• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طوبیٰ کریم کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ اُنھوں نے گزشتہ برس مقامی انسٹی ٹیوٹ سے ایم بی اے کیا اور پھر ملازمت کی تلاش میں سرگرداں ہو گئیں۔ کئی اداروں میں سی وی دیا اور جاننے والوں سے بھی اِدھر اُدھر کہلوایا، مگر کئی ماہ کی کوشش کے باوجود کہیں بھی ملازمت نہ مل سکی۔ پھر ایک روز ایک معروف ملٹی نیشنل کمپنی کا’’ ضرورت ہے‘‘ کا اشتہار نظر سے گزرا، تو درخواست دے ڈالی اور خوش قسمتی سے ملازمت بھی مل گئی، مگر اب ایک نئی پریشانی اُن کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ کمپنی کی جانب سے بتایا گیا کہ حیدرآباد ریجنل آفس میں تو گنجائش نہیں، اِس لیے اُنھیں جاب کراچی جا کر کرنی ہوگی۔ چوں کی ملازمت اچھی اور کئی ماہ کی کوششوں کے بعد ملی تھی، اِس لیے وہ اس موقعے کو گنوانا نہیں چاہتی تھیں، سو، جیسے تیسے ملازمت کا آغاز کردیا۔ حیدرآباد سے کراچی آکر ملازمت کرنا کوئی آسان نہیں تھا کہ یہاں اُن کا کوئی عزیز رشتے دار تھا، نہ ہی کمپنی کی جانب سے رہائش کا کوئی انتظام۔ اُنھوں نے دُور پرے کے جاننے والوں کے گھر ڈیڑھ ماہ گزار لیا، مگر کسی کے گھر آخر کب تک ڈیرے ڈالے جا سکتے ہیں، اس لیے اب وہ ایسی رہائش کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں، جہاں تحفّظ کے ساتھ رہ سکیں۔ تاہم، ابھی تک اُن کی کوششیں بار آور نہیں ہو سکیں کہ میٹرو پولیٹن شہر میں ملازمت پیشہ خواتین کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ایسا ہاسٹل نہیں، جہاں وہ سکون و اطمینان سے رہ سکیں، جب کہ نجی ہاسٹلز کی اپنی ہی کہانیاں ہیں۔

ادارہ شماریات کی جانب سے 2017ءکی مردم شماری کی بنیاد پر جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا 51 فی صد خواتین پر مشتمل ہے، جن کی ایک قابلِ ذکر تعداد مختلف ملازمتوں سے وابستہ ہے، جب کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خواتین میں ملازمت کے رُجحان میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق، پاکستان کی لیبر مارکیٹ میں خواتین کا حصّہ 24 فی صد تک پہنچ چُکا ہے۔ اِن ملازمت پیشہ خواتین میں سے بیش تر تو اپنے علاقوں ہی میں معاشی سرگرمیاں سرانجام دیتی ہیں، مگر بہت سی ایسی بھی ہیں، جنھیں مقامی طور پر جاب نہیں مل پاتی اور پھر اُنھیں قریبی یا بڑے شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے، جہاں اُن کے لیے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ مناسب رہائش ہی کا ہوتا ہے، ایک ایسی رہائش، جہاں اُنھیں تحفّظ کے ساتھ بنیادی سہولتیں بھی حاصل ہوں۔ اسی طرح بعض اوقات خواتین ملازمین کا ہوم ٹاؤن سے دُور دراز علاقوں میں تبادلہ کردیا جاتا ہے، جہاں سے اُن کے لیے آوٹ بیک کرنا ممکن نہیں ہوتا اور ادارے کی جانب سے تبادلہ کرکے یہ پوچھا بھی نہیں جاتا کہ یہ خواتین روزانہ اتنا طویل سفر کیسے طے کریں گی اور اگر ملازمت کے نئے مقام پر اُنھیں رہنا پڑا، تو کہاں رہیں گی؟؟نیز، جو لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کے لیے شہروں کا رُخ کرتی ہیں، اُنھیں بھی سب سے پہلے مناسب رہائش ہی کی تلاش ہوتی ہے، جیسے آج کل یسریٰ کو ہے۔ سکھر سے تعلق رکھنے والی یسریٰ اپنے شوق اور والدین کی خواہش پر قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کراچی منتقل ہوئی ہیں، مگر مناسب رہائش کی تلاش اُن کے لیے مسلسل دردِ سر بنی ہوئی ہے۔

سائباں…پر کہاں…!!

خواتین کی پہلی کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ اُنھیں کسی سرکاری ہاسٹل میں ٹھکانہ مل جائے، کیوں کہ وہاں کے چارجز عموماً کم ہوتے ہیں، مگر اس کوشش میں اُنھیں دو بنیادی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تو یہ کہ بہت کم سرکاری ادارے اپنی خواتین ملازمین کو ہاسٹل کی سہولت فراہم کرتے ہیں، تو خواتین ملازمین کو سرکاری ہاسٹلز کی تلاش میں جوتیاں ہی گھسانی پڑتی ہیں اور اگر خوش قسمتی سے کوئی ہاسٹل مل جائے، تو’’ ہاؤس فُل‘‘ ملتا ہے۔دوسری بات یہ کہ بیش تر سرکاری ہاسٹلز اس قابل نہیں کہ وہاں آرام وسکون سے رہا جا سکے۔ عمارتیں کھنڈر نُما ہیں، تو بنیادی سہولتیں بھی ناپید ہیں، پھر وہاں کے نظم و نسق پر بھی انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں، جس کے سبب خواتین ان ہاسٹلز میں جاتے ہوئے خوف زدہ سی رہتی ہیں۔ اس صورتِ حال سے تنگ آکر وہ نجی ہاسٹلز کا رُخ کرتی ہیں، مگر وہاں رہنا بھی ہر ایک کے بس میں نہیں۔ اس کا ایک سبب تو نجی ہاسٹلز کا کرائے کے علاوہ مختلف چارجز کے نام پر پیسا اینٹھنا، دوسری اہم بات یہ کہ بیش تر نجی ہاسٹلز کی ساکھ بھی انتہائی خراب ہے، جس کی وجہ سے ملازمت پیشہ خواتین یا طالبات وہاں رہنے کا رسک نہیں لیتیں۔ طالبات کو عام طور پر متعلقہ سرکاری تعلیمی اداروں کی جانب سے تو ہاسٹل کی سہولت مل جاتی ہے، مگر نجی تعلیمی اداروں میں یہ سہولت دست یاب نہیں،تو لامحالہ اُنھیں عزیز رشتے داروں یا پھر نجی گرلز ہاسٹلز سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جہاں کے مالی مسائل تو اپنی جگہ، بسا اوقات وہاں ایک اخلاقی جنگ بھی لڑنا پڑتی ہے۔ پھر چوں کہ بڑے شہروں میں رہنے والوں کے بھی اپنے مسائل ہیں، عموماً گھر تنگ ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی بہت لمبے عرصے تک کسی کی مہمان نوازی نہیں کر سکتے، لہٰذا ملازمت پیشہ خواتین ہوں یا اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑے شہروں کا رُخ کرنے والی طالبات، اُنھیں لامحالہ رہائش کے لیے ہاسٹلز ہی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد، خواتین نجی ہاسٹلز کے رحم وکرم پر

اسلام آباد کو’’ پردیسیوں کا شہر‘‘ کہا جاتا ہے کہ یہاں زیادہ تر افراد ملازمتوں کے سلسلے ہی میں مقیم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عید وغیرہ کے موقعے پر شہر ویران سا ہو جاتا ہے، کیوں کہ لوگ اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہاں مختلف سرکاری اداروں، کمپنیز، این جی اوز اور درجنوں نجی اداروں کے دفاتر قائم ہیں، جن میں ہزاروں افراد ملازمتیں کرتے ہیں اور ان ملازمین کی ایک بڑی تعداد خواتین پر بھی مشتمل ہے، جو اسلام آباد کی رہائشی نہیں، بلکہ محض ملازمت کے لیے وہاں مقیم ہیں۔ کئی ایک سرکاری اداروں نے اپنی ان’’ پردیسی خواتین ملازمین‘‘ کے لیے ہاسٹلز بنا رکھے ہیں، مگر وہ خواتین کی ضروریات کے لحاظ سے ناکافی ہیں، نیز، اُن ہاسٹلز کی بوسیدہ عمارتیں دیکھ کر بہ خُوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہاں سہولتوں کا کیا عالَم ہوگا۔ اس ضمن میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی 12 برس قبل G-7/3 اور G-6/2میں ورکنگ ویمن ہاسٹلز کے لیے زمین الاٹ کی گئی تھی، مگر ایک دہائی سے بھی زاید عرصہ گزرنے کے باوجود وہاں تعمیرات مکمل نہ ہوسکیں۔ اسلام آباد اور راول پنڈی میں خواتین ہاسٹلز کی کس قدر ضرورت یا مانگ ہے؟ اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق، صرف راول پنڈی میں 300 کے لگ بھگ چھوٹے، بڑے نجی گرلز ہاسٹلز ہیں۔ تاہم، اگر آپ ان نجی ہاسٹلز کی ویب سائٹس یا فیس بُک پیجز پر جاکر ان کے پیکیجز پر نظر دوڑائیں، تو حیرت سے اپنا دِل تھام لیں گے کہ اس قدر ہوش رُبا کرائے اور دیگر چارجز کے بعد خواتین ملازمین کے پاس بچے گا کیا اور پڑھنے لکھنے والی طالبات اتنے چارجز کیسے افورڈ کر سکتی ہیں…؟؟

پنجاب …بہتری کا سفر جاری

صوبے کے 36 میں سے 12اضلاع میں ڈائریکٹوریٹ آف ویمن ڈویلپمنٹ کے تحت 16ورکنگ ویمن ہاسٹلز کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے لاہور میں 4، راول پنڈی میں 2 جب کہ بہاول پور، ڈیرہ غازی خان، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، مظفّر گڑھ، رحیم یار خان، ساہیوال، سرگودھا اور وہاڑی میں ایک، ایک ورکنگ ویمن ہاسٹل ہے۔گو کہ ان میں سے کئی ہاسٹلز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، مگر اچھی خبر یہ ہے کہ بزدار حکومت نے 10ورکنگ ویمن ہاسٹلز کی مرمّت اور بحالی کے لیے فنڈز جاری کر دیئے ہیں۔اس ضمن میں سیکرٹری برائے ترقّیٔ خواتین، بشریٰ امان کا کہنا ہے کہ ایک مرحلے وار پروگرام کے تحت صوبے بھر میں ملازمت کرنے والی خواتین کے لیے ہاسٹلز قائم کیے جا رہے ہیں، جہاں معمولی معاوضے کے عوض معیاری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ آشفہ ریاض فتیانہ محکمہ ویمن ڈیویلپمنٹ کی وزیر ہیں، ہم نے اُن سے پنجاب میں خواتین ہاسٹلز کے منصوبے کے حوالے سے بات کی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’ صوبائی حکومت بہت جلد’’ ویمن ہاسٹل اتھارٹی‘‘ قائم کر رہی ہے، جس کی منظوری وزیر اعلیٰ پنجاب، عثمان بزدار نے دے دی ہے۔اس اتھارٹی کے قیام کے بعد پنجاب حکومت نہ صرف سرکاری ہاسٹلز کی تعداد میں اضافہ کرے گی اور وہاں سہولتیں بڑھائے گی، بلکہ نجی ہاسٹلز کی بھی مانیٹرنگ کرے گی تاکہ ملازمت پیشہ خواتین کو سَستی، معیاری اور محفوظ رہائش میّسر آ سکے۔‘‘ لاہور ہائی کورٹ میں بھی اس حوالے سے ایک مقدمہ زیرِ سماعت ہے، جس میں درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ دو ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود صوبے کے چند ہی اضلاع میں ویمن ہاسٹلز قائم کیے گئے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اس مقدمے کے فیصلے سے بھی ملازمت پیشہ خواتین کی مشکلات میں کمی آئے گی۔

خیبر پختون خوا سے بھی اچھی خبریں

ستمبر 2016ء میں پی ٹی آئی حکومت نے پشاور میں ملازمت پیشہ خواتین کے پہلے ہاسٹل کا افتتاح کیا، جس کی تعمیر پر 8 کروڑ 30 لاکھ روپے کی لاگت آئی، اس ہاسٹل میں 120 خواتین کی رہائش کی گنجائش ہے۔خیبر پختون خوا حکومت کے مطابق، صوبے میں اِس وقت ورکنگ ویمن ہاسٹلز کی تعداد 10 ہے، جن سے ایک سو کے لگ بھگ خواتین استفادہ کر رہی ہیں۔ یہ ہاسٹلز کوہاٹ، مانسہرہ، مردان، کوہستان، بنّوں، لکی مروت، ایبٹ آباد، کرک، پشاور، ڈی آئی خان میں قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم مانسہرہ، کوہستان، بنّوں، لکی مروت، کرک اور ڈی آئی خان میں کوئی خاتون مقیم نہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ خیبر پختون خوا میں خواتین کے یوں اکیلے ہاسٹل میں رہنے کو عام طور پر معیوب سمجھا جاتا ہے اور وہاں کی ملازمت پیشہ خواتین ہاسٹلز کی بجائے کوئی مکان کرائے پر لے کر رہنے کو ترجیح دیتی ہیں، جس میں اُن کے ساتھ کوئی فیملی ممبر بھی مقیم رہتا ہے۔اِن دنوں وزیرِ اعلیٰ، محمود خان ہی کے پاس ویمن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا چارج ہے۔

سندھ میں خاموشی

کراچی، سندھ کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ، مُلک کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ یہاں ہزاروں دفاتر ہیں، جن میں خواتین بھی کام کرتی ہیں، جب کہ اندرونِ سندھ اعلیٰ تعلیم کے مواقع کم ہونے کے سبب طالبات بھی بڑی تعداد میں کراچی کا رُخ کرتی ہیں۔ ان طالبات کی پہلی ترجیح اپنے تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز ہوتے ہیں، مگر پھر بھی بہت سی طالبات کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوپاتی، تو وہ دوسرے آپشن کے طور پر سرکاری ہاسٹلز تلاش کرتی ہیں، مگر جب ہاسٹل موجود ہی نہیں، تو ملیں گے کہاں سے۔ یہی کہانی ملازمت پیشہ خواتین کی ہے۔ بعض محکموں کا دعویٰ ہے کہ اُنھوں نے اپنی خواتین ملازمین کے لیے ہاسٹل بنا رکھے ہیں، لیکن وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ کچھ اَتا پتا نہیں۔ یہی حال سندھ کے دیگر بڑے شہروں سکھر اور حیدرآباد وغیرہ کا ہے، وہاں بھی ملازمت پیشہ خواتین کے لیے سرکاری ہاسٹلز ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ اِن دنوں ویمن ڈیویلپمنٹ کی وزرات شہلا رضا صاحبہ کے پاس ہے، مگر اُن کی بھی خواتین ہاسٹلز کے حوالے سے کوئی خاص کارکردگی سامنے نہیں آسکی۔ سرکاری ہاسٹلز نہ ہونے کے سبب کراچی میں نجی ہاسٹلز کی بھرمار ہے، بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اُن کی چاندی ہوگئی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں معیاری ہاسٹلز ہیں، تو ایسے ہاسٹلز کی بھی کمی نہیں، جو فلیٹس یا چھوٹے، چھوٹے مکانات میں قائم ہیں اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس طرح کے غیر رجسٹرڈ ہاسٹلز پر نظر رکھنے کا بھی کوئی نظام متحرک نہیں۔ یہاں کراچی کے دو ہاسٹلز کا ذکر کیا جانا ضروری ہے، جو ایک مدّت سے خواتین کو رہائش کی معیاری سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ ایک تو ایم اے جناح روڈ پر ماما پارسی اسکول کے قریب واقع’’ ینگ ویمن کریسچینز ایسوسی ایشن‘‘( YWCA) کا گرلز ہاسٹل ہے، جو کئی دہائیوں سے خدمات فراہم کر رہا ہے۔ دوسرا بڑا ہاسٹل’’ پاکستان فیڈریشن آف بزنس اینڈ پروفیشنلز ویمن‘‘ کا ہے، جو کلفٹن میں واقع ہے۔

بلوچستان، بہت کام باقی ہے

کوئٹہ میں تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کے علاوہ کئی نجی ہاسٹلز بھی ہیں، جن سے ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات استفادہ کر رہی ہیں، تاہم سرکاری سطح پر اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ ویمن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ ،بلوچستان کا اِس وقت صرف ایک ورکنگ ویمن ہاسٹل کام کر رہا ہے اور آپ حیران ہوں گے کہ وہ کوئٹہ کی بجائے ایک دُور دراز علاقے، صحبت پور میں قائم ہے۔ محکمے کے ذرایع کے مطابق، چوں کہ اُس دَور کی وزیر کا تعلق صحبت پور سے تھا، تو اُنھوں نے وہیں گرلز ہاسٹل بنوا دیا، یہ الگ بات ہے کہ وہاں اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والی کوئی خاتون نہیں۔ تاہم، اب محکمے کی جانب سے کوئٹہ میں خواتین ہاسٹلز کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کے لیے فنڈز بھی مختص کردیے گئے ہیں۔ البتہ، صوبائی دارالحکومت میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور محکمۂ صحت کے چند خواتین ہاسٹل ضرور ہیں، جن میں کئی خواتین نے رہائش بھی اختیار کر رکھی ہے۔ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ایک سیکشن آفیسر کا کہنا تھا کہ’’ ہمارے صوبے میں ابھی خواتین کا گھر سے دُور دیگر شہروں میں جاکر ملازمت کرنے کا رجحان بہت کم ہے اور اگر کوئی ملازمت کے لیے اپنا آبائی علاقہ چھوڑتی ہے، تب بھی وہ ہاسٹل کی بجائے عزیز واقارب کے ساتھ یا کرائے پر مکان لے کر رہتی ہے۔‘‘

کوئی ایک مسئلہ ہو تو …

کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے ایک معروف سرکاری ہاسٹل میں مقیم ملازمت پیشہ خواتین نے انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا، تو کئی لرزہ خیز انکشافات سامنے آئے۔ یہ خواتین، ہاسٹل کی انتظامیہ میں شامل مَردوں کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ اُن کے مطابق، ہاسٹل وارڈن کمروں کی چابیاں اپنے پاس رکھتے ہیں اور کسی روک ٹوک کے بغیر، جب جی چاہے منہ اٹھائے کسی بھی خاتون کے کمرے میں گھس جاتے ہیں۔ یہ امر کس قدر تکلیف دہ ہے، اس کا آپ بہ خُوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اسی طرح سیکوریٹی پر مامور دیگر مَرد اہل کاروں سے بھی اُنھیں بہت سی شکایات تھیں، جو اُنھیں تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہاسٹل سرکاری ہوں یا نجی، خواتین کے لیے سب سے اہم چیز تحفّظ ہے اور وہ کسی بھی ہاسٹل میں بسیرے سے قبل اس پہلو پر سب سے زیادہ توجّہ دیتی ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے، تو بیش تر نجی ہاسٹلز کے معاملات خاصے بے لگام ہیں۔ یہ ایک کُھلا راز ہے کہ بعض افراد ہاسٹلز کے کاروبار کی آڑ میں گھناؤنا کھیل، کھیل رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام میں نجی ہاسٹلز کی ساکھ انتہائی خراب ہے، جس کے سبب خواتین وہاں رہتے ہوئے جھجکتی ہیں۔ پھر یہ کہ نجی ہاسٹلز میں سہولتوں کے پیکیج کے نام پر جو کچھ بتایا جاتا ہے، عموماً معاملہ اُس کے برعکس ہی ہوتا ہے اور جو سہولتیں دی بھی جاتی ہیں، اُن کا معاوضہ آسمانوں کو چُھوتا ہے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ وہ جس ہاسٹل میں مقیم ہیں، وہاں اُن سے صرف گیس کے بِل کی مد میں فی کس 15 سو روپے وصول کیے جاتے ہیں، حالاں کہ اگر ہاسٹل کے گیس بِل کی بنیاد پر رقم لی جائے، تو وہ فی کس پچاس روپے سے بھی کم بنے گی، کیوں کہ اُس ہاسٹل میں درجنوں خواتین مقیم ہیں۔ چوں کہ ہر خاتون کے لیے روز روز رہائش تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا، تو وہ’’ مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مِصداق یہ لُوٹ مار اور انتظامیہ کا توہین آمیز رویّہ برداشت کرتی رہتی ہیں۔ جہاں تک بات سرکاری ہاسٹلز کی ہے، تو اُن میں سے بیش تر تو ایسے ہیں، جن میں صرف وقت ہی گزارا جا سکتا ہے کہ وہاں سہولت نام کی کوئی شئے ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، یہاں تک بنیادی نوعیت کی سہولتیں بھی قسمت والوں ہی کے حصّے میں آتی ہیں۔ عمارتیں بوسیدہ ہیں، تو ایک کمرے میں کئی کئی خواتین بھری ہوتی ہیں۔ نکاسیٔ آب کا نظام درہم برہم ہے، تو پینے کا صاف پانی بھی مشکل ہی سے ملتا ہے۔ شدید گرمی میں بھی ہاتھ والے پنکھے ہی سے کام چلانا پڑتا ہے، کیوں کہ وہاں جنریٹر کا کوئی انتظام نہیں۔ یہی حال سیکوریٹی کا ہے، عموماً کوئی تھکا ہارا’’ محافظ‘‘ گیٹ پر اونگھ رہا ہوتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ ظلم کہ شکایات سُننے والا بھی کوئی نہیں، کس سے فریاد کریں، کس کے سامنے شکوہ کریں…؟؟ اگر خواتین کسی سے شکایت کر ہی بیٹھیں، تو اُنھیں ہاسٹل خالی کرنے کے لیے دھمکایا جاتا ہے۔ چوں کہ شکایات صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوتی ہیں، تو خواتین صبر ہی کا سہارا لیے رکھتی ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کا مؤثر نظام نہ ہونے کے سبب سرکاری ہاسٹلز کی انتظامیہ مزید کاہل اور بددیانت ہوتی جا رہی ہے۔

نجی ہاسٹل مالکان کیا کہتے ہیں؟؟

ہماری اسلام آباد، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور لاہور کے کئی نجی ہاسٹلز کے مالکان اور مینیجرز سے بات چیت ہوئی، جس سے اُن کے کام کے طریقۂ کار کو سمجھنے میں مدد ملی، تو اُن کے شکوے، شکایات بھی سامنے آئے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اس شعبے سے وابستہ بہت سے افراد تمام قانونی معاملات کے ساتھ، اپنی قومی و مذہبی اقدار کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں اور وہ خواتین کو گھر جیسا ماحول فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں گرلز ہاسٹلز کی ایک بڑی چَین کے مالک کا کہنا تھا کہ’’ ہم اپنے ہاں مقیم خواتین کو اپنی بہن، بیٹیوں کی طرح عزّت دیتے ہیں۔ اُن کے تحفّظ کے لیے سیکوریٹی کے بہترین انتظامات کر رکھے ہیں، جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، تو خواتین کے آنے جانے کے اندارج کے لیے بائیو میٹرک سسٹم نصب کیا گیا ہے تاکہ اس حوالے سے مسائل پیدا نہ ہوں۔ نیز، رہائشی پورشن میں مَردوں کی’’ نو اینٹری‘‘ ہے، اگر کوئی کسی خاتون سے ملنے آئے، تو استقبالیے ہی میں ملاقات کی جا سکتی ہے، جہاں وہ کیمروں کے سامنے ہوتی ہیں۔ ان تمام اقدامات کا مقصد خواتین کا تحفّظ ہے اور اس سے ہاسٹلز کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کے تدارک میں بھی مدد ملتی ہے۔‘‘ ایک ہاسٹل کے مینیجر نے شکایت کی کہ’’ پولیس بلاوجہ تنگ کرتی ہے، حالاں کہ ہم اپنے ہاں مقیم تمام خواتین کی کرایہ داری اور ہوٹلنگ قوانین کے تحت تھانے میں اینٹری کرواتے ہیں، مگر اس کے باوجود پولیس والے مختلف حربوں سے تنگ کرتے ہیں، کبھی خواتین کو تھانے آکر معلومات دینے کی ہدایت کی جاتی ہے، جب کہ قانون میں ایسا کچھ نہیں۔ تو کبھی کاغذات کا پیٹ بھرنے کے نام پر عجیب عجیب مطالبات کرتے ہیں۔‘‘ کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر قائم ہاسٹل کے مالک کا کہنا تھا کہ’’ مَیں نے چند فلیٹ لے کر اُنھیں خواتین ہاسٹل میں تبدیل کردیا ہے، مگر عمارت میں مقیم فیملیز اس پر سخت ناراض ہیں اور وہ خواتین کو وہاں سے بے دخل کرنے پر اصرار کر رہی ہیں۔ دراصل، اِس میں اُن کا کوئی قصور نہیں، کیوں کہ ہمارے ہاں خواتین ہاسٹلز کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔‘‘ ’’آپ اتنے زیادہ چارجز کیوں وصول کرتے ہیں؟‘‘ اس سوال پر ایک ہاسٹل مالک کا کہنا تھا کہ’’ اخراجات بھی تو بہت بڑھ گئے ہیں۔ ہم صرف رہائش ہی فراہم نہیں کرتے، بلکہ ہاسٹل کا نظم و نسق درست رکھنے کے لیے اچھی خاصی تعداد میں عملہ بھی رکھنا پڑتا ہے، جو بغیر تن خواہ تو کام نہیں کرتا۔ پھر یہ کہ خواتین فراہم کردہ سہولتوں کا بڑی بے دردی سے استعمال کرتی ہیں، مثلاً ہم نے کمروں میں اے سی کی سہولت دی ہے، مگر خواتین باہر نکلتے ہوئے اُنھیں بند کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتیں، یہی معاملہ بجلی کے دیگر آلات کے ساتھ ہے۔ اسی طرح پانی کے استعمال میں بھی بے حد بے احتیاطی کرتی ہیں، حالاں کہ میٹھا پانی ہم خرید کر اُنھیں فراہم کرتے ہیں، تو اِس طرح ہم پر اخراجات کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، جس کی وجہ سے فیسز بھی بڑھانی پڑتی ہیں۔‘‘

کچھ تجاویز…

٭ خواتین ملازمین کے ہوم ٹاؤن سے دیگر مقامات پر تبادلے سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔٭ خواتین ملازمین کو صرف ہاؤس رینٹ الاؤنس دینا کافی نہیں، بلکہ اداروں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ اُن کے لیے مناسب رہائش کا بھی انتظام کریں۔٭ ایسے تمام سرکاری اور نجی اداروں میں جہاں خواتین دیگر علاقوں سے آکر ملازمت کرتی ہیں، ہاسٹل کا قیام لازمی قرار دیا جائے۔٭ خواتین ہاسٹلز کے قیام کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ کی جائے تاکہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو سکے۔خاص طور پر ہوٹلز اور ریسٹ ہاؤسز کے کاروبار سے وابستہ اچھی ساکھ کی کمپنیز کو اس طرف متوجّہ کیا جانا چاہیے۔٭ نجی ہاسٹلز کے چارجز، سہولتوں اور سیکوریٹی جیسے معاملات کی نگرانی کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹیز بنائی جائیں۔٭ نجی ہاسٹلز کے قیام کے لیے اجازت ناموں کی سختی سے پابندی کروائی جائے تاکہ غیرقانونی ہاسٹلز کا قلع قمع ہو سکے۔٭ فیلٹس اور چھوٹی عمارتوں میں قائم خواتین ہاسٹلز کے معاملات پر بہت گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ عام طور پر ان سے متعلق اخلاقی نوعیت کی شکایات عام ہیں۔٭ پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے ہوسٹلز مالکان کو تنگ کرنے کی شکایات کا سدّ ِ باب ضروری ہے۔ اس معاملے میں سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں۔٭ ملازمت پیشہ خواتین کو کم ازکم سرکاری ہاسٹلز میں تو بچّے بھی ساتھ رکھنے کی سہولت ملنی چاہیے یا پھر متعلقہ ادارے اُن کے بچّوں کے لیے ڈے کیئر سینٹرز قائم کریں۔ اس حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جانا ضروری ہے اور اگر قوانین میں سقم ہیں، تو اُن پر ترجیح بنیادوں پر نظرِ ثانی کی جائے۔

خواتین کو چاہیے اِک سائبان
پنجاب حکومت نے صوبے کے مختلف شہروں میں ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ہاسٹل قائم کیے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے
ملازمت یا استعفا؟ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری خواتین بھی تعلیم اور صلاحیت میں کسی سے کم نہیں، مگر ان کی ایک بڑی تعداد صرف اس وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتی کہ اُنھیں ہوم ٹاؤن کی بجائے کسی اور علاقے میں جا کر ملازمت کرنی پڑتی ہے، جو رہائش کی سہولت نہ ہونے کے سبب ممکن نہیں ہو پاتی۔ یوں اُن کے پاس ملازمت نہ کرنے ہی کا آپشن رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی جگہوں پر خواتین کا آنکھ بند کرکے دوسرے شہروں میں تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ بے چاری خواتین اپنا ٹرانسفر رکوانے کے لیے بھاگ دوڑ کرتی ہیں، جس کے دَوران کئی ایک کو مَرد افسران کی جانب سے ہراساں بھی کیا جاتا ہے، اگر وہ تبادلہ رکوانے میں ناکام رہیں، تو پھر ملازمت چھوڑنے ہی کو ترجیح دیتی ہیں۔ گو کہ خواتین کے ٹرانسفر کے حوالے سے کچھ قوانین موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے اُن کا کم ہی خیال رکھا جاتا ہے۔ اس معاملے میں صرف سرکاری ادارے ہی قصور وار نہیں، نجی اداروں کی جانب سے بھی خواتین ملازمین کے ساتھ اسی طرح کا روّیہ روا رکھا جاتا ہے۔

نجی ہاسٹلز کی مانیٹرنگ کیوں نہیں؟؟

رپورٹ کی تیاری کے دَوران اندازہ ہوا کہ پاکستان میں بھی گرلز ہاسٹل کا کاروبار بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور اس میدان میں کئی بڑے کاروباری ادارے بھی کود پڑے ہیں۔ اس لحاظ سے تو یہ ایک خوش آیند بات ہے کہ گرلز ہاسٹل کے قیام سے ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کو زیادہ بہتر رہائشی سہولتیں حاصل ہو سکیں گی، مگر اِس معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کئی منفی ذہن رکھنے والے بھی اِس کاروبار میں گُھسنے میں کام یاب ہو گئے ہیں، جنھوں نے اِس کاروبار کو آلودہ کردیا ہے۔نجی ہاسٹلز پر کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نظر نہیں آتا، جس کی وجہ سے اُن کی فیسز یا چارجز کسی قانون یا ضابطے کے پابند نہیں۔ جس کا جو دِل کرتا ہے، فیس مقرّر کردیتا ہے۔ پھر یہ کہ ان ہاسٹلز کے خلاف شکایات کا بھی کوئی فورم نہیں، جس سے متاثرہ افراد رجوع کر سکیں اور اُن کی اشک شوئی ہو سکے۔

علاوہ ازیں، بہت سے نجی ہاسٹلز میں، خاص طور پر چھوٹے چھوٹے گھروں یا فلیٹس میں قائم ہاسٹلز میں نظم و ضبط کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے بہت سے اخلاقی اور سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی وزیر، آشفہ ریاض فتیانہ کا کہنا ہے کہ’’ ہاسٹل اتھارٹی کی منظوری کے بعد تمام پرائیویٹ ہاسٹل مالکان کے لیے لائسنس لینا ضروری ہوگا اور اُن کے یک ساں کرایے بھی مقرّر کیے جائیں گے۔‘‘ باقی صوبوں میں بھی اس طرح کے نگران اداروں کے قیام کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس کاروبار کو بھی قانونی اور سماجی ضابطوں کا پابند بنایا جا سکے۔

مائیں ملازمت کریں یا بچّے سنبھالیں…؟؟

بہت سے گھرانوں میں میاں، بیوی دونوں ہی ملازمت پیشہ ہوتے ہیں اور بعض گھروں میں چوں کہ صرف ماں ہی گھر کی سرپرست ہوتی ہے، جیسے بیوہ یا تنہا رہنے والی مطلقہ ، تو اِس صورت میں بچّوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔اِن حالات میں خواتین کو ملازمت چھوڑنا پڑ جاتی ہے اور اگر وہ دِل پر جبر کرکے اور معاشی مشکلات کے پیشِ نظر ملازمت جاری بھی رکھیں، تو اس کے نہ صرف اُن پر، بلکہ اُن کے بچّوں پر بھی انتہائی منفی اور ہول ناک نفسیاتی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔اسی طرح تبادلے کی صُورت میں خواتین کو بچّے بھی اپنے ساتھ لے کر جانے پڑتے ہیںیا جنھیں دوسرے شہروں میں ملازمت ملتی ہے، وہ بھی بچّے ساتھ رکھنے پر مجبور ہیں اور اگر نہ رکھیں، تو اس سے پورا خاندانی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل تو یہی ہے کہ خواتین کو ہاسٹلز کے ساتھ، ڈے کیئر کی سہولت بھی مہیا کر دی جائے ۔اس ضمن میں پنجاب کی وزیر ویمن ڈویلپمنٹ، آشفہ ریاض فتیانہ کا کہنا ہے کہ’’ صوبے میں سرکاری طور پر 85ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے جا چُکے ہیں اور مزید 120ڈے کیئر سینٹرز کے قیام کی منظوری دی جاچُکی ہے۔‘‘اُنہوں نے بتایا کہ’’ آئند ہ مالی سال کے دَوران ڈے کیئر سینٹرز کے نگران کے لیے تربیتی کورسز کا آغاز کیا جائے گا، کیوں کہ آئندہ ان سینٹرز پر تربیت یافتہ نگران ہی تعیّنات ہوں گے۔‘‘ قانون کے مطابق، ہر ادارے میں جہاں ایک مقرّرہ تعداد سے زائد خواتین کام کرتی ہوں، وہاں ڈے کیئر سنٹر کا قیام لازمی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے فعال رُکن، غلام نبی میو ایڈووکیٹ نے اس حوالے سے پوچھے گئے سوال پر بتایا’’ لیبر پالیسی میں ملازمت پیشہ ماؤں کے بچّوں کے لیے ڈے کیئر کی سہولت مہیا کرنے کا ذکر ہے۔ نیز، فیکٹریز ایکٹ بھی اداروں کو ڈے کیئر سینٹرز بنانے کا پابند بناتا ہے۔ اس ایکٹ کے سیکشن33 کے مطابق، صوبائی حکومت کسی بھی ایسی فیکٹری میں، جس میں پچاس سے زاید خواتین ملازم ہوں، چھے سال سے کم عُمر بچّوں کے لیے ایک کمرا مخصوص کرے گی۔ پھر یہ کہ ادارے کی جانب سے بچّوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک ماہر نرس اور آیا بھی رکھی جائے گی۔‘‘سوال یہ ہے، کتنے ادارے اس قانون کی پابندی کر رہے ہیں اور پابندی نہ کرنے والوں کے خلاف کیا ہو رہا ہے؟

تازہ ترین