• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغرب نے پہلے ہمارے علمی سرمائے پر ڈاکا ڈالا، اب اُسے چُھپا رہا ہے

(عکّاسی:عرفان نجمی)

یہ بات ہر ذی شعور کے علم میں ہے کہ اپنے عروج کے دَور میں مسلمان سائنس دانوں نے عظیم الشّان کارنامے انجام دیے۔ اُس زمانے میں بغداد، قرطبہ، غرناطہ ، صقلیہ اور وسط ایشیا مسلمانوں کے بڑے علمی مراکز تھے، جہاں یورپ سمیت دُنیا کے دیگر حصّوں سے تعلق رکھنے والے طلبا حصولِ علم کے لیے آیا کرتے تھے اور مسلمان سائنس دانوں، فلاسفہ کی تصانیف کی قدر و قیمت کے پیشِ نظر اُسی دَور میں، دُنیا کی دیگر زبانوں میں اُن کے تراجم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ تاہم، جب مسلم اُمّہ پر زوال آیا اور اسلامی سلطنتوں پر عیسائیوں نے قبضہ کر لیا، تو یہ بیش بہا علمی خزانہ مالِ غنیمت کے طور پر مغرب منتقل ہونے لگا۔ غیر مسلموں نے نہ صرف اپنی درس گاہیں ، کُتب خانے مسلمانوں کی تصانیف، قلمی مسوّدات اور مخطوطات وغیرہ سے بھر لیے ، بلکہ ان سے خُوب فیض یاب بھی ہوئے اور بعد ازاں اس علمی سرمائے سے ہونے والی ترقّی کو ’’مغرب کی نشاطِ ثانیہ‘‘ کا نام دے دیا۔ آج بھی یورپی کُتب خانے مسلمانوں کی کُتب سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن الم ناک بات یہ ہے کہ اس علمی ذخیرے کو تشنگانِ علم کی دسترس سے دُور رکھنے کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ بہت سی پابندیاں عاید کی گئی ہیں اور اگر کوئی محقّق، مستشرق یا طالب علم ان کُتب پر تحقیق کی خواہش ظاہر کرے، تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ گرچہ یورپ میں مقیم مسلمان طلبہ اور محققین ایک عرصے سے کُتب خانوں کی انتظامیہ کے اس ناروااور متعصبانہ طرزِ عمل پر معترض و مضطرب تھے، لیکن ان کے خلاف مؤثر آواز حال ہی میں شایع ہونے والی انگریزی کتاب، ’’الخوارزمی‘‘ کے مصنّف اور ریاضی داں، ڈاکٹر نور محمد اعوان نے بلند کی۔ انہوں نے ریاضی میں پی ایچ ڈی کی ہے اورمعروف سائنس داں، محمد بن موسیٰ الخوارزمی اُن کی تحقیق کا مرکز ہیں۔ گرچہ وہ پنجاب کی سول سروس سے وابستہ ہیں، لیکن سرکاری مصروفیات کے باوجود اُن کی زندگی کا ایک بڑا حصّہ یورپ میں موجود مسلمانوں کے علمی سرمائے کی چھان بین میں گزرا اور اسے منظرِ عام پر لانے کے لیےعالمِ اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اُن کی زندگی کا مِشن ہے۔ گزشتہ دنوں اس موضوع پر ہماری ڈاکٹر نور محمد اعوان سے تفصیلی گفتگو ہوئی، تو انہوں نے بعض فکر انگیز انکشافات کیے۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے یہ بات چیت ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

س :مسلمان سائنس دانوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن آپ نے الخوارزمی ہی کو کیوں ترجیح دی؟

ج :بِلاشُبہ مسلمان سائنس دانوں اور اُن کے شان دار کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے ، لیکن ایک ریاضی داں ہونے کے ناتے مَیں محمد بن موسیٰ الخوارزمی سے زیادہ دل چسپی رکھتا ہوں۔ وہ الجبرا کے مؤجداورایک عظیم ریاضی دان تھے۔ الخوارزمی نے مختلف موضوعات پر 20کُتب لکھیں، جو بغداد اور غرناطہ کی درس گاہوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔ بعدازاں، یہی کتابیں دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر مغرب کی نشاطِ ثانیہ کا باعث بنیں۔ ’’الجبر و المقابلہ‘‘ ان کی تمام تصانیف میں سرِفہرست ہے۔ 825ء میں عربی زبان میں تحریر کی گئی اپنی نوعیت کی اس منفرد کتاب میں پہلی مرتبہ لفظ، ’’الجبرا‘‘ استعمال کیا گیا، جو آج بھی مستعمل ہے۔ تاہم، یورپی مفکرین کا دعویٰ ہے کہ الجبرا کا بانی ایک فرانسیسی تھا۔ جب مُجھے اس دعوے کے بارے میں پتا چلا، تو مَیں نے اس موضوع پر تحقیق شروع کی اور تکمیل کے بعد اسے کتابی شکل میںڈھالا۔ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ مغربی مفکّرین باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہمارے علمی وَرثے پر ڈاکا ڈال رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے الجبرا کو ایک فرانسیسی کی ایجاد قرار دیا، لیکن جب اس سلسلے میں کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے،تو الجبرا کو یونانیوں سے منسوب کر دیا، مگر اس بار بھی اپنے دعوے کے حق میںکوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ پھر انہوں نے ہندوئوں کو اس علم کا بانی قرار دیا اور اپنے اس دعوے کو سچّا ثابت کرنے کے لیے ہندوئوں کی ایک قدیم کتاب، ’’سدھارتا‘‘ کے حوالے دیے، جس میں الجبرا سے مماثلت رکھتی چند مساوات موجود تھیں، لیکن ٹھوس شواہد نہ ہونے کی وجہ سے یہ دعویٰ بھی ناقابلِ قبول ہے۔ اہلِ مغرب نے اس عظیم مسلمان ریاضی داں کے تحقیقی کام کو نہ صرف اپنے صنعتی انقلاب کے لیے استعمال کیا، بلکہ الخوارزمی کی جانب سے متعارف کروائی گئی الجبرا کی مساوات آج بھی یورپ میں مستعمل ہیں اور مَیں نے اپنی کتاب میں ان تمام حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے۔ الخوارزمی کے علاوہ یورپ نے جن مسلمان سائنس دانوں کی تصانیف سے فائدہ اُٹھایا، اُن میں البیرونی، جابر بن حیان، الطّوسی، ابوالوفا الکندی، الرّازی، ابنِ سینا، ابنِ رُشد، ابن الہیثم اور ابو کامل قابلِ ذکر ہیں۔ مسلمان سائنس دانوں کی کئی کُتب کے اصل مسودے اور نقول آج بھی یورپی کُتب خانوں میں موجود ہیں، لیکن مغربی مفکّرین کی پوری کوشش ہے کہ یہ الماریوں سے باہر نہ نکل پائیں۔

س :مسلمانوں کا یہ علمی سرمایہ مغرب تک کیسے پہنچا اور اہلِ مغرب کس طرح اسے دُنیا بالخصوص عالمِ اسلام کی دسترس سے دُور رکھے ہوئے ہیں؟

ج :جب مَیں نے اپنی کتاب کے لیے مواد جمع کرنا شروع کیا، تو اس دوران کئی انکشافات ہوئے۔ تاہم، پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمارا علمی سرمایہ مغرب کیسے منتقل ہوا۔ اس ضمن میں شاعرِ مشرق، ڈاکٹر علاّمہ محمد اقبال کا ایک مشہور شعر بھی ہے کہ؎ مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی…جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے سِیپارا۔ مسلمانوں نے 10ویں صدی سے 14ویں صدی عیسوی تک کم و بیش پوری دُنیا پر حُکم رانی کی۔ تب یورپ تاریکی میں ڈُوبا ہوا تھا، جب کہ بغداد، قرطبہ، صقلیہ اور وسطی ایشیا میں علم و حکمت کے چراغ روشن تھے۔ اس عرصے میں مسلمان سائنس دانوں نے علمِ فلکیات، ریاضی اور فلسفے سمیت دیگر علوم پر لاتعداد کُتب تصنیف کیں، جن کا پہلے ہسپانوی زبان میں، پھر فرانسیسی اور تقریباً ایک سو سال بعد انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ دراصل، بغداد اور ہسپانیہ کی جامعات میں آنے والے یورپی طلبا واپسی پر ان کُتب کے اصل مسوّدات، قلمی نُسخے، مخطوطات اور نقول اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور جب مسلمانوں پر زوال آیا، تو اس علمی و ادبی لوٹ مار کا سلسلہ دراز ہو گیا، جو مختلف صُورتوں میں آج بھی جاری ہے۔ تاہم، علمی سرمائے کی یورپ منتقلی کے مسلمان خود بھی ذمّے دار ہیں۔ برِ صغیر کے کئی علمی و ادبی گھرانوں میں نادر قلمی نُسخے، مسوّدات اور کُتب موجود تھیں، لیکن سربراہِ خانہ کے انتقال کے بعد نئی نسل نے ان میں کوئی دل چسپی نہ لی اور اس علمی ذخیرے کو سستے داموں انگریزوں کے ہاتھ فروخت کر دیا، جسے وہ اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے۔ مسلمانوں کا یہ علمی وَرثہ کئی اور ذرایع سے بھی یورپ منتقل ہوا۔ جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا، تو تراجم اور کُتب کی اشاعت کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ اُس زمانے میں صقلیہ بھی ایک بڑا علمی مرکز تھا، جہاں دُنیا بَھر کے سیّاح اور دانش وَر آتے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے علمی سرمائے کا سرقہ کرنے یا اُسے ساتھ لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی طرح کئی اہم کُتب برِ صغیر بھی پہنچ گئیں، جنہیں انگریزوں نے لندن میں واقع ’’انڈیا آفس لائبریری‘‘ میں منتقل کر دیا۔ بعد ازاں، یورپی دانش وَروں نے مسلمانوں کی تصانیف سے خوب استفادہ کیا۔ تاہم، آج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہ صرف عالمِ اسلام کو اپنے علمی ورثے سے دُور رکھا جا رہا ہے، بلکہ یورپی ممالک اسے منظرِ عام پر بھی نہیں لانا چاہتے، کیوں کہ انہوں نے مسلمانوں کی کُتب پر ڈاکا ڈالنے کے بعد انہیں مغربی مفکّرین اور سائنس دانوں کے نام سے شایع کرنا شروع کر دیا اور وہ نہیں چاہتے کہ اُن کی یہ چوری پکڑی جائے۔ مسلمانوں کا یہ علمی وَرثہ اس وقت یورپ کی مختلف لائبریریز میں پھیلا ہوا ہے۔ ہالینڈ کی اسکاریہ لائبریری کے بعد مسلمانوں کی کتابوں کا سب سے بڑا ذخیرہ فرانس میں ہے اور اس کے بعد انڈیا آفس لائبریری کا نمبر آتا ہے۔ گرچہ مَیں خود تو ان کُتب خانوں میں نہیں جا سکا، لیکن جب مَیں نے یورپ میں موجود اپنے اسکالر دوستوں کو وہاں بھیجا، تو معلوم ہوا کہ ان کُتب کے کیٹلاگز ہی موجود نہیں اور نہ ہی ان کا ریکارڈ برقرار رکھا گیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کا علمی سرمایہ بکھرا پڑا ہے۔ یورپی کُتب خانوں میں مسلمانوں کے علمی وَرثے کو ’’ایسٹرن سیکشن‘‘ کا نام دے کر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کا تحقیقی کام نہیں، بلکہ اس میں دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کا بھی حصّہ ہے ۔سب سے زیادہ توجّہ طلب بات یہ ہے کہ جس سیکشن میں مسلمانوں کی کُتب موجود ہیں، وہ ’’ علاقۂ ممنوعہ‘‘ (Restricted Area) سے موسوم ہے، جہاں عام اسکالرز اورتشنگانِ علم کی رسائی ممکن نہیں۔ ان کُتب خانوں میں مسلمانوں کے قلمی مسوّدات، نادر نُسخے، مخطوطات اور کتابیں وغیرہ موجود ہیں۔

س :مغربی اسکالرز نے مسلمانوں کی کُتب اپنے نام سے کیسے منسوب کیں؟

ج :کئی مغربی ریسرچ اسکالرز اور مستشرقین نے مسلمانوں کی بعض کتابوں کو معمولی ردّ و بدل کے بعد اپنے نام کے ساتھ شایع کیا اور کئی نے مسلمانوں کے سیاسی و سماجی نظریات کی بنیاد پر اپنی کُتب تحریر کیں۔ مثال کے طور پر الجبرا الخوارزمی کی ایجاد ہے، لیکن اسے کسی اور سے منسوب کر دیا گیا۔ اسی طرح کئی مسلمان سائنس دانوں کے نام بگاڑ کر اُن کی کُتب دوبارہ شایع کی گئیں اور یہ تاثر دیا گیا کہ اُن کے مصنّفین غیر مسلم ہیں۔ جیسا کہ بو علی سینا کو ایبی سینا بنا دیا گیا۔ معروف یورپی فلسفی، ڈیک کارڈ کو یورپ میں ’’بابائے فلسفہ‘‘ کہا جاتا ہے اور انہوں نے اپنے تمام تر نظریات کی بنیاد عظیم مسلمان فلاسفہ، ابنِ رُشد اور امام غزالیؒ کے افکار پر رکھی ہے۔ علاوہ ازیں، کئی کتابیں تو ہو بہو غیر مسلم ریسرچ اسکالرز نے اپنے نام سے چھاپ دیں۔ معروف اسکالر، غلام جیلانی برق مرحوم نے ’’یورپ پر اسلام کے اثرات‘‘ نامی اپنی کتاب میں بھی کئی حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے۔ مغربی مفکّرین کے مسلمانوں سے حسد اور بغض کا یہ عالم ہے کہ اگر کہیں ریاضی اور طبعیات سمیت دیگر علوم کا ذکر آ جائے، تو وہ مسلمان سائنس دانوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر انہیں عرب اور مصری قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح وہ مسلمان سائنس دانوں کو غیر مسلم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اہلِ مغرب الخوارزمی کو مجوسی قرار دیتے ہیں۔ تاہم، ان کے پاس اپنے کسی بھی دعوے کو سچّا ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔

س :ان حالات میں عالمِ اسلام کو کیا کرنا چاہیے؟

ج : یورپ اور امریکا کاپی رائٹس اور کُتب کے جُملہ حقوق کی حفاظت کا پرچار تو بہت کرتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے علمی وَرثے پر ڈاکا ڈالتے ہوئے انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوا، بلکہ اُن کا طرزِ عمل تو ’’چوری اور پھر سینہ زوری‘‘ کے مترادف ہے۔ لہٰذا، عالمِ اسلام کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اس عظیم سرمائے کو منظرِ عام پر لانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے سابق صدر، جنرل ضیاء الحق نے اپنے دَور میں ایک ’’ہجرہ کائونسل‘‘ تشکیل دی تھی، جس کا کام دُنیا بھر کے کُتب خانوں میں موجود مسلمان سائنس دانوں ، فلاسفہ کی کُتب کا ترجمہ کر کے انہیں منظرِ عام پر لانا تھا۔اس ضمن میں تقریباً 500کُتب کا انتخاب کیا گیا تھا، لیکن صرف 7یا 8تصانیف کا ترجمہ ہونے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ یاد رہے کہ یہ اس قدر وسیع و پیچیدہ کام ہے کہ اسے انجام دینے کے لیے پورے عالمِ اسلام کو متّحد ہو کر کوششیں کرنا ہوں گی۔ مسلمانوں کا علمی وَرثہ سامنے لانے کے لیے ایک باقاعدہ ادارہ تشکیل دینے ضرورت ہے۔ ضروری نہیں کہ صرف یورپی کُتب خانوں ہی پر توجّہ مرکوز کی جائے، بلکہ اسلامی ممالک میں موجود مسلمان سائنس دانوں، دانش وَروں کی تصانیف کا انگریزی سمیت دیگر زبانوں میں ترجمہ کر کے بھی دُنیا کو یہ باور کروایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے عروج کے دَور میں انسانیت کی کس قدر خدمت کی۔ اس کے علاوہ مَیں یہ تجویز بھی دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی ممالک کو یورپی کُتب خانوں میں موجود مسلمانوں کے علمی وَرثے تک رسائی اور ان کُتب کا باقاعدہ کیٹلاگ مرتّب کرنے کے لیے یورپی ممالک پر دبائو ڈالنا چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کے وہ سائنسی کارنامے اور فلسفیانہ تصوّرات بھی سامنے لائے جائیں کہ جن کا سہرا مغرب اپنے سَر لے رہا ہے ۔ نیز، مسلمان مفکّرین کے دانستہ طور پر بگاڑے گئے ناموں کی حقیقت بھی دُنیا کے سامنے لائی جائے۔ گرچہ مصر، تُرکی اور دوسرے اسلامی ممالک نے اس سلسلے میں انفرادی طور پر کوششیں کی ہیں، لیکن مغرب کی فریب کاریوں کو ناکام بنانے کے لیے اجتماعی و منظّم کوششوں کی ضرورت ہے۔

س :کیا مسلمانوں کا یہ علمی وَرثہ منظرِ عام پر لانےسے اسلامی تہذیب کے احیاء اور اُمتِ مسلمہ کی ترقّی و خوش حالی کا دروازہ کُھل جائے گا؟

ج :مسلمانوں کا علمی وَرثہ دراصل نوعِ انسانی کی مشترکہ میراث ہے اور اس کے سامنے آنے سے اسلامی تہذیب کے احیاء کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے۔ تاریخ کا جائزہ لیں، تو پتا چلتا ہے کہ یونان اور بابل و نینوا سمیت اپنے وقت کی کئی پُرشکوہ تہذیبوں کا نام و نشان تک مٹ گیا، جب کہ کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس قدیم اسلامی تہذیب خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اب دوبارہ فروغ پزیر ہے۔ لہٰذا، اقوامِ عالم کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اپنے عروج کے دَور میں مسلمان ریاضی دانوں، کیمیا دانوں اور اطباء نے کون کون سے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اگر مغرب مسلمانوں کی عظیم خدمات پر پردہ ڈال رہا ہے، تو انہیں بے نقاب کرنا عالمِ اسلام کا فریضہ ہے۔

تازہ ترین