• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کے 12بج رہے ہیں، لیکن آبادی سے کہیں دُور، سپر ہائی وے پر ایشیا کا قربانی کے جانوروں کی سب سے بڑی عارضی منڈی کی صُورت بسایا گیا شہر روشنیوں میں نہایا ہوا ہے۔ ہر سُو چہل پہل ہے۔ سُنّتِ ابراہیمیؑ کی ادائیگی کی غرض سے مویشیوں کی خریداری اور منڈی کی سیر کے لیے ٹولیوں کی شکل میں شاداں وفرحاں شہریوں کی آمد و رفت جاری ہے، جن میں بچّے، جوان، بزرگ و خواتین سبھی شامل ہیں۔ اسٹالز میں لاکھوں مویشیوں اورڈھیروں مٹی کے باوجود گرد و غبار اور فُضلے کی بُو تک محسوس نہیں ہورہی۔ کچھ شہری اپنے پسندیدہ جانوروں کے ساتھ سیلفیز بنانے میں مصروف ہیں، تو کچھ بیوپاریوں کے ساتھ بھائو تائو میں۔ منڈی میں جا بہ جا فوڈ اسٹریٹس بھی قائم ہیں، جن سے انواع و اقسام کے کھانوں کی خوش بُو آرہی ہے۔ سو، سپر ہائی وے مویشی منڈی کو ’’بڑی عید سے پہلے بڑا میلہ‘‘ کہا جائے تو بے نہ ہو گا۔ پھر اس عارضی مویشی منڈی سے بڑے پیمانے پر تجارتی سرگرمیاں بھی وابستہ ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے ایک لاکھ سے زاید افراد روزگار کما رہے ہیں، جن میں بیو پاری ، اُن کے ملازمین اور پارکنگ اور ایڈمنسٹریشن بلاک سمیت دیگر شعبہ جات میں خدمات انجام دینے والوں کے علاوہ جانوروں کی سجاوٹ کا سامان، اشیائے خور و نوش اور جانوروں کا چارہ وغیرہ فروخت کرنے والے افراد شامل ہیں۔

یوں تو شہر کے دیگر مقامات پر بھی قربانی کے جانور فروخت ہوتے ہیں، لیکن اس مویشی منڈی کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ منڈی کو مجموعی طور پر9شعبہ جات اور 48بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں گائیں، بیلوں، بکروں، دُنبوں اور اونٹوں کے وی وی آئی پی، وی آئی پی اور جنرل بلاکس شامل ہیں اور انتظامیہ کے دعوے کے مطابق ان میں ایک کروڑ روپے سے لے کر 20ہزار روپے تک کے مویشی فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔ یہاں شہریوں کی سہولت کے لیے 50،50فٹ چوڑی سڑکیں تعمیر کی گئیں اور صفائی سُتھرائی کا مؤثر انتظام ہے۔ سروے کے دوران سپر ہائی وے مویشی منڈی کے فوکل پرسن، یاور رضا چائولہ نے بتایا کہ ’’یکم جولائی سے لے کر عیدالاضحی تک کم و بیش 50لاکھ شہریوں اور 5لاکھ قربانی کے جانوروں کی آمد متوقع ہے، جب کہ پچھلے برس 4لاکھ مویشیوں کے منڈی میں داخلے کی رسیدیں کاٹی گئی تھیں۔ یوں اس عارضی مویشی منڈی میں کم و بیش 5ارب روپے کا لین دین ہو گا۔ شہریوں کی کثیر تعداد میں آمد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 6ماہ میں ایک پورا شہر، جو اس وقت 700ایکڑ پر محیط ہے اور اسے 900ایکڑ تک توسیع دی جارہی ہے، آباد کیا گیا ہے ۔ یہاں ہر قسم کی بنیادی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، جن میں پارکنگ، نماز پڑھنے کی جگہ، سیکوریٹی، فوڈ اسٹریٹس اور بیت الخلاء وغیرہ شامل ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ شہر میں جا بہ جا مویشی منڈیاں قائم کر کے شہریوں اور ٹریفک کی آمدروفت میں خلل پیدا کرنے اور بد انتظامی کی بہ جائے اسی مویشی منڈی کو قربانی کے جانوروں کا مرکز بنایا جائے۔ چوں کہ یہ منڈی کمشنر کراچی، افتخار علی شلوانی کی نگرانی میں قائم کی گئی ہے، لہٰذا وہ خود بھی وقتاً فوقتاً یہاں کا سروے کرنے کے علاوہ معلومات حاصل کررہے ہیں۔‘‘

مویشی منڈی میں آنے والے زیادہ تر بیوپاریوں کا تعلق اندرونِ سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہے اور چھوٹے بیوپاری مشترکہ طور پر ایک پٹّی یا اسٹال کرائے پر حاصل کر کے اپنے مویشی فروخت کر رہے ہیں ۔ بیوپاریوں کی آسانی کے لیے ہر بلاک میں بینک کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔مویشی منڈی کے ایڈمنسٹریٹر، ملک نجیب اللہ نے بتایا کہ ’’ منڈی کے تمام شعبہ جات کو چلانے اور ان کا نظم و نسق برقرار رکھنے کی ذمّے داری مجھ پر ہے۔ بیوپاریوں اور شہریوں کی سہولت کے لیے 48بلاکس میں تقریباً ایک ہزار بیت الخلاء تعمیر کیے گئے ہیں۔ روشنی کا بندوبست ہے اور ایک وی آئی پی فوڈ سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے۔ چُوں کہ یہ قربانی کے جانوروں کی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے، لہٰذا ہم نے اسے ایک فیملی فیسٹیول کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ سیکوریٹی کے نقطۂ نظر سے پوری منڈی میں کیمرے نصب ہیں اور مانیٹرنگ کے لیے کنٹرول رُوم بنایا گیا ہے۔ داخلی و خارجی راستوں پر سیکوریٹی کے سخت انتظامات ہیں اور کوئی فرد مسلّح اسکواڈ کے ساتھ اندر داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ 20جنرل بلاکس میں موجود مویشیوں کے کرائے عوض 1,000 سے 1,600روپے یومیہ وصول کیے جاتے ہیں اور اس کے بدلے بیوپاریوں کو روشنی، سیکوریٹی اور باتھ روم کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام بلاکس میں موجود جانوروں کو یومیہ 16لیٹر پانی مفت فراہم کیا جارہا ہے۔ منڈی میں 6وی وی آئی پی بلاکس ہیں اور ان میں موجود ایک پلاٹ (رقبہ 40x80مربع فٹ) کا کرایہ 2لاکھ روپے ہے۔ ہر وی وی آئی پی بلاک میں 60سے 80پلاٹ ہیں، جو عین سڑک پر واقع ہیں۔ درمیان میں 22وی آئی پی بلاکس ہیں، جن میں سے فرنٹ کے پلاٹ کا کرایہ 1لاکھ 75ہزار اور عقبی پلاٹ کا 1.5لاکھ روپے ہے۔ اس کے علاوہ 15x30کی پٹّیاں ہیں ۔ پرائم لوکیشن پر واقع پٹّی کا کرایہ 50ہزار روپے ہے اور اس میں ٹینٹ لگانے کی ذمّے داری بھی انتظامیہ کی ہے، جب کہ جنرل پٹی کا کرایہ 40ہزار روپے ہے اور ٹینٹ بھی انتظامیہ ہی لگاتی ہے۔‘‘جانوروں کی تعداد کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’یہاں ایک وقت میں 6لاکھ مویشی رکھنے کی جگہ ہے اور اس مرتبہ تقریباً ساڑھے چار، پانچ لاکھ مویشیوں کی آمد متوقع ہے۔مویشی منڈی میں گائیں اور بیل لاکھوں کی تعداد میں لائے گئے ہیں، جب کہ بکروں، دُنبوں اور اُونٹوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ منڈی میں ایک کروڑ سے روپے سے لے کر 60ہزار روپے تک کے بیل موجود ہیں۔ اسی طرح 2لاکھ روپے سے لے کر 25ہزار روپے تک کے بکرے دست یاب ہیں۔ گزشتہ برس کی نسبت مویشیوں کی قیمت میں تقریباً 7فی صد اضافہ ہوا ہے ۔ ‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’جانوروں کو ٹرکوں پر مارشلنگ ایریا لایا جاتا ہے، جہاں گنتی کے بعد ان کی اینٹری ہوتی ہے اور بیوپاریوں کو باقاعدہ پاسز جاری کیے جاتے ہیں۔ اس موقعے پر ویٹرینری ڈاکٹرز مویشیوں کا مکمل معائنہ کرتے ہیں کہ آیا انہیں کوئی مرض تو لاحق نہیں یا اُن میں کوئی نقص تو نہیں۔ نیز، مویشیوں کی ویکسی نیشن بھی کی جاتی ہے۔ پھر بیوپاری انہیں اپنے پہلے سے مختص کروائے گئے اسٹالز میں لے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ ویجیلینس ٹیم بھی وقتاً فوقتاً جانوروں کا معائنہ کرتی ہے۔ انتظامیہ کا دفتر 24گھنٹے کُھلا ہوا ہے۔‘‘ پچھلے سال کی منڈی سے موازنہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’یوں تو اس مرتبہ منڈی کو کئی اعتبار سے بہتر بنایا گیا ہے، لیکن انفرااسٹرکچر میں زیادہ تبدیلی لائی گئی ہے۔ منڈی میں 50فٹ چوڑی پُختہ سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں، پانی کی فراہمی کے لیے ایک ہائیڈرینٹ قائم کیا گیا ہے۔ گردوغباراور کانگو وائرس سے بچنے کے لیے باقاعدہ پانی کا چھڑکائو اور فیومی گیشن کی جاتی ہے۔ یہاں کا عملہ 24گھنٹے خدمات انجام دے رہا ہے، تا کہ شہریوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‘

مویشی منڈی کے شعبۂ پارکنگ اور سیکوریٹی کے سربراہ، طارق چوہدری نے بتایا کہ ’’مویشی منڈی کے کل 8داخلی و خارجی راستے ہیں، جہاں 150سے 200اہل کارمستقل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پارکنگ ایریا میں فرائض انجام دینے والے اسٹاف کو باقاعدہ جیکٹس اور کیپس فراہم کی گئی ہیں اور ہر شفٹ شروع ہونے پر پورے عملے کو منڈی میں آنے والے افراد سے حُسنِ سلوک کی تلقین کی جاتی ہے، کیوں کہ عموماً لڑائی جھگڑے کا آغاز پارکنگ ہی سے ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، منڈی کے باہر پولیس اور رینجرز کے ساتھ ہمارے مسلّح سیکوریٹی اہل کار بھی فرائض انجام دے رہے ہیں، تاکہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے۔ یہاں موجود بیوپاریوں کو ذاتی گاڑیوں کی پارکنگ کے عوض ایک ہی بار میں 5ہزار روپے وصول کر کے پاس فراہم کر دیا جاتا ہے، جب کہ کمرشل گاڑی کی اینٹری کے عوض 350روپے وصول کر کے ایک رسید دی جاتی ہے، جسے لَوٹتے وقت واپس کرنا ہوتا ہے۔ مویشی منڈی کی سیکوریٹی یقینی بنانے اور چھینا جھپٹی، چوری ڈکیتی کے واقعات سے بچنے کے لیے سیکوریٹی گارڈز مختلف بلاکس میں پیٹرولنگ کے ساتھ مشکوک افراد پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں طارق چوہدری نے بتایا کہ ’’پارکنگ اور سیکوریٹی سے متعلق شہریوں کی شکایات سُننے کے لیے ایک باقاعدہ سیل موجود ہے، جہاں کسی بھی قسم کی گڑبڑکی اطلاع ملنے پر سیکوریٹی اہل کار فوراً جائے وقوع پر پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے اب تک منڈی کے اندر اور باہر کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ پارکنگ میں آنے والے افراد کو رسید دیکھ کر گاڑی لے جانے کی اجازت دی جاتی ہے ۔اگر کسی کے پاس رسید نہیں ہوتی، تو اُسے گاڑی اُس وقت تک واپس نہیں کی جاتی، جب تک کہ وہ اپنے نام پر اُس کے کاغذات نہیں دکھا تا، جب کہ موٹر سائیکل کی پارکنگ فیس 20روپے ہے۔‘‘

سروے کے دوران ہماری بعض بیوپاریوں سے بھی بات چیت ہوئی۔ اس موقعے پر ایک وی وی آئی پی اسٹال میں موجود زوہیب آرائیں نامی تاجر نے بتایا کہ ’’میرا کیٹل فارم ہے اور اس وقت میرے اسٹال پر 25بیل موجود ہیں۔ میرے پاس 3لاکھ سے 25لاکھ روپے مالیت تک کے جانور ہیں۔‘‘ مویشیوں کی فروخت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’فی الوقت منڈی ٹھنڈی ہے، لیکن مُجھے امید ہے کہ عید تک سارے مویشی فروخت ہو جائیں گے۔‘‘ مویشی منڈی میں جانوروں پر آنے والے اخراجات کے بارے میں زوہیب نے بتایا کہ ’’صرف ایک مویشی کی خوراک پر یومیہ ایک ہزار روپے صَرف ہوتے ہیں، جب کہ منڈی میں قیام کے دوران اسٹال کے کرائے، اس کی تزئین و آرایش ، ملازمین کی تن خواہوں اور کھانے پینے سے لے کر دوسری ضروریات کی مَد میں مجموعی طور پر 20سے 25لاکھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ مَیں نے دو پلاٹ لیے ہیں اور صرف ان کا کرایہ ہی 4لاکھ روپے ہے۔‘‘ مذکورہ اسٹال میں موجود لعل بادشاہ نامی بیل شہریوں کی توجّہ کا مرکز ہے۔ زوہیب، لعل بادشاہ کی قیمت 25لاکھ روپے طلب کر رہے ہیں۔ اسٹال میں مویشیوں کی دیکھ بھال میں مصروف کاشف نے بتایا کہ وہ اور اُن کے دیگر ساتھی خان پور سے تعلق رکھتے ہیں اور پچھلے 5،6برس سے قربانی کے مویشیوں کی خدمت پر مامور ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’دودھ حاصل کرنے کے لیے پالے گئے مویشیوں کے مقابلے میں قربانی کے مویشی پالنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ انہیں زیادہ خوراک کے علاوہ ورزش کروانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم انہیں اسٹال میں دوڑانے کے علاوہ منڈی میں بھی روزانہ دو ایکڑ تک بھگاتے ہیں، جب کہ ان کی خوراک میں چنا، دودھ اور مکھن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام مویشی ہم سے مانوس ہیں، لیکن اگر کوئی باہر سے آنے والا فرد ان کی رسّی کھینچنے کی کوشش کرے، تو یہ اُسے مار کرزخمی کرسکتے ہیں۔ ہم پورا سال ان مویشیوں کا اپنے بچّوں کی طرح خیال رکھتے ہیں اور جب یہ ہم سے جُدا ہوتے ہیں، تو ہمیں رنج پہنچتا ہے، لیکن پھر یہ سوچ کر صبر کر لیتے ہیں کہ یہ اللہ کی راہ میں قربان ہونے جا رہے ہیں۔‘‘ اس موقعے پر جب ہماری صُہیب نامی بیوپاری سے بات ہوئی، تو انہوں نے بتایا کہ ’’ گرچہ ہم گزشتہ 4برس سے قربانی کے جانوروں کی تیاری کے کاروبار سے وابستہ ہیں، لیکن مویشی منڈی پہلی مرتبہ آئے ہیں اور یہ ہمارے لیے نہایت خوش گوار تجربہ ہے۔ منڈی کی انتظامیہ اور عملہ خاصا ملن سار ہے اور دوسرے فارمرز کا رویّہ بھی بہت دوستانہ ہے۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہرچند کہ یہاں اسٹال لگائے ہمیں چند روز ہوئے ہیں، لیکن اس کی تِھیم اور تزئین و آرایش کے سامان کی تیاری ہم نے ماہِ رمضان ہی میں شروع کر دی تھی۔ اس وقت ہمارے پاس دو پلاٹ یعنی 80x90مربع فٹ کی جگہ ہے۔ اسٹال میں موجود تمام مویشی ہمارے اپنے کیٹل فارم پر پلے بڑھے ہیں اور میرے پاس 2لاکھ سے لے کر 20لاکھ روپے تک کی مالیت مویشی موجود ہیں۔ ہمارے اسٹال کا سب سے خوب صُورت اور قیمتی جانور، ’’راجا‘‘ ہے، جسے ہم نے 3برس تک پالا ہے۔ یہ دیسی نسل سے تعلق رکھنے والا بچھڑا ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ کھلائی پلائی کے نتیجے میں یہ فربہ ہوتا رہتا ہے، لیکن اس کا قد نہیں بڑھتا۔ اگر ہمیں اس کے اچھے ریٹ مل گئے، تو تبھی ہم اسے فروخت کریں گے۔ہم جانوروں کی خوراک کا بندوبست خود کرتے ہیں، جب کہ منڈی کی انتظامیہ پانی فراہم کرتی ہے اور کرائے کو ملا کر ہمیں یومیہ ایک لاکھ روپے خرچ کرنا پڑرہے ہیں۔ ‘‘ ایک سوال کے جواب میں صہیب نے بتایا کہ’’ گرچہ ابھی تک منڈی ٹھنڈی ہے، لیکن اس کے باوجود نصف درجن مویشی فروخت ہو چُکے ہیں۔‘‘

فخرالدّین نامی بیوپاری گزشتہ 17برس سے مویشیوں کی تجارت سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ مَیں کم و بیش 13برس سے سپر ہائی وے مویشی منڈی آ رہا ہوں۔ میرا تعلق کراچی کے علاقے، میمن گوٹھ سے ہے ۔ اس مرتبہ مَیں 45جانور لایا ہوں، جن کی قیمتیں 4لاکھ سے 12لاکھ روپے تک ہیں۔‘‘بارش کے نتیجے میں جانوروں کی قیمتیں گرنے کے سوال پر اُنہوں نے ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ ایسا لگتا ہے کہ شہری برسات کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اس طرح انہیں سستا جانور مل جائے گا۔ تاہم، مَیں نے یہ تہیّہ کر رکھا ہے کہ چاہے میرا ایک مویشی بھی فروخت نہ ہو، لیکن مَیں انہیںکم قیمت پر ہرگز فروخت نہیں کروں گا،حالاں کہ عید سے چند روز قبل مویشیوں کی طلب زیادہ ہونے سے ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، جب کہ عید کے دوسرے اور تیسرے روز گر جاتی ہیں۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میںفخرالدّین کا کہنا تھا کہ ’’منہگائی میں اضافے کی وجہ سے اس مرتبہ مویشیوں کی قیمتیں پچھلے برس کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور پھر نقل و حمل کے اخراجات بڑھنے کی وجہ سے پنجاب سے بیوپاری بھی کم آ رہے ہیں۔ مویشیوں کی خوراک پر آنے والے اخراجات میں 30سے 40فی صد اضافہ ہوا ہے۔ چُوں کہ مَیں شوقیہ یہ کاروبار کرتا ہوں، لہٰذا اگر صرف میرا لگایا گیا سرمایہ ہی مُجھے واپس مل جائے، تو مُجھے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔‘‘مویشی منڈی کے جنرل بلاک میں موجود کراچی کے علاقے، لیاقت آباد سے تعلق رکھنے والے اکرم نامی بیوپاری نے بتایا کہ وہ لیاقت آباد کی مویشی منڈی ختم ہونے کے بعد سے یہاں قربانی کے جانور فروخت کر رہے ہیں۔ سپر ہائی وے مویشی منڈی کے ماضی اور حال کا موازنہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’25برس پہلے اور آج کی مویشی منڈی میں زمین، آسمان کا فرق ہے۔ پہلے یہاں ہم سے کوئی ایک پائی وصول نہیں کرتا تھا ، مگر سارے انتظامات ہمیں خود کرنا پڑتے تھے۔ البتہ اب ہمیں پیسوں کے بدلے سہولتیں مل رہی ہیں۔ اس منڈی کی سب سے بڑی سہولت سیکوریٹی کا مؤثر انتظام ہے، جب کہ ماضی میں یہاں بہت لُوٹ مار ہوتی تھی۔ ٹینٹ بھی انتظامیہ خود ہی نصب کرتی ہے اور راستوں پر روشنی کا بھی بہترین انتظام ہے۔ البتہ اسٹال کے اندر بلب جلانے کے لیے ہم نے خود جنریٹر کا بندوبست کیا ہے۔ میرے پاس دو پٹّیاں ہیں، جن کا کرایہ ایک لاکھ روپے ادا کیا ہے، جب کہ جانوروں کی خوراک اور ملازمین کی مزدوری پر یومیہ 20ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔‘‘ منہگائی میں اضافے پر بات کرتے ہوئے اکرم کا کہنا تھا کہ ’’پچھلے برس کے مقابلے میں اس مرتبہ ہمارے اخراجات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال مَیں نے دو پٹّیوں کا کرایہ 80ہزار روپے ادا کیا تھا۔‘‘ منڈی میں خریداروں کی آمدورفت سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ’’اس وقت خریداروں کی تعداد کم ہے، البتہ جلد ہی شہریوں کا رش بڑھنے کی توقع ہے۔ میرے کُل 25جانور ہیں اور منڈی ختم ہونے تک ان شاء اللہ سارے فروخت ہو جائیں گے۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’’عید سے قبل بارش کے امکانات ہیں ، اسی لیے ایک ترپال ساتھ لایا ہوں۔ البتہ مَیں یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ بارش ہونے کے بعد مویشیوں کی قیمتیں گر جاتی ہیں، کیوں کہ اس منڈی میں آنے والے زیادہ تر بیوپاریوں کا تعلق اندرونِ سندھ اور پنجاب کے دیہات سے ہے اور وہ کیچڑ وغیرہ سے نہیں گھبراتے۔ تاہم، کراچی کے بیوپاریوں کو بارش کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے وحشت ہوتی ہے اور وہ اس ماحول سے نجات کے لیے اپنے منافعے کا تناسب بھی کم کر لیتے ہیں۔‘‘ منڈی میں موجود لیاقت آباد ہی سے تعلق رکھنے والے اصغر نامی تاجر نے بتایا کہ ’’میرے پاس 15جانور ہیں، جن کی قیمتیں 2سے ڈھائی لاکھ روپے تک ہیں۔ ان سب کو خصوصی طور پر قربانی کے لیے پالا گیا ہے۔ منہگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے پچھلے برس کی نسبت اس مرتبہ مویشیوں کی قیمتیں زیادہ ہیں۔‘‘ جب ہم نے اصغر سے یہ سوال کیا کہ بعض شہری یہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ منڈی سے قربانی کے جانور خریدنے کے بعد گھر لے جا کر دیکھتے ہیں، تو کسی کا سینگ نقلی ہوتا ہے، تو کسی کی دُم، تو اُن کا جواب تھا کہ’’ باقاعدہ قائم کی گئی مویشی منڈیوں میں اس قسم کے دھوکا دہی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن اگر کسی چلتے پھرتے بیو پاری سے مویشی خریدا جائے، تو اُس میں کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہوتا ہے، جو وہ خریدار کو نہیں بتاتے۔‘‘

منڈی میں جانوروں کی سجاوٹ کے سامان پر مشتمل اسٹالز بھی بڑی تعداد میں نظر آئے۔ ایک اسٹال پر ہماری آدم نامی تاجر سے بات چیت ہوئی، تو انہوں نے بتایا کہ ’’عموماً قربانی کے جانور کی تزئین و آرایش کے لیے مُہریں، جھالریں، رنگ برنگی رسّیاں، گلے کے خوش نُما پٹّے اور پازیبیں استعمال ہوتی ہیں۔ مَیں گزشتہ 15برس سے مویشی منڈی میں یہ سامان فروخت کر رہا ہوں ۔‘‘ اسٹال کے کرائے اور منڈی میں کیے گئے انتظامات پر اُن کا کہنا تھا کہ ’’اتفاق سے مُجھے اُسی مقام پر اسٹال مل گیا ہے، جہاں مَیں ہر سال اپنی عارضی دُکان سجاتا ہوں۔ البتہ اس مرتبہ مَیں نے 22ہزار روپے کرایہ دیا ہے، جو گزشتہ برس کی نسبت 2ہزار روپے زیادہ ہے۔ جوں جوں منڈی گرم ہوتی ہے، ہمارا کاروبار بھی چمکنے لگتا ہے۔ گرچہ ہم سے بیوپاری اور شہری دونوں ہی سجاوٹ کا سامان خریدتے ہیں، لیکن خریداروں میں تاجروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور مُجھے امید ہے کہ منڈی کے اختتام تک میرا سارا سامان فروخت ہو جائے گا۔ ‘‘

سروے کے دوران ہماری کچھ شہریوں سے بھی بات چیت ہوئی، جن کی بڑی تعداد وی وی آئی پی بلاکس میں موجود ’’راجا‘‘، ’’لعل بادشاہ‘‘ اور ’’بینجمن سسٹرز‘‘ میں دِل چسپی لے رہی تھی۔ اس موقعے پر گلشنِ اقبال سے اپنے دوستوں کے ساتھ آئے طارق نامی نوجوان کا کہنا تھا کہ ’’گرچہ منڈی میں موجود مویشیوں کی قیمتیں گزشتہ برس کی نسبت زیادہ ہیں، لیکن مَیں اپنی استطاعت کے مطابق ایک خُوب صُورت جانور ضرور خریدوں گا۔ آج ہم لوگ صرف منڈی کی سیر کے لیے آئے ہیں اور یہاں کے ماحول سے محظوظ ہو رہے ہیں۔‘‘ ناظم آباد سے اپنی فیملی کے ساتھ آنے والے مشتاق نامی تاجر نے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ’’ ہم یہاں جانور خریدنے کے لیے آئے ہیں۔ ایک جانور پسند آیا ہے، لیکن اس کی قیمت بہت زیادہ بتا رہے ہیں اور ویسے بھی پچھلے برس کی نسبت اس مرتبہ مویشیوں کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ ابھی بیوپاری سے بھائو تائو جاری ہے ، مگر ہمیں امید ہے کہ ہمیں اپنی مطلوبہ قیمت پر مویشی مل جائے گا۔‘‘

’’پی کے‘‘ کو سستے جانور کی تلاش

بالی وُڈ کی مشہورِ زمانہ فلم،’’ پی کے‘‘ کے مرکزی کردار کا رُوپ دھارنے والے اداکار، شیری خان بھی ہمیں منڈی میں نظر آئے۔ وہ غریب طبقے کی نمایندگی کرتے ہوئے سَستے جانور کی تلاش میں سرگرداں تھے۔

’’پی کے‘‘ کاکہنا تھا کہ وہ یہ رُوپ دھار کر عوام کے مسائل اُجاگر کر رہے ہیں اور یہاں منڈی کے میڈیا سیل نے خصوصی طور پراُن کی خدمات حاصل کی ہیں۔ انہوں نے سَستا جانور تلاش کرنے کی مُہم شروع کر رکھی ہے، جو ہر شہری کی ضرورت ہے، لیکن بد قسمتی سے وہ ’’مِسنگ‘‘ ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ’’ اس سے پہلے مَیں مِسنگ ڈیم، مِسنگ کے الیکٹرک، مِسنگ انسانیت، قانون کی پاس داری مِسنگ اور ایمان دار افسران مِسنگ کے نام سے مُہم چلا چکا ہوں۔ مَیں 17ہزار روپے کا جانور ، جو ایک مزدور کی ماہانہ تن خواہ ہے، جانور تلاش کر رہا ہوں، تاکہ ایک غریب شخص بھی سُنّتِ ابراہیمیؑ ادا کر سکے۔‘‘

تازہ ترین