• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے بہتر اور دیر پا نتائج سامنے آتے ہیں کیونکہ بچے کو سمجھ آنا چاہیے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔ دراصل ہمیں تعلیم اور ابتدائی تعلیم کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ابتدائی تعلیم میں زبان کی اہمیت کو کئی بار پہلے بھی تسلیم کیا جاچکاہے، لیکن سوال یہ ہے کہ صرف مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے کیا کیریئر کے مواقع بآسانی حاصل ہو سکتے ہیں یا نہیں؟

اس ضمن میں ایک نجی یونیورسٹی کے سابق ڈین انجم الطاف کہتے ہیں کہ کیریئر کے فیصلے کے جی یا نرسری میں نہیں کیے جاسکتے بلکہ اس فیصلہ کے پیچھے قابلیت کارفرما ہوتی ہے اور اس کا پتہ پرائمری کے بعد ہی چلتاہے۔ اس کی مثال یوں لیجئے کہ علامہ اقبال یا ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنی ابتدائی تعلیم کے دوران نہیں پتہ تھا کہ وہ مستقبل میں کیا بنیں گے اور نہ ہی انہوں نے انگریزی زبان میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ اگر انہوں نے انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کی ہوتی تو ہوسکتاہے کہ وہ کسی برٹش کمپنی میں سینئر آفیسر یا کلرک بن کر ریٹائرڈ ہو جاتے۔

1835ء میں اعلیٰ ملازمتوں کے حصول کیلئے ہندوستانی اشرافیہ نے اپنے لئے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایاتو انگریزی میڈیم کی مانگ میں زبردست اضافہ دیکھنےمیں آیا۔ لیکن 1904ء میں برطانیہ نے اس پالیسی کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ سیکنڈری اسکولوں پر وقت سے پہلے انگریزی میں تعلیم دینے کاتھوڑا دبائو ہوتاہے۔

عمومی اصول ہے کہ بچے کو انگریزی کو بطورزبان اس وقت تک سیکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے جب تک وہ اپنی ابتدائی تعلیم میں بہتری نہ لے آئے اور اپنی مادری زبان پر مکمل عبور حاصل نہ کرلے۔ برٹش کونسل کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مقامی زبانو ں کی جانب منفی رویّوں اور انگریزی اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے انتہائی بدتر نتائج سامنے آسکتے ہیں، اسی کی وجہ سے بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ اور تعلیمی میدان میں کامیابیوں میں کمی جیسے مسائل سامنے آئے۔ یہ تحقیق اس نتیجے پر پہنچی کہ ابتدائی تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک مثال چین کی بھی ہے کہ جس نے ابتدائی تعلیم میں انگریزی زبان کی شمولیت کے بغیر شاندار ترقی کی جبکہ ہم ابتدائی تعلیم میں انگریزی کو شامل کرکے بھی پیچھے رہ گئے۔ مزید یہ کہ جن چینی افراد کو اپنے کیریئر کیلئے انگریزی زبان کی قابلیت درکار ہوتی ہے، وہ بھی اس پر عبور حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ترقی کی منزلیں چڑھتے چلے جاتے ہیں۔

اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا ہے تو لازمی نہیں کہ ابتدائی تعلیم انگریز ی زبان میں حاصل کی جائے کیونکہ ایسا کرنے سے سیکھنے اور سمجھنے کا عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہوتاہے۔

2014ءسے 2016ء تک کیے گئے ایک مطالعہ ’’دوزبانو ں کی مشغولیت کے اثرات ‘‘ کے تحت یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ بچے جو ابتدا ہی سے دو زبانیں سیکھ رہے ہوتے ہیں یا انہیں مشغول ہونا پڑتا ہے، شروع کی کلاسوں میں تو ان کے نمبر اوسط سے کم آتے ہیں، لیکن جیسے جیسے وہ اس میں مصروف رہتے ہیں، ان کے نمبرز اچھے آنے شروع ہوجاتے ہیں اور وہ دونوں زبانوں کو ان کے مزاج کے مطابق استعمال کرنے لگتے ہیں اورہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے ان میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں۔

دو زبانیں سیکھنے پر آپ تنقید کریں یا حوصلہ افزائی لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا اب ایک سے زائد زبانیں سیکھنے اور ان کے فوائد کی معترف نظرآتی ہے اور اس کیلئے بچپن ہی سے اقدامات کیے جانے ضروری ہیں۔ خود پر غور کیجئے کہ آپ قرآن کی کوئی بھی سورۃ بچپن میں بآسانی یاد کرلیتے تھے، جو بڑے ہو کر آپ بمشکل یاد کرپاتے ہیں۔ دراصل بچپن میں دماغ تیزی سے کام کرتاہے اور بچہ جلدی سیکھ رہا ہوتاہے، اس لئے وہ انگریزی، عربی، اردو یا سندھی بآسانی سیکھ لیتاہے۔ اسی لیے اگر آپ اپنے بچے کی ابتدائی تعلیم میں ا س کے انگریزی میں نمبر لانے سے پریشان ہیں تو فکر مت کریں بلکہ اس کی مدد اور رہنمائی کریں۔ وقت کےساتھ ساتھ وہ ہر زبان اور مضمون میں بہتر سے بہتر ہوتا چلاجائے گاکیونکہ ایک تحقیق کے مطابق وہ طلباجو بھلے انگریزی زبان روانی سے نہ بول سکیں، وہ بھی سیکھنے کے عمل میں تیز تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

کیلیفورنیا کی ایجوکیشنل ٹیسٹنگ سروس اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کے مطابق وہ تارکین وطن بچے جو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان میں پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں، انہیں زائد زبانوں پر دسترس کی وجہ سے لیبر مارکیٹ میں زیادہ فائدہ ہوتا ہےاور جو بچے صرف انگریزی جانتے ہیں اور اپنی مادری زبان بھو ل چکے ہیں ، انہیں سالانہ دو سے پانچ ہزار ڈالر کا خسارہ ہوتاہے۔

آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ بچوں کی زیادہ زبانیں سیکھنے کی قابلیت ابتدا ہی سے پتہ چل جاتی ہے، اگر آپ کا بچہ انگریزی اور اردو زبان روانی سے بولتا، پڑھتا اور لکھتا ہے تو اسے تیسری زبان سیکھنے کی جانب راغب کریں،کیونکہ یہی وقت ہے جب بچے کا ذہن اپنے سیکھنے کے عمل کے عروج پر ہوتاہے۔

تازہ ترین