• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بَھر میں امراض سے ہونےوالی اموات کی ایک بڑی وجہ وائرل ہیپاٹائٹس بھی ہے، جس سے ہر سال تقریباً 3.4ملین افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ شرحِ اموات دوسری بڑی بیماریوں یعنی ملیریا، تپِ دق اور ایڈز سے ہونے والی اموات کے تقریباً برابر ہے۔ 2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق دُنیا بَھر میں 257ملین افراد ہیپاٹائٹس بی اور 71ملین افراد ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہیں، جب کہ پاکستان کی لگ بھگ 4.8فی صد آبادی ہیپاٹائٹس سی اور2.5فی صد ہیپاٹائٹس بی سے متاثر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً سوا سے ڈیڑھ کروڑ افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں، جن میں سے تقریباً سوا لاکھ ہیپاٹائٹس کی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔2016ء میں عالمی ادارۂ صحت نے ہیپاٹائٹس سے متعلق ایک عالمی حکمتِ عملی وضع کی، جس کے تحت 2030ء تک ہیپاٹائٹس کے خاتمے کا ایجنڈا تیار کیا گیا، تاکہ اس مرض کا پھیلاؤ روکنے اور علاج کے لیے کلیدی اقدامات کیے جاسکیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے اہداف میں 2030ء تک وائرل ہیپاٹائٹس سے ہونے والی اموات میں 65فی صد تک اور نئے مریضوں کی تعداد میں 90فی صد تک کمی لانا شامل ہے۔ گرچہ یہ ایک مشکل ہدف ہے، تاہم اس مقصد کے حصول کے لیے مسلسل کاوشیں اور ٹھوس اقدامات نہایت ضروری ہیں۔

پاکستان میں ہیپاٹائٹس پر قابو پانا آسان نہیں۔ اس حوالے سے ہمیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں طبّی آلات کو جراثیم سے درست طور پر پاک کرنے کی سہولتیں نہ ہونے کے سبب انفیکشن کے پھیلائو کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ غیر محفوظ انتقالِ خون، سوئیوں، سرنجز کے دوبارہ استعمال جیسے عوامل مرض میں مسلسل اضافے کی وجہ بن رہے ہیں۔ یاد رہے، پاکستان میں انجیکشن کے ذریعے علاج کی شرح پوری دُنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں اوسطاً ہر فرد سال میں کم از کم12ٹیکے لگواتا ہے، جب کہ عالمی ادارۂ صحت نے ایک سے دو ٹیکوں کی شرح مقرر کر رکھی ہے۔ دیگر عوامل میں غیر مستند دندان سازوں سے دانتوں کا علاج اور انفرادی خطرات جیسے ٹیٹوز بنوانا، جِلد پرکندہ کاری، انجیکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال یا غیر معیاری استعمال شدہ اُسترے سے حجامت، شیو بنوانا اور جنسی بے راہ روی وغیرہ شامل ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ مُلک میں ہیپاٹائٹس کے پھیلائو کی شرح بُلند ہے، بلکہ ہمارے یہاں عمومی طور پر مرض کی تشخیص اُس وقت ہوتی ہے، جب مرض بگڑ کر جگر میں اتنی تباہی پھیلا چُکا ہوتا ہے کہ اس کی پیچیدگیاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جیسے خون کی الٹیاں، بے ہوشی کے حملے، پیٹ میں پانی بَھر جانا، گُردوں کا کام نہ کرنا اور جگر کا سرطان وغیرہ۔ اِسی وجہ سے اب ہیپاٹائٹس کو ’’خاموش قاتل‘‘ کہا جانے لگا ہے۔

مرض کی تشخیص میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام لوگ اس کے پھیلائو کے طریقوں ہی سے ناواقف ہیں، جب کہ ہمارے یہاں اسکریننگ کی بھی ایسی سہولتیں موجود نہیں کہ عام لوگوں میں وائرس کی موجودگی کی بروقت تشخیص ہو سکے، حالاں کہ عالمی ادارۂ صحت کا فوکس اب ایسے لوگوں پر زیادہ ہے، جو جسم میں وائرس کی موجودگی کے باوجود اس سے بے خبر ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ ہیپاٹائٹس کا خطرہ محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ وہ رِسک فیکٹرز سے منسلک ہوتے ہیں، مثلاً ان کے خاندان کے قریبی افراد اس مرض میں مبتلا ہوں۔ وہ کوئی سرجری کروا چُکے ہوں۔ کسی غیر مستند معالج سے دانت کا ٹریٹ منٹ کروایا ہو۔ انتقالِ خون ہوا ہو وغیرہ وغیرہ۔ مگر وہ پھر بھی اسکریننگ نہیں کرواتے اور اس کی ایک وجہ مناسب سہولتوں کا فقدان اوردوسری وجہ لوگوں کا وہ امتیازی روّیہ ہے، جو عموماً ہیپاٹائٹس کے مریضوں سے روا رکھا جاتا ہے۔پاکستان میں علاج تک رسائی بھی ایک اہم مسئلہ ہے، کیوں کہ ادویہ اور تشخیصی ٹیسٹس وغیرہ کا خرچہ عام طور پر مریض کو خود ہی برداشت کرنا ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں، جہاں ایسے مریض زیادہ ہیں، یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہے کہ ہیپاٹائٹس کے منہگے علاج تک رسائی ایک کم آمدنی والے خاندان کی پہنچ سے تو باہر ہی ہے۔

ہیپاٹائٹس بی کے حفاظتی ٹیکوں نے دُنیا بَھر میں اس مرض کی شرح کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بچّوں کو یہ ٹیکے لگوانے سے مرض کی شرح میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ یاد رکھیے، ماں سے بچّے کو وائرس کی منتقلی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ پیدایش کے پہلے ہی دِن بچّے کو ہیپاٹائٹس بی کا حفاظتی ٹیکا لگوا دیا جائے۔ یہ ٹیکا پیدایش کے پہلے دِن ہر بچّے کو لگنا چاہیے، خواہ ماں کو ہیپاٹائٹس بی ہو یا نہ ہو۔ باقی کورس اس کے بعد دیگر حفاظتی ٹیکوں کے ساتھ مکمل کرلیا جائے۔

ہیپا ٹائٹس کا پھیلائو روکنے کے ضمن میں سب سے اہم قدم تو حکومتی ترجیحات ہیں۔ حکومت کو ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے لیے ایک مخصوص فنڈ کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسی نیشن کی عام آدمی تک لازماً رسائی ہو۔ مفت تشخیص کی سہولتیں دست یاب ہوں۔ نیز، علاج اتنا سستا ہو کہ ایک عام آدمی اس کا متحمل ہو سکے۔ نیز، صحتِ عامّہ کے تحفّظ کے لیے شعور و آگہی کے فروغ کی افادیت سےتو انکار ممکن ہی نہیں۔

(مضمون نگار معروف گیسٹروانٹرولوجسٹ ہیں اور ضیاء الدین یونی ورسٹی اسپتال، کراچی سے منسلک ہیں)

تازہ ترین