• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخوا: قبائلی اضلاع میں پہلی بار صوبائی انتخابات

سہیل وڑائچ

ماجد نظامی

وجیہہ اسلم، فیض سیفی

حافظ شیراز قریشی، عبد اللہ لیاقت

باجوڑ ایجنسی

20جولائی کو خیبر پختو انخوا کے ضمنی انتخابات میں باجوڑ ایجنسی سے کل 39امیدواروں کے درمیان 3صوبائی حلقوں میں مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔ باجوڑ ایجنسی کو خیبر پختوا نخوا میں انضمام کے بعد 3صوبائی نشستیں ملیں جبکہ قومی اسمبلی کی دو نشستیں این اے 40باجوڑ ایجنسی 1اور این اے41باجوڑ ایجنسی 2اس میں شامل ہے ۔یہاں کی کل آبادی 10 لاکھ 93 ہزار683 جبکہ 5 لاکھ30ہزار443 ووٹرز ووٹ کاسٹ کریں گے۔باجوڑ ایجنسی کے تینوں صوبائی حلقوں میں سیاسی جماعت قومی وطن پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) نے سیاسی اتحاد کا اعلان کیا ہے۔ پی کے 100 باجوڑ 1 سے صوبائی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر گل افضل کو مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں قو می اسمبلی کے حلقے این اے 40سے وہ حلقے میں چوتھے نمبر پر آئے ۔جمعیت علما ء اسلام (ف) کے امیدوار عبد الرشید بھی 2018ء کے جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 41سے ایم ایم اے کے لپیٹ فارم سے تیسرے نمبر پر رہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حلقے میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کی کامیابی متوقع ہے۔ صوبائی حلقے پی کے101سے رکن قومی اسمبلی گل داد خان کے بھائی اجمل خان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اتریں گے۔ مقامی ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کے امیدوار محمد انیس خان کی پوزیشن بھی حلقے میں مستحکم ہے ااور وہ ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ڈسٹرکٹ باجوڑ کے جنرل سیکرٹری سید احمد جان آزاد حیثیت میں انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں ۔تحریک انصاف نے ایم این اے گل داد خان کے بھائی کو انتخابی ٹکٹ جاری کیا اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر سید احمد جان نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔پی کے 102سے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ظفر گل کے برادر نسبتی حمید الرحمن اہم امیدوار تصور کئے جا رہے ہیں ۔ حمید الرحمن تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اترے ہیں۔اس حلقے میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رحیم داد خان آزاد حیثیت میں جیپ کے نشان پر اپنی پارٹی کے امیدوار حمید الرحمن کے مقابلے میں ہیں۔ آزاد امیدوار خالد خان کی مسلم لیگ ن نے حمایت کا اعلان کیا ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی کے امیدوار سرا ج الدین اور تحریک انصاف کے امیدوار کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔

اورکزئی ایجنسی

اورکزئی ایجنسی قومی اسمبلی کے ایک حلقہ این اے 47 اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقہ پی کے 110پر مشتمل ہے یہاں کی کل آبادی 2لاکھ 54ہزار356افراد پر مشتمل ہے اور ووٹرز کی تعدادایک لاکھ 96ہزار436ہے ۔گزشتہ عام انتخابات میں جواد حسین پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے ۔یہاں کی سیاست باقی ایجنسیز کی طرح نظریاتی کم اور مالی اور شخصی ووٹ بینک رکھتی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں الیکشن کے دنوں میں بڑی تعداد میں امیدوارکاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہیں اور الیکشن کے آخری ہفتے میں زیادہ تر امیدوار مالی فائدہ لیکر کسی بھی بڑے امیدوار کے حق میں دستبرداری کا اعلان کر لیتے ہیں اس بار بھی یہاں سے صوبائی حلقہ پی کے 110اورکزئی سے 24امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد الیکشن کیلئے اہل قرار پائے ۔پی کے 110اورکزئی کی بات کی جائے تو یہاں چار بڑے امیدواروں کے درمیان مقابلہ متوقع ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے جواد حسین کے بھائی شعیب حسن پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے امیدوار ہیں اور سب زیادہ مضبوط امیدوار تصور کئے جارہے ہیں ۔چونکہ ان کا تعلق حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے ہے جس کی وجہ سے مخالفین سرکاری مشینری کے استعمال کے الزامات بھی لگا رہے ہیں ۔2018ء کے عام انتخابات میں جواد حسین نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 47سے 11ہزار 102ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی تھی ۔دوسرے اہم امیدوار سید غازی غزن جمال ہیں جو سابق وفاقی وزیر و ایم این اے غازی گلاب جمال کے صاحبزادے ہیں ۔ان کے داداجنرل (ر)جمال دار بھی وفاقی وزیر رہ چکے ہیں جبکہ ان کے تایا غازی سید جمال بھی رکن قومی اسمبلی رہے ہیں ۔ان کے حق میں جماعت اسلامی اور جے یوآئی ف کے امیدواروں کے علاوہ دس سے زائد امیدوار دستبردار ہوچکے ہیں ۔تیسرے اہم امیدوار سینیٹر اورنگزیب کے بھائی عبدالشاہد ہیں جن کی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہیں۔آزاد امیدوار حبیب نور بھی مقامی سیاست میں مقبول ہیں اور انہیں پی ٹی ایم کی حمایت بھی حاصل ہے۔

مہمند ایجنسی

خیبر پختو انخوا کے ضمنی انتخابات میں مہمند ایجنسی سے کل32امیدوار الیکشن لڑنے کےاہل قرار پائے۔12امیدواروں کو سیاسی جماعتوں نے ٹکٹ جاری کئے جبکہ20امیدوار وں نے بطور آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔مہمند ایجنسی کو خیبر پختوا نخوا میں انضمام کے بعد 2صوبائی نشستیں پی کے 103اور پی کے 104ملیں جبکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست این اے 42 ہے۔قومی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کے ایم این اے ساجد خان براجمان ہیں۔2017ء کی مردم شماری کے مطابق مہمند ایجنسی کی کل آبادی4لاکھ66ہزار984افراد پر مشتمل ہے۔مہمند ایجنسی کی دو صوبائی نشستوں پر 2لاکھ80ہزار502 افراد ووٹ کے استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

صوبائی حلقے پی کے 103سے تحریک انصاف کے رحیم شاہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے گلاب نور اور عوامی نیشنل پارٹی کے نثار احمد کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آئے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے نثار احمد 2018کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر 13ہزار ووٹ لے کر حلقے میں تیسرے نمبر پر آئے تھے۔پی کے 104مہمند ایجنسی 2 سے بھی تین امیدواروں کے درمیان انتخابی معرکہ ہو گا ۔اس حلقے میں تحریک انصاف کے سجاد خان،آزاد امیدوار عباس الرحمان اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے محمد عارف کے درمیان سخت مقابلہ ہو گا۔اس حلقے سے آزاد امیدوار قاری احسان اللہ نے جمعیت علماء پاکستان کے امیدوار محمد سعید کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں۔پی کے 103اور پی کے 104سے سینیٹرہلال الرحما ن کے بھائی عباس الرحمان آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں۔آزاد امیدوار عباس الرحمان کے دوسرے بھائی بلال الرحمان 2018ء کے جنرل الیکشن میںقومی اسمبلی کی نشست پر رنر اپ رہے ۔مقامی ذرائع کے مطابق پی کے 104میں آزاد امیدوار عباس الرحمان مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔اس حلقے کی اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے پہلے انتخابی ٹکٹ پارٹی کے دیرینہ ورکر محمد اسرار اللہ کو جاری کیا بعد میں انتخابی ٹکٹ سجاد مہمند کو جاری کر دیاگیا۔

شمالی وزیرستان

شمالی وزیرستان کا شمار ان اضلاع میں کیا جاتا ہے جہاں پر لوگوں کو دہشت گردی کی لہر میں بڑی جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہاں کے مقامی لوگ دہشت گردی کی وجہ سے ہجرت کرنے پر بھی مجبور ہیں۔دہشت گردی کے باعث یہاں ترقیاتی منصوبے نہ تشکیل دئیے گئے اور نہ ہی یہاں دوبارہ آباد کاری کی گئی ۔حالیہ کچھ سالوں میں پاک فوج کی جانب سے یہاں نہ صرف ترقیاتی کام کروائے گئے بلکہ یہاں دوبارہ آبادکاری بھی کا عمل بھی شروع کیاگیا۔وزیرستان کی کل آبادی 5لاکھ43ہزار254افراد پر مشتمل ہے اور اس کا کل رقبہ 4707مربع کلو میٹر ہے جبکہ کل ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 20 ہزار177 ہے۔ یہ ایجنسی ایک قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 48اور دوصوبائی اسمبلی کی نشستوں پی کے 111اور پی کے 112 پر مشتمل ہے۔ 2018 ء کے عام انتخابات میں شمالی وزیرستان کی واحد قومی اسمبلی کی نشست این اے 48 سے محسن داوڑآزاد حیثیت سے رکن قومی اسمبلی بنے۔شمالی وزیرستان میں کچھ حد تک شخصی بنیاد پرووٹنگ کا رحجان پایا جاتا ہے، مگر شمالی وزیر ستان میں عوام کا سیاسی رجحان جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ، پی ٹی ایم اور تحریک انصاف سے وابستہ ہے۔یہاں کے زیادہ تر آبادی کا دارومدار کھیتی باڑی ہے جس کے باعث یہاں پسماندگی بھی ہے۔یہاں پر دو قومیں وزیر اور داوڑ قبائل آباد ہیں اور مسلک کے اعتبار سے سنی اور دیوبندی اکثریت میں ہیں ۔

صوبائی حلقہ پی کے 111میں مسلم لیگ ن کے سابق رکن قومی اسمبلی نذیر خان، تحریک انصاف کے محمد اقبال خان ،جمعیت علماء اسلام( ف) سے سمیع الدین، جبکہ آزاد امیدوار جمال ناصر کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے جبکہ پی کے112میں پشتون تحفظ مومنٹ کے حمایت یافتہ امیدوار میر کلام اور تحریک انصاف کے امیدوار اورنگزیب کے درمیان مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق یہاں کے مقامی لوگوں میں داوڑ اور وزیر قبیلے کیلئے سیاسی ہمدردی موجود ہے البتہ تحریک انصاف کے امیدوار کی پوزیشن بھی مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔

 خیبر ایجنسی

خیبر ایجنسی قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 43 ، این اے 44اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پی کے 105،106،107 پر مشتمل ہے۔یہاں کی کل آبادی 9لاکھ 86ہزار973 اور ووٹرز کی کل تعداد5لاکھ 32ہزار87 ہے ۔این اے 43 سے نورالحق قادری تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے جبکہ این اے 44 سے محمد اقبال خان بھی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے ۔پی کے 105 میں چار اہم امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔سابق ایم این اے شاہ جی گل آفریدی کے بھانجے شفیق آفریدی کا پہلا الیکشن ہے۔ شاہ جی گل آفریدی 2013ء میں یہاں سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے تھے۔آزادامیدوارشیر مت خان بھی کامیابی کی دوڑ میں شامل ہیں۔وہ 2018ء کے الیکشن میں 10ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے ۔ اسی طرح آزاد مضبوط امیدوارسرمد خان خان کو نورالحق قادری پس پردہ حمایت بھی کررہے ہیں اور تحریک انصاف کے سپورٹرز نے تحفظات کااظہار بھی کیا تھا ۔ایک اور مضبوط آزادامیدوارملک دریاخان زخہ خیل بھی میدان میں ہیں جو 2013ء اور 2007ء میں بھی الیکشن لڑ چکے ہیں ۔2013ء میں وہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار تھے ۔خیبر ایجنسی کے دوسرے حلقہ پی کے 106خیبر 2میں تین اہم امیدواروں کے درمیان کانٹے کامقابلہ متوقع ہے ۔ سابق ایم این اے حاجی شاہ جی گل آفریدی کے صاحبزادے بلاول آفریدی مضبوط امیدوار تصور کئے جارہے ہیں اوروہ آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں ۔دوسرے اہم امیدوار امیر محمد خان آفریدی تحریک انصاف کی ٹکٹ سے امیدوار ہیں ۔مقامی مالی طور پر مستحکم شخصیت ظاہر شاہ کے صاحبزادے ہیں ۔آزاد امیدوارخان شید آفریدی ہیں۔2013ء میں وہ تحریک انصاف کی ٹکٹ سے الیکشن کا حصہ تھے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ تیسرے حلقہ پی کے 107 میں سابق وفاقی وزیر و سینیٹر حمید جان آفریدی بھی یہاں سے امیدوار ہیں۔حمید اللہ جان 2003ء میں سینیٹر اور 2008ء میںایم این اے اور وفاقی وزیر ماحولیات رہے۔2018ء میں وہ آزاد حیثیت سے میدان میں تھے مگرکامیاب نہیں ہوسکے۔دوسرے اہم امیدوار زبیر آفریدی تحریک انصاف کے ٹکٹ سے الیکشن کا حصہ ہیں اور مقامی تاجر اور مالی طور پر مستحکم امیدوار ہیں۔پہلی بار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔تیسرے اہم مضبوط امیدوار محمد شفیق آفریدی آزاد امیدوار ہیں ۔

 جنوبی وزیرستان

قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان بھی ان اضلاع میں سے ہے جہاں دہشت گردی کے اثرات سب سے زیادہ دیکھنے میں آئے ہیں۔صوبائی اسمبلی کے دوحلقوں پر الیکشن ہورہاہے۔پی کے 113 پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدوار مولانا اعصام الدین ،تحریک انصاف کے افسر خان ، آزاد امیدوار عارف زمان برکی اور بریگیڈئیر ریٹائرڈ قیوم شیر محسود مضبوط ترین امیدوار ہیں۔ جمعیت کا مذہبی ووٹ بینک موجود ہے۔جمعیت کے امیدوار مولانا اعصام الدین سابق ایم این اے مولانا معراج الدین کے فرزند ہیں جنہیں کئی سال قبل دہشت گردوں نے شہیدکیا تھاجس کے باعث حلقے کی عوام سیاسی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔مقامی ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے افسر خان بھی مضبوط امیدواتصور کئے جارہے ہیں۔تاہم تحریک انصاف کے اہم لیڈر دوست محمد محسود نے آزاد امید وار عارف زمان برکی کی حلقے میں حمایت شروع کی ہے۔ جبکہ برکی قبیلہ کے چیف قبائلی سرداروں نے بھی عارف زمان برکی کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور برکی قوم سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی عارف زمان کی حمایت شروع کردی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی والدہ شوکت خانم کا تعلق بھی پی کے 113 کے علاقہ کانی گرم سے تھاجس وجہ سے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں تحریک انصاف کے ووٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔عارف زمان برکی نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں گے۔ آزاد امیدوارریٹائر بریگیڈ ئیر قیوم شیر محسود سابق سنیٹر گلا ب خان کے بھتیجے ہیں واضح رہے گلاب خان 1985میں سینیٹر بنے لہذا ان کا بھی ووٹ بینک حلقے میں کافی تعداد میں موجود ہے۔ پی کے 114 پر جمعیت علماء اسلام ف کے مولانا محمد صالح مضبوط امید وار ہیں جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار نصیر اللہ وزیر بھی اہم امیدوار ہیں۔ اس حلقے میں عارف خان وزیر بطور آزاد امیدوار انتخابی میدان میں اترے ہیں جبکہ انکو پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم)کی حمایت حاصل ہے ۔عارف خان جنوبی وزیرستان کے اسیر ایم این اے علی وزیر کے کزن ہیں جبکہ اس حلقے میں نوجوانوں کی اکثریت ان کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔

کرم ایجنسی

کرم ایجنسی قومی اسمبلی کے دو حلقوںا ین اے 45 ،این اے46 اور دو صوبائی حلقوں پی کے 108اور 109پر مشتمل ہے۔آبادی 9لاکھ 86ہزار973جبکہ ووٹرز کی کل تعداد3لاکھ 60ہزار741 ہے۔این اے 45 سے منیر خان اورکزئی ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے کامیاب قرار پائے۔ دوسرے حلقہ این اے 46سے ساجد حسین طوری پیپلزپارٹی کی ٹکٹ سے کامیاب ہوئے تھے۔مقامی سیاست میں نظریاتی کم اور مالی طور پر مستحکم امیدواروں کے جیتنے کے امکانات روشن ہیں ۔حلقہ پی کے 108کرم 1میں چار اہم امیدواروں کے در میان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔تحریک انصاف کے ریاض بنگش مضبوط امیدوار تصور کئے جارہے ہیں ۔ان کی پی ٹی آئی کے ساتھ شروع سے ہی وابستگی ہے اور نظریاتی کارکن ہیں جسکی وجہ سے انہیں ٹکٹ دی گئی ہے۔اسی طرح جے یو آئی ف کے محمد ریاض شاہین بھی مضبوط امیدوار ہیں ۔ایک سال پہلے وہ جے یو آئی ف میں شامل ہوئے ۔تیسرے آزاد امیدوار ملک جمیل پاڑہ چمکنی تعلیم یافتہ ہیں اور یہاں کی مالی طور پر مستحکم شخصیت ہیں ۔ آزاد امیدوار فخر زمان 2018ء کے الیکشن میں این اے 45سے تیسرے نمبر پر تھے اس باروہ اس حلقہ سے الیکشن کی دوڑ میں شامل ہیں ۔ایک اور آزاد امیدوار عبدالخالق پٹھان بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے خواہاں تھے مگر ٹکٹ نہ ملنے پر وہ آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں ۔پی کے 109کرم 2میں تحریک انصاف کے سید اقبال میاں سابق سینیٹر خیال سید کے قریبی عزیر ہیں۔سید اقبال میاں 2018ء میں بھی قومی اسمبلی کی نشست این اے 46سے پی ٹی آئی کے امیدوار تھے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔دوسرے اہم امیدوارابرار حسین ہیں آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں ۔2018ء کے عام انتخابات میں بھی وہ آزاد حیثیت سے الیکشن کا حصہ تھے مگر کامیابی نہ مل سکی۔این اے 46سے رکن قومی اسمبلی ساجد حسین طوری کے چچا زاد بھائی کرنل (ر)جاوید اللہ بھی پی پی پی کی ٹکٹ سے امیدوار ہیں۔آزاد امیدوار عنایت علی طوری پارہ چنار میں کونسلر رہ چکے ہیں اور پہلی بار الیکشن لڑرہے ہیں۔آزاد امیدوار عنایت علی طوری پارہ چنار میں کونسلر رہ چکے ہیں اور پہلی بار الیکشن لڑرہے ہیں۔

ایف آر ٹرائبل ایریا

ایف آر ٹرائبل ایریا (فرنٹیئر ریجن)ماضی میں مختلف قبائل کی آباد کاری کیلئے مشہور ہے اور اسے بندوبستی علاقہ بھی کہا جاتا رہا ہے۔ اس میں صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع کے علاقے آتے ہیں جس میں کوہاٹ،بنوں ،ٹانک اور دیگر اضلاع کے کچھ علاقے شامل ہیں ۔خیبر پختوانخوا میں ضم ہونے کے بعد ایف آر ٹرائبل ایریا کو صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پی کے 115فرنٹیئر ریجن دی گئی۔پی کے115صوبائی اسمبلی کی نشست جس پر 20 جولائی کو انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ایف آر ٹرائبل ایریا کی کل آبادی 3 لاکھ 57 ہزار 687 نفوس پر مشتمل ہے ۔یہاں کل1لاکھ91ہزار62 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے جارہے ہیں۔2018ء کے عام انتخابات میں یہاں سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی عبدالشکورہیں جن کا تعلق متحدہ مجلس عمل سے ہے۔موجودہ انتخابات میں کل دس امیدوار میدان میں اترے ہیں جن کا تعلق سیاسی جماعتوں سے کم اور آزاد امیدوار زیادہ میدان میں اترے ہیں ۔یہاں تین بڑے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ کے توقع کی جارہی ہے جن میں سابق رکن صوبائی اسمبلی عوامی نیشنل پارٹی کے غلام قادر ہیں جن کے جتنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔انہیں مقامی آبادی اور قبائل کی حمایت بھی حاصل ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی حاجی گلستان بھی ماضی میں رکن صوبائی اسمبلی رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح دوسرے اہم امیدوار جمعیت علماء اسلام ف کے محمد شعیب آفریدی بھی اہم امیدوار تصور کئے جارہے ہیں جسکی بنیادی وجہ مذہبی ووٹ بینک اور قبائلی روایات ہیں ۔مقامی سطح پر انہیں مذہبی ووٹ بینک اور جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے عابد الرحمن بھی حکومتی اور سیاسی حمایت کیساتھ میدان میں ہیں اور ان کو بھی مضبوط امیدوار تصور کیاجارہا ہے۔ امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع اس لئے بھی کی جارہی ہے کہ صوبہ کے مختلف اضلاع سے ووٹر ان کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے۔دوسری جانب مالی طور پر مستحکم امیدوارالیکشن مہم پر پیسہ لگانے کیساتھ ساتھ ووٹرز کو بھی اپنی جانب مائل کررہے ہیں۔

تازہ ترین