• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ریلیاں در ریلیاں: مریم نواز اِن، شہباز شریف بیک گراؤنڈ میں چلے گئے

ملکی اور بین الاقوامی حالات میں کشیدگی اور غیر یقینی پن نمایاں ہے۔ سکون اور اطمینان ناپید ہے۔ ایک طرف مہنگائی بے روزگاری اور معیشت کی ابتر صورتحال ہے دوسری جانب احتسابی عمل ہے ایک نعرہ یا نظریہ یہ ہے کہ مہنگائی برداشت ہو سکتی ہے کرپشن برداشت نہیں لیکن اس فلسفے اور سوچ کو رد کرنے والے کہتے ہیں کہ نہ مہنگائی برداشت ہے نہ کرپشن کو برداشت کریں گے۔ مہنگائی روکنا اور معیشت کو بہتر بنانا حکومت وقت کا کام ہے۔ احتساب کرنا متعلقہ اداروں اور عدالتوں کا کام ہے حکومت بلاوجہ اس معاملے میں زیادہ ہی دخیل ہو رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جوں جوں معیشت میں خرابی بڑھ رہی ہے اور مہنگائی عوام کو پریشان کر رہی ہے توں توں حکومت احتساب اور کرپشن اور گرفتاریوں کے گورکھ دھندے میں عوام کو الجھا رہی ہے۔ قومی مجموعی پیداوار ایک سال میں نصف رہ گئی ہے اس ایک سال میں ریکارڈ قرضے لے لئے گئے ہیں۔ افراط زر 3فیصد سے 10 فیصد کے قریب پہنچا ہے اس صورتحال سے احتساب کا عمل بھی دھندلا جائے گا اور اس کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ احتساب کا عمل بھی جاری رہتا اور خاص بات یہ کہ یہ عمل بے لاگ اور غیر جانبدارنہ ہوتا اس عمل کے ساتھ ساتھ ملکی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ بھی ہوتا، نئے قومی تعمیراتی منصوبے سامنے آتے ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ ہوتا تو مریم نواز کے جلسے ریلیاں اس قدر کامیاب نہ ہوتیں۔ اب وہ پاک پتن، سرگودھا، لِلہ، خوشاب میں حیران کن تعداد میں ریلیوں سے خطاب کر رہی ہیں یہ اور بات ہے کہ میڈیا پر اس کو دکھانے پر پابندی عائد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام موجودہ حالات سے ناخوش اور غیر مطمئن ہیں۔ مریم نواز ان کے بیانیے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر مریم نواز اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہیں تو وہ موجودہ حکومت کی ساکھ کے لئے واضح خطرہ بن کر سامنے آ سکتی ہیں پھر ان کے ساتھ وہی ہو گا جو موجودہ حکومت باقی سیاستدانوں کے ساتھ کر رہی ہے البتہ یہ بات مناسب ہے کہ مریم نواز نے اس مرتبہ موضوع مہنگائی حکومت کی نااہلی معیشت کی ابتر حالت اور نواز شریف کی بے گناہی اور ان کی رہائی کو بنایا ہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے وہ کم بات کرتی ہیں۔ اس سارے ماحول میں شہباز شریف بیک گرائونڈ میں چلے گئے ان کے لئے مشکل مرحلہ ہے۔ مزید مقدمات ان کے منتظر ہیں۔ حمزہ شہباز زیر حراست ہیں وہ کس منہ سے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیں یا حمایت کریں لیکن حیرانی کی بات ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ابھی بھی امید کا دامن چھوڑا نہیں ابھی حال ہی میں انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب اور سارے عمل مع نتائج کو دیکھا ہے لیکن آفرین ہے کہ باقی دیگر رہنمائوں کے برعکس انہوں نے انگلی اٹھاتے ہوئے محتاط انداز ہی اختیار کیا جبکہ میر حاصل بزنجو تو سرخ لائن ہی عبور کر گئے۔

احسن اقبال نے ان نتائج پر خوبصورت تبصرہ کیا کہ ’’ملک دشمن بیرونی ایجنسیوں نے مداخلت کی ہو گی پاکستان کا کوئی ادارہ ایسی کارروائی نہیں کر سکتا۔ جماعت اسلامی جس نے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات کے عمل میں حصہ نہیں لیا، کے امیر سراج الحق کا اس انتخاب کے بارے میں بیان تھا کہ حکومت کی قوتِ خرید زیادہ تھی وہ جیت گئی۔ مطلب یہ ہے کہ نئے پاکستان میں وہی پرانے کام ہو رہے ہیں ۔ حکومت کی خوشی میں کچھ خجالت اور شرمندگی بھی شامل تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ ابھی کسی طرح کی کوئی تبدیلی بہت دور کی بات ہے سینیٹ کے نتائج سے بہت کچھ عیاں اور عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ ابھی جو ایجنڈا طے ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی البتہ مہنگائی کے باعث اگر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا معیشت اس سطح پر آ گئی کہ دفاع اور تمام ریاست مشکل میں آ جائے تو ایجنڈا تبدیل ہو گا پھر کیا ہو گا؟ تبدیلی کس نوعیت کی ہو گی؟ یہ ابھی بعید از قیاس ہے۔ ابھی پٹرولیم کی مصنوعات میں از حد اضافے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے مہنگائی کا ایک اور ریلا آیا ہے ادھر عید قربان آ رہی ہے ادھر پیاز، ٹماٹر، روٹی چینی اور قربانی کے جانوروں کی قیمتیں غریب کیا متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی دور ہیں حکومت تمام مسائل کا حل احتساب لٹیرے چور ڈاکو کی تسلی دے کر نکالنا چاہتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ ترکیب اور عمل کب تک کارگر رہے گا۔ادھر 4اگست کو پنجاب سمیت ملک بھر میں یوم شہداء پولیس منایا گیا مشکل حالات میں پولیس نے دہشتگردی کے خاتمے اور امن و امان کی صورتحال کو درست رکھنے کے لئے جو کردار ادا کیا ہے اس پر اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ عید قربان کے ساتھ ہی 14اگست یوم پاکستان آ رہا ہے دو خوشیاں ساتھ ساتھ ہیں 14اگست کے لئے عوام میں جوش و خروش دیدنی ہے حکومت کو بھی چاہئے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر وہ سیاسی درجہ حرارت کو زیادہ نہ بڑھائے اس طرح قومی یکجہتی اور فضاء متاثر ہوتی ہے حکومت کو بس اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے 50لاکھ گھروں کی تعمیر ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی معیشت کی بحالی عوام کو ریلیف دینے کے وعدے ابھی دور کی باتیں ہیں ابھی ان باتوں کو چھوڑ بھی دیا جائے کم از کم بڑھتی ہوئی مہنگائی پر تو قابو پایا جائے۔ پنجاب حکومت نئے منصوبے شروع کرنے میں ناکام ہے حتیٰ کہ اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ ہی از حد تاخیر کا شکار ہے اس میں شاید اس لئے جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے کہ شہباز شریف کو کریڈٹ نہ حاصل ہو جائے اور وہ اپنی تعمیر و ترقی کے وصف کے ساتھ سامنے نہ آ جائیں۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین