• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکنالوجی انتہائی برق رفتاری سے ہر شعبے اور ہر صنعت میں سرائیت کررہی ہے، جس میں زراعت بھی شامل ہے۔ پانچ برس پہلے تک لوگ لفظ ’ایگریکلچرل ٹیکنالوجی‘ سے بے خبر تھے لیکن آج سرمایہ کار اس شعبے میں ورٹیکل فارمنگ (عمودی زراعت) سے لے کر ’ڈیٹا سائنس‘ اور فارمنگ ڈرونز (زرعی شعبے میں استعمال ہونے والے ڈرونز) تک، اپنے لیے بہترین مواقع دیکھ رہے ہیں۔ رواں سال انویسٹمنٹ کارپوریشن آف دبئی نے ایگری کلچرل ٹیکنالوجی میں 203ملین ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے، مزید200ملین ڈالر جاپان کے سوفٹ بینک کی طرف سے آئیں گے، اس کے علاوہ دنیا کے کئی وینچرکیپٹل فنڈ اس شعبہ میں سرمایہ کاری پر غور کررہے ہیں۔ صرف 2017ء میں، اس شعبے میں1.5ارب ڈالر مالیت کی ریکارڈ سرمایہ کاری آئی۔ ماہرین کے مطابق، اس شعبہ میں آنے والے برسوں میں ریکارڈ توڑ سرمایہ کاری متوقع ہے۔

ایگری کلچرل ٹیکنالوجی کا تعلق ایک اہم انسانی مسئلے سے متعلق ہے:’انسانی وجود کی بقا‘۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں زراعت کو فروغ دینے کے لیے اسے جلد از جلد صنعتی دور سے نکال کر ڈیجیٹل دور میں لانا ہوگا۔ ان حقائق کے پیشِ نظر، ایگری کلچرل ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاروں کی بڑھتی دلچسپی حیران کن ہرگز نہیں ہے۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور فروغ کے مواقع لامحدود ہیں، کیونکہ انسان کو کھانے کے لیے غذا چاہیے، ساتھ ہی ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

9.8ارب افراد کو غذا چاہیے

تخمینہ ہے کہ 2050ء تک انسانی آبادی 9.8ارب نفوس تک جا پہنچے گی اور ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کس طرح پوری کی جائیں گی، وقت بہت کم ہے اور جلد ہی اس کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔ محققین نے اندازہ لگایا ہے کہ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ فوڈ سیکیورٹی کے مسائل اور بڑے پیمانے پر سماجی بے چینی سے محفوظ رہنے کے لیے، ہم اس وقت جتنی غذا پیدا کررہے ہیں، 2050ء تک اس کے مقابلے میں دُگنی غذائیں پیدا کرنا ہوں گی۔ پہلے ہی، دنیا بھر میں سالانہ 30لاکھ بچے مطلوبہ مقدار میں غذا حاصل نہ کرنے کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلی نے روایتی طریقوں سے غذا کی پیداوار کو زیادہ مشکل بنادیا ہے۔ درحقیقت، اگر فصلوں کی موجودہ پیداواری صلاحیت کو دُگنا نہ کیا جاسکاتو 2050ء میں دنیا کی صرف آدھی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکیں گی۔

آنے والے برسوں میں فصلوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانا کوئی آسان ہدف نہیں ہوگا۔ مزید برآں، اس وقت زراعت کے شعبے کو جس طرح صنعتی دور کے طریقوں (جیسے زمین کے استعمال کے فرسودہ تصورات اور پیداواریت) کے تحت چلایا جارہا ہے، نتائج اور بھی بھیانک ہوسکتے ہیں۔

یہی وہ مایوس کن صورتحال ہے، جہاں زراعت کے فروغ اور فصلوں کی پیداوار کو دُگنا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا کردار اہم ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں زرعی زمینوں کے لیے کوئی نئے مصنوعی کیمیکلز تیار کرنا ہوں گے یا مزید بڑے کارپوریٹ فارمز بنانا پڑیں گے۔ ایگری کلچرل ٹیکنالوجی کا بنیادی مقصد یہ ہے؛ 1) جدید مانیٹرنگ اور ڈیٹا انالیسز کے ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے کم وسائل سے زیادہ پیداوار حاصل کرنا، 2) زمین اور پانی (زرعی پیداوار کے دو اہم ترین اور بنیادی وسائل) کے استعمال پر پہلے سے زیادہ بوجھ ڈالے بغیر فصلوں کی پیداوارکو دُگنا کرنا۔

اس وقت، غذا کی عالمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے، دنیا کے کئی ترقی پسند ’اسٹارٹ۔اَپس‘ کئی طرح کی جدید ٹیکنالوجی اور ڈسپلن کا استعمال کررہے ہیں، جن میں سینسرز، مصنوعی ذہانت(AI)، بِگ ڈیٹا، بائیو ٹیک اور روبوٹکس شامل ہیں۔ مثلاً؛ کیلیفورنیا میں موجود ایک ایگری کلچرل ٹیکنالوجی اسٹارٹ اَپ’Hortau‘ اسمارٹ مانیٹرنگ اور ڈیٹا انالیسز کے ذریعے پانی کے استعمال کو زیادہ مؤثر بنارہا ہے، جس کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہورہا ہے۔ ’فائی ٹیک‘ نامی ایک اور اسٹارٹ اَپ اپنے ’پلانٹ انٹرنیٹ آف تھِنگز‘ کے ذریعے فصلوں سے ممکنہ بہترین پیداواری شرح حاصل کرنے پر کام کررہا ہے۔ ’پلانٹ انٹرنیٹ آف تھنگ‘ بنیادی طور پر ’اسمارٹ ڈیوائسز‘ ہیں، جنھیں فصل کے پودوں کے ساتھ مختلف مقامات پر نصب کردیا جاتا ہے اور یہ ڈیوائسزخود سے منسلک اسمارٹ فونز کوفصل کی نشوونما سے متعلق سفارشات اور انتباہ جاری کرتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ، ’کراپ ایکس‘ نامی ایک کمپنی، زمین کی نمی، ایصالیت اور درجہ حرارت کو ناپنے کے لیے ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر استعمال کرتی ہے، تاکہ زرعی پانی کی بچت کی جاسکے۔ ورٹیکل فارمنگ کی بات کریں تو Miraiنامی کمپنی LEDلائٹنگ اور آٹومیشن کے ذریعے ’اِن ڈور‘ مقامات پر بھی کاشت کاری کو ممکن بنارہی ہے۔ کمپنی کی کوشش ہے کہ نہ صرف زمین کے ایک ایک انچ پر بلند پیداواری شرح پر فصلیں اُگائی جاسکیں بلکہ اس میں انسانی وسائل کا بھی کم سے کم استعمال ہو۔

ٹیکنالوجی زراعت کو فروغ دے گی

عالمی سطح پر روایتی زرعی شعبہ حکومتی امداد پر چل رہا ہے۔ امریکی حکومت زرعی شعبے کو سالانہ 25ارب ڈالر کی سبسڈی فراہم کرتی ہے۔ البتہ، بھاری سبسڈی کے باوجود، امریکا میں زراعت کو پُرکشش کاروبار نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس میں شرحِ منافع انتہائی کم ہے۔لہٰذا اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ عالمی سطح پر لوگ زرعی شعبے کا رُخ نہیں کررہے۔ یہاں تک کہ برطانیہ جیسے ملک کو کاشتکاروں کی قلت کا سامنا ہے۔

صارفین کے بدلتے رجحانات

ایگری کلچرل ٹیکنالوجی کے یقینی فروغ کی ایک اور وجہ صارفین کی جانب سے صاف سُتھری اور صحت بخش غذا کی بڑھتی مانگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایمازون نے حال ہی میں گروسری فروخت کرنے والی چین’ہول فوڈز‘ کو 13.4ارب ڈالر میں خریدا ہے۔ وال مارٹ بھی ’آرگینک فوڈ’ کی طرف آرہا ہے اور قلیل عرصے میں اس نے خود کو شمالی امریکا کے چند بڑے ’آرگینک گراسرز‘ کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ زراعت کی ڈیجیٹائزیشن ناگزیر ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم شاپنگ کرنے کے لیے جاتے رہیں اور ہمارے تھیلے مناسب قیمت میں صحت بخش غذائی اشیا سے بھرتے رہیں تو ہمیں کاشتکاری کے طور طریقوں پر غور و فکر کرنا ہوگا، بصورتِ دیگر آنے والے چند برسوں میں انسانی غذائی ضروریات کو پورا کرنا ایک ایسا چیلنج بن سکتا ہے، جس سے نمٹنا انسان کے بس میں نہیں رہے گا۔

تازہ ترین