• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت دنیا کی آبادی پونے آٹھ ارب کے قریب ہے۔ آپ خود بھی www.worldometeres.info پر جا کر آبادی کی شرح افزائش معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ قانونِ قدرت ہے، ہر زندہ شے نمو پاتی ہے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے بے چین ومضطرب رہتی ہے ۔ اسی لئے لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربو ں میں شمار ہونے والی آبادی کے مسائل بھی اسی رفتار سے بڑھتے ہیں۔

آبادی میں اضافہ کی شرح یہی رہی تو بائیسویں صدی میں دنیا میں سانس لینے والے انسانوں کی تعداد ممکنہ طور پر گیارہ ارب سے تجاوز کر چکی ہوگی۔ اس وقت تازہ ترین اعدادشمار کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے بالترتیب چین (ایک ارب 42کروڑ)، بھارت (ایک ارب37کروڑ )، امریکا (تقریباً33کروڑ)، انڈونیشیا(تقریباً27کروڑ) اور برازیل (21کروڑ) کے بعد20کروڑ افراد کے ساتھ دنیا میں چھٹے نمبر پرہے۔

آبادی کا عالمی دن صرف یہی نہیں بتاتا کہ اب کرہ ارض پر زندہ افراد کی تعداد کتنی ہے بلکہ اس دن کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں معیار زندگی کو بلند رکھنے کی کوششوں کو از سرِ نو مہمیز کرنے کی ضرورت ہے۔1987ء میں جب دنیا کی آبادی نے پانچ ارب سے تجاوز کیا تو آبادی کے مسائل کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کرنے کیلئے 1989ء میں اقوام متحدہ کے ڈیویلپمنٹ پروگرام کی گورننگ کونسل نے اپنی توجہ مرکوز کرنا شروع کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی قرار داد 45/216کے تحت آبادی کے مسائل کی آگاہی کے تحت اس دن کو منانے کا نہ صرف آغا ز کیا بلکہ آبادی کے مسائل، اس سے مربوط ماحول اورترقی کے حوالے سے آنے والی رکاوٹوں کو بھی شامل کیا۔آبادی کا عالمی دن پہلی بار11جولائی 1990ء کو منایا گیا، جس میں دنیا کے90سے زائد ممالک نے حصہ لیا۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج آبادی کا عالمی دن منائے جانے کا مقصد آبادی اور وسائل میں توازن کی اہمیت کو اُجاگر کرنا اور اس کے ساتھ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے وسائل کی وجہ سے سامنے آنے والی مشکلات اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے لوگوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرناہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ آبادی پر قابو پانے کیلئے نت نئے لائحہ عمل اختیار کیے جائیں بلکہ عوام میں یہ شعور پیدا کرناہے کہ دستیاب وسائل کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں اور اتنے کم وسائل میں دنیا کی آبادی اگر اسی تیز رفتاری سے بڑھتی چلی گئی تو آنے والی نسلوں کی زندگی اجیرن ہو سکتی ہے۔ اگر بنیادی سہولتیں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش ، ٹرانسپورٹیشن اور نکاسی آب کی موجودہ سہولیات20کروڑ آبادی کیلئے ناکافی ہیں تو آبادی دگنی ہونے پر کیا ہوگا۔ اس صورتحال کا پوری دنیا کو ہی سامنا ہے، جہاں وسائل کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔

ہمیں ملک کی سماجی روایات و اقدار اور مذہبی رہنمائی کےساتھ آبادی کنٹرول کرنے کے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے، جس کے لیے جدیدمیڈیکل سائنس اور میڈیا کی مدد لینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مزید برآں سرکاری کاوشوں کےساتھ ساتھ سماجی تنظیموں اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کو بھی لوگوںمیں شعور و آگاہی پھیلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

آبادی میں اضافے کی شرح کو دیکھا جائے تو قیاس ہے کہ 2050ء تک پاکستان کی آبادی 35کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے اور اتنی بڑی آبادی کے لئے بنیادی سہولتوں، خاص طورپر صحت عامہ کی سہولیات اور اس تک رسائی کیلئے موجودہ اور مستقبل میں آنے والی حکومتوں کو لازمی سوچنا ہوگا۔ اس ضمن میں سب سے مثبت پہلو یہ ہےکہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، ان نوجوانوں کو صحت مندسرگرمیوں اور تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا جائےتو ملک کی ترقی میں ان کا کردار بہت اہم اور فائدہ مند ہوسکتاہے۔

اسی طرح ملک کو اگر آبادی کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور آبادی دن بدن بڑھ رہی ہے تو اسی افرادی قوت سے کام لینا ہوگا تاکہ وہ معاشرے کے کارآمد اور مفید شہری بنیں۔ اس کے علاوہ ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بہتر استعمال سے معیارِ زندگی بلند ہونے کی امیدیں پیدا ہوں گی اور پاکستان کے ہر طبقے کو بنیادی سہولتوں جیسے پینے کا صاف پانی، تعلیم، ادویات، صحت، مناسب خوراک، رہائش، ذرائع آمدورفت اور نکاسی آب وغیرہ کی دستیابی ممکن ہوگی۔ لیکن اس کے لیے ابھی سے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ، ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے اونچا ہوجائے اور ہم کچھ نہ کرسکیں۔

تازہ ترین