• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھولے بسرے ملی نغمات اور ان کے تخلیق کاروں کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔آج ہم ان گنت گیتوں کی دُھنیں تخلیق کرنے والے موسیقار رشید عطرے کے فن پر بات کریں گے۔ اُن کی تخلیق کی ہوئی مدھر اور سُریلی دھنوں کا تذکرہ کریں گے۔ مختصر ان کے حالات زندگی اور فن پر روشنی ڈالٹے ہیں۔ 1919ء میں امرت سر کے فنی گھرانے میں پیدا ہونے والے رشید عطرے کا اصل نام عبدالرشید تھا۔ ان کے والد خوشی محمد امرت سر کے ربابی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اپنے دور کے معروف ہارمونیم نواز تھے۔ بچپن ہی سے گھر کے سُریلے اور رسیلے ماحول میں وہ اپنے والد سے فنِ موسیقی کی تعلیم لیتے رہے، جب جوانی میں قدم رکھا تو کلکتہ کا رُخ کیا، جہاں وہ اپنے دور کے نامور موسیقار آرسی بورال کے اسسٹنٹ ہوگئے۔ بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم ’’مامتا‘‘ 1942ء میں ریلیز ہوئی۔ قیامِ پاکستان تک انہوں نے متحدہ ہندوستان میں آٹھ فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں مامتا، پگلی، پھرملیں گے، شیریں فرہاد، کمرہ نمبر9، نتیجہ، پاور اور عید کے نام شامل ہیں۔ 1950ء میں بہ طور موسیقار ان کی پہلی پاکستانی فلم ’’بیلی‘‘ ریلیز ہوئی ، اس فلم کے مصنف سعادت حسن منٹو، ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔ فلم کی ناکامی کے بعد رشید عطرے دل برداشتہ ہوکر راول پنڈی چلے گئے، جہاں وہ ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ 1953ء میں فلم ساز و ہدایت کار نذیر نے اپنی پنجابی فلم ’’شہری بابو‘‘ کی موسیقی کے لیے رشید عطرے کو رضامند کرلیا۔ یہ اپنے دور کی ایک سپرہٹ میوزیکل فلم ثابت ہوئی۔ زبیدہ خانم جیسی نامور گلوکارہ کو انہوں نے پہلی بار اس فلم میں متعارف کروایا۔ اپنے پورے فنی کیریئر میں 56 فلموں میں انہوں نے موسیقی دی۔ موسیقار رشید عطرے کی تخلیق کردہ اکثر دھنیں اپنی تمام فنی لوازمات کا مظہر ہیں۔ یہ دُھنیں، سُروں اور سازوں کا ایسا دل کش اور سحر انگیز جمال لیے ہوئے جب انسانی سماعتوں سے گزرتی ہیں تو اردگرد کا ماحول پر سحر طاری کردیتی ہیں۔

فلم ’’سات لاکھ‘‘ میں تخلیق کردہ ان کا گیت ’آئے موسم رنگیلے سہانے‘ راگ پہاڑی میں ایک ایسا گیت ہے، جو آج بھی اہمیت اور حسن و جمال کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے۔ 1962ء میں انہوں نے اپنی ذاتی فلم ’’موسیقار‘‘ بنائی، جس کی کہانی کا مرکز ایک موسیقار تھا۔ اداکار سنتوش کمار نے یہ عنوانی کردار کیا تھا۔ صبیحہ اور منیا شوری نے اس فلم میں ان کے مدِمقابل رومانی کردار نبھائے تھے۔ اس فلم کے نغمات بھی خُوب تھے۔ خاص طور اس فلم کا ایک شہرت یافتہ نغمہ ’’گائے کی دنیا گیت میرے‘‘ ان کی ایک ایسی دُھن ثابت ہوئی، جس نے نورجہاں، نغمہ نگار تنویر نقوی اور موسیقار رشید عطرے کے فن کی گواہی کو سچ کرکے دکھایا۔ آج دنیا ان کے گیت گارہی ہے۔ موسیقار رشید عطرے نے بے شمار نغمات کی دُھنیں بنائیں۔ ان سب کا تذکرہ کرنا کسی ایک مضمون میں ناممکن ہے۔ چند ایسی فلمیں بھی ہیں، جن میں موسیقار رشید عطرے نے صرف ایک ایک گانے کی طرز بنائیں، ان میں دروازہ (1962ء)، سیما (1963ء)، سفید خون (1962ء)۔ سلام محبت (1971ء)۔ریاض شاہد کی فلم زرقا اور بہشت کے چند نغمات کی طرزیں بناکر وہ 18؍دسمبر 1967ء کو وفات پاگئے۔

ان کی وفات کے بعد ان کے ہونہار موسیقار بیٹے وجاہت عطرے فلم زرقا کے باقی گانوں کی طرزیں بنائیں۔ فلم سات لاکھ 1957ء، فلم نیند 1959ء اور فلم شہید 1962ء میں انہیں بہترین موسیقار کے طور پر نگار ایوارڈ ملے۔

تازہ ترین
تازہ ترین