• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کی ایک بڑی جست ہے۔‘‘ یہ تاریخی الفاظ چاند پر پہلا قدم رکھنے والے امریکی خلا نورد، نیل آرم آسٹرانگ کے ہیں۔ چُوں کہ اب انسان کو چاند پر پہلا قدم رکھے 50برس بیت چکے ہیں، لہٰذا یہ استفسارکیاجا سکتا ہے کہ کیا یہ تاریخی کارنامہ واقعی انسانیت کی ایک بڑی چھلانگ تھی۔ 20جولائی 1969ء کو امریکی خلا نورد نے چاند پر قدم رکھا، تو یہ کسی ایک مُلک یا قوم کی کام یابی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی جدوجہد کا ثمر تھا۔ تب دونوں عالمی طاقتیں، امریکا اور سوویت یونین (رُوس) چاند پر پہنچنے کی دوڑ میں شامل تھیں، جن میں امریکا فتح یاب رہا۔ بعد ازاں، ان دونوں ممالک نے خلا میں پیش قدمی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون شروع کیا اور وہاں قائم اسٹیشن اس کا عملی ثبوت ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر برتری کے حصول کی کوششیں بھی جاری رکھیں اور اس ضمن میں اسٹار وارز جیسے ملٹری پروگرامز سامنے آتے رہے، البتہ اس میدان میں امریکا کی برتری کو تسلیم کیا گیا۔ مگر نئے ہزاریے کا آغاز ہوتے ہی خلا میں برتری حاصل کرنے کی دوڑ دوبارہ شروع ہو گئی اور اس میں دیگر ممالک بھی شامل ہو گئے ، جس کا بنیادی سبب خلا میں سیٹلائٹس کا بھیجنا تھا۔ اس وقت ایک درجن سے زاید ممالک کےمصنوعی سیّارےخلا میں موجود ہیں اور کم از کم 5ممالک چاند پر جانے کے منصوبوں کا اعلان کر چُکے ہیں۔ پھر آج چین، رُوس کی جگہ لے چکا ہے، کیوں کہ اس کے پاس سرمایہ بھی ہے اور ٹیکنالوجی بھی۔ علاوہ ازیں، بھارت نے بھی حال ہی میں اپنا چاند مشن شروع کیا ہے۔

قبل ازیں، اسپیس پروگرامز کو خالصتاً دفاعی و حسّاس منصوبے تصوّر کیا جاتا تھا، لیکن گزشتہ 10برس سے امریکا نے انہیں تجارتی منصوبوں کا درجہ دے کر نجی شعبے کو ان میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے اور خلائی سفر کے لیے ٹکٹس کی بکنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لہٰذا، خلائی ماہرین کے لیے یہ اچنبھے کی بات نہیں ہو گی کہ آیندہ 10سے 20برس کے دوران چاند زمین کی کالونی بن جائے۔ اس اہم پیش رفت نے ’’چاند کی سیاست‘‘ کو جنم دیا۔ جب انسان نے چاند پر قدم رکھا تھا، تو اُسی وقت یہ تصوّر عام ہو گیا تھا کہ اب خلا کی تسخیر خواب نہیں رہی اور اسپیس ٹیکنالوجی کی ترقّی جلد ہی اسے خلا کا مسافر بنا دے گی۔ تاہم، اس دوڑ میں جب چین کے بعد بھارت شامل ہوا، تو اس کے نتیجے میں بہت سے سوالات پیدا ہوئے اور اب مختلف یورپی ممالک کے خلائی اداروں کا ذکر بھی عام ہے۔ دراصل، ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقّی نے خلائی سفر کو آسان بنانے کے علاوہ اس پر آنے والی لاگت کو بھی گھٹا دیا ہے۔ گرچہ خلا میں امریکی برتری کو چیلنج کرنا ممکن نہیں، لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اب تک 571افراد خلا میں جا چکے ہیں، جن میں ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے خلا نورد شامل ہیں۔ انسان کی خلا تک رسائی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے خلائی ماہرین کا ماننا ہے کہ چاند کی سیاست کے اعتبار سے آیندہ50برس ماضی کے مقابلے میں کافی مختلف ثابت ہو سکتے ہیں۔ مستقبل میں رُوس، بھارت، چین اور یورپی یونین مزید پیش رفت کریں گے، جب کہ اس سلسلے میں بھارت اور چین کی ترقّی، سرمایہ کاری اور خواہشات کا بھی اہم کردار نظر آتا ہے۔

خیال رہے کہ چین اور بھارت نہ صرف علاقائی سیاست میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک دوسرے کے حریف ہیں، لیکن ممکن ہے کہ امریکا کو مشکلات سے دو چار کرنے کے لیے کسی مرحلے پرتجارت کی طرح اسپیس ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ایک دوسرے کے قریب آ جائیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اسپیس ٹیکنالوجی کی ترقّی دیکھتے ہوئے مذکورہ دونوں ممالک اس شعبے میں سرمایہ کاری کی جانب راغب ہوں گے اور امریکا کے لیے میدان کُھلا نہیں چھوڑیں گے۔ اس طرح نہ صرف دولت مند افراد کو خلا میں سیّاحت کے مواقع ملیں گے، بلکہ مواصلات کے نظام میں بھی بہتری آئے گی۔ ماہرین کے مطابق، مستقبل میں چاند اور سیّارے بھی زمین کا ایک حصّہ ہوں گے، جن میں موجود معدنیات کے ذخائر تلاش کر کے انسانوں کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ سائنس دانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک دُنیا کی مجموعی آبادی 11ارب تک جا پہنچے گی اور اس صورتِ حال میں نِت نئے مقامات، معدنی دولت اور توانائی کے جدید ذرایع کی ضرورت ہو گی۔ نیز، انسانیت کی بقا کے لیے بھی نئے سیّارے ایک بہتر متبادل ثابت ہوں گے۔ چُوں کہ اس وقت خلا کو مواصلاتی سیّاروں، براڈ کاسٹنگ اور نیوی گیشن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، لہٰذا زیادہ تر پیش رفت انہی شعبوں میں ہو گی اور قانون سازی بھی اسی ضمن میں ہو رہی ہے۔ چینی خلا نورد2030 ء کے بعد کسی بھی وقت چاند پر قدم رکھ سکتے ہیں، جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدِ صدارت کی دوسری میعاد کے اختتام سے قبل ایک مرتبہ پھر امریکی خلا نوردوں کو چاند پر بھیجنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اگر اس مُہم جوئی کو صرف طاقت و امارت کا مظاہرہ سمجھا جائے، تو بھی ٹیکنالوجی کی ترقّی اور خلائی سفر کی لاگت میں کمی نے منزل کو قریب تر کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ ’’اپالو 11‘‘ کو چاند پر اُتارنے کے لیے سیکڑوں ارب ڈالرز خرچ کیے گئے تھے، لیکن آج یہی کام محض چند ارب ڈالرز میں انجام دیا جا سکتا ہے، جو امیر ممالک کے لیے کوئی بڑی بات نہیں، بلکہ اس وقت دُنیا کے امیر ترین ادارے اور دولت مند افراد بھی خلائی سفر کے منصوبے بنا رہے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران نجی شعبے نے خلا کی تسخیر میں غیر معمولی دل چسپی کا مظاہرہ کیاہے، جس کا پاکستان جیسے ممالک کو شاید ادراک بھی نہیں، کیوں کہ ہم ابھی تک اندرونی تنازعات ہی میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ابتداء میں اسپیس ٹیکنالوجی کے شعبے میں صرف ناسا اور پینٹاگون ہی نے سرمایہ کاری کی تھی، لیکن گزشتہ دس برسوں کے دوران صورتِ حال میں انقلابی تبدیلی دیکھنے میں آئی اور اس وقت نجی شعبہ خلا سے متعلق منصوبوں میں اپنی سرمایہ کاری میں ہر سال 2ارب ڈالرز کا اضافہ کر رہا ہے اور یہ سرمایہ کاری خلائی منصوبوں پر آنے والی مجموعی لاگت کا 15فی صد ہے۔ اب تک امریکا سے تعلق رکھنے والے ایلن مسکا کی راکٹ تیار کرنے والی کمپنی 25مصنوعی سیّارے خلا میں کام یابی سے بھیج چکی ہے، جب کہ ایمزون کے بانی ، جیف بیزوس ’’بلیو اوریجن‘‘ نامی اپنے خلائی منصوبے پر سالانہ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، امریکا کی ایک اور راکٹ ساز کمپنی ناسا کے مقابلے میں اپنے راکٹس تیار کر رہی ہے، جن کی تیاری پر 10گُنا کم لاگت آئے گی، جب کہ ایک کمپنی دو عشروں کے بعد چاند پر آبادیاں بسانے کے منصوبے بنا رہی ہے اور اسے اس ضمن میں نہ صرف امریکی حکومت کی طرف سے اجازت دی گئی ہے، بلکہ اس عمل کو ریاستی سطح پر آگے بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ دراصل، امریکا کی خواہش ہے کہ وہ زمین کی طرح چاند پر بھی راج کرے اور اسی لیے امریکی انتظامیہ اپنے مُلک کی دولت مند کمپنیز کو سہولتیں فراہم کر رہی ہے۔ غالباً یہ تجارت کو فروغ دینے کا ایک بہتر انداز ہے۔

تاہم، چاند کی سیاست شروع ہونے سے قبل ہی اس کے اصول و ضوابط طے کرنا ضروری ہیں۔ یاد رہے کہ آج سے نصف صدی قبل ہونے والے بین الاقوامی معاہدے کی رُو سے خلاانسانیت کی مشترکہ میراث ہے، جب کہ امریکا نجی کمپنیز کے ذریعے یہاں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگر اب ضروری اصول و ضوابط طے نہ کیے گئے، تو چاند پر مفادات کے تصادم کے نتیجے میں تنازعات جنم لیں گے۔ لہٰذا، جلد ہی اس بات کا تعیّن کر لینا چاہیے کہ چاند پر کس کو کتنی مقدار میں برف استعمال کرنے کی اجازت ہو گی اور کس کے حصّے میں کتنی معدنیات آئیں گی۔ نیز، مریخ سے متعلق در پیش مسائل کا حل کیسے نکالا جائے گا اور مصنوعی سیّاروں کے درمیان تصادم سے کیسے بچا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت خلا میں 2ہزار سے زاید مصنوعی سیّارے تیر رہے ہیں اور ناسا کوان کے علاوہ 5لاکھ سے زاید خلائی پتّھروں پر بھی نظر رکھنا پڑتی ہے، جو 27ہزار کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے حرکت کررہے ہیں۔ امریکا کی عسکری برتری کا بڑی حد تک دارومدار مصنوعی سیّاروں سے اپنی فوجی طاقت کو ہم آہنگ کرنے سے وابستہ ہے اور وہ اپنی فورس کو زمین پر کسی بھی جگہ اُتارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نیز، ڈرونز سمیت بغیر پائلٹ چلنے والے دوسرے طیّاروں کی برتری بھی اسی اسپیس ٹیکنالوجی کے مرہونِ منّت ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس وقت چین اور بھارت تیزی سے مصنوعی سیّاروں کے سگنلز کے جیمرز کی تیاری سمیت دوسری مہارتیں حاصل کرنے میں مصروف ہیں، جب کہ امریکا اور دوسرے ممالک اینٹی سیٹلائٹ ہتھیاروں کی تیاری میں جُتے ہوئے ہیں، جب کہ اس سے بھی زیادہ خطرناک پیش رفت یہ ہے کہ امریکا نے اپنی ’’اسپیس فورس‘‘ بنانے کا اعلان کیا ہے اور گزشتہ برس نومبر میں ٹرمپ اس سلسلے میں اپنے احکامات بھی جاری کر چُکے ہیں۔ علاوہ ازیں، فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکرون بھی ایک ایسا ہی اعلان کر چکے ہیں۔ گرچہ چین اس ساری صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیشِ نظر پیچھے ہٹنا پسند نہیں کرے گا۔ مذکورہ بالا صورتِ حال کے پیشِ نظر خلا کے لیے قوانین کی تشکیل ناگزیر ہے۔

ناسا کے آیندہ پانچ برس کے دوران انسان کو چاند پر اُتارنے کے پروگرام کا نام ’’آرمیٹس‘‘ ہے۔ اس کی بنیاد دو اسپیس ٹولز پر رکھی گئی ہے۔ پہلا ٹول ایک انتہائی طاقت وَر راکٹ ہے اور دوسرا کمانڈ ماڈیول گیٹ وے ہے۔ یہ ایک اسپیس اسٹیشن ہے، جہاں سے خلا نورد چاند پر روانہ ہوں گے اور ان کی مانیٹرنگ بھی یہیں سے ہو گی۔ امریکی صدر نے ناسا کو ہدایت دی ہے کہ اس منصوبے میں بین الاقوامی پارٹنرز اور بڑی کمپنیز کو بھی شامل کیا جائے۔ شاید وہ اس طرح ایک جانب حکومتی اخراجات کم کرنا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف تجارتی اداروں کو تربیت بھی فراہم کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ خلائی منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ حصّہ لینے کے علاوہ آزادانہ طور پر خدمات بھی انجام دے سکیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناسا کے اس پروگرام میں حصّہ لینے والے دیگر ممالک کا سرمائے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے کیا کردار ہو گا، کیوں کہ اس میدان میں ناسا کو واضح برتری حاصل ہے۔ نیز، دیگر ممالک کو اپنے خلائی مِشنز بھیجنے کے لیے بھی امریکی معاونت کی ضرورت ہو گی۔ یعنی چاند پر پہنچنے اور وہاں قیام کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہو گا، البتہ اس میں بھی امریکا کو برتری حاصل ہو گی۔ لہٰذا، خلا کو تسخیر کرنے کے لیے ممالک کو سب سے پہلے اپنے زمینی اختلافات دُور کرنا ہوں گے اور پھر خلاسے متعلق قوانین کی تشکیل پر غور و فکر کرنا ہو گا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تاریخ خود کو دُہرا رہی ہے۔ جب یورپ میں ترقّی کی لہر آئی تھی، تو یورپی سیّاحوں نے بحری جہازوں پہ سوار ہو کر نئی دُنیائیں تلاش کرنے کی مہمّات شروع کیں اور ان کے نتیجے میں امریکا اور ہندوستان دریافت ہوئے۔ چُوں کہ اُس وقت ’’جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس‘‘ کا اصول رائج تھا، لہٰذا نو آبادیات کا دَور شروع ہوا۔ پھر ان نوآبادیات کو ایک دوسرے سے چھیننے کی جنگ شروع ہوئی، جس کا اختتام دوسری عالم گیر جنگ پر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی نئی دُنیا کی دریافت کی خبر سامنے آتی ہے، تو بربادی کے مناظر آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مزید تباہی و بربادی سے بچنے کے لیے نئے قوانین تشکیل دیے گئے، جن کی پاس داری آج بھی کسی حد تک امن کی ضامن ہے۔ اس وقت خلا کو تسخیر کرنے کی دوڑ میں بھی وہی ممالک شامل ہیں کہ جو زمین پر کسی نہ کسی شکل میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔ گو کہ خلا کی وسعت لا محدود ہے، لیکن راہ داریوں کی حدود متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر انسان خلاکو تسخیر کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے، تو پھر خلائی سفر اور راہ داریوں کے لیے بھی قوانین تشکیل دینا ہوں گے۔

ناسا نے چاند پر انسانی قدم رکھنے کے 50برس مکمل ہونے پر چاند سے لائے گئے 500پتّھر دُنیا بَھر کے سائنس دانوں کو بھیجے ہیں کہ وہ ان پر تحقیق کر کے اپنی رائے دیں۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کے میدان میں جس برق رفتاری سے پیش رفت ہو رہی ہے، اس نے ناممکنات اور سائنس فکشن کو حقیقت کا رُوپ دینا شروع کر دیا ہے۔ ان شعبہ جات میں ترقّی یافتہ ممالک اس قدر آگے جا چُکے ہیں کہ پس ماندہ ممالک ان کی پیش رفت کو ناقابلِ یقین سمجھتے ہیں اور اسے پروپیگنڈا قرار دے کر اپنے دل کو تسلیاں دیتے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ترقّی یافتہ ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی تحقیق کاعُشرِعُشیربھی ہماری جامعات تک نہیں پہنچ پایا، جب کہ اسپیس ٹیکنالوجی کا تو ہم تصّور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم ابھی تک کرپشن اور بیڈ گورنینس کے چکر میں پڑ ے ہیں اور’’ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔‘‘ ماہرین کے مطابق، خلا میں نظم و نسق اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اقوامِ متّحدہ کا ماڈل قابلِ عمل ہے۔ پھر ابھی تک کسی خلائی مخلوق کا وجود بھی سامنے نہیں آیا اور اگر ایسی کوئی مخلوق وجود بھی رکھتی ہے، تو کیا وہ انسانوں سے زیادہ ترقّی یافتہ ہو گی، جیسا کہ سائنس فکشن موویز میں دکھایا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے بھی، تو خلا میں مشترکہ انسانی نمایندگی کی عمل داری زیادہ بہتر ہو گی۔‘‘

تازہ ترین