• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ 27 سال کی عمر میں پاکستان کے لیفٹ آرم پیسر محمد عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کیوں لے لی،دنیائے کرکٹ میں درجنوں ایسے ٹاپ بولرز بلکہ میڈیم یا فاسٹ بولرز ہیں جو اس عمر میں تینوں فارمیٹس میں ایکشن میں ہوتے ہیں ایسے میں آسٹریلیا کے پیٹ کمنز کا بیان بھی سامنے آیا کہ‘‘ کرکٹ میں ٹیسٹ پر ون ڈے کو ترجیح دینے والے بولرز کم ہی ہونگے ’’۔ یہ شاید محمد عامر پر طنز ہی بن گیا ہے کہ انکے نزدیک وہ بولر ہی نہیں ہیں ،اب جبکہ ٹیسٹ کرکٹ بھی چیمپئن شپ میں بدل گئی ہے اور 2 سال سے بھی کم وقت یعنی جون 2021 میں اس کا تاریخی فائنل کھیلا جائے گا تو کیا 27 سالہ پیسر کی طویل فارمیٹ سے رخصت بنتی تھی؟کچھ عرصہ قبل بھی ایسی خبریں آئی تھیں کہ محمد عامر ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینا چاہتے ہیں ،اس سال جنوری میں جنوبی ا فریقاکے خلاف آخری ٹیسٹ کھیلنے والے محمد عامر نے17 سال کی عمر میں 10 سال قبل جولائی 2009 میں سری لنکا کے خلاف گالے میں ڈیبیو کیا تھا ،انہوں نے 36 میچوں میں 119 وکٹیں حاصل کیں۔

2010 میں لارڈز ٹیسٹ میں نوبالز اسکینڈل جو بعد میں ا سپاٹ فکسنگ اسیکنڈل بنا اور وہ 18 سال کی عمر میں ہی نہ صرف جیل گئے بلکہ 5 سال کی معطلی کا داغ بھی لگواگئے،ان کے دوسرے 2 ساتھی سلمان بٹ اور محمد آصف تو انٹر نیشنل کرکٹ میں واپسی نہ کرسکے مگر عامر کو کم عمری کی وجہ سے موقع مل گیا مگر 2010سے 2016 آگیا،کہاں کیریئر کے آغاز کے 14 میچز میں 51 وکٹیں اور کہاں گزشتہ 22 میچز کی 68 وکٹیں،مطلب وہ جو اٹھان تھی،وہ جو کاٹ تھی اور وہ جو کمال شہرت تھی،سب وقت کی نذر ہوگئی، اس کے باوجود محمد عامر پاکستان کے لئے ٹیسٹ کرکٹ کے اب بھی بہتر بولر تھے،2 وجوہات نے انکی وکٹیں زیادہ نہ ہونے دیں، چنانچہ انکی کامیابیاں کم اور پاکستان کی فتوحات ناپید ہوگئیں، پہلی وجہ انکی بولنگ پر فیلڈرز کا تسلسل سے کیچز ڈراپ کرنا تھا اور دوسری بنیادی وجہ یہ رہی کہ 2010 تک انہیں محمد آصف جیسے باصلاحیت بولر کا ساتھ رہا تھا ، ایسے وقت میں جب پاکستان کرکٹ اسکواڈ میں رائٹ ہینڈ فاسٹ بولر کی کمی چلی آرہی ہے عامر کی طرف سے جگہ خالی کرنا اور انکا خلا پر کرنا اور پھر رائٹ ہینڈ فل ٹائم فاسٹ بولر کو سامنے لانا نئی سلیکشن کمیٹی کے لئے بڑا چیلنج ہوگا۔ محمد عامر کے 36 ٹیسٹ کے مختصر کیریئر میں 5 یادگار لمحات آئے ہیں،2017 میں کنگسٹن میں انہوں نے ویسٹ انڈیزکے 6 کھلاڑی 44رنزکے عوض آئوٹ کئے اور پاکستان 7 وکٹ سے میچ جیت گیا،یہ ان کے کیریئر کی بہترین بولنگ بھی تھی اور 5 سالہ پابندی کے خاتمے کے بعد پہلی بڑی پرفارمنس بھی ۔2010 میں لارڈز ٹیسٹ انکے لئے یادگار اورپھر پوری زندگی کا پچھتاوا بن گیا، پچھلے ہفتے ہی ایک اور نامی گرامی کرکٹر سری لنکا کے لاستھ ملنگا الوداعی ون ڈے میچ کھیل کر ریٹائر ہوئے،کرکٹ کی دنیا اور ورلڈ کپ تاریخ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ملنگا بلاشبہ الوداعی میچ کے مستحق بھی تھے اور کمال اتفاق دیکھیں کہ انکے کھلاڑیوں نے بنگلہ دیش کے خلاف میچ جیت کر انہیں فتح کا تحفہ دیا تو خود ملنگا نے 3 وکٹیں حاصل کرکے اس فتح اور آخری میچ کا انتہائی یادگار اور کارنامے والا بنادیا۔پریما داسا اسٹیڈیم کولمبو میں وہ اپنے کیریئر کا 226واں میچ کھیلے،36 سالہ فاسٹ بولر نے 17 جولائی 2004کو عرب امارات کے خلاف ڈیبیو کیا،اپنے منفرد ہیئر ا سٹائل اور بولنگ ایکشن سے شہرت پانے والے ملنگا نے 338وکٹیں حاصل کیں ،وہ اس فارمیٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے دنیا کے 9ویں ٹاپ بولر ہیں مرلی دھرن کی 534 اور چمندا واس کی 400 وکٹوں کے بعد وہ اپنے ملک کے تیسرے ہائی وکٹ ٹیکر بولر ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین