• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صفِ اول کی اداکارہ بننا چاہتی ہوں، شادی کے بعد شوبز چھوڑ دوں گی

امجد اسلام امجد نے کیا خُوب کہا ہے؎ ’’محبّت ایسا دریا ہے… کہ بارش روٹھ بھی جائے…تو پانی کم نہیں ہوتا‘‘ ۔’’روپ نگر‘‘ کی نئی شہزادی، خُوب رُو، ہنس مُکھ اداکارہ رمشا خان کی ساری زندگی بھی محبّت ہی سے عبارت ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’زندگی کی ابتدا محبّت ہے، تو اختتام بھی محبّتیں بانٹتے ہی ہو۔‘‘ رمشا خان نے زمانۂ طالب ِ علمی ہی میں ریڈیو سے وابستگی اختیار کی اور اپنی آواز کا جادو جگایا، پھر ٹی وی کمرشلز اور ڈراموں میں صلاحیتوں کے جوہر دکھانے لگیں۔ جس ڈرامے میں بھی کام کیا، پوری لگن سے کیا اور اپنے ہرکردار کو لاجواب، یادگار بنادیا۔ اپنے پہلے ڈراما سیریل’’وہ اِک پل‘‘ میں حنا کے کردار میں ڈوب کر اداکاری کی۔ رمشا کے دیگر مقبول ڈراموں میں،’’کتنی گرہیں باقی ہیں‘‘،’’تمہاری مریم‘‘،’’ماہِ تمام‘‘،’’خود پرست‘‘اور ’’کیسا ہے نصیبا‘‘ شامل ہیں۔ ان دِنوں وہ جیو ٹی وی کے ایک مزاحیہ ڈراما سیریل، ’’شاہ رُخ کی سالیاں‘‘ میں انوشہ کا کردار ادا کررہی ہیں۔نیز، کئی ٹیلی فلمز میں بھی مختلف نوعیت کے کردار ادا کر چُکی ہیں۔ علاوہ ازیں، فلم انڈسٹری میں بھی ہدایت کار رافع راشدی کی فلم ’’تھوڑا جی لے ‘‘ میں ’’میشا‘‘ کاکردار عُمدگی سے نبھاکر جگہ بنالی ہے۔ سینما اسکرین پر رمشا کے کام کو سراہا گیا تو ہدایت کار احتشام الدین نے اپنی فلم ’’سُپر اسٹار‘‘ میں کاسٹ کرلیا، جو عیدالاضحی پر ریلیز ہونے جارہی ہے۔ ہم نے جنگ ، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے گزشتہ دِنوں رمشا سے کچھ ہلکی پھلکی سی بات چیت کی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

صفِ اول کی اداکارہ بننا چاہتی ہوں، شادی کے بعد شوبز چھوڑدوں گی
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س: خاندان، جائے پیدایش، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:مَیں نے23جون1994ء میں روشنیوں کے شہر،کراچی میں آنکھ کھولی۔والدین میں بچپن ہی میں علیٰحدگی ہوگئی تھی، لیکن الحمدللہ ،امّی نے ہم دونوں بہنوں کی شخصیت میں کوئی خلا نہیں رہنے دیا۔ہماری تعلیم و تربیت پرخاصی کڑی نظر رکھی اورانہوں نے ہمیں جو اعتماد دیا، آج وہی شوبز انڈسٹری میں میری کام یابی کی بنیاد ہے۔میری امّی فضائی میزبان ہیں اور قومی ائیرلائن سے وابستہ ہیں۔ رہی بات میری تعلیم کی، تو یہ مدارج کراچی، لاہور اور دبئی سے طے کیے۔ اسی لیے میری شخصیت میں کراچی اور لاہور کے ثقافتی رنگوں کا عکس بھی نظر آتا ہے۔مَیں نے اے لیول کے بعد گریجویشن کیا ہے، مگر نفسیات میں ماسٹرز کا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔

س: لائق طالبہ تھیں یا …؟

ج: پڑھاکو بالکل نہیں تھی،بس ایک عام سی طالبہ تھی۔

س:بچپن میں شرارتی تھیں یا مزاج میں سنجیدگی کا عُنصر غالب تھا؟

ج: مَیں بہت زیادہ شرارتی تھی اور ہروقت چیختی چلاتی ہی رہتی تھی۔

س:بچپن کی کوئی سکھی، سہیلی جس سے آج بھی دوستی قائم ہے؟

ج: اصل میں میرا بچپن کبھی لاہور، تو کبھی دبئی میں گزرا، پھر ہم مستقل طور پرکراچی آبسے، اس لیے دوستیاں زیادہ پروان نہیں چڑھ سکیں۔

س:آپ کی صُبح کب ہوتی ہے؟

ج:کبھی سویرے ہی گہری نیند سے آنکھ کُھل جاتی ہوں، تو کبھی دوپہر تک اٹھتی ہوں۔ ویسے زیادہ تر دوپہر کا کھانا ہی میرا صُبح کا ناشتا ہوتا ہے۔

س:فن کی دُنیا میں داخلہ کیسے ممکن ہوا؟

ج: یوں سمجھ لیں کہ جب زندگی کا سفر طے کرنے کے لیے وقت کی انگلی تھامی، تو سامنے شوبز کی دُنیا تھی۔مَیں اسکول میں زیرِ تعلیم تھی، تو ریڈیو سے کام کا آغاز کیا، پھر ٹی وی کمرشل کیے۔ اُس کے بعد ڈراموں میں قسمت آزمائی۔اس معاملے میں خود کواس لحاظ سے خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے ابتدا ہی میں ٹی وی اسکرین کے سُپر اسٹارز کے ساتھ کام کا موقع مل گیا۔ ویسے اس فیلڈ میں مجھے کسی نے سپورٹ نہیں کیا، مَیں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے ہی پر آگے بڑھنے کا سفر طے کررہی ہوں۔

س:فیلڈ میں آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج:کسی بھی فیلڈ میں خود کو منوانے کے لیے مشکلات کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں مثبت انداز سے دیکھتے ہیں یا پھر منفی طور پر۔

س:زندگی کی پہلی کمائی کب اور کتنی تھی اور کیا پیسا خرچ کرتے وقت سوچتی ہیں؟

ج: پہلی کمائی ایک تقریب کی میزبانی کے بعد ملنے والا پندرہ ہزار روپے کا چیک تھا۔ پیسا خرچ کرتے وقت مَیں بالکل نہیں سوچتی۔

س:فیلڈ کی وجہ سے ذاتی زندگی متاثر ہوئی؟

ج: بالکل متاثر ہوئی ۔کیوں کہ گھر سے شوٹنگ کے لیے جانا ، پھر واپس آکرنیند پُوری کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی وجہ سے دوست کم ہو گئے اور امّی کے گِلے شکوےبھی بڑھ گئے ہیں۔

س:کسی بھی فیلڈ میں منفردمقام کے حصول کےلیے سب سےضروری کیا ہے؟

ج:اپنا ’’آج‘‘ خُوب محنت اور لگن سے گزارا جائے۔

س: اداکاری خداد اد صلاحیت ہے یا اس کے لیے باقاعدہ طور پر تربیت حاصل کرنی پڑتی ہے؟

ج: میرے خیال میں تو خدادادصلاحیت ہے۔

س:خودکو پانچ سال بعد کہاں دیکھ رہی ہیں؟

ج:صفِ اوّل کی اداکارہ کے روپ میں۔ اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے جو کام مل رہا ہے، کررہی ہوں۔ البتہ، اس دوران شادی ہوگئی، تو پھر یقیناً انڈسٹری سے کنارہ کش ہوجاؤں گی۔

س: فرصت میسّر ہو، تو کیا کرتی ہیں؟

ج: ویڈیو گیمز کھیلتی ہوں یا پھر شاعری کی کوئی کتاب پڑھ لیتی ہوں۔

س:زندگی کا یادگار لمحہ؟

ج: جب پہلی بار محنت کی کمائی کا معاوضہ چیک کی صُورت ملا اور گھر آتے ہی امّی کو دیا۔ جسے بعد میں انہوں نے یہ کہہ کر واپس کردیاکہ’’اس سے تم موبائل فون خریدلو‘‘۔

س:زندگی سے کیا سیکھا، کسی کی احسان مند ہیں؟

ج:زندگی سے سیکھ ہی رہی ہوں کہ سیکھنے کا عمل کبھی رُکتا نہیں ہے۔ ویسے مَیں اپنی امّی کی سب سے زیادہ احسان مند ہوں۔

س:زندگی میں جو چاہا، وہ مل گیا یا کوئی خواہش باقی ہے؟

ج:الحمدللہ، ربِ کائنات سے جو مانگا، اُس نے بڑھ کر ہی عطا کیا۔

س:زندگی کا کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟

ج:میرا بچپن،جب کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔ ہر وقت خوش رہتے تھے۔

س:کبھی کسی سے محبّت، عشق ہوا؟

ج:ہاں۔ بھلا عشق مُشک بھی چھپائے چُھپتے ہیں۔فی الحال تو اس تجربے سے کام یابی سے گزر رہی ہوں۔

س:کام یاب زند گی کا سُنہرا اصول کیا ہے؟

ج: یہی کہ ہرحال میں خوش رہا جائے۔

س:زندگی میں کسی اور مُلک جابسنے کا موقع ملے، تو کہاں رہنا پسند کریں گی؟

ج: ویسے تو مَیں کئی مُمالک گھوم چُکی ہوں، لیکن پاکستان کے علاوہ کسی اور مُلک میں سکونت اختیار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کہ جوسُکون اپنے دیس میںہے، وہ پردیس میں کہاں۔

س:کھانا پکانےکا شوق ہے، کون سی ڈشز اچھی لگتی ہیں؟

ج: پہلےکھانا پکانےکا شوق نہیں تھا، لیکن اب گھرداری کی طرف توجّہ دینے لگی ہوں۔ فرائی دال ماش مزےدار بنالیتی ہوں۔ ویسے خود کھانے پینے کی زیادہ شوقین نہیں ہوں۔

س: کتب / شاعری سے شغف ہے؟ کس مصنّف یا شاعر کو پڑھنا اچھا لگتا ہے؟

ج: شاعری شوق سے پڑھتی ہوں۔ جون ایلیا کا کلام بہت اچھا لگتا ہےکہ ان کا انداز سب سےجدا ہے۔ وہ اپنے محبوب سے براہِ راست گفتگو کرتے ہیں،دیگر شعراء کی طرح پھولوں، بادلوں اور ہوائوں کی باتیں نہیں کرتے۔جیسے ان کا ایک قطعہ ہے؎’’شرم ،دہشت، جھجک، پریشانی …ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں …آپ ،وہ، جی مگر یہ سب کیا ہے …تم مِرا نام کیوں نہیں لیتیں‘‘۔

س:کون سی چیز ہے، جو دُنیا میں بدل دینے کی خواہش ہے؟

ج: میری خواہش ہے کہ اس دُنیا میں جو ایک دوسرے پر ظلم ڈھایا جاتا ہے، خاص طور پر جس ظالمانہ طریقے سے معصوم بچّوں کی جان لی جاتی ہیں، اس کا خاتمہ کردوں ۔

س: دورانِ گفتگو جذباتی ہوجاتی ہیں، جب کوئی…؟

ج: پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے حوالے سے بات کرے کہ دونوں سے متعلق کسی کی بھی منفی گفتگو نہیں سُن سکتی۔

س:کس بات پر غصّہ آتا ہےاور ردِّعمل کیا ہوتا ہے؟

ج:جب کوئی جھوٹ بولے، تو شدید غصّہ آتا ہے اور ردِّعمل میں عموماً رو پڑتی ہوں۔

س:فیصلے دُرست کرتی ہیں،دِل کی سُنتی ہیں یا دماغ کی؟

ج: ہر پہلو پر خُوب سوچ بچار کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرتی ہوں، لیکن اگر نتیجہ اچھا نہ آئے، تو مایوس نہیں ہوتی۔ ویسے میرا خیال ہے مَیں نے ہمیشہ دِل ہی کی سُنی ہے۔

س:شہرت نے آپ کی شخصیت پر کیا اثرات مرتّب کیے؟

ج:مَیں پہلے بھی رمشا تھی، آج بھی رمشا ہوں۔ شہرت کو کبھی خود پر طاری نہیں ہونے دیا۔

س:اپنی کوئی عادت جو خود بھی پسند ہو؟

ج:اپنی ذات پر بھروسا کرنا اچھا لگتا ہے۔

س: محبّت، دولت اور شہرت میں سے آپ کا انتخاب؟

ج:محبّت ایک خُوب صُورت احساس ہے، جو زندگی مکمل کر دیتا ہے۔ اسی لیے میرا پہلا انتخاب محبّت اور شاید آخری بھی یہی ہے۔

س:انسان قسمت بناتا ہے یا قسمت انسان کو بناتی ہے؟

ج:میرا خیال ہے کہ قسمت کی دیوی جس پر مہربان ہوجائے، اُسے بامِ شہرت تک لے جاتی ہے۔

صفِ اول کی اداکارہ بننا چاہتی ہوں، شادی کے بعد شوبز چھوڑ دوں گی
ڈراما ’’شاہ رُخ کی سالیاں‘‘ میں احسن خان کے ساتھ

س:ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے؟

ج:جی بالکل، اگر کوئی ٹھان لے کہ یہ کام ہر حال میں کرنا ہی کرنا ہے، تو پھر کچھ بھی ناممکن نہیں ۔

س:خوشیاں کرنسی سے ملتیں ،تو کیا چیز خریدتیں؟

ج:مَیں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ خوشیاں اہلِ خانہ اور دیگر خُوب صُورت رشتوں کی پرخُلوص محبّت سے ملتی ہیں۔

س:اسٹائل وقت کے ساتھ بدلتی ہیں یا اپنی پسند سے؟

ج:مَیں اپنے منفرد اسٹائل کے ساتھ ہی شوبز انڈسٹری میں کام کر رہی ہوں۔

س:پریشانی سے نکلنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟

ج:اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتی ہوں کہ صرف وہی تو مشکل کُشا ہے۔

س:زندگی کا کوئی ایسا لمحہ، جب لگا ہو کہ شدّتِ غم سے دِل پھٹ جائے گا؟

ج:جب والدین کے درمیان طلاق ہوئی تھی،تب ایک لمحے کے لیے لگا کہ دِل پھٹ جائے گا۔ وہ دَور میری زندگی کاسخت ترین دَور تھا۔

س:پریشانی کے عالم میں کس کے کاندھے پر سَر رکھ کر رونے کو جی چاہتا ہے؟

ج: اپنی ہم راز سہیلی ،سبرینا کے کاندھے پر ۔

س:تنقید کی کس تک قائل ہیں، کوئی آپ پر تنقید کرے تو کیسا لگتا ہے؟

ج:تنقید برائے اصلاح کی قائل ہوں، بلاوجہ تنقید پریشان کر دیتی ہے۔

س:بچپن کا کوئی ایسا واقعہ ،جو بھلائے نہ بھولتا ہو؟

ج:ایسے تو بے شمار واقعات ہیں، لیکن ایک بار ہم نےایک کُتیا کو چھیڑ دیا تھا، جس کےساتھ اُس کے بچّے بھی تھے،تو وہ بُری طرح بھونکنے لگی اور مَیں خوف کے مارے اپنی بہن کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ گئی ۔

س:اگر کسی بچّے کو نصیحت کرنی ہو تو…؟

ج:یہی کہتی ہوں کہ ہمیشہ والدین اور مُلک کی عزت کا خیال رکھنا۔

س:خود کو کس عُمر کا تصوّر کرتی ہیں؟

ج:مَیں25برس کی ہوں اورخود کو اِسی عُمر کا تصور کرتی ہوں۔

س:سال گرہ دھوم دھام سے مناتی ہیں یا …؟

ج: دوستوں کے کہنے پرمجبوراً منالیتی ہوں،جیسے ابھی پچھلے ہی دِنوں کراچی میں سال گرہ کا کیک کاٹا تھا۔

س:کبھی کسی خوف نے حقیقت کا روپ دھارا؟

ج:کئی بار ایسا ہوا ہے، لیکن مَیں کسی سے شیئر نہیں کرتی۔

س:آخری بار دِل کی دھڑکن کب سُنی تھی؟

ج: ابھی کل ہی تو سُنی ہے۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے، چیک کیا، تو دِل کی دھڑکن واضح طور پر سُنائی دی ۔

س:اگر موبائل فون کو زندگی سے نکال دیا جائے تو…؟

ج: سچ میں زندگی پُرسکون ہوجائے گی۔

س:کون سا کام کرنے کو بہت دِل چاہتا ہے اور کون سا نہیں؟

ج: اداکاری میرا جنون ہے، بار بار کرنا چاہتی ہوں۔البتہ کسی سے نفرت نہیں کر سکتی، کیوں کہ مجھے تو لوگوں سے محبّت کرنے ہی سے فرصت نہیں ملتی۔

س:موسیقی کا شوق کس حد تک ہے اور کس گلوکار یا گلوکارہ کی آواز پسند ہے؟

ج:شوقیہ گالیتی ہوں، لیکن باقاعدہ گانے کا کوئی شوق نہیں ۔استاد نصرت فتح علی خان کی آواز پسند ہے۔

س: کس عُمر میں پہلی بار سینما میں فلم دیکھی تھی؟

ج: پانچ یا چھے برس کی تھی، جب دبئی کے ایک سینما میں بھارتی فلم ’’دِل سے‘‘ دیکھی۔

س:ای میلز چیک کرتی ہیں؟

ج: اگر کوئی آن لائن آرڈر کیا ہو، تو تب میل چیک کرلیتی ہوں۔ ویسے سوشل میڈیا پر اِن رہتی ہوں۔

س:گھر سے نکلتے ہوئے کون سی تین چیزیں آپ کے ساتھ لازماًہوتی ہیں؟

ج:ماں کی دُعا، موبائل فون اور پرس۔

س:شاپنگ کس کے ساتھ کرنا پسند ہے، خریداری میں بھائو تائو کرتی ہیں؟

ج:اپنی بہن کے ساتھ شاپنگ کرتی ہوں اور مَیں تو نہیں، البتہ وہ بھائو تائو کرلیتی ہے ۔

س:کبھی پیڑول پمپ پر گاڑیوں کی لمبی قطار میں لگ کر باری آنے کا انتظار کیا ؟

ج:جی ،صرف ایک بار ہی ایسا ہوا تھا کہ مجھے لمبی قطار میں لگ کرباری کا انتظار کرنا پڑا۔

س:فن کاروں کا حلقۂ احباب وسیع ، مگر قریبی دوستوں کی تعدادذرا کم ہی ہوتی ہے، آپ کے کتنے قریبی دوست ہیں ؟

ج: دو تین ہی قریبی دوست ہیں اور اُن میں مجھے سبرینا کی دوستی پر فخر ہے۔

س:زندہ رہنے اور جینے میں کیا فرق ہے؟

ج:سانسوں کی آمد و رفت زندہ ہونے کا پتا دیتی ہے، لیکن جینے کے لیے تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔

س:ذہین لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے یا پُر مزاح؟

ج: دانش وَروں کی محفل میں بیٹھنا اچھا لگتا ہے کہ ان کی رفاقت میں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔

س:عورت نرم دِل ہوتی ہے یا مَرد؟

ج: دونوں ہی نرم دِل ہوسکتے ہیں۔ہاں البتہ عورت زیادہ انا پرست ہوتی ہے۔

س:کہتے ہیں،’’ ہرکام یاب فردکے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘کیا آپ اس سے اتفاق کرتی ہیں؟

ج:جی بالکل کہ میری کام یابیوں کے پیچھے میری پیاری ماں کا ہاتھ ہے۔

س:موجودہ حکومت کے بارے میں کیا کہیں گی؟

ج: باگ ڈور صحیح ہاتھوں میں ہے۔

س:کب خوش ہوتی ہیں؟

ج:جب کوئی ڈراما سُپرہٹ ہوجائے۔

س:آپ کی نظر میںٹی وی اسکرین کے وہ کون سے تین اداکار، اداکارائیں ہیں، جنہوں نے فلموں میںبھی خُوب نام کمایا؟

ج: اداکاراؤں میں مہوش حیات، ماہرہ خان اورعروہ حسین ،جب کہ اداکاروں میں فہد مصطفیٰ، ہمایوں سعید اور فوّاد خان۔

س:اگربالی وُڈ کی فلم میں کام کی آفر آئے تو…؟

ج:فی الحال تو کوئی ارادہ نہیں ہے۔

س:ڈراموں میں کس طرح کے کردار ادا کرنا اچھا لگتا ہے؟

ج: سنجیدہ کردار ادا کرنا زیادہ پسند ہے۔

س:اپنی شخصیت کو ایک جملے میں بیان کریں؟

ج: مَیں ایک بھولی بھالی سی لڑکی ہوں،کیوں کہ میرے بارے میں سب یہی کہتے ہیں کہ مجھے آرام سے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔

س:ایک دُعا، جو ہمیشہ آپ کے لبوں پر رہتی ہے؟

ج:یا اللہ! سب کی بیٹیوں کی حفاظت فرما۔

تازہ ترین