• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منیر فراز

یہ جو دنیا کے نقشے پر لاطینی امریکہ کا ایک ملک ، جو کرہ ارض کا آخری ملک یے،جہاں سے پانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور لوگ جسے مختلف حوالوں سے چلی کے نام سے جانتے ہیں ، میں اس سر زمین کو تانبے کے ذخائر اور پابلو نرودا کی نظموں کے حوالے سے جانتا ہوں ۔ پابلو نرودا کی شخصیت کے بجائے چلی کو اس کی نظموں کے حوالے سے جاننے کا جواز یہ ہے کہ اگر پابلو نرودا کی شخصیت سے اس کی نظمیں نکال دی جائیں تو باقی ایک عام آدمی ہی بچتا ہے ، ایک عام آدمی جو چلی کی سڑکوں پر پھرتا ہے ، روزمرہ اشیاء کا بھاو تاو کرتا ہے،انہیں خریدتا ہے، ساحل سمندر پر آوارہ پھرتا ہے، اپنے ملک کی کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین بنتا ہے ، صدارتی امیدوار ہوتا ہے اور مختلف ممالک میں اپنے ملک کا سفیر بن کر ایک روز چپ چاپ تہہ خاک ہو جاتا ہے ۔ کیا میں اور آپ ایسے سیکڑوں پابلو نرودا کو نہیں جانتے؟ یقینا چلی کے قبرستان ایسوں سے بھرے پڑے ہوں گے۔پابلو نرودا کی شاعری ہی اسے عام پابلو نرودا سے الگ کرتی ہے۔ مجھے اس کی شاعری سے عشق ہے، اس لئے کہ اس کی نظمیں ایسی ولولہ انگیز ہیں جو اسے ایک عام آدمی کی صف سے نکال کر دنیا بھر کے انقلابیوں ، امن پسندوں اور آزادی کے متوالوں کے دلوں میں بٹھا دیتی ہیں ۔ آپ اگر آزادی کی جنگ لڑنے والوں ، محبت کے گیت گانے اور امن کا پرچار کرنے والوں کے مسلک سے ہیں تو آپ چاہے اس کا اظہار نہ بھی کریں لیکن آپ کو بھی لا شعوری طور پر پابلو نرودا کی شاعری سے عشق ہے۔ 

 میں جب پابلو کی نظمیں پڑھتا ہوں تو مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے ایک تو اس کی نظمیں انتہائی اثر آفرین ہیں ، دماغ کو پڑھاتی ہیں، دل پر نشان چھوڑتی ہیں۔ یہ اس قدر ولولہ انگیز ہیں کہ آپ کا دل چاہتا ہے کہ دنیا کے جھگڑے چھوڑ چھاڑ کر کسی سپاہی کی وردی پہنیں اور انقلابیوں کی کسی جنگ میں اگلے مورچوں پر پہنچیں اور پابلو نرودا کی نظمیں پڑھ کر سپاہیوں کا لہو گرماتے رہیں ۔ یا آپ ساحلوں کی طرف نکل جائیں اور محبت کا کوئی گیت سمندر کے بہتے پانیوں پر رکھ دیں اور اسے ہوا کے دوش پر سفر کرنے دیں ۔ یا یہ کہ آپ کسی راہ چلتے مسافر کے گلے میں ہاتھ ڈالیں اور اس سے یوں ہی دل کی باتیں کرتے گلی کی اگلی نکڑ تک چھوڑ آئیں۔ یہ، اور ایسی ہی تماثیل میرے ذہن میں پابلو کو پڑھنے سے ابھرتی ہیں ۔ پابلو نرودا سے ایک بڑا عوامی دلبستگی کا تاریخی واقعہ بھی مجھے مسحور کر دیتا ہے۔ پابلو نرودا خود حیرت زدہ ہو کر لکھتا ہے کہ ہسپانوی عوام جب اپنی سرزمین پر جمہوریت کی جنگ ہار رہی تھی اور مہاجرین کی ایک بڑی تعداد اسپین کی سڑکوں سے فرانس کی جانب بڑھ رہی تھی تب لوگ زاد سفر سے اناج اور کپڑے نکال کر پابلو نرودا کی کتب اپنے تھیلوں میں بھر رہے تھے ۔ یہ وہی نسخے تھے جو جنگ کی تباہ کاریوں کے دوران کاغذ کی قلت کی وجہ سے جھلسے ہوئے پرچموں اور سپاہیوں کے خون آلود کپڑوں کے آمیزے سے تیار کئے گئے کاغذ پر طبع کئے گئے تھے۔جو بعد ازاں گولا بارود کی جنگ میں اسپین کی سڑکوں پر بکھر کر خاک ہوئے ۔ کیا کوئی شاعر اس قدر محبت کی معراج پر پہنچ جاتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں یوں دھڑکتا ہے کہ لوگ بھوک کے سفر میں اناج پھینک کر اسکی کتب اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ محبت کی کونسی منزل کہی جائے گی ۔پابلو نرودا خود مراعات یافتہ تھا لیکن اس کا دل و دماغ محنت کشوں اور محبت بانٹنے والوں کے ساتھ دھڑکتا تھا اس کے لہجے میں ایک نغمگی تھی جس نے اس کی شاعری کو لوگوں کے دل و دماغ پر چھا جانا سکھا دیا تھا ۔ میں جب پابلو نرودا کا نام لیتا ہوں تو ساز کی ایک تار مجھ میں بیدار ہوجاتی ۔ پابلونرودا خود ایک مکمل ساز ہے ۔کوئی شخص اگر جلاوطنی کے ایام میں اپنے قاصد کو کہے کہ مجھے اپنے سمندروں کی آواز ریکارڈ کر کے بھیجی جائے جہاں میں پھرتا رہا ہوں تو ایسے شخص کے مزاج موسیقی کا درجہ کیا ہوسکتا ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ میں سلمی جیلانی کی ترجمہ کی ہوئی پابلو نرودا کی ایک نظم آپ سے شیئر کروں، اس پابلو نرودا کی جو عام نہیں ہے ۔ پھر ہم دیکھیں کہ بڑی اور آفاقی شاعری کیا ہوتی ہے ، اس کا تخلیق کار کیوں کر نوبل تک پہنچتا ہے اور لوگ کیوں بھوک کے سفر میں اناج کپڑے چھوڑ کر ایسی شاعری کے نسخے اپنے تھیلوں میں بھرتے ہیں۔

تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو

گر سفر نہیں کرتے

گر مطالعہ نہیں کرتے

گر زندگی کی آوازیں نہیں سنتے

گر خود کو نہیں سراہتے

تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو

جب خود توقیری کو قتل کرتے ہو

جب دوسروں کو اجازت نہیں دیتے

کہ وہ تمہاری مدد کر سکیں

تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے ہو

جب اپنی عادتوں کے اسیر بن جاتے ہو

ہر روز لگے بندھے رستوں پر چلنے رہتے ہو

اگر، اپنے معمولات نہیں بدلتے

اگر مختلف رنگ نہیں پہنتے

اگر، اجنبیوں سے باتیں نہیں کر تے

تم دھیرے دھیرے مرنے لگتے، ہو

جب عشق سے اور اسکی ہنگامہ خیزیوں سے جان چھڑاتے ہو

اور ان سے جہنیں دیکھ کر تمہاری آنکھیں روشنی سے دمک اٹھتی ہیں

دل کی دھڑ کنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں

تم دھیرے دھیرے مر، جاؤ، گے

اگر خطرہ مول نہ لو گے

یہ جاننے کو کہ نامعلوم کتنا محفوظ ہے

اگر خوابوں کی تلاش میں نہ نکلو گے

زندگی میں کم از، کم اک بارمنطق سے نہ بھاگو گے

خود کو قطرہ قطرہ مرنے نہ دینا، خوش رہنا نہ بھولنا

میں جب کبھی ایک خاص کیفیت میں پابلو نرودا کی ایسی زندگی آمیز نظمیں پڑھتا ہوں تو مجھے اپنے سوٹ بوٹ والے فیض صاحب یاد آجاتے ہیں۔ غالب،اقبال ، میر یا فراز کو میں غالب ، اقبال ، میر اور فراز ہی کہتا لکھتا ہوں لیکن فیض کو فیض صاحب لکھتا ہوں یہ میری ان سے ایک خاص ہی عقیدت ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ فیض صاحب کو ہم نے پابلو نرودا کیوں نہیں مانا ؟ وہ بھی تو ویسی ہی ولولہ انگیز نظمیں کہہ گئے ہیں ۔ انقلابیوں کی جنگ میں اگلے مورچوں پر پڑھی جانے والی نظمیں ، امن اور محبت کا پرچار کرنے والوں کے دلوں میں دھڑکنے والی نظمیں ۔ ویسی ہی دلکش زبان وہی توانا لہجہ ، رومان اور تخیل کی یکساں پرواز اور وہی آفاقیت جو پابلو نرودا کی نظموں میں ملتی ہے ۔ فیض صاحب پابلو نرودا سے متاثر ضرور تھے لیکن انہوں نے پابلو سے ماخوذ نظمیں نہیں کہیں ۔پاکستان میں پیدا ہونا فیض صاحب کا کام تھا نہ دفن ہونا ، ان کا کام نسخہ ہائے وفا ہے جو بین الاقوامی شاعری کی کئی بڑی کتابوں کے اوپر رکھی ہے۔ ؎ ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے، ؎ • اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے ؎ جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے، ؎ • بول کہ لب آزاد ہیں تیرے وغیرہ وغیرہ۔

ہم کلیات کو آنکھیں بند کر کے کھولیں گے جو صفحہ سامنے آئے گا پڑھتے جائیں گے اور واہ واہ کرتے جائیں گے ، یہ نظمیں ہیں یا لفظوں کی ساحری، پڑھنے والے کو کسی اور دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں سے ہم گھوم پھر کر پھر وہیں آجاتے ہیں کہ ہم نے فیض کو پابلو نرودا کیوں نہیں مانا ؟ مجھے جب اس کا کوئی جواب نہیں ملتا تو پابلو اور فیض کو باہم رکھنے کے لئے میرے پاس صرف ایک مقولہ بچتا ہے ، جو مجھے سہارا دیتا ہے اور وہ یہ کی شعر کی کوئی سرحد نہیں ہوتی جسے پار کرنے کے لئے اسے کوئی شناختی دستاویز درکار ہو ۔ چنانچہ اس تناظر میں چلی کا پابلو نرودا میرا فیض صاحب ہے اور یہ جو دنیا کے نقشے پر لاطینی امریکہ کا ایک ملک ، جو کرہ ارض کا آخری ملک یے اورجہاں سے پانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور لوگ جسے مختلف حوالوں سے چلی کے نام سے جانتے ہیں ، میں اس سر زمین کو تانبے کے ذخائر اور فیض صاحب کی نظموں کے حوالے سے جانتا ہوں۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہم میں ابھی بھوک کاٹنےکی ریاضت مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی ہم بھوک کے سفر میں کتابیں پھینک کر اپنے تھیلوں میں اناج بھرنے والوں کی صف میں ہیں ۔

تازہ ترین