• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشتاق احمد

انتہا پسند ہندو، نریندر مودی کا مسلسل دوسری مرتبہ بھارتی وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہونا نہ صرف بھارت میں مقیم اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں بلکہ پاکستان اور خطّے کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرے سے خالی نہیں۔ اگر مودی کے گزشتہ دَورِ حکومت کا جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ بھارت، اقوامِ عالم کو یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کی سُپر پاور ہے۔ نیز، وہ ترہیب و ترغیب کے ذریعے خطّے کے دیگر ممالک کو اپنی برتری تسلیم کرنے پر بھی مجبور کر رہا ہے۔ مودی کے پہلے دَور میں بھارت کی خارجہ پالیسی میں سب سے اہم تبدیلی یہ رُونما ہوئی کہ اس نے اپنا سارا وزن امریکا کے پلڑے میں ڈال دیا اور اس تبدیلی کے عالمی سیاست ،بالخصوص علاقائی سیاست پر دُور رس اثرات مرتّب ہوئے۔ نتیجتاً، پاکستان اور چین کے درمیان قُربت مزید بڑھی، جب کہ دوسری جانب افغانستان اور ایران بھارت کے ہم نوا بن گئے۔ مؤخر الذّکر اتحاد کا پہلا مقصد پاک، چین اقتصادی راہ داری جیسے تاریخی منصوبے کو ناکامی سے دو چار کرنا تھا، جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بھارت نے ایران میں چاہ بہار پورٹ تعمیر کی، جب کہ دوسرا ہدف دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو اندرونی طور پر کم زور کرنا تھا۔ اس ضمن میں بھارتی انٹیلی جینس ایجینسی، را نے افغانستان کے خفیہ ادارے، این ڈی ایس کی معاونت سے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا۔

واضح رہے کہ امریکا اور بھارت کی خواہش ہے کہ چین کی معاشی و دفاعی طاقت کو گھٹایا جائے اور اس آرزو کا عکس بھارتی خارجہ پالیسی میں غالب نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے 2016ء میں امریکا اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ، جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی حربی صلاحیتوں سے مستفید ہونے پر اتفاق کیا ۔ بعد ازاں، اس شراکت داری کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے 2018ء میں Communication Compatibility and Security Agreement نامی معاہدے پر دست خط کیے گئے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے دفاعی اداروں کے درمیان تعاون، بھارتی و امریکی وزرائے خارجہ کے مابین رابطے کے لیے ہاٹ لا ئن کے قیام اور 2019ء میں مشترکہ فوجی مشقوں پر اتفاق کیا گیا۔ چوں کہ ان دونوں معاہدوں کا بنیادی مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کے آگے بند باندھنا تھا، لہٰذا ان اقدامات نے پاک، چین دفاعی و تجارتی شراکت داری کو مزید مضبوط کر دیا۔

اگر مندرجہ بالا واقعات کو پیشِ نظر رکھا جائے، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مستقبل میں مودی سرکار اپنے مخصوص عزائم پورے کرنے کے لیے پاکستان کے مختلف حصّوں میں کشیدگی پھیلانے کی کوشش کرے گی اور پچھلے چند ماہ کے دوران قبائلی اضلاع میں رُونما ہونے والے ناخوش گوار واقعات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ دوسری جانب یہ پہلو بھی مدِ نظر رہے کہ گلگت بلتستان، پاکستان کے لیے تزویراتی طور پر اہمیت کا حامل خطّہ ہے اور پاک، چین اقتصادی راہ داری کا روشن مستقبل اس علاقے کے امن و امان سے مشروط ہے، کیوں کہ گلگت بلتستان میں ایسی ’’فالٹ لائنز‘‘ موجود ہیں، جن سے پاکستان کے دشمن فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لہٰذا، حکومتِ پاکستان اور ریاستی اداروں کو اس علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

مودی سرکار کا پہلا دَور بھارتی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں تھا۔ سو، ان کے دوسرے دَورِ حکومت میں بھارتی مسلمانوں سمیت دیگر مذہبی اقلیتیں پہلے سے زیادہ عدم تحفّظ کا شکار ہوں گی۔ مودی کی وزارتِ عظمیٰ کی پہلی میعاد کے دوران گاؤ رکشکوں کی جانب سے ہجوم کی صورت میں مسلمانوں پر تشدد اور انہیں جان سے مارنے کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ خیال رہے کہ اس قسم کے پر تشدد واقعات کا محرّک 1925ء سے قائم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی سیاسی شاخ، بھارتیا جنتا پارٹی کی ایما پر انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے اقلیتوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ دراصل، بی جے پی ہندو توا کے نظریے پر یقین رکھتی ہے، جس کی رُو سے’’ ہندوستان کی سر زمین پر صرف ہندو ہی رہ سکتے ہیں اور’’ ملیچھوں‘‘ کو ،مسلمانوں اور کم ذات ہندوئوں کے لیے استعمال ہونے والا تضحیک آمیز لفظ ، یہاں سے واپس جانا ہوگا ، نیزاسلام سمیت دوسرے مذاہب قبول کرنے والے ہندوئوں کو ’’شُدھ‘‘ یعنی دوبارہ ہندو مت میں داخل ہونا پڑے گا۔‘‘ ان ہی نکات ہی پر بھاجپا کی پوری عمارت کھڑی ہے۔

لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی نے اپنے اسی نظریے کی بنیاد پر پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کی۔ اس وقت دیگر بھارتی مسلمانوں کے علاوہ ریاست، آسام میں مقیم کم و بیش دو لاکھ مسلمانوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یہ مسلمان 1971ء کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔ مودی سرکار ان مسلمانوں کو آسام سے بے دخل کر کے بنگلا دیش بھیجنا چاہتی ہے۔ اسی طرح عیسائیوں پر بھی بھارت کی سر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ بد سلوکی سے متعلق ’’ورلڈ واچ مانیٹر‘‘ کی 12فروری 2019ء میں شایع ہونے والی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 2018ء کے ابتدائی تین ماہ کے دوران بھارت میں اقلیتوں پر تشدد کے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد پورے 2014ء میں درج کروائے گئے واقعات سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت، اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیے گئے 10ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ دوسری جانب بی جے پی اگلے پانچ برس میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر بھی عمل پیرا ہے۔ یاد رہے کہ مودی نے اپنی انتخابی مُہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو، جو اس خطّے کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت حاصل ہے، ختم کر دیں گے۔

قصہ مختصر،مودی سرکار کے اگلے پانچ برس بھارتی و کشمیری مسلمانوں کے لیے بہت بھاری ثابت ہوں گے۔ نیز، پاکستان کے لیے بھی یہ پورا عرصہ خاصی اہمیت کا حامل ہو گا اور پاک فوج اکو ایک چومکھی جنگ لڑنا ہو گی۔ واضح رہے کہ ہمارا دشمن چانکیہ کا پیرو کار ہے ، جو ہمیشہ بغل میں چُھری دبائے رام رام کا راگ الاپتا رہتا ہے۔ ان نازک حالات میں ہمیں اپنے تمام اندرونی اختلافات پسِ پُشت ڈال کر صرف پاکستان کی بقا اور ترقّی و خوش حالی کو اپنا مطمحِ نظر بنانا ہو گا، کیوں کہ ہمارا عیّار و شاطر دشمن ’’فِفتھ جنریشن وار‘‘ کے سب سے اہم آلے یعنی میڈیا کو ہمارے خلاف بڑی کام یابی سے استعمال کر رہا ہے۔

تازہ ترین