• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عیدالاضحی ایک ایسا تہوار ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اُمّتِ مسلمہ کویہ پیغام دیا ہے کہ اپنی عزیز سے عزیز ترین شے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہو، اگر تم مومن ہو۔ جیسا کہ اللہ کے پیارےنبی حضرت ابراہیم ؑ کی سنّت ہے، جن کی بے مثل قربانی کی یادگار کے طور پر صاحبِ حیثیت مسلمان پر ہر سال قربانی واجب کر دی گئی ۔ لیکن قربانی کے ساتھ ہمارے ذمّے عیدالاضحی سے وابستہ کچھ احکامات اور بھی ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکرصرف انفرادی ہی نہیں، اجتماعی فوائد بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے تو گوشت کی منصفانہ تقسیم ہے۔ یعنی گوشت کے تین حصّے کیے جائیں۔ ایک اہل و عیال کے لیے رکھا جائے، دوسرا رشتے داروں، دوستوں کے لیے اور ایک حصّہ غریبوں میں تقسیم کردیا جائے، تاکہ اعتدال میں گوشت استعمال کرنے کے فوائد حاصل ہوں اور مضراثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔ دوم، قربانی کا فریضہ بہت مہذّب طریقے سے انجام دیا جائے، تاکہ ماحول میں آلودگی نہ پھیلے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ گھروں میں قربانی کا جانور ذبح ہوتے ہی فرش سے خون صاف کرنے کے لیے وہ جگہ پانی سے دھو دی جاتی ہے۔ یوں نالی وغیرہ میں خون بہنے کے باعث تعفّن پھیلتا ہے اور ہر طرف مکّھیاں بھنبھنانے لگتی ہیں۔ اگر یہ فرض گھر کے باہر انجام دیا جائے، تو سڑکوں و نالیوں پر جگہ جگہ خون بہہ رہا ہوتا ہے۔ اور آلائشیں تو دونوں صُورتوں میں جابجا نظر آتی ہیں، جو ماحول تعفّن زدہ کرنے کے ساتھ جراثیم کی افزایش اور مختلف بیماریوں کا باعث بھی بنتی ہیں۔طبّی اعتبار سے سب سے بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ جس جگہ جانور کا خون بہا یاہو، وہاں فوراً چُونا چھڑک دیں اور جب خون جم جائے، تب بیلچے کی مدد سے اُٹھا کر مٹّی میں دفن کردیں، تاکہ ماحول آلودہ نہ ہو۔ سوم، اگر گوشت محفوظ کیا جائے، تو کیسے اور کب تک؟ اس معاملے میں بھی اگر دینی احکامات پر عملِ پیرا ہواجائے یعنی اگر ضرورت مندوں کو گوشت زیادہ سے زیادہ تقسیم کردیا جائے، تو اس سے ایک تو ثواب بھی ملے گا، آلودگی میں بھی کمی واقع ہوگی اور پھر گوشت زیادہ مقدار میں اور زیادہ دیر تک محفوظ کرنے کے جھنجھٹ سے بھی نجات مل جائے گی۔

گوشت ہماری غذا کا بہت اہم حصّہ ہے، جس میں اس قدر مفید اجزاء پائے جاتے ہیں کہ اگر یہ کم مقدار میں بھی استعمال ہو، تو بحالیٔ صحت کے لیے کافی رہتا ہے۔ یاد رکھیے، جس طرح کسی بھی شے کا ضرورت سے زائد استعمال نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، اسی طرح کثرت سے گوشت کا استعمال بھی کئی عوارض کا سبب بن جاتا ہے۔ چوں کہ عید الاضحی کے موقعے پر گوشت کی فراوانی ہوتی ہے، تواس کے زائد استعمال کی وجہ سے بعض اوقات کچھ مضر اثرات فوری ظاہر ہوتے ہیں، جو دیرپا بھی ہوسکتے ہیں، تو بعض کیسز میں یہ اثرات کچھ عرصے بعد بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ عیدالاضحی کے موقعے پر گوشت ضرور کھائیں، لیکن اعتدال کے ساتھ۔اس ضمن میں متوازن غذا کا تصوّر جاننا ضروری ہے، تاکہ غذائی اشیاءدرست مقدار میں استعمال کی جاسکیں۔ ماہرینِ اغذیہ کی رائے کے مطابق ـ’’متوازن غذا وہ ہے، جو ہماری دِن بَھر کی انرجی یا طاقت کی ضرورت کو، غذا کے توانائی دینے والے اجزاء کی مناسب شرح سے پورا کرسکے۔‘‘ یوں تو غذا میں کئی مفید اجزاء شامل ہوتے ہیں، جیسے پانی، وٹامنز اور منرلز وغیرہ، لیکن انرجی صرف تین ہی اجزاء کاربوہائیڈریٹ، پروٹین اور فیٹس فراہم کرتے ہیں۔ متوازن غذا میں ان تینوں اجزاء کی بھی ایک خاص مقدارمقرر کردی گئی ہے۔ یعنی کاربوہائیڈریٹ سے58فی صد، فیٹس سے30فی صد اور پروٹین سے12فی صد انرجی حاصل کی جائے۔اب پروٹین سے 12 فی صد انرجی کا ماخذ گوشت، مرغی، مچھلی، انڈے، دالیں اور میوہ جات ہیں، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانے کے اوقات یعنی صُبح، دوپہر اور رات میں صرف ایک وقت گوشت استعمال کریں، باقی دو وقت کے کھانے میں پروٹین دیگر اجزاء سے حاصل کی جائے۔جیسے دالیں، انڈے اور مچھلی وغیرہ۔

متوازن غذا کو ایک’’ غذائی پلیٹ ‘‘سے بھی تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے پلیٹ کے تین برابر حصّے کیے جائیں۔ ایک حصّہ اناج سے بنے کھانوں پر مشتمل ہو، جیسے روٹی، چاول، پاستا، ڈبل روٹی وغیرہ۔ دوسرا حصّہ ترکاریوں اور پھلوں کے لیے مخصوص ہو۔ ترکاریاں پکّی یا کچّی بھی ہوسکتی ہیں۔ تیسرے حصّے کو پروٹین کے تین حصّوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک حصّہ گوشت، انڈے، مچھلی کے لیے، دوسرا حصّہ تیل، شکر، مکھن، گھی، مارجرین کے لیے اور تیسرا حصّہ دودھ اور دودھ سے بنی اشیا کے لیے ہو۔اب ہوتا یہ ہے کہ عیدالاضحی کے موقعےپر یہ غذائی پلیٹ درہم برہم ہوکر رہ جاتی ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ عید کا تہوار سال میں ایک بار آتا ہے اور پلیٹ تو روز ہی بنتی ہے، بلکہ دِن میں کئی بار بنتی ہے۔ قدرتی طور پر انسانی صحت برقرار رکھنے کانظام اتنا مؤثر ہے کہ اگر سمجھ بوجھ سے کام لیا جائے، تو کھانے کی خواہشات بھی پوری ہو سکتی ہیں اور صحت بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ یعنی جو بدپرہیزی عیدالاضحی کے موقعے پر زائد گوشت استعمال کرنے کی صُورت ہوتی ہے، اُسے آنے والے دِنوں، ہفتوں میں متوازن کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً عیدالاضحی کے تینوں دِن اناج، دال، ترکاری، پھلوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے اورپھر جسم کا وزن بھی عمومی صحت پر نگاہ رکھنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے،تو اگرعید پر وزن میں اضافہ ہو جائے، تو بعد میں ترکاری، پھل، اناج استعمال میں لاکر وزن کم کرنا مشکل نہیں۔ واضح رہے کہ پودوں سے حاصل ہونے والی توانائی کی مقدار بہ نسبت گوشت ،دودھ وغیرہ سے حاصل شدہ غذا کے کم پائی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گوشت میں ایسا کیا ہے کہ باوجود مفید ہونے کے اس کا زائداستعمال نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ گوشت، گائے، بھیڑ، بکری، مرغی، مچھلی کسی کا بھی ہوسکتا ہے،لیکن عیدالاضحی کے موقعے پرچوں کہ زیادہ تر گائے اور بکرے کی قربانی ہوتی ہے، تویہاں درج ایک چارٹ کے ذریعے مختلف اقسام کے گوشت کے اجزاءکے 100گرام کے ٹکڑے میں پائی جانے والی توانائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ گوشت میں کاربوہائیڈریٹ نہ ہونے کے برابرپایا جاتا ہے، جب کہ پانی کی مقدار70فی صد سے زائد ہوتی ہے۔چارٹ میں انرجی "Kilojoule" میں درج ہے اور 4.19KJ، وَن کے سی اے ایل برابر ہوتا ہے۔ جب کہ پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، فیٹس اور پانی گرام میں اور کیلشیم اور آئرن ملی گرام میں ہیں۔ واضح رہے کہ مرغی کا گوشت عموماً کم چکنائی والا ہی ہوتا ہے، اگر کھال شامل نہ ہو۔ البتہ مچھلی میں دونوں خاصیتیں (یعنی کم اور زیادہ چکنائی )پائی جاتی ہے، لیکن مچھلی کی چکنائی فائدہ مند ہےکہ اس میں اومیگا فیٹی ایسڈز( Omega Fatty Acids)کی زائد مقدار پائی جاتی ہے۔پھر ایسینشل فیٹی ایسڈزبھی زائد مقدار میں پائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مچھلی کا تیل سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ماہرینِ اغذیہ نےصحت کے اعتبار سے گوشت کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی قسم سُرخ گوشت اور دوسری سفید گوشت کہلاتی ہے۔ سُرخ گوشت میں hems (ہیموگلوبین کا وہ جز،جو اسے اس کا مخصوص رنگ دیتا ہے) اور چکنائی کی زائد مقدار پائی جاتی ہے،جب کہ سفید گوشت میں دونوں اجزا کم مقدار میں ہوتے ہیں۔یوں تو سُرخ گوشت زائد مقدار میں استعمال کرنے کے کئی نقصانات ہیں، مگر جسم میں تیزابیت کا ذکر قابلِ توجّہ ہے۔ماہرین نےتیزابیت ناپنے کا ایک پیمانہ مقرر کیا ہے، جسے’’PH‘‘سے موسوم کیا گیاہے۔مختلف اشیاء کی پی ایچ 1تا 14ہے۔ نمبر7پر تیزابیت اور الکالینیٹی (Alkalinity،یعنی تیزابیت کی مخالف قلمی صفت)مساوی ہوجاتے ہیں۔ یعنی اشیاء پی ایچ نیوٹرلph neutral )کی حامل ہیں۔ 1تا 7ایسڈیٹی(Acidity)اور 7تا14الکالینیٹی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک سے7پی ایچ والے کھانے ایسڈیک ہوتے ہیں۔ جیسے پھل، جوس ،سرکہ وغیرہ۔ عام طور پرہمارا جسم خود کواُس وقت آرام دہ اور محفوظ سمجھتا ہے،جب پی ایچ مختلف حصّوں کی یعنی خلیوں یا خون وغیرہ کی پی ایچ7کے قریب تر یا اس سے ذرا آگے ہو۔ اگرہماری غذا میں گوشت سے حاصل کی گئی پروٹین کے کم استعمال سے جسم کی پی ایچ، الکالین کی جانب زائد ہو، تو وہ بہتر کہلاتی ہے۔ سُرخ گوشت ہمارے ہاضمےکے نظام میں "Acidic Ash"بناتا ہے۔ اسی لیے گوشت ضرور کھائیں،لیکن اس کے ساتھ سبزی بھی استعمال کی جائے، تو گوشت کے مضر اثرات زائل یا متوازن ہوجاتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک پلیٹ میں اگر مناسب سائز کی بوٹی ہے، تو اس کے ساتھ تین گنا پھل اور سبزی ہو، تاکہ ایسڈیک ایش معتدل ہوجائے۔یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں قربانی کے ضمن میں اس بات پر زور دیا گیاہے کہ قربانی کا ایک تہائی گوشت ہم اپنے استعمال میں رکھیں اور باقی گوشت کے حصّے کرکے تقسیم کردیں۔

قربانی کا گوشت محفوظ کرنے کےحوالے سےبات کی جائے، تو تازہ گوشت میں اندازاً 78فی صد پانی کی مقدار پائی جاتی ہے۔ پانی کی زائد مقدار اوردیگر غذائی اجزءکی موجودگی میں خردحیاتیات(Micro Organisms)اور خاص طور پر بیکٹیریا گوشت جلد خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ کھانوں کو محفوظ(Preserve)کرنے کے طریقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اگرپانی کی مقدار کم کردی جائے، تو بیکٹیریا مرجاتے ہیں، کیوں کہ زندہ رہنے کے لیے پانی لازمی جز وہے۔ لہٰذا گوشت مختلف طریقوں سے سُکھا کر بھی زیادہ دِن تک محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ پُرانے زمانے میں گوشت کو پتلا کرکے دھوپ میں سُکھا کر محفوظ کرتے تھے، جب کہ موجودہ دَور میں متعدد طریقے مستعمل ہیں۔ تاہم، سب سے آسان اور بہتر طریقہ فریز کرنا ہے۔ بیکٹیریا نارمل درجۂ حرارت میں زیادہ تیزی سے نمو پاتے ہیں اور جس قدر حرارت کم کرتے جائیں یا فریزنگ بڑھاتے جائیں، تو اسی مناسبت سے بیکٹیریا بھی مرتے چلے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، بیکٹیریا کی افزایش روکنے کے لیےفریز کرنے سے قبل اگر گوشت پر نمک یا مسالاجات چھڑک دیں، تو یہ عمل بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے،کیوں کہ بیکٹیریازیادہ نمک میں مرجاتےہیں۔ اسی طرح صرف ادرک، لہسن کا پیسٹ لگا کر بھی گوشت کچھ عرصے کے لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔تاہم، فریز کیا ہوا گوشت بھی جلد استعمال کرلیا جائے تو بہتر ہے۔کیوں کہ ہمارے یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ زیادہ ہوتی ہے ،جس سےگوشت صحیح طریقے سے فریز نہیں ہوپاتا۔ نیز، ہمارے جسم کی طرح بیکٹیریا بھی تیزابی ماحول ناپسند کرتے ہیں اوراس میں افزایش نہیں کرتے، لہٰذاگوشت سرکہ لگا کر بھی محفوظ کیا جاسکتا ہے یا کچھ ترش ایسڈ زاستعمال کیے جاسکتے ہیں، جیسے سِٹرک ایسڈ، لیکٹک ایسڈ وغیرہ۔ واضح رہے کہ تازہ گوشت بہ نسبت پکے ہوئے کے جلد خراب ہوجاتا ہے، کیوں کہ اس میں شامل خون، بیکٹیریا کی مرغوب غذا ہے۔ علاوہ ازیں، چکنائی بھی گوشت محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ بیکٹیریا صرف تیل یا گھی میں زندہ نہیں رہتے، لیکن چکنائی خود آکسی ڈائز ہونے کی وجہ سے خراب ہوجاتی ہے۔ عام طور پرگوشت میںتین طرح کی چکنائی سیچوریٹڈ، مونو سیچوریٹڈ اور پولی اَن سیچوریٹڈپائی جاتی ہے۔ اگرچہ سیچوریٹڈ چکنائی صحت کے لیے نامناسب ہے، لیکن کُل چکنائی کا ایک تہائی حصّہ ضرور استعمال کیا جائے۔ جب کہ مونو اَن سیچورٹیڈچکنائی بہتر ہے اور پولی اَن سیچورٹیڈ چکنائی میں تو ضروری فیٹی ایسڈزپائے جاتے ہیں۔تاہم،سب سےبہتر چکنائی وہ ہے، جس میں ان تینوں چکنائیوں کا متوازن تناسب ہو۔ یعنی ہر ایک چکنائی کا ایک تہائی حصّہ،جب کہ مچھلی کا استعمال ہفتے میں دو یا تین بار کیا جائے، تو امراضِ قلب،سرطان اور بلڈپریشر کے امکانات کافی حد تک کم ہوجاتے ہیں۔

عیدالاضحی کے موقعے پرجانور کی قربانی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جاتی ہے اور قربانی کے گوشت کے حصّے، جہاں اُن غریب و نادار افراد کے لیے نعمت ہیں، جو سارا سال منہگائی کے سبب گوشت خریدنے کے متّحمل نہیں ہوسکتے، وہیں گوشت خوری سے بھی محفوظ رکھتے ہیں،لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مستفید ضرور ہوں،مگر احتیاط کے ساتھ۔اس طرح نہ صرف ہم کئی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں، بلکہ اپنی صحت کا معیار بھی بہتر بناسکتے ہیں۔ یاد رکھیے، ہماری خوراک کا بہت گہرا تعلق بیماریوں اور صحت سے ہے، اسی لیے موجود دَور میں دوا کے ساتھ غذا کے ذریعے علاج خاصی اہمیت حاصل کرچُکا ہے۔ مختلف تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت ہواہے کہ مناسب غذا دوا کی مقدار کم کردیتی ہے اور یہ بات تو تقریباً سب ہی کو معلوم ہے کہ دوا کے مضر اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں،لہٰذا روزمرّہ کے غذائی شیڈول میں متوازن غذا کا استعمال کیا جائے، تاکہ عید کے موقعے پر اگر کھانے کے معاملے میں دو تین دِن تک بدپرہیزی ہوبھی جائے ،تو بھی صحت کا معیار برقرار رہے۔

(مضمون نگار، شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، جامعہ کراچی اور جناح ویمن یونی ورسٹی، کراچی سے وابستہ ہیں)

تازہ ترین