• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوانین کی موجودگی کے باوجود اس کا سدباب نہ ہوسکا

زراعت کے شعبے میںفصلوں پربیماریوںکے حملے، زرعی پانی کی چوری اور مصنوعی قلت، جیسی شکایات عام ہیں۔ اس مرتبہ بھی زیریں سندھ کے علاقوں میں کپاس، سرخ مرچ اور مکئی کے غیر معیاری بیج کی وجہ سے پیداوار میں کمی اور کسانوں کو لاکھوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اندرون سندھ غیر معیاری اور پرانی تحقیق کے حامل بیجوں کی غیر قانونی فروخت کی جا رہی ہے، مذکورہ دھندے میں ملوث افراد نے بعض غیرمعیاری بیجوں کی فروخت کے ذریعے سندھ کی زرعی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، مذکورہ بیجوں میں بعض ہائبرڈ اور دیسی دونوں اقسام بتائی جاتی ہیں۔ تاہم متعلقہ ادارے اس سنگین ’’معاشی جرم ‘‘کا کوئی نوٹس نہیں لے رہے۔ تعلقہ ڈگری، تعلقہ ٹنڈو باگو بدین سمیت ضلع عمرکوٹ اور تھر کے بعض علاقوں میں کپاس، سرخ مرچ اور مکئی کی فصلوں کی تباہ حالی پر مبنی متعدد شکایات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ متاثرہ زمینداروں حاجی نواز اوٹھو، رشید احمد قائم خانی نے بتایا کہ بتایا کہ جھڈو سمیت زیریں سندھ میں منافع خوری کے لالچ میں غیر معیاری اور پرانی تحقیق والے مسترد شدہ اقسام کا بیج فروخت ہو رہا ہے جس سے پیدا ہونے والی فصل میں وائرس، بیماریوں اور سخت موسمی اثرات کے سامنے مدافعت کرنے کی سکت نہیں ہے، اور مکئی کی بعض اقسام کی (پیدائش) کم تر جرمینیشن کے بعد حاصل شدہ ناقص فصل سے پیداوار بھی نہیں ہو پارہی۔ کاشتکاروں نے نمائندہ جنگ کوبتایا کہ کپاس اور سرخ مرچ کی پیداوار میں 60 فیصد سےانتہائی کمی کا سامنا ہے جس سے بچت تو درکنار کاشت پر کئے گئے بھاری اخراجات بھی پورے نہیں ہوپائیں گے۔ غیرمعیاری اقسام، مسترد شدہ اقسام اور نقلی بیج کی فروخت کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن ڈویژن نامی ادارہ موجود ہے جس کا ہیڈ آفس حیدرآباد میں قائم ہے۔ تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ مذکورہ ادارے نے اس کھلے جرم کے خلاف پکڑ دھکڑ نہیں کی ہے۔ ان ملک دشمن اور معیشت تباہ کرنے والے دھندوں کے سدباب کے لئے گرفتاری، جرمانے اور دوکانیں سیل کرنے کے قوانین بھی موجود ہیں لیکن مذکورہ قوانین کے نفاذ کے لئے متعلقہ ادارہ اپنا کردار ادا کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہے۔ ایف او بگی مائنر کے زمیندار عبد الجلیل انڑ، خالد صدف آرائیں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کاشتکاروں کو تربیت دےتا کہانہیں معلوم ہۃوسکے کہ بیج کی اچھی اقسام اور ان کی بوائی کا صحیح اور اصل وقت کون سا ہے تاکہ مناسب وقت پر کاشتکاری کر کے فصل کی کاشت، کھیڑی، اسپرے،کھاد وغیرہ پر آنے والے اضافی اخراجات سے بچا جا سکے۔ آبادگاروں نے کہا پاکستان میں فصل کی انشورنس کا نظام نہیں ہے لہٰذا کاشت کے بعد جب بیج کی ناکامی اور ناقص معیار کا راز فاش ہوتا ہے تو مجبوراً کھڑی فصل پر ہل چلانا پڑ جاتا ہے اور فصل دوبارہ کاشت کرنی پڑتی ہے یا کی گئی محنت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ محکمہ زراعت کے تعلقہ آفیسر اشفاق لغاری نے کہا کہ کپاس اور سرخ مرچ پر منفی اثرات کی وجہ سے پورا معاشی نظام متاثر ہو جاتا ہے لیکن بہت سے کاشتکار مارچ میں کاشت کرنے والی قسم جنوری میں کاشت کرتے ہیں تو کئی قسم کے مسائل ضرور سامنے آتے ہیں جن کا کوئی حل نہیں ہے۔ جبکہ زمینداروں نے ان تمام باتوں کو مسترد کرتے ہوئے کپاس اور سرخ مرچ کی پیداوار میں تشویشناک کمی کا سبب صرف اور صرف بیج کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سادہ لوح کسانوں کو بہلا پھسلا کر ناقص معیار کا بیج فروخت کیا جاتا ہے جس سے کاشتکاروں کو لاکھوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ کاشتکاروں کو امید دلائی گئی تھی کہ جولائی میں معمول سے زیادہ گرمی رہی ہے آئندہ بارشوں کے بعد فصلوں کی افزائش اور بڑھوتری میں بہتری آئے گی لیکن اب بارش کے بعد کسی بھی بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین