• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ اس بار جشنِ آزادی پر گھروں اور گاڑیوں پر قومی پرچم لہرانے کی بجائے، ان پیسوں سے درخت لگائے جائیں۔‘‘ فیس بُک کے ایک معروف پیج پر ایڈمن کی جانب سے یہ پوسٹ لگائی گئی تھی، جسے نوجوان دھڑا دھڑ’’ لائک‘‘ کیے جا رہے تھے اور ایک بڑی تعداد اس کے حق میں کمنٹس بھی کر رہی تھی۔ ہم نے لکھا’’ بلاشبہ درخت لگانا کارِ ثواب اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قومی تہوار کے موقعے پر سبز ہلالی پرچم نہ لہرایا جائے۔ شاید ہمیں علم نہیں کہ جشنِ آزادی پر عوامی جوش و خروش کو سرحد پار سے خاص طور پر مانیٹر کیا جاتا ہے۔ سو، ہم میں سے ہر شخص نہ صرف یہ کہ جشنِ آزادی کے موقعے پر قومی پرچم لہرائے گا، بلکہ اپنے حصّے کا ایک پودا بھی لگائے گا تاکہ دوستوں اور دشمنوں کو خبر ہو کہ پاکستانی قوم جاگ رہی ہے۔‘‘ ان کمنٹس کا شئیر کرنا تھا کہ ساری فضا ہی بدل گئی اور ہر طرف سے ہماری رائے کی تائید ہونے لگی۔ یہاں تک کہ کچھ دیر بعد ایڈمن کو اپنی پوسٹ ایڈٹ کرنی پڑ گئی۔

درخت کتنے اہم…؟؟

یوں تو پوری دنیا کا موسم بدل رہا ہے، مگر پاکستان میں حالیہ موسمیاتی تبدیلیاں اس اعتبار سے زیادہ باعثِ تشویش ہیں کہ ہمارے ہاں اس صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گرمیوں کا دورانیہ اور شدّت بڑھ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں مُلک کے مختلف حصّوں میں اس قدر شدید گرمی پڑی کہ نظامِ زندگی ہی مفلوج ہوگیا۔ خاص طور پر کراچی کے شہریوں کے وہ دن جس اذیت میں گزرے، یہ وہی جانتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، کراچی کے یوں’’ آگ بگولا‘‘ ہوجانے کا ایک بڑا سبب درختوں کا نہ ہونا بھی ہے۔ درخت جہاں فیکٹریز اور گاڑیوں کے دھویں سے پھیلنے والی آلودگی کم کرنے میں مدد دیتے ہیں، وہیں یہ بارشوں کا بھی باعث بنتے ہیں ۔ نیز، یہ ماحول کے درجۂ حرارت کو اعتدال میں رکھتے ہیں۔ پھر یہ کہ درختوں کے معاشی، صنعتی اور غذائی فوائد بھی کچھ کم نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی مُلک میں جنگلات کا تناسب کُل رقبے کا 25 فی صد ہونا چاہیے، مگر پاکستان میں محض 5 فی صد علاقے پر جنگلات ہیں اور وہ بھی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ اگر ہم بڑے شہروں کی بات کریں، تو یہاں بڑھتی ہوئی آبادی نے درختوں پر کلہاڑے چلا دیے ہیں، جس سے یہ شہر سنگین ماحولیاتی مسائل کی لپیٹ میں ہیں۔لہٰذا، پاکستان کو ان ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے بہت منظّم اور بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم کی اشد ضرورت ہے۔

درخت لگانا…اِک مذہبی فریضہ

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نباتات کا اپنی رحمت اور نعمت کے طور پر ذکر کیا ہے۔ ارشادِ باری ہے’’وہی(اللہ) ہے، جو تمہارے فائدے کے لیے آسمان سے پانی برساتا ہے، جسے تم پیتے بھی ہو اور اس سے اُگے ہوئے درخت اپنے جانوروں کو چَراتے ہو، اس سے وہ تمہارے لیے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اُگاتا ہے۔ بے شک، ان لوگوں کے لیے تو اس میں نشانی ہے، جو غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ النحل)اسلام نے شجرکاری کی بے حد ترغیب دی ہے اور نبی کریمﷺ کے ارشاداتِ مبارکہ سے بہ خُوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام میں شجرکاری کس قدر ثواب کا کام ہے۔نبی کریمﷺنے فرمایا کہ’’اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں(پودے کی) قلم ہو اور وہ اس بات پر قادر ہوکہ قیامت قائم ہونے سے پہلے اُسے لگا لے گا، تو ضرور لگائے۔‘‘ (مسند احمد)ایک اور موقعے پر فرمایا’’ مسلمان کوئی درخت یا کھیتی لگائے اور اس میں سے انسان، درندہ، پرندہ یا چوپایا کھائے، تو وہ اُس کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے۔‘‘ (مسلم)ایک اور حدیثِ مبارکہؐ میں ہے کہ’’ جو کوئی درخت لگائے، پھر اُس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے، یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگے۔ اس درخت کا جو کچھ نقصان ہوگا، وہ اس کے لیے اللہ کے یہاں صدقے کا سبب ہوگا۔‘‘(مسند احمد)یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ درخت لگانے کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔نیز، احادیثِ مبارکہؐ میں درختوں کے کاٹنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔ نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا’’جو بیری کا درخت کاٹے گا، اُسے اللہ تعالیٰ اوندھے مُنہ جہنم میں ڈالیں گے۔‘‘ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اس حدیثِ مبارکہؐ سے ایسے درخت بھی مُراد ہیں، جن سے لوگوں کو سایہ حاصل ہوتا ہے یا چوپائے غذا حاصل کرتے ہیں۔(تفسیرِ قرطبی) نبی کریمﷺ نے حالتِ جنگ میں بھی درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ آپﷺ جہاد کے لیے جانے والے لشکر کو یہ ہدایت بھی فرمایا کرتے’’ کھیتی کو نہ جلانا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا ۔‘‘

زمین کہاں سے لائیں؟

بڑے شہروں کی بیش تر آبادی فلیٹس یا تنگ مکانوں میں رہتی ہے، جہاں اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ پودے اُگائے جا سکیں۔ واقعی شجر کاری مہم کے ضمن میں یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے، مگر اب ایسا بھی نہیں کہ فلیٹس میں رہنے والے سِرے سے پودے لگا ہی نہیں سکتے۔ اگر گھر میں لان بنانا ممکن نہیں، تو گملوں میں پودے لگا کر اُنھیں گیلری، سیڑھیوں، بیرونی دروازے یا کسی اور مناسب مقام پر رکھا جا سکتا ہے۔نیز، اگر نوجوان چاہیں، تو اپنے گلی محلّوں میں بھی ایسے مقامات تلاش کر سکتے ہیں، جہاں شجرکاری کی جاسکتی ہو۔ اسی طرح، دیہات میں رہنے والوں کو بھی پہلے سے لگے درختوں یا پودوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ،بلکہ اس بار اُنھیں بھی شجرکاری میں اپنا حصّہ ڈالنا چاہیے۔

پودا لگایا ہے، تو سنبھالیں بھی

ہمارے ہاں سال میں دو بار شجرکاری مہم چلائی جاتی ہے۔ جنوری کے وسط سے مارچ تک اور دوسری بار جولائی سے ستمبر کے وسط تک۔ اس دَوران مختلف اداروں کی جانب سے لاکھوں پودے لگانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، مگر وہ پودے کہیں نظر نہیں آتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کام کم اور دعوے زیادہ کیے جاتے ہیں، لیکن شجرکاری مہم کی ناکامی کی بڑی وجہ لگائے گئے پودوں کی دیکھ بھال نہ کرنا بھی ہے۔ پودے لگانے کے بعد اُن کی طرف بھول کر بھی نہیں دیکھا جاتا، جس کے سبب وہ یا تو مختلف جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں یا پھر سوکھ جاتے ہیں۔ اگر پودے لگا کر اُن کی نگہہ بانی اور حفاظت نہ کی جائے، تو ایسی شجرکاری کا تکلّف کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لہٰذا، اس بار ہم جو بھی پودا لگائیں، اُس کی اپنے بچّوں کی طرح حفاظت کرنی ہے تاکہ وہ تناور درخت بن کر ہمارے لیے مفید ثابت ہو سکے۔

کٹائی روکے بغیر بات نہیں بنے گی

شجرکاری کی اہمیت اپنی جگہ، مگر پہلے سے موجود درختوں کی حفاظت کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔ شہروں کے مضافات میں قائم زرعی اراضیاں، ہاؤسنگ سوسائٹیز کا رُوپ دھارتی جا رہی ہیں، جہاں درختوں کو کاٹ کر مکانات بنائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح، سڑکوں کے کنارے لگے درخت سڑکوں کی کشادگی کی نذر ہو رہے ہیں۔ نیز، کچھ عرصہ پہلے تک بہت سے گھروں میں درخت ہوا کرتے تھے، مگر اُن میں سے بیش تر نئی تعمیرات کے دوران وجود کھو بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب گھروں میں کوئلیں بولتی ہیں، نہ مینائیں۔ شمالی علاقوں میں، جہاں اب بھی مُلک کے دیگر حصّوں سے زیادہ درخت ہیں، ٹمبر مافیا نے جنگلات کا مستقبل داؤ پر لگا رکھا ہے۔ وہاں اور مُلک کے دیگر حصّوں میں جس رفتار سے درخت کاٹے جا رہے ہیں، اُس کے مقابلے میں نئے پودے لگانے کی رفتار انتہائی سُست ہے۔سو، شجر کاری کے ساتھ، درخت کاٹنے کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے۔

چند بنیادی باتیں

پودا اُگانا اتنا آسان نہیں، جتنا بہ ظاہر نظر آتا ہے۔ یہ خاصی مہارت کا کام ہے، لہٰذا شجرکاری میں حصّہ لینے سے پہلے کسی ماہر سے ٹپس لینا مت بھولیے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آپ کس علاقے میں کون سا پودا لگا رہے ہیں؟ کیوں کہ ہر پودا، ہر علاقے کے لیے نہیں ہوتا۔ پھر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بند گھر اور کُھلے مقام کے لیے کون سے پودے مناسب رہیں گے۔ پودوں کی اونچائی اور چوڑائی کیا ہوگی؟ اور اُن کی جڑیں کتنی پھیلیں گی؟ اس کے بارے میں بھی ٹھیک ٹھیک معلومات حاصل کرنی ہوں گی۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض درختوں کی جڑیں دیواروں تک کو توڑ ڈالتی ہیں۔نیز، نرسری سے پودا خریدتے ہوئے بھی آنکھیں کُھلی رکھنی چاہئیں تاکہ کوئی خراب پودا آپ کو نہ تھما دے۔ علاوہ ازیں، پودے کو گملے یا زمین میں لگانے سے پہلے کسی سے اچھی طرح طریقہ سمجھ لینا چاہیے تاکہ آپ کی محنت ضائع نہ ہونے پائے۔

جنگل اُگانے کے لیے دہائیاں درکار نہیں

جاپان کے ماہرِ نباتات،’’ اکیرا میواکی‘‘ کے ایجاد کردہ طریقے سے انتہائی تیز رفتاری سے جنگل اُگائے جا سکتے ہیں۔’’ میواکی‘‘ طریقے سے کم جگہ پر بھی زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جاتے ہیں۔ اس طریقے کے تحت سب سے پہلے علاقائی پودوں کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ اُن کی نمو میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ پھر منتخب کردہ زمین پر کیمیکل یا کیمیائی کھاد ڈالنے کی بجائے ،علاقائی کھاد پھیلا دی جاتی ہے۔ بعدازاں، پودوں کو چار تہوں میں ترتیب سے لگا دیا جاتا ہے۔ اس طریقۂ کار کی ایک خاص بات یہ ہے کہ پودوں کو صرف تین سال پانی دینا پڑتا ہے، جس کے بعد وہ خود بہ خود بڑھنے لگتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے لگائے گئے درخت دس گُنا زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور وہ دیگر درختوں کے مقابلے میں تیس گنا زیادہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔نیز، اُن میں کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرنے کی صلاحیت بھی تیس گُنا زیادہ ہوتی ہے۔اسی طرح، دنیا میں ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز کو بھی شجرکاری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سری لنکا میں ہیلی کاپٹر سے شجر کاری کا تجربہ نہایت کام یاب رہا۔ وہاں ہیلی کاپٹر سے جاپانی طریقۂ کار کے مطابق چکنی مٹّی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے گولے پھینکے گئے، جن سے کچھ ہی عرصے بعد پودے اُگ آئے۔

ایک بچّہ، لاکھوں درخت

آپ نے’’پلانٹ فار دی پلینیٹ‘‘ کے بارے میں تو سُنا ہوگا۔ دنیا کے ستّر سے زیادہ ممالک میں کام یابی سے چلنے والی اس مہم کا بانی ایک جرمن بچّہ ہے۔ فیلکس فِنک بائنر 2007 ء میں صرف نو سال کا تھا، جب اُسے دنیا کو سرسبز بنانے کی سُوجھی۔ اُس نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر کام شروع کیا اور آہستہ آہستہ کاروان بنتا چلا گیا۔ آج اُس کی مہم، عالمی تحریک کی صُورت اختیار کر چُکی ہے۔ اُسے یہ آئیڈیا افریقی مُلک، کینیا کی ایک خاتون کی جدوجہد سے ملا، جس نے تیس برسوں میں تیس ملین درخت لگائے تھے۔ یہ جرمن بچّہ دنیا کے ہر مُلک میں لاکھوں درخت لگانا چاہتا ہے اور اب تک کئی ملین درخت لگا بھی چُکا ہے۔ تو کیا ہمارے بچّے اور نوجوان کسی سے کم ہیں…؟؟ بس ذرا حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، پھر دیکھیے، وہ کیسے مُلک کو سرسبز بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

میری توبہ، جو آئندہ درخت کاٹوں!!

جی ہاں! درخت لگانے کے عزم کے ساتھ درخت کاٹنے سے توبہ بھی کرنی چاہیے، جیسے چین کے ایک شہری نے کی تھی۔بات تو کچھ پُرانی ہے، مگر ہے سبق آموز۔ ایک چینی شہری1989 ء تک درخت کاٹنے کی نوکری کررہا تھا، پھر اُسے خیال آیا کہ یہ تو اچھا کام نہیں، جس کے بعد اُس نے نوکری چھوڑ کر درخت لگانا شروع کردیے۔ اُس نے اگلے برس کے موسمِ بہار میں 46 ہزار پودے عین اُسی جگہ لگائے، جہاں سے درخت کاٹے تھے۔

کراچی کے بیچوں بیچ جنگل...؟؟

نہیں، ابھی تو شہر میں ایسا کوئی جنگل موجود نہیں، تاہم اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے، تو ایک شان دار جنگل اور تفریحی مقام وجود میں آ سکتا ہے۔ ہمارا اشارہ لیاری ندی کی جانب ہے۔ کئی کلومیٹر پر پھیلی یہ ندی تقریباً شہر کے وسط سے گزرتی ہے، جس کے دونوں کناروں پر’’ لیاری ایکسپریس وے‘‘ کے نام سے دس کلومیٹر طویل سڑکیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ ایک زمانے میں لیاری ندی میں سمندر کا پانی لاکر کشتیاں چلانے کا منصوبہ بھی زیرِ غور رہا ہے، مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ تاہم، ماہرین کے مطابق، اگر منظّم منصوبے کے تحت شجرکاری کی جائے، تو لیاری ندی میں کئی لاکھ درخت لگائے جا سکتے ہیں، یوں شہر کے بیچوں بیچ دو سے تین برسوں میں ہرا بھرا اور گنجان جنگل وجود میں آ سکتا ہے، جس سے ماحول پر مثبت اثرات مرتّب ہونے کے ساتھ، شہریوں کو ایک بہترین تفریحی مقام بھی مل جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ ندی میں قدرتی کھاد پہلے ہی سے موجود ہے، جس کے نیچے نمی بھی رہتی ہے، جو درختوں کو انتہائی تیزی سے بڑھنے میں مدد دے گی۔ اسی طرح، کراچی میں ملیر ندی اور گجر نالے سمیت کئی اور بھی ایسے مقامات ہیں، جہاں بڑی تعداد میں درخت اُگائے جا سکتے ہیں، جنھیں پانی اور کھاد دینے کے لیے بھی کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔

قومی پرچم... کچھ احتیاط بھی

بلاشبہ یومِ آزادی پر قومی پرچم لہرانا ایک خوش گوار فریضہ ہے، جسے ہم ہر برس ہی ادا کرتے ہیں۔ اور کیوں نہ کریں، بھلا اس پاک سرزمین سے بڑھ کر بھی کچھ ہے…؟؟ جشنِ آزادی کے موقعے پر سرکاری اور نجی عمارتیں جگ مگ کرتی ہیں، تو عمارتوں اور گاڑیوں پر سبز ہلالی پرچم اِک عجب بہار دِکھاتے ہیں۔ سینوں پر آویزاں قومی پرچم کے بیجز ہمارے سینوں کو فخر سے مزید چوڑا کردیتے ہیں۔ کیا بچّے اور کیا جوان، سبھی اپنے اپنے انداز سے مُلک سے وفاداری کا اظہار اور اس کے لیے کٹ مرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ بس، کہنا یہ ہے کہ جشن کے دن گزرنے کے بعد ان پرچموں کو نہایت عزّت واحترام سے پولز اور دیگر مقامات سے اُتار کر کسی مناسب جگہ پر رکھ دینا چاہیے۔قومی پرچم کو ہواؤں کے رحم و کرم پر چھوڑنا، ان کی بے حرمتی ہے اور غیّور قومیں اپنے پرچم کی بے حرمتی کبھی برداشت نہیں کرتیں۔

تازہ ترین