• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عزیزہ انجم، کراچی

کیکر کے درخت پر چنبیلی کے پھول کبھی نہیں آتےاور نہ ہی ایسا کبھی ہوسکتا ہے،مگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسا ہی ہو۔ ہم بہت مصروف ہیں، گھر سنبھالنے، سجانےسنوارنے، نت نئی ڈشز بنانے، نئے نئے ڈیزائنز کے ملبوسات تیار کرنے میں۔ ہم تھکے جا رہے ہیں، کما کما کر، چیزیں خرید خرید کر، شاپنگ کی غرض سے مارکیٹس کےچکر لگا لگا کے، وقت ہی کب ہے ہمارے پاس۔ہم بہت مصروف ہیں اورتھکن ہمارے لہجوں سے عیاں ہے،جو ہمارے ایک دوسرے سے نہ ملنے کی وجہ بھی ہے۔

’’کیا کروں وقت ہی نہیں ملتا، بچّوں کے امتحان ہیں، صُبح بچّے اسکول جاتے ہیں، دوپہر کو قاری صاحب آجاتے ہیں، شام کوچنگ سینٹر، پڑھائی کا خرچا بھی بڑھ گیا ہے، اسکول اور وین کی فیسزایک طرف ، اسکول میں ہونے والی تقریبات کے خرچے الگ، پھر مختلف پروگرامز اور تقریبات میں جانے کے لیے نت نئے کپڑے، سب کچھ مینج کرنا کتنا مشکل ہے۔‘‘ ایسے ہی بےشمار جملے ہم سب ایک دوسرے سے بول رہے ہوتے ہیں، حالاں کہ سب اِسی دُنیا میں رہتے ہیں اور یہی سب کچھ کررہے ہیں، لیکن کیا کبھی خود سے سوال کیا ہے کہ سب کچھ تو ہو رہا ہے، مگر ہم اپنے معصوم بچّوں کے دِلوں، ذہنوں میں کیا بو رہے ہیں، اُن کو کیا سکھا رہے ہیں، زندگی کیا ہے، صحیح اور غلط کیا ہے، اچھا بُرا کیا ہے؟ کبھی بتایا ہے اُن کو، کبھی نیکی اور بُرائی کی تعریف بیان کی ہے اُن کے سامنے۔ کبھی زندگی کے مقاصد سے تھوڑی سی بھی آگاہی دی ہے۔ بچّوں کے دوست کیسے ہیں، اُن کی مصروفیات کیا ہیں، مشاغل اور دِل چسپیاں کیا ہیں، کبھی جاننے کی کوشش کی ہے؟ جواب یہی آتا ہے کہ زمانے کے رنگ ڈھنگ یہی ہیں۔ اب کیا بچّوں کو بند کر دیں، قید کردیں، سختی کریں، پُرانے دَور میں لے جائیں کہ اُس زمانے کے طریقے اور تھے اب کے اور ہیں۔ عالم تو یہ ہے کہ اگرکسی قریبی عزیز، رشتے دار کی توجّہ اس کے بچّے کے اخلاق یا رویّے کی طرف دلائی جائے، تو پَل بَھر میں اتنی سخت ناراضی جنم لیتی ہے کہ ملنا جُلنا اور بات چیت تک بند۔ کوئی فکر نہیں بچّہ یا بچّی جو ملبوسات پہن رہے ہیں، وہ سترپوشی اور حیا کی حدود میں ہیں بھی یا نہیں۔ نماز پڑھی جاتی ہے، تو رسماً، قرآن خوانیاں رسماً۔اگر دین کے صحیح فہم کی بات کی جائے، تو جواب ہوتا ہے،’’کیا مولوی بنا دیں۔ بس یونہی ٹھیک ہے۔‘‘ موبائل فونز پر رات گئے تک بچّے، بچّیاں باتیں کر رہے ہیں، ماں باپ مطمئن ہیں۔ لڑکے، لڑکیوں کے مخلوط دوستی کے گروپس، ماں باپ کو کوئی تشویش نہیں۔ بیٹا یا بیٹی صنفِ مخالف کے ساتھ منہگے ریستوران وغیرہ میں سال گرہ کا کیک کاٹ رہے ہیں، ماں باپ خوش ہیں کہ ہم ماڈرن ہوگئے اور پھر ایک دِن بم اس صُورت پھٹتا ہے کہ اولاد اپنی پسند سامنے لا رکھتی ہے۔تب والدین کو یک دَم ہی عزّت، خاندان، ذات برادری، مستقبل اور اونچ نیچ جیسی کئی باتیں یاد آنے لگتی ہیں۔ نتیجے میں خودکُشی ہوتی ہے یا عدالتوں میں خفیہ شادیاں۔ پھرلوگوں سے پوچھتے ہیں، اللہ کے حضورروتے ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا،ہم نے کیا کمی رکھی تھی، جو یہ دِن دیکھنا پڑا۔‘‘

آہ!ہم رات دِن کیکر کے درخت لگا رہے ہیں، کانٹے اُگا رہے ہیں، سیم اور تھور کے پودے پروان چڑھارہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان پر پھول چنبیلی ،گلاب کے آئیں ۔توکیا یہ ممکن ہے…؟؟ہرگز نہیں۔بہتر ہوگا کہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کی آب یاری کے لیےانہیں وقت دیں، صحیح، غلط کی تمیز سکھائیں۔دینی، اخلاقی قدروں کی پاس داری کی تلقین کریں۔ باوجود اعتماد اور آزادی دینے کے، ایک لکیر بھی ضرور کھینچیں کہ اس سے آگے نہیں جانا۔یاد رکھیں، آزادی اور حد سے بڑھا ہوا اعتماد بعض اوقات خود بچّوں اوراُن کے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوجاتا ہے۔

تازہ ترین