• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طلعت عمران  

پاک، امریکا تعلقات نیا دَور
ایئر وائس مارشل (ر) عابد راؤ
سیاسی و دفاعی تجزیہ کار

پاک، امریکا تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے، میاں نواز شریف کی جانب سے وزیرِ خارجہ کا تقرر نہ کیے جانے کی وجہ سے امریکا اور بھارت کے درمیان قربت بڑھی، عمران خان نے پہلی مرتبہ امریکی صدر سے ’’ایڈ‘‘ کے بجائے ’’ٹریڈ‘‘ کی بات کی، ٹرمپ کی جانب سے مودی کی ثالثی کی درخواست کے انکشاف پر بھارت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، شملہ معاہدے کے بعد سے اب تک کوئی بھی پاک، بھارت تنازع دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل نہیں ہوا، عمران خان کے کامیاب دورۂ امریکا کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے، ممکن ہے کہ امریکی دبائو کے نتیجے میں بھارت، پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ ہو جائے، طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کے بعد پاکستان امریکی فوج کی حفاظت کی ضمانت دے سکتا ہے، جو امریکا پر ایک احسان ہو گا، اگر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تو پاکستان ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی ڈیمانڈ کر سکتا ہے، امداد جاری رہنے کا انحصار امریکا کے رویے پر ہے

ایئر وائس مارشل (ر) عابد راؤ

پاک، امریکا تعلقات نیا دَور
ہما بخاری
چیئرپرسن، نیو پورٹس
انسٹی ٹیوٹ

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورۂ واشنگٹن توقعات سے زیادہ کامیاب رہا، بالخصوص وائٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران ٹرمپ کے مودی کی جانب سے ثالثی کی درخواست کے انکشاف نے تو پورے بھارت میں ایک ہلچل سی مچا دی اور مودی سرکار کو وضاحتیں پیش کرنا پڑ رہی ہیں، اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس موقعے پر ہونے والی یقین دہانیاں اور عہد و پیمان عملی شکل بھی اختیار کریں گے یا نہیں اور اگر کریں بھی گے، تو اس میں کتنا وقت لگے گا،وزیرِ اعظم کے دورۂ امریکا کے دوران کئی اہم باتیں ہوئیں، جن سے دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا، لیکن ہمیں ان کے نتائج پر نظر رکھنا ہو گی، پاکستان کو ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہو گی کہ جس سے ملک کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے

ہما بخاری

22جولائی کو وزیرِ اعظم عمران خان نے وائٹ ہائوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ اس سے قبل پاک، امریکا تعلقات میں خاصی سرد مہری پائی جاتی تھی، جب کہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف روابط بلکہ پاکستان کے لیے امریکی امداد بھی بحال ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق عمران خان کا دورۂ امریکا کامیاب رہا اور امریکی صدر سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کی جانب سےمقبوضہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امداد کی بحالی کے بدلے پاکستان کو کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔ نیز، اب پاکستان کا اس خطے میں کیا کردار ہو گا۔ ان سمیت دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں ’’پاک، امریکا تعلقات‘‘ کے موضوع پر ’’نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشنز اینڈ اکانومکس‘‘ میں جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں معروف سیاسی و دفاعی تجزیہ کار، ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو اور نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ کی چیئرپرسن، ہما بخاری نے اظہارِ خیال کیا اور حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس موقعے پر ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

پاک، امریکا تعلقات نیا دَور
’’نیو پورٹس انسٹی ٹیوٹ آف کمیونی کیشنز اینڈ اکنامکس‘‘ میں ’’پاک، امریکا تعلقات‘‘کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کا منظر ،ایڈیٹر جنگ فورم ، کراچی محمد اکرم خان میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں

 جنگ :وزیرِ اعظم پاکستان کے دورۂ امریکا کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ہما بخاری :اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورۂ واشنگٹن توقعات سے زیادہ کامیاب رہا۔ بالخصوص وائٹ ہائوس میں ملاقات کے دوران ٹرمپ کے مودی کی جانب سے ثالثی کی درخواست کے انکشاف نے تو پورے بھارت میں ایک ہلچل سی مچا دی اور مودی سرکار کو وضاحتیں پیش کرنا پڑ رہی ہیں۔ تاہم، اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس موقعے پر ہونے والی یقین دہانیاں اور عہد و پیمان عملی شکل بھی اختیار کریں گے یا نہیں اور اگر کریں بھی گے، تو اس میں کتنا وقت لگے گا۔وزیر اعظم پاکستان اپنی کرشماتی شخصیت کے باعث امریکا میں مقیم پاکستانی باشندوں اور امریکی حکام کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ عمران خان کے دورۂ امریکا سے قبل پاک، امریکا تعلقات میں خاصی سرد مہری پائی جاتی تھی اور دونوں جانب عدم اعتماد کی فضا بھی قائم تھی۔ مزید برآں، امریکا کی جانب سے پاکستان کی امداد بھی روک دی گئی تھی۔ تاہم، کہا جا رہا ہے کہ اس دورے کے بعد پاک، امریکا کے تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ نیز، پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بحالی کی خبریں بھی زیر گردش ہیں، لیکن یہاں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اس موقعے پر پاکستان اور امریکا کے درمیان کیا معاملات طے پائے۔ پاکستان کی جانب سے پہلے بھی ’’ایڈ‘‘ کے بہ جائے ’’ٹریڈ‘‘ کی بات کی جاتی رہی، جس کے بدلے امریکا نے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا، تو کیا اس بار بھی امریکا نے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں، امریکا کو پاکستان کا کس قسم کا تعاون درکار ہے اور کیا اس کے بدلے پاکستان کی مالی و فوجی امداد بحال ہو جائے گی۔ ان سمیت دیگر تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے معروف سیاسی و دفاعی تجزیہ نگار ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو کو دعوت دی ہے۔

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :میں سب سے پہلے پاک، امریکا تعلقات کی مختصر تاریخ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ قیامِ پاکستان کے وقت ہی سے بھارت نے پاکستان سے معاندانہ رویہ اپنایا اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو اس کا جائز حصہ تک دینے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح بھارت نے کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا، جو اس وقت مقبوضہ کشمیر کہلاتا ہے۔ چوں کہ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو بھارت کی جانب سے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی جارحیت کا خدشہ تھا، لہٰذا انہوں نے مالی و فوجی امداد کے لیے امریکا کا دورہ کیا۔ ابھی دوسری عالمی جنگ ختم ہوئے چند برس گزرے تھے اور امریکا کورین جنگ (1951ء) کی تیاری کر رہا تھا، سو وہ پاکستان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔سو، امریکی مدد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو کافی سمجھوتے کرنا پڑے اور اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو یہ تک کہنا پڑا کہ ہماری مسلح افواج امریکا کی مسلح افواج ہیں اور جہاں امریکی افواج کو ضرورت ہو گی، وہاں پاک فوج جائے گی۔ اس قدر جتن کرنے کے بعد پاکستان کو پہلی مرتبہ 1955ء میں امریکا کی طرف سے فوجی امداد ملی۔ تاہم، امریکی کیمپ میں جانے کی وجہ سے سوویت یونین (موجودہ روس) ہمارے خلاف ہو گیا۔ بعد ازاں، پاک فضائیہ کو اس وقت کے جدید جنگی طیارے اور تربیت ملی، جو امریکا نے اپنے کسی اور اتحادی کو فراہم نہیں کی تھی۔ گرچہ امریکا کی جانب سے یہ شرط عاید کی گئی تھی کہ یہ فوجی امداد صرف کمیونسٹ بلاک کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں پاکستان کا اعتماد بحال ہوا۔ 1962ء میں چین اور بھارت کے درمیان جنگ کے موقعے پر پاکستان کو بھارت کی مدد کے لیے کہا گیا، لیکن پاکستان نے انکار کر دیا۔ نتیجتاً، 1963ء میں امریکا نے پاکستان پر پابندیاں عاید کر دیں اور ساتھ ہی جنگی آلات کے اسپیئر پارٹس دینا بھی بند کر دیے۔ 1965ء میں امریکی فوجی امداد کی بہ دولت پاکستان نے بھارت پر اپنی جنگی برتری ثابت کی، تو بھارت نے امریکا سے شکایت کی اور بھارتی اثر و رسوخ کے باعث امریکا نے پاکستان پر مزید پابندیاں عاید کر دیں۔ 1971ء کی پاک، بھارت جنگ میں امریکا نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا، حالاں کہ پاکستان نے امریکا، چین تعلقات قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 1973ء کی عرب، اسرائیل کی جنگ کے بعد امریکا نے اسرائیل کو درپیش ہر قسم کے خطرات کو بہ تدریج ختم کرنا شروع کیا۔ خوش قسمتی سے اس عرصے میں پاکستان کا جوہری پروگرام کامیابی سے آگے بڑھتا رہا۔11مئی 1998ء کو بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے، جس کے جواب میں 28مئی 1998ء کو پاکستان نے مجبوراً 6ایٹمی دھماکے کیے۔ 1979ء سے 1990ء تک جاری رہنے والی افغان جنگ کے دوران امریکا نے پاکستان کو ایف 16طیارے دیے، کیوں کہ اس وقت امریکا کو پاکستان کی ضرورت تھی اور اس موقعے پر امریکا نے ضیاء الحق کی فوجی آمریت پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یاد رہے کہ جب قومی مفاد کی بات آتی ہے، تو جذبات کو بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی امریکا کا پاکستان سے مفاد ختم ہوا، تو اس نے پریسلر ترمیم کے ذریعےپاکستان پر پابندیاں عاید کر دیں۔ نتیجتاً، پاکستان کو ایف 16طیاروں کے اسپیئر پارٹس اور تربیت کی فراہمی بند کر دی گئی۔ امداد بند ہونے کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے خود ہی ہاتھ پائوں مارنا شروع کیے اور ایف 16کے مقابلے میں جے ایف 17بنایا۔ نائن الیون کے بعد 2001ء میں ایک مرتبہ پھر امریکا کو ہماری ضرورت محسوس ہوئی، تو اس نے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا صف اول کا اتحادی قرار دے دیا۔ تاہم، 2006ء کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک مرتبہ پھر غلط فہمیاں پیدا ہونا شروع ہوئیں اور امریکا نے پاکستان سے ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ شروع کر دیا۔ عدم اعتماد کی یہ فضا اس قدر بڑھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ میں پاکستان کو دھوکا دہی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے امریکی امداد روک دی اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کو واجب الادا رقم بھی دبا لی۔ یعنی پاک، امریکا تعلقات ہمیشہ ہی نشیب و فراز کا شکار رہے اور ہم امریکا کوٹھیک طرح سمجھ ہی نہیں پائے۔ میاں نواز شریف نے اپنے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں کسی وزیرِ خارجہ کا تقرر نہیں کیا، جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نیز، امریکا اور بھارت کے درمیان روابط گہرے ہوئے۔ تاہم، عمران خان اور ان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب اور قطر سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے خاصی محنت کی۔ اگرچہ قطر اور سعودی عرب کے درمیان ناراضگی پائی جاتی ہے، لیکن ان دونوں ممالک نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ بھارت ابھی تک پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ اب جہاں تک وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ امریکا کی بات ہے، تو وہ پی آئی اے کے بہ جائے کمرشل فلائٹ سے امریکا گئے۔ یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ ماضی میں حکم راں 60سے 70افراد کے ساتھ دورے پر جاتے تھے، جن میں سے بہ مشکل 10افراد ہی اسٹیٹ گیسٹ ہوتے تھے، جب کہ باقی پاکستانی عوام کے پیسوں پر سیر سپاٹے کرتے تھے۔ عمران خان کی اس کفایت شعاری پر بھارتی میڈیا کے علاوہ اپوزیشن نے بھی مذاق اڑایا۔ پھر کیپیٹل ون ایرینا میں عمران خان کے جلسے کے دوران لوگوں کا ایک جمِ غفیر موجود تھا۔ 1989ء میں جب میں بہ طور ونگ کمانڈر پیرس میں تعینات تھا، تو اس دوران اس وقت کی وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو وہاں آئیں اور انہوں نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی فرانس سے خطاب کرنا چاہتی ہوں۔ ہم نے ان سے کہا کہ یہاں بڑی تعداد میں پاکستانی مقیم ہیں، تو صرف پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرنے کی کیا ضرورت ہے، لیکن وہ اپنی بات پر مصر رہیں اور پھر انہوں نے پیرس میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کیا۔ جب یہ روایت قائم ہو گئی، تو پھر نون لیگ نے بھی بیرون ملک اپنی پارٹی کے جلسے منعقد کیے۔ میرا برطانیہ آنا جانا لگا رہتا ہے اور اس دوران اکثر پاکستانی باشندوں سے ملاقات ہوتی ہے، جو مجھ سے پاکستان کے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ایک مرتبہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی باشندوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تمام پاکستانی متحد ہو جائیں، تو ہمارے سارے مسائل ختم ہو جائیں، تو میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ لوگ اندرونِ ملک متحد ہونے کی بات تو کرتے ہیں، لیکن خود کو مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ آپ خود کو کسی سیاسی جماعت کے کارکن کے بہ جائے پاکستانی ظاہر کریں۔ عمران خان کے امریکا میں مقیم پاکستانی باشندوں سے خطاب کی صورت 30برس بعد بیرونِ ملک سیاسی جماعتوں کے جلسوں کی روایت ختم ہوئی۔ پھر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کا مرحلہ آتا ہے۔ اس موقعے پر عمران خان نے امریکی صدر سے ’’ایڈ‘‘ کے بہ جائے ’’ٹریڈ‘‘ کی بات کی اور وائٹ ہائوس میں موجود دنیا بھر کے میڈیا نمایندوں کے سخت سوالات کے جوابات دیے۔ اگر مسئلہ کشمیر کی بات کی جائے، تو بد قسمتی سے ابھی تک ہم اس سلسلے میں کوئی واضح پالیسی تشکیل نہیں دے پائے۔ یاد رہے کہ جب بھی کسی معاملے کا انتخاب کیا جاتا ہے، تو سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ ہم اس معاملے میں کس حد تک جا سکتے ہیں۔ عمران خان نے ہر معاملے پر پر اعتماد انداز میں بڑی جامع گفتگو کی، جب کہ اس سے قبل کسی پاکستانی رہنما نے امریکی صدر سے ایسی مؤثر بات چیت نہیں کی۔ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران جب عمران خان نے مسئلہ کشمیر پر بات کی، تو انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں مودی نے ان سے اس معاملے میں ثالثی کی درخواست کی تھی۔ ٹرمپ کی اس بات پر پورے بھارت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ یہ عمران خان کی ایک اہم کامیابی تھی۔ 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کے درمیان شملہ معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس معاہدے کی رُو سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات باہمی مذاکرات کے ذریعے طے کیے جائیں گے اور اس معاہدے پر بھٹو صاحب کو مجبوراً دستخط کرنا پڑے تھے۔ تاہم، اس کے نتیجے میں وہ ہزاروں پاکستانی قیدی واپس لے کر آئے، جو ان کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ 1972ء سے لے کر اب تک گزشتہ 47برسوں میں کوئی بھی پاک، بھارت تنازع دو طرفہ مذاکرات سے حل نہیں ہوا، کیوں کہ بھارت ہم سے بات چیت کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ لہٰذا، عمران خان سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کی جانب سے ثالثی سے متعلق دیا جانے والا بیان خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ مگر جب عمران خان وطن واپس آئے، تو یہ کہا جانے لگا کہ انہوں نے افغانستان کے معاملے پر امریکا کو کچھ یقین دہانیاں کروائی ہیں، حالاں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ تاہم، وزیرِ اعظم نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اس ملاقات کے چند روز بعد امریکا نے پاکستان کے لیے 12کروڑ 50لاکھ ڈالرز کی تیکنیکی اور لاجسٹکس ایڈ بحال کر دی۔ یہ پاکستان کا ایک بڑا مطالبہ تھا، جسے امریکا نے تسلیم کیا۔ علاوہ ازیں، عنقریب ہی امریکی باشندوں کے پاکستان میں سفر پر لگنے والی پابندی بھی اٹھنے والی ہے۔ تیسری خوش خبری یہ ہے کہ امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند پاکستانی طلبہ کو سات روز میں ویزے جاری کیے جائیں گے۔ عمران خان نے اپنے دورۂ امریکا میں یہ تک کہا کہ وہ امداد کو قوم کے لیے لعنت سمجھتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہماری قوم بھکاری بن گئی ہے اور ہر وقت ہماری نظریں مالی معاونت پر لگی رہتی ہیں۔ ہماری خود داری ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ علامہ اقبال نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ؎ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودو میں،پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا ۔ دراصل، ہمارے عوام کو محنت کرنے کی عادت نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں من و سلویٰ ملے اور کوئی ہماری ضروریات پوری کرتا رہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی اس کی ایک مثال ہے، جس پر سالانہ 122ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ پروگرام گزشتہ 10برس سے جاری ہے۔ اگر یہ سارا سرمایہ کسی انڈسٹری میں لگایا جاتا، تو کئی لوگ مال دار ہو چکے ہوتے، لیکن سیاسی حکومتیں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے یہ سب کرتی ہیں۔ اگر آپ اندرون سندھ جا کر دیکھیں، تو آپ کو اصل صورتِ حال کا اندازہ ہو گا۔ پاک، امریکا تعلقات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے میری نظر میں وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکا ایک کامیاب دورہ تھا۔

نعمان :اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کی جانب سے ثالثی کی درخواست کا دعویٰ کیا ہے، لیکن بھارت اس دعوے کو بار بار مسترد کر رہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہیں چاہتا، تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :ابھی تک مودی نے اس دعوے کو مسترد نہیں کیا اور کانگریس پارٹی نے بڑے سخت الفاظ میں بھارتی وزیرِ اعظم کو اس معاملے کی وضاحت پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔ پھر اس معاملے پر بھارت کے ایوانِ بالا، راجیہ سبھا میں اس قدر شدید ہنگامہ آرائی ہوئی کہ اجلاس روکنا پڑا۔ ممکن ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر ثالثی پر آمادہ نہ ہو، لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ امریکا اس پر مختلف اقسام کی پابندیاں عاید کر دے، جس کے نتیجے میں وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہو جائے۔ ماضی میں پرویز مشرف کے واجپائی اور من موہن سنگھ دونوں کے ساتھ مذاکرات ہوئے، لیکن پرویز مشرف کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا، جب کہ اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر بات چیت کیوں نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ بھارت، پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اپنی سبکی سمجھتا ہے۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ ہو جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں بھارت میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کو تقویت ملے گی۔ مثال کے طور پر خالصتان تحریک دوبارہ زندہ ہو جائے گی اور اسی طرح جھاڑ کھنڈ وغیرہ میں جاری علیحدگی کی تحریکیں بھی زور پکڑ لیں گی۔ بھارت اتنا متحد نہیں، جتنا نظر آتا ہے۔

جنگ :اگر امریکا ثالثی کرتا ہے، تو کیا ہمیں اس سے فائدہ ہو گا؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: ہمیں اکثر یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے با عزت طریقے سے نکلنا چاہتا ہے، کیوں کہ وہاں اس کے فوجی مارے جا رہے ہیں اور پھر اس تنازعے کی وجہ سے بھارت کی معیشت پر بھی بوجھ پڑ رہا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق ہوتا ہے، تو اس میں پاکستان کا فائدہ ہے اور اگر کشمیری ایک آزاد ریاست کے طور پر رہنا چاہتے ہیں، تو بھی ہم ان کی حمایت کریں گے۔ 1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ تجویز دی تھی کہ آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان سرحد کو ختم کر کے ایک مشترکہ اسمبلی کے لیے یہاں عام انتخابات کروائے جائیں۔ یہ سلسلہ 10برس تک جاری رکھا جائے اور اس دوران بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز آ جائے گا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم نے کشمیر سے متعلق ابھی تک اپنی کوئی واضح پالیسی بنائی ہی نہیں۔ کبھی ہم کہتے ہیں کہ ہم ان کی اخلاقی مدد کریں گے، تو کبھی کہتے ہیں کہ ہم ان کی سفارتی محاذ پر مدد کریں گے۔

عرفان :امریکا میں عمران خان کے جلسے میں ہزاروں پاکستانی کیسے آئے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :وہ قیمے نان کے لالچ پر آئے اور نہ پیسوں کے لالچ پر۔ اس جلسے میں واشنگٹن کے علاوہ امریکا کی دوسری ریاستوں اور کینیڈا سے بھی پاکستانی آئے۔ دراصل، حکومت نے وہاں جلسے کی تشہیر بڑے مؤثر انداز میں کی تھی۔ اس جلسے کی وجہ سے بھی ٹرمپ پر اثر پڑا۔ قبل ازیں، مودی نے بھی ایک جلسہ کیا تھا، لیکن اس میں بھارتی باشندوں کی تعداد اتنی نہیں تھی، حالاں کہ وہاں پاکستانیوں کے مقابلے میں چار گنا بھارتی باشندے آباد ہیں۔

جنگ :ٹرمپ نے یہ شکایت کی کہ پچھلی پاکستانی حکومتوں نے امریکا سے تعاون نہیں کیا۔ آخر امریکا پاکستان سے کس قسم کا تعاون چاہتا تھا اور چاہتا ہے۔ نیز، کیا اب ہم امریکا کے ساتھ تعاون کر پائیں گے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :ڈپلومیسی میں بعض اوقات جھوٹے الزامات بھی عاید کیے جاتے ہیں۔ امریکا بار بار ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتا تھا اور 2006ء سے ہمارے راستے جدا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ امریکا پاکستان میں ڈرون حملے کرتا تھا، تو پاکستان کہتا تھا کہ وہ ہماری سرزمین پر خود کش حملے کرنے والی ٹی ٹی پی سمیت دوسری دہشت گرد تنظیموں کو بھی نشانہ بنائے، جس پر امریکا یہ جواب دیتا کہ وہ صرف اپنے دشمنوں کو مار رہا ہے۔ پھر امریکا کو یہ شک ہوا کہ آئی ایس آئی، سی آئی اے کے ساتھ ساری معلومات شیئر نہیں کرتی، حالاں کہ آئی ایس آئی ہمیشہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔ نتیجتاً، امریکا نے یہاں اپنے ایجنٹس تعینات کرنا شروع کر دیے، جن میں ڈاکٹر شکیل آفریدی بھی شامل ہے۔ پھر پی پی کے دور میں ’’بلیک واٹر‘‘ نامی تنظیم بھی کافی مشہور ہوئی تھی۔ اس وقت کے وفاقی وزیرِ داخلہ عبدالرحمٰن ملک نے 7سے7.5ہزار افراد کو ویزے جاری کیے تھے۔ اسی دور میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔ عمران خان کے دورۂ واشنگٹن میں امریکا کو بڑے اخلاص کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ طالبان اس کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

جنگ :پاکستان، امریکا کے افغانستان سے با عزت انخلاء میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :اگر طالبان اور امریکا کے درمیان کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے اور طالبان اس بات پر آمادگی ظاہر کر دیتے ہیں کہ وہ امریکا کو باعزت واپسی کے لیے راستہ دیں گے، تو پھر پاکستان امریکی افواج کی حفاظت کی ضمانت دے سکتا ہے۔ یہ ضمانت اس دورے سے پہلے نہیں دی گئی۔

جنگ :پاک، امریکا تعلقات ہمیشہ نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ امریکا نے پاکستان سے ہمیشہ یہ گلہ کیا کہ اس نے امریکی مفادات کا خیال نہیں رکھا، لیکن اب ایک مرتبہ پھر امریکا نے پاکستان سے توقعات وابستہ کر لی ہیں۔ اس مرتبہ امریکا کے پاکستان سے کیا مفادات وابستہ ہیں؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ترقی میں امریکا کا بڑا کردار ہے اور ہمارے بھی امریکا سے مفادات وابستہ رہے ہیں۔ اگر کوئی ملک ہمیں یہ ضمانت دے کہ کوئی دوسرا ملک آپ کو تنگ نہیں کرے گا، تو اس سے بڑی رعایت اور کیا ہو سکتی ہے۔

جنگ :لیکن امریکا کی دوستی کی وجہ سے ہمیں دہشت گردی، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا سامنا بھی تو کرنا پڑا۔

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: ضیاء الحق کے دور میں اس ملک میں بے تحاشا اسلحہ اور منشیات آئی اور اس زمانے میں لاکھوں افغان مہاجرین بھی آئے۔ اس وقت خیبر پختون خوا میں ہر دوسرا آدمی افغان مہاجر ہے۔ اسلام آباد کے جی نائن سیکٹر میں افغان مہاجرین کے علاوہ کوئی دوسرا فرد گھر نہیں لے سکتا۔ اس وقت امریکا کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی۔ جب امریکا نے ضیاء الحق سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ پھر آپ مجھے 90دن میں انتخابات نہ کروانے کا طعنہ نہ دیجیے گا۔ اس پر امریکا نے جواب دیا کہ یہ آپ کا اندرونی مسئلہ ہے اور آپ جو چاہیں کریں، لیکن افغانستان میں ہماری مدد کریں۔ میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اس کی وجہ سے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔

ہما بخاری :کیا ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی ممکن ہے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :دنیا بھر میں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ کوئی دو ملک ایک دوسرے کے جاسوس پکڑ لیتے ہیں اور پھر اپنے جاسوس کی رہائی کے بدلے دوسرے ملک کا جاسوس رہا کر دیتے ہیں۔ اگر جاسوس زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، تو پھر ایک کے بدلے دو جاسوسوں کو بھی واپس کرنا پڑتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکا اور روس کے درمیان یہ سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ حکومت اس معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے امریکا میں یہ کہا تھا کہ ہم پارلیمنٹ میں تھوڑا بہت شور شرابہ کرتے رہیں گے، آپ ڈرون حملے جاری رکھیں۔ تاہم، امریکا ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی چاہتا ہے، لیکن وہ ہمارے لیے ایک مجرم ہے، کیوں کہ اس نے اسامہ بن لادن کی رہایش گاہ تک امریکی سیلز کو پہنچایا۔ البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ اسامہ وہاں موجود بھی تھا یا نہیں اور وہ مارا بھی گیا یا نہیں۔ امریکا میں ڈاکٹر عافیہ کا مقدمہ کسی حکومت نے نہیں لڑا۔ البتہ اگر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کی بات ہوتی ہے، تو پاکستان یہ مطالبہ پیش کر سکتا ہے۔

جنگ :آپ نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نے امریکی سیلز کو اسامہ کی رہایش گاہ تک پہنچنے میں مدد فراہم کی، جب کہ عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس سلسلے میں آئی ایس آئی نے سی آئی اے کو معاونت فراہم کی، تو کیا اس بیان کے بعد پاکستان دفاعی پوزیشن میں نہیں آ گیا؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: بعض اوقات اس قسم کے انکشافات آپ کو بیک فٹ پر لے جانے کے بہ جائے فرنٹ فٹ پر لے آتے ہیں۔ خفیہ معلومات فوری طور پر آشکار نہیں کی جاتیں، بلکہ وقت آنے پر انہیں سامنے لایا جاتا ہے۔ کئی ایسے افغان رہنما ہیں کہ جن کا تعلق پاکستان کے بہ جائے آئی ایس آئی سے رہا۔ ان میں گلبدین حکمت یار اور استاد ر برہان الدین ربانی وغیرہ شامل ہیں۔ استاد ربانی ایک مرتبہ سرکاری دورے پر پاکستان آئے، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ افغان جہاد کے دوران ان سمیت دیگر افغان رہنمائوں کے خاندان اسلام آباد اور دیگر پاکستانی شہروں میں مقیم رہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے بچے اردو یا پشتو زبان بولتے ہیں اور انہیں اپنی قومی زبان دری نہیں آتی۔

جنگ :پاکستان کے لیے امریکی امداد کی بحالی مختصر المدت ہے یا طویل المدت؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: ہمیں امریکا سے جتنا فائدہ ملے، اسے حاصل کرنا چاہیے۔ پاک، امریکا تعلقات میں برابری نہیں پائی جاتی کہ ہم کوئی طویل المدت منصوبہ بندی کریں۔ نیز، اس وقت سرد جنگ کا دور بھی نہیں کہ جب کیپٹلسٹ اور کمیونسٹ بلاک ہوا کرتے تھے۔ امداد کا دارومدار امریکا کی پالیسی پر ہے اور ہمیں اسے پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔

جنگ :اپوزیشن نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ عمران خان اور ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے بعد ماضی کی طرح مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ کیا مشترکہ اعلامیے کی کوئی اہمیت ہے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا اور اس بارے میں محکمۂ خارجہ ہی بہتر انداز میں وضاحت کر سکتا ہے۔ البتہ وائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران اچھی صورتِ حال تھی اور اس کے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

جنگ :وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے پہلے پیرا گراف میں پورے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا کیا مقصد ہے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :جنوبی ایشیا میں امن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان اور بھارت کا کردار سب سے اہم ہے۔ اگر ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ نہیں ہوتی، تو پورے خطے میں امن برقرار رہے گا۔ اسی طرح اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان جنگ نہیں ہوتی، تو پورے ایشیا میں امن قائم رہے گا۔ یہ بھی پاکستان کی بہت بڑی جیت ہے کہ اس نے ایک امکانی جنگ کو روک لیا۔

جنگ :ایک منتخب جمہوری وزیرِ اعظم کے ساتھ آرمی چیف بھی امریکا گئے، تو اس کی کتنی اہمیت ہے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: میرا ذاتی خیال ہے کہ عمران خان کے ساتھ آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی امریکا روانگی ایک اچھا عمل تھا، کیوں کہ دنیا بھر میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومت تو امن چاہتی ہے، لیکن فوجی قیادت تعاون نہیں کر رہی۔ اس طرح یہ تاثر ختم ہوا اور اس سے مستقبل میں بھی پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا۔

نعمان :بھارت نے ہم سے پہلے ایٹمی دھماکے کیے اور ہم سے پہلے خلا میں گیا، تو ہم ہر بار بھارت سے پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: دراصل، ہماری حکومتوں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں اور پھر ہم ہر پالیسی بھارت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بناتے ہیں۔ اس ضمن میں آغا شاہی صاحب نے مجھے یہ قصہ سنایا تھا کہ 1964ء میں ایوب خان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے گئے۔ تب بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان کافی دوستی تھی۔ بھٹو صاحب نے ایوب خان کو پریشانی کے عالم میں بتایا کہ بھارت اپنا جوہری پروگرام شروع کر رہا ہے، تو اس پر ایوب خان نے حقارت سے جواب دیا کہ جس روز بھارت ایٹم بم بنائے گا، تو ہم اس روز سپر مارکیٹ سے خرید لیں گے۔

نعمان :حالیہ دورۂ امریکا میں وزیرِ اعظم عمران خان کی بڑی عزت افزائی کی گئی، جب کہ اس سے قبل امریکا کی نظروں میں پاکستان کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی اور نہ ہی دنیا بھر میں پاکستانی پاسپورٹ کی کوئی وقعت ہے، تو یہ تبدیلی کیونکر رونما ہوئی؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :اس دورے میں یہ تبدیلی واقع ہوئی کہ عمران خان نے امریکا پر واضح کیا کہ وہ یہاں ’’ایڈ‘‘ کے لیے نہیں، بلکہ ’’ٹریڈ‘‘ کے لیے آئے ہیں۔ اب جہاں تک پاکستانی پاسپورٹ کی بات ہے، تو اس کا وقار بحال کرنے میں خاصا وقت لگے گا، جب کہ ہم ہتھیلی پہ سرسوں جمانا چاہتے ہیں۔

جنگ :عمران خان کے دورۂ امریکا سے قبل پاکستان میں حافظ سعید کی گرفتاری عمل میں آئی اور اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ بھی کیا، تو کیا اس کا مقصد ٹرمپ کے دل میں پاکستان کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنا تھا؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے، تو کیا ہوتا۔ یہ غیر ریاستی عناصر ہیں۔ اگر ہم نے بھارت سے مذاکرات کرنے ہیں، تو پھر ہمیں اس قسم کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ جب حافظ سعید نے سیاسی جماعت بنائی، تو ایک بھارتی صحافی نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا اب ایک دہشت گرد پاکستان کا وزیر اعظم بنے گا، تو میں نے انہیں جواب دیا کہ پاکستان میں ہمیشہ سافٹ امیج رکھنے والے لوگ ہی وزیرِ اعظم بنے ہیں اور پاکستانی عوام مذہبی شخصیات کو ووٹ نہیں دیتے۔ میرا ماننا ہے کہ تمام عسکری تنظیموں پر پابندی عاید کرنی چاہیے۔

جنگ :اس وقت دفاع کے حوالے سے پاکستان کا امریکا پر کتنا انحصار ہے اور اس اعتبار سے عمران خان کا دورۂ امریکا کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :امریکا نے پاکستان کے لیے امداد پر پابندیاں عاید کیں، تو پاکستان نے خود ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دیے۔ امداد پر پابندی کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ابتدا میں ہمارے دفاع کا زیادہ تر انحصار امریکا پر تھا، لیکن جب چین کے ساتھ ہمارے تعلقات قائم ہوئے، تو انہوں نے ہمیں خود کام کرنے کی ترغیب دی۔ بعد ازاں، بھٹو صاحب کے دور میں پاکستان اور چین نے مشترکہ منصوبوں پر کام شروع کیا۔

جنگ :عمران خان کے دورۂ امریکا پر بھارت کو کیوں تشویش لاحق ہے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: میں پچھلے پانچ برس سے بھارتی رویے کا جائزہ لے رہا ہوں۔ اس کا طرزِ عمل کافی متکبرانہ ہے اور وہ پاکستان کو ایک غیر متعلق ریاست سمجھتا ہے۔ 14فروری کو جب پلواما اٹیک ہوا، تو بھارتی میڈیا نے پہلے پاکستان کی تحقیر کی اور پھر اس واقعے پر بات کی۔ وہ پاکستان کو ایک بھکاری ملک سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جب عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ آیا، تو بھارتی میڈیا کا کہنا تھا کہ آئی سی جے نے تو ہمارے حق میں فیصلہ سنایا ہے، تو پاکستان کیوں خوشیاں منا رہا ہے۔ اس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ قونصلر رسائی ملنے پر آپ بھی خوشیاں منائیں، لیکن اس وقت کلبھوشن ہمارے پاس ہے اور ہم اس کے ساتھ جو چاہیں، سلوک کریں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کسی صورت ہمیں برداشت نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب پاکستان نے کرتار پور راہداری کھول کر سکھ کمیونٹی کا دل جیت لیا ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کیپیٹل ون ایرینا میں بھی سکھ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس بات پر بھارت میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے کہ کہیں دوبارہ خالصتان تحریک نہ شروع ہو جائے۔

جنگ :امریکا، ایران کشیدگی میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ چوں کہ ایران اور پاکستان ایک ہی خطے میں واقع ہیں، تو اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: ایران نے 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی مدد کی۔ ہمیں اس کے ساتھ اچھے روابط قائم کرنے چاہئیں۔ ایران نے جنگوں کے نتیجے میں بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ کئی برس تک جاری رہنے والی ایران، عراق جنگ میں 12لاکھ ایرانی باشندے لقمۂ اجل بنے۔

نصر: 1971ء کی جنگ میں امریکا نے اپنا ساتواں بحری بیڑا بھیجنے کا اعلان کیا تھا، لیکن وہ آیا نہیں؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :اس بیڑے نے خلیجِ بنگال میں آکر تو کچھ نہیں کرنا تھا۔ 16دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا ہوا اور 17دسمبر کو جنگ بندی ہو گئی۔ اس موقعے پر امریکا اور روس نے مل کر بھارت کو مغربی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے روکا۔ ساتواں بیڑا اس صورت میں آتا کہ جب بھارت ان کی بات نہ مانتا۔

جنگ :امریکا، افغانستان سے نکلنے کی بات کر رہا ہے۔ یہ انخلاء کتنے عرصے میں اور کیسے ممکن ہو گا؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: اس ضمن میں باقاعدہ ٹائم ٹیبل تیار کیا جائے گا، کیوں کہ افغانستان سے انخلاء امریکا کی پالیسی میں رونما ہونے والی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ مرنے والے امریکی فوجیوں کے تابوت کے ذریعے بھی منشیات اسمگل کی گئی۔ اسی طرح ویت نام کے خلاف جنگ میں لڑنے والے امریکی فوجی بھی ابھی تک مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہیں۔ یاد رہے کہ 1945ء کے بعد امریکا نے اپنی فوج جہاں جہاں تعینات کی، وہ اب بھی وہاں تعینات ہے۔ لہٰذا، اس اعتبار سے یہ امریکی پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی ہے۔

جنگ:کیا امریکا کے انخلاء کے بعد افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: افغان بنیادی طور پر جنگجو ہیں اور ان کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ وہاں بسنے والے مختلف قبائل کے درمیان پہلے بھی جنگ و جدل جاری رہا، تو ایسا لگتا ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

جنگ :پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کس حد تک کامیاب رہی؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو :ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے فوجی و سیاسی قیادت دونوں نے مشترکہ کاوشیں کیں۔ اس ضمن میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور دہشت گردوں کی سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔ نیز، پاک، افغان سرحد پر باڑ لگائی گئی، جس کی پختون قوم پرست مخالفت کر رہے ہیں۔ 90فیصد دہشت گردوں کا صفایا پاک فضائیہ نے کیا اور پھر پاک آرمی نے ٹیک اوور کیا۔ اب ان کی مالی معاونت روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں، جن میں بے نامی اکائونٹس اور حوالہ ہنڈی کے خلاف کارروائیاں شامل ہیں۔

جنگ :اس وقت امریکا، پاکستان سے کیا تعاون چاہتا ہے؟

ایئر وائس مارشل (ر) عابد رائو: اگر ہم امریکی فوجیوں کو مرنے سے بچا سکیں، تو یہ ہمارا امریکا پر بہت بڑا احسان ہو گا۔

جنگ :عمران خان کے دورۂ امریکا سے آپ کی کیا توقعات وابستہ ہیں؟

ہما بخاری :وزیرِ اعظم کے دورۂ امریکا کے دوران کئی اہم باتیں ہوئیں، جن سے دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا، لیکن ہمیں ان کے نتائج پر نظر رکھنا ہو گی۔ نیز، پاکستان کو ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہو گی کہ جس سے ملک کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ 

تازہ ترین