگی ،خانہ سے خانگی، گندہ سے گندگی اور زندہ سے زندگی، وغیرہ۔ اس کی اور بھی مثالیں ہیں جن میں سے کچھ وحیدالدین سلیم نے اپنی کتاب ’’وضع اصطلاحات ‘‘ میں درج کی ہیں۔ یہاں مزید تفصیل دینا ممکن نہیں ہے۔مختصراً یہ کہ چونکہ ہراساں کے آخر میں ’’ہ‘‘ نہیں ہے لہٰذا اس سے ہراسگی نہیں بن سکتا ہے اور درست لفظ ہراسانی ہے۔

٭ … ماخَذ یا مآخِذ؟

ماخَذاور مآخِذ دونوں درست ہیں لیکن مفہوم میں تھوڑا سا فرق ہے۔ ماخَذ(یعنی خے پر زبر کے ساتھ) واحد ہے اور مآخِذ (یعنی الف ممدودہ اور خے پر زیر کے ساتھ)اس کی جمع ہے۔

عربی لفظ ماخذ کا سہ حرفی مادّہ ’’ا۔خ۔ ذ‘‘ ہے۔اخذ کرنا اردو میں لینا یا حاصل کرنا کے معنی میں آتا ہے ۔اخذ کے ایک معنی پکڑنا یا خطا پر گرفت کرنا بھی ہیں اسی سے ’’مواخذہ ‘‘کا لفظ بنا ہے یعنی کسی جرم یا غلطی پر پکڑنے کا عمل، جواب طلبی۔ مواخذہ کے ایک معنی عتاب ، ملامت اور سزا کے بھی ہیں۔

اسی مادّے (ا ۔خ۔ذ)سے ماخَذ کا لفظ بنا ہے ۔ماخَذ کے معنی ہیں وہ جگہ جہاں سے کوئی چیز اخذ کی جائے ، جہاں سے کچھ لیا جائے، اخذ کرنے کی جگہ، منبع۔ یعنی ماخَذ اسم ِظرف ہے ۔جب کسی علمی کام میں کسی کتاب یا مقالے سے کوئی چیز اخذ کی جاتی ہے تو گویا وہ کتاب ماخذ ہے۔ پی ایچ ڈی کے مقالوں اور علمی کتابوں کے آخر میں ایسی کتابوں اور مقالات وغیرہ کی فہرست دی جاتی ہے جن سے اس مقالے یا کتاب کا مواد حاصل کیا گیا ہوتاہے ۔ لیکن افسوس کہ اکثر اس پر ’’مآخِذ‘‘(یعنی جمع)کی بجاے’’ماخذ‘‘ (یعنی واحد )کا لفظ لکھا جاتا ہے حالانکہ کئی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہوتا ہے۔ محققین کو احتیاط کرنی چاہیے۔

عربی میں ’’ماخَذ‘‘ کا ایک املا ہمزہ کے ساتھ یعنی مأخَذ بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن اردو والے اب اس پر ہمزہ کم ہی لکھتے ہیں۔ بلکہ اردو والوں نے ماخذ کی مزید جمع یعنی مآخذات بھی بنالی ہے۔

تازہ ترین