• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2012ء میں استنبول میں ہونے والی ایک تعلیمی کانفرنس میں گوگل ایگزیکٹو کوزی نیمر سے ’’تعلیم کے مستقبل‘‘ کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھاکہ مستقبل میں تعلیم استاد کے بغیر (Teacherless) ہوگی اور پھر کوزی نے بنا استاد تعلیم کی اہمیت کی وضاحت کچھ یوں کی ، ’’ ہماری گوگل ٹیم ان طریقوں کو تلاش کررہی ہے، جن کے تحت افریقہ میں لوگوں کو تعلیم فراہم کی جائے، لیکن چند ایک اساتذہ ہی ہیں جو افریقہ جانا چاہتے ہیں اور صرف افریقہ ہی نہیں بلکہ اساتذہ تو سربیا، بنگلہ دیش یا ایمیزون کے جنگلات کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسے ممالک یا شہر ہیں جہاں وہ نہیں جانا چاہتے۔ ہمارے پاس اتنے ٹیچرز نہیں ہیں جو کروڑوں لوگو ںکی علم کی پیاس بجھا سکیں۔عالمی سطح پر ٹیچرز کی قلت کی وجہ سے جہالت کا اندھیرا بڑھتا جارہاہے۔ آنے والے عشروں میں، اگر ہم اپنے اور سیکھنے کی ہرچیز کے درمیان ایک ٹیچر رکھ دیں، تو ہم اتنی تیزی سےوہ علم نہیں سیکھ پائیں گے، جو مستقبل کی مانگ کو پورا کرنے کے قابل ہوگا‘‘۔

ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں تعلیم کیلئے ایک’’مقام ‘‘ (اسکول، کالج اور یونیورسٹی) کی ضرورت ہوتی ہے، جہاں اسکولنگ کی سہولتیں ہوں اور قابل اساتذہ وہاں علم سے روشناس کرانے کیلئے موجود ہوں۔ شہراو رقصبات اس معاملے میں خوش قسمت ہیں کہ وہاں اعلیٰ تعلیم کے تمام لوازمات ، فینسی عمارات ، معروف اسکالرز موجود ہیں، کالجوں اور جامعات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ درس و تدریس کا یہ ماڈل پھلتا پھولتا جارہا ہے۔

گزشتہ دہائی سے پرے دیکھنا شروع کریں توتعلیم کی دنیا جو ’’استاد ‘‘ کے گرد گھومتی تھی اب اس کا مرکز ’’ لرننگ ماڈل ‘‘ یعنی سیکھنے والا ماڈل بن گیاہے۔ ہاں، ’’ مقام ‘‘ ابھی بھی اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کی نوعیت اب بدل گئی ہے۔ درس وتدریس کیلئے مہارت درکار ہوتی ہے ۔ ’’بنا استاد‘‘ تعلیم بھی انہیں ماہرین کے ذریعے دی جائے گی جو ’’ تعلیمی مواد ‘‘ تخلیق کریں گے ، لیکن اس کی ترویج کیلئے ’’استاد ‘‘ کا اس ’’ مقام ‘‘ پر ہونا لازمی نہیں ہوگا۔

تعلیم اپنی شکل بدل رہی ہے او ر اس نہج پر ہے کہ جہاں استاد کے بغیراسے مصنوعی ذہانت کے ذریعے فراہم کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے جب سے اپنے پر پھیلائے ہیں، تب سے ہم نے اپنی زندگیوں کو سینسرز اور انٹرنیٹ آ ف تھنگس ڈیوائسزسے جوڑ لیا ہے۔ اب ہم بڑے آرام سے اپنے جسم کے اِن پُٹ اور آئوٹ پُٹ کی پیمائش کرسکتے ہیں۔ مثلاً ہم اب اپنے اندر جانے والی سانس اور اس میں موجود آکسیجن کی شرح، پینے کے پانی کے صاف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم سے بہنے والے پسینے میں موجود نمکیات تک کی پیمائش کرسکتے ہیں۔ اسی طرح مستقبل قریب میں گوگل سوفٹ ویئرز اس قابل ہونگے کہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ کیا ’’ علم ‘‘ہے اور کیا نہیں، کیا ’’ پڑھانا ‘‘ ہے اور کیا ’’ نہیں پڑھانا‘‘۔

سائنس فکشن فلموں کی طرح یہ بھی ممکن ہو گا کہ آپ کے دماغ میں چِپ لگا دی جائے یا ایسے اسکینرز آپ کے دماغ سے منسلک کردیے جائیں، جن سے پتہ چل جائے گاکہ آپ کونسی ملازمت کرنے کے اہل ہیں یا آپ کے اندر کون کون سی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں یعنی مستقبل میں آپ کو CVدینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ آپ اپنے متوقع ایمپلائر کو اپنے دماغ کی تازہ ترین اِسکَین شدہ کاپی (Scanned Copy)ارسال کررہے ہوں گے۔ جب اس قسم کے طلبہ فیلڈ میں جائیں گے تو ان کیلئے نت نئی ملازمتیں بانہیں کھولے کھڑی ہوں گی۔ ڈیجیٹل دنیا کاروبار کرنے کے طریقے بھی تبدیل کررہی ہوگی اور موجود ہ کاروبار بھی ڈیجیٹل لبادہ اوڑھ چکے ہوں گے۔

ہم آج مصنوعی ذہانت پر بنیاد کرتی تعلیم (Artificial Intelligence-Based Education) کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ ہمارااوڑھنا بچھونا صرف مصنوعی ذہانت ہو گی۔ ہم مصنوعی ذہانت کے حوالے سے حالیہ پیش رفت دیکھیں تو گوگل کا ڈیپ مائنڈ (DeepMind) ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، جو اٹاری گیم Breakoutکھیلنے کیلئے استعمال ہوتاتھا۔ اس میں ڈیپ مائنڈ کے پاس کوئی ڈومین کی معلومات نہیں ہوتی تھی، بس معمولی سی بیک گرائونڈ معلومات ہوتی تھی اور یہ اسکور کو بڑھانے کیلئے آسان سے سوالات کرتاتھا ۔ بحیثیت ایک اعصابی نیٹ ورک (Neural Network) ڈیپ مائنڈ اپنے آپ کو سکھاتا اور اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھتا ہے اور پھر اس گیم میں ماہر ہو تا چلاجاتاہے۔اسی صلاحیت کی بناء پر ڈیپ مائنڈ نے کم سے کم بیک گرائونڈ معلومات کے باوجود اٹاری49کے 2600 ویڈیو گیمز کھیلنا سیکھے اور اس میں ماہر ہوتا چلا گیا۔ بالکل اسی طرح تعلیم کی دنیا میں ٹیچر بوٹس سامنے آئیں گےاور کسی بھی خطے کے مخصوص کلچر کو اپنے اندر محفوظ کرتے ہوئے ایک ماہر معلم بن جائیں گے اور وہ افریقہ یا افغانستا ن جانے سے انکار بھی نہیں کریں گے۔

تازہ ترین