• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہانگ کانگ: لوئس لوکاس

بیجنگ : یوآن یانگ

چین کا 5 جی ٹیکنالوجی کی سپر پاور بننے کا عزم رواں ماہ ایک بار پھر سامنے آگیا جب حکومت نے اس کے تین ٹیلی کام کیریئرز اور کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو موبائل انٹرنیٹ کی نیکسٹ جنریشن کو پہلی بار سامنے لانے کیلئے تجارتی لائسنس کا اجراء کیا ۔

5 جی ٹیکنالوجی کی دوڑ امریکا اور چین کے مابین کشیدگی کا مرکزی نقطہ بن گیا ہے،جیسا کہ چین نے 5 جی نیٹ ورکس کی تعمیر، جو فوری فلم ڈاؤن لوڈ کرنے سے لے کر خودکار ڈرائیونگ تک ہر چیز کا مجاز ہوگا، میں اپنے حریف پر غلبہ پانے کی دھمکی دی ہے۔

جے پی مورگن میں ٹیلی کام شعبہ کے تجزیہ کار مشیل وائی نے کہا کہ لائسنس کے اجراء کا فیصلہ اس کےجرأت مندانہ ارادے کا اظہار ہے کہ دنیا کو پیغام مل جائےکہ چین 5 جی منصوبے کو آگے بڑھانے کی اہلیت رکھتا ہے اور ملکی سپلائی چین کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں اور صنعت کی اندرونی صورتحال سے واقف حال لوگوںنے خبردار کیا ہے کہ چین کے 5 جی ٹیکنالوجی کا آغاز حکومت کی امیدوں کے برعکس سست ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 5 جی ٹیکنالوجی پر پیشرفت امریکا کی جانب سے ملک کی سب سے بڑی ٹیلی کام آلات بنانے والی کمپنی ہواوے پر پابندی کی وجہ سے محدود ہوگی، ساتھ ہی ساتھ کہیں نہ کہیں ایسے ہی مسائل 5 جی ٹیکنالوجی کا تعاقب کررہے ہیں جیسے معیار پر اتفاق میں تاخیر، تجارتی اپلیکیشنز کی کمی اور عالمی سپلائی چین میں رخنہ وغیرہ۔

ہواوے چین کا طاقت ور ملکی سپلائر ہے اور برسلز کے تھنک ٹینک یورپی مرکز برائے انٹرنیشنل پولیٹیکل اکانومی کے ڈائریکٹر ہوسک لی ماکیاما کا اندازہ ہے کہ یہ چائنا موبائل کے 5 جی ٹیکنالوجی کےآغاز کے پہلے مرحلے میں 40 شہروں میں سے 37 کے ٹینڈرز جیت جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ تمام شہروں میں سے تین چوتھائی صرف ایک سپلائر کے لیے ٹینڈر جاری کررہے تھے،لہٰذا ہواوے نے چین کے سب سے بڑے موبائل کیریئر کیلئے ٹینڈرز کا نمایاں حصہ حاصل کر لیا تھا۔انہوں نے کہا کہ غیر ملکی تاجروں کو بالکل خارج یا علامتی حصہ دینے کے امکانات ہیں۔

تاہم ہواوے امریکا کی جانب سے امریکی پرزے اور اجزاء کی خریداری کے ساتھ ساتھ امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں پر پابندی سے متاثر ہوا ہے،جس سے اس کی 5 جی ٹیکنالوجی پیش کرنے کی صلاحیت میں شدید دشوار پیش آئے گی۔

تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ ٹیلی کامز کے سپلائر نے پارٹس کا اچھا خاصا ذخیرہ کرلیا ہے اور یہ لائسنسنگ کے معاہدوں کے سال کے اختتام تک کافی حد تک احاطہ کرتا ہے۔

تاہم اس کے بعد پاور ایمپلیفائر ، فی الحال یہ امریکا کی اسکائی ورکس اور قاروو کمپنیاں فراہم کررہی ہیں، اور امریکی سافٹ ویئر اینڈ سسٹم ڈیزائن کمپنی کیڈنیس کے تیار کردہ الیکٹرانک ڈیزائن آٹومیشن ٹولز کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چین کے دیگر ٹیلی کام سپلائرز زیڈ ٹی ای اور داتانگ 4جی نیٹ ورک کا نمایاں حصہ بننے کے باوجود 5 جی ٹیکنالوجی میںاپنےبڑے حریفوں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہیں۔

جیفریز میں ٹیلی کام کے شعبہ کے تجزیہ کار ایڈیسن لی نے کہا کہ اگر ہواوے 5 جی ٹیکنالوجی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے تب بھی چین کی ٹیلی کام کمپنیوں کے تاجر بدلنے کے امکانات نہیں ،اس سے پتہ چلتا ہے کہ 5 جی نیٹ ورک شروع کرنے میں رکاوٹ آسکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چینی ٹیلی کام کمپنیاں اگر ہواوے اور زیڈ ٹی اے سے خریداری نہیں کرسکتیں تو وہ کیا صرف نوکیا اور ایرکسن استعمال کریں گی؟ میرا خیال ایسا نہیں ہے،کیونکہ 5 جی ٹیکنالوجی کیلئے ایک وجہ ملکی سپلائی چین کو فروغ دینا ہے۔

تاہم یورپی کمپنیاں مزید کاروبار حاصل کرنے کیلئے ابھی بھی پرامید ہیں۔یورپی تاجروں کی سوچ سے واقف ایک ایگزیکٹو نے کہا کہ چین میں غیر ملکی کھلاڑیوں کا 4 جی مارکیٹ میں حصہ دنیا بھر کے مقابلے میں کافی کم ہے۔اس صنعت میں تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیوں ہے۔

چین میں مجموعی طور پر ٹیلی کام انفرااسٹرکچر کا بنیادی حصہ 1 1سے 15 فیصد کے درمیان بدلتا رہتا ہے، جو ان کے عالمی حصے کے مقابلے میں کافی کم ہے۔یہ ملک میں قومی چیمپیئن کی حمایت کی طویل کوششوں کی جزوی عکاسی کرتا ہے۔

تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ہواوے پر انحصار چینی ٹیلی کام کیریئرز کے لیے شاید اچھا ہونا ضروری نہ ہو،کیونکہ اگر ہواوے 5جی فراہم کرنے کے سے قاصر رہتا ہے تو یہ ان کے لیے پریشان کن ہوسکتا ہے۔

ہانگ کانگ کے شعبہ ٹیلی کام کے ایک تجزیہ کار نے کہا کہ ہواوے پر پابندی کے بعد، اس کے مقابلے میں نیٹ ورک کی منصوبہ بندی کرنے کا معاملہ سامنے آئے گا تو آپریٹرز شاید محتاط ہوجائیں گے ۔

تجزیہ کاروں نے مزید کہا کہ چینی ٹیلی کام ریگولیٹر ایم آئی آئی ٹی(وزارت برائے صنعت و اطلاعات ٹیکنالوجی) نےان کیریئرز کو چھوڑ دیا جو لائسنس دینے کے بعدتجارتی پیمانے کی وضاحت نہ کرسکے اور 5 جی کی مخالفت یا مشکلات کے باوجود کوششیں جاری رکھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

دو بڑے موبائل کیریئر چائنا موبائل اور چائنا یونی کورن نے وثوق سے کہا کہ ان کے پاس سال کے آخر تک 40 شہروں میں کچھ سطح پر 5 جی سروس دستیاب ہوگی، تاہم اخراجات اور آغاز کی رفتار شاید اتنی تیز نہیں جتنی توقع کی جارہی تھی۔

سگنل براڈکاسٹنگ بیس اسٹیشنز جن کی انہوں نے منصوبہ بندی کی تھی، مجموعی طور پر کم ہے، تین ریاستوں کے تمام کیریئر ز نے اس سال تقریبا ایک لاکھ اسٹیشنوں کو نصب کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور امریکی محکمہ دفاع نے اندازہ لگایا ہے کہ چین کے پاس اس وقت تقریبا ساڑھے تین لاکھ قابل استعمال 5 جی بیس اسٹیشنز ہیں۔

جے پی مورگن کے اندازے کے مطابق 4 جی نیٹ ورک کی تعمیرکے دوران سالانہ 150 ارب رینمنیبی ( 8.21 ارب ڈالر) سے 190 ارب رینمینبی( 6.27 ارب ڈالر) کے درمیان سرمایہ خرچ کرکے سے ہر سال دس لاکھ اسٹیشنز کیریئرز کی تنصیب کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔

ٹیلی کام کیریئرز نے 4 جی شروع کرنے پر جتنا خرچ کیا اس کے مقابلے میں 5 جی پر کم خرچ کرنے کی توقع ہے۔

مارکیٹ ریسرچ فرم آئی ڈی سی نے خاکہ پیش کیا کہ چینی کیریئرز کی 5 جی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اس سال 30 ارب سے 40 ارب رینمینبی ، 2020 میں 100 ارب رینمینبی اور 2021 میں 150 ارب رینمینبی تک پہنچ جائے گی۔

آئی ڈی سی مارکیٹ ریسرچ فرم میں ٹیکنالوجی کے شعبہ کے تجزیہ کار سوئی کائی نے کہا کہ ہمارے خیال میں 4 جی کے مقابلے میں 5 جی نیٹ ورک کی ترقی کی رفتار کافی سست ہوگی، یہ فوری اوپر جانے کی بجائے نیچے جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جغرافیائی مسائل کے علاوہ 5 جی کے لیے سب سے بڑا چیلنج منافع کیلئے واضح منصوبہ بندی کی کمی ہے۔کیریئرز اس وقت کافی محتاط پوزیشن میں ہیں اور 5 جی نیٹ ورک کی تجارتی قدر کا پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔

چائنا موبائل نے گزشتہ سال اس کی آپریٹنگ آمدنی میں کمی دیکھی جبکہ ایکویٹی کے شیئر ہولڈر کیلئے مختصt8.117 ارب رینمینبی پر 3 فیصد اضافہ ہوا جیسا کہ حکومت کی صارفین کے لیے ڈیٹا کی قیمت میں کمی کی پالیسی نے ان کی آمدنی پر دباؤ میں مزید اضافہ کیا۔

تاہم 5 جی پر واپسی کے لیئے واضح راستے کی عدم موجودگی چین کیلئے رکاوٹ نہیں ہے۔

ایک تجربہ کار ٹیلی کام کنسلٹنٹ سے جب پوچھا گیا کہ 5 جی کیلئے کاروباری صورتحال کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔

وہ لوگ جنہیں 5 جی کے نرخ بڑھنے کی توقع ہے،ان کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں سڑکوں پر،ہمارے گھروں میں اور کارخانوں میں اربوں کی تعداد میں منسلک ڈیوائسز تیز تر نیٹ ورک کیلئے طلب پیدا کریں گی اور اس طرح کیریئرز کے لیے بڑی آمدنی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ تاہم شاید کیریئرز پانچ سال بعدا پنی بڑی سرمایہ کاری پر منافع حاصل کرنا شروع کرسکیں۔

سٹی بینک کے تجزیہ کار بن لیو نے کہا کہ ایک ممکنہ حل 4.5 لیول ہوگا جو 4 جی کے مقابلے میں تیز رفتار نیٹ ورک ہو اور 5 جی کے مقابلے میں اسے جلدی شروع کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چائنا سپلائی چین سے میرا فیڈ بیک یہ کہتا ہے کہ اگر ہواوے کی برآمد پر پابندی برقرار رہتی ہے تو چین اپنے ٹیک ارتقاء کے راستے پر نظرثانی کرسکتا ہے۔

تازہ ترین