• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اللہ کی شان دیکھو، تنکے میں جان دیکھو‘‘۔ وہ جیسے ہی اسکول گیٹ سے اندر داخل ہوا، ایک جانب سے آواز سُنائی دی۔ابھی دو چار قدم ہی چلا تھا کہ دوسری طرف سے آواز آئی،’’ارے بھائی! جیب میں دو پتھر ہی رکھ لیا کرو، ورنہ کسی دِن اُڑ جاؤ گے۔‘‘ ہم جماعت اور اسکول کے دیگر بچّوں کے تمسخر کا نشانہ بننا اُس کے لیےگویا روز کا معمول تھا۔ ایسا نہیں کہ اُس کے دوست نہیں تھے، وہ کوئی ڈرپوک یا پڑھائی میں کم زور لڑکاتھا،بس جسمانی طور پر کچھ کم زور دکھائی دیتا تھااورصرف بچّے ہی نہیں ،اساتذہ تک اس کے دبلے پتلے ہونے پر کوئی نہ کوئی جملہ کس ہی دیا کرتے تھے۔ وہ اکثرسوچتا کہ اب کسی کی بات دِل پر نہیں لے گا، لیکن ہر بار مذاق کا نشانہ بننے پرجیسے اُس کا سارا اعتمادڈھےساجاتا ۔ ایک روز وہ اسکول آیا تو اُسے کہیں سے طنزیہ آوازیں سُنائی نہ دیں، لامحالہ اُس کی نظریں بچّوں کو ڈھونڈتی ڈھونڈتی گراؤنڈ کے ایک درخت کے نیچےجا رُکیں، جہاں چھوٹا سا مجمع لگا تھا۔ وہ سمجھا، شاید پچھلے ہفتے کی طرح آج بھی کوئی کمپنی اپنی پراڈکٹ کی پروموشن کے لیے کسی کامیڈین یا جادوگر وغیرہ کے ساتھ آئی ہے۔ قریب پہنچ کر پتا چلا کہ دائرے کے بیچ تو ایک موٹا بچّہ کھڑا ہے۔ اس قدر موٹا کہ اُس کی اپنی ہنسی چھوٹ گئی۔ نووارد بچّےکے آگے اس کا دبلا پن کچھ بھی نہیں تھا۔اب تو ہر ایک نے’’موٹو‘‘ کو جس کا نام معیز تھا، پنچنگ بیگ سمجھ لیا۔ گھر سے پٹ کر آنے والے، ٹیچرز سے غلطی پر بار بار بے عزّتی سہنے والے اور بے توجہی کے شکار سب ہی بچّوں نے اس سے اپنے اپنےمسائل کا بدلہ اُس سے لینا شروع کردیا۔ بدقسمتی سے معیز کے گھر سے کبھی کوئی شکایت لے کر نہیں آیا اور خود اُس میں اتنی ہمّت نہیں تھی کہ وہ کلاس ٹیچر یا پرنسپل سے شکایت کرسکتا،لہٰذا سب بے خوف ہوکر اس کا خُوب مذاق اُڑاتے۔ ایک روز کلاس ٹیچر نے"Bullying"کے موضوع پر مضمون لکھنے کو کہا اور ساتھ ہی وضاحت شروع کردی کہ’’ بُلینگ کا مطلب کسی کی کم زوری کا مذاق اُڑانا ہے۔ جیسے کسی کی سیاہ رنگت، چھوٹے یا بہت لمبے قد اور جسامت وغیرہ پر جملے، فقرے کسنا، جیسے موٹو میرا مطلب ہے معیز کو سب اس کے موٹے ہونے پر چڑاتے ہیں، تو یہ روّیہ ہراسانی کہلاتا ہے اور اس کے نتائج بہت خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات بچّے خودکشی تک کر لیتے ہیں۔ مگر معیز، آپ ایسی کوئی کوشش مت کیجیے گا، کہیں چھت ہی نہ گر جائے۔‘‘ ٹیچر آگے پتا نہیں کیا کیا کہتی رہیں، مگر معیز کا دماغ سائیں سائیں کررہا تھا۔

اگلے دِن معیز اسکول نہیں آیا، بلکہ اخبار میں خبر شایع ہوئی کہ’’ساتویں جماعت کے بچّے نے ٹیچر کے معمولی مذاق پر گلے میں پھندا ڈال کر خودکُشی کرلی۔‘‘معیز، ہمارے اردگرد موجود کئی ایسے کرداروں میں سے ایک کردار ہے، جنہیں ہماری توجّہ اور تعاون کی اشد ضرورت ہے۔بُلینگ کی کئی اقسام ہیں، جن میں سب سے عام مذاق اُڑانا ہے۔دیگر میں کسی سے متعلق افواہیں پھیلانا، کسی کو مخصوص ذات یا طبقے سے تعلق کی بنا پر بار بار کم تر ہونے کا احساس دلانا، دھمکیاں دینا، خود کو طاقت وَر ثابت کرنے کے لیے کسی کم زور کو مار پیٹ کا نشانہ بنانا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اب ایک نئی قسم بھی سامنے آئی ہے، جو ’’سائبر بُلینگ‘‘ کہلاتی ہے۔ یعنی انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے کسی دوسرے فرد کو ذہنی اذّیت سے دوچار کرنے کی کوشش کرنا۔ واضح رہے کہ کسی کو دھمکی آمیز، غیر اخلاقی میسیجز یا تصاویر بھیجنا، سوشل سائیٹس پر مختلف جگہ کسی شخص کو بار بار اپنی موجودگی کا احساس دِلا کر چڑانا، اس کی’’ایکٹویٹیز‘‘ پر نظر رکھنا اور اس ضمن میں اسے ہراساں کرنا، عمومی طور پہ سائبر اسٹالکنگ (Cyber stalking)کہلاتا ہے، لیکن درحقیقت ہراسانی ہی کا ایک حصّہ ہے۔

عام طور پر متاثرہ فرد کو یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ان باتوں کو نظرانداز کرے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوتا، جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ایک ماہرِ نفسیات کے پاس روزانہ کئی افراد عدم اعتماد، لوگوں سے بات کرنے میں گھبراہٹ، تنہائی کا احساس، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصّہ آنا، اپنا آپ غیر اہم لگنا، فیصلہ سازی کی صلاحیت نہ ہونا اور اسی طرح کی کئی شکایات لے کر آتے ہیں، جو اصل میں مسلسل ہراسانی کا شکار ہونے کا شاخسانہ ہیں۔ دُنیا بَھر میں ہر روز کئی بچّے کسی نہ کسی قسم کی ہراسانی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہراسانی کے شکار30فی صد بچّے خود کو تکلیف پہنچاتے ہیں،30فی صد بار بار خودکُشی کا سوچتے ہیں اور اُن میں سے 10فی صد کر بھی لیتے ہیں۔ 10فی صد نشے کا سہارا لے لیتے ہیں اور باقی 20فی صد اسکول جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے، تو بدقسمتی سے یہاں ہراسانی کے شکار بچّوں سے متعلق معلومات یک جا کرنے کا کوئی منّظم نظام ہی موجود نہیں۔ تاہم، جو چند سرویز کیے گئے، اُن کے اعتبار سے ہراسانی کے ضمن میں دُنیا بَھر میں پاکستان بائیسویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ ہر جگہ بُلینگ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، لیکن متاثرہ افراد ذہنی دباؤ کا شکار ہوکربعض اوقات کوئی انتہائی قدم اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر اسکول میں کی جانے والی بُلینگ کی بات کی جائے، تو عموماً جسمانی ساخت، رنگت، نسل اور ذات پات پر تضحیک کا نشانہ بنانا سب سے عام ہے اور قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اساتذہ، طلبہ کو روکنے کی بہ جائے خود بھی مختلف طریقوں سے اس عمل کا حصّہ بن جاتے ہیں۔ اساتذہ کی طرف سے کی جانے والی بُلینگ میں اپنے لیکچر کو ہلکا پھلکا بنانے کے لیے کسی موٹے یا دبلے بچّے پر کوئی جملہ یا فقرہ کس دینا، کسی کی نالائقی یا تعلیمی میدان میں کم زوری کو بار بار زیرِ بحث لانا، کسی بچّے کے بات چیت کے انداز کو جواز بناکر اُسے بار بار احساس دلانا کہ وہ مکمل لڑکا یا لڑکی ہے اور اُسے ویسا ہی رویّہ رکھنا چاہیے وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ذہین بچّے کے بلاوجہ نمبر کاٹ لینا یا پھراُسے بَھری کلاس میں بے عزّت کرنابھی بُلینگ کا ایک ایسا مذموم طریقہ ہے، جو بچّے کی پوری زندگی متاثر کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں سوچنے اور سوال کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کی بہ جائے درج بالا حربے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنی عزّتِ نفس مجروح ہونے کے خوف سے سوچنا اور سوال پوچھنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ بعد ازاں، جب کوئی ذہین بچّہ امتحان میں نمبر کم آنے پر خودکُشی، جیسا انتہائی قدم اُٹھانے کا مرتکب ہو جائے، تو پھر سوچتے ہیں کہ اتنی ذرا سی بات پر بچّے نے خودکُشی کیوں کرلی یا تعلیم ادھوری کیوں چھوڑ دی؟یاد رکھیے، اسکولز کے ہراسانی کے ماحول سے متاثرہ بچّوں میں بتدریج تعلیم سے بے رغبتی پیدا ہونے لگتی ہے۔ وہ اسکول کے نام سے خوف محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ہر لمحہ بے عزّتی یا مذاق اُڑائے جانے کا خوف ان کی ہر صلاحیت متاثر کردیتا ہے۔ اسکولز کی سطح پر کی ہونے والی بُلینگ سے نجات کے لیے پرنسپل اور اساتذہ پر یہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف خود ہر قسم کی بُلینگ سے گریز کریں ، بلکہ ایسے اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو بچّوں کی نفسیات سمجھتے ہوں اور ان کے اپنے مزاج میں بھی نرمی پائی جاتی ہو۔ ہراسانی کے شکار بچّوں کا مسئلہ ضرور سُنیں اور کسی اچھے ماہرِ نفسیات سے رابطہ کر کے اُن کی کاؤنسلنگ بھی کروائی جائے۔ کوشش کریں کہ ان بچّوں کا کلاس سیکشن بدل دیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو، تو پھر ان کی سیٹ مذاق اُڑانے والے بچّوں سے دُور کردیں۔نیز، بُلینگ کرنے والے بچّے کو سزا دینے کی بجائے یہ جاننے کی کوشش کریںکہ وہ خود کس مسئلے کا شکار ہے اورجہاں تک ممکن ہو، اُس بچّے کی مدد بھی کریں، تاکہ وہ اس بُری عادت سے نجات حاصل کرسکے۔

کام کی جگہوں پر ہونے والی ہراسانی:دفاتر یا مختلف کام کی جگہوں پر ہراسانی کی کچھ الگ ہی اقسام پائی جاتی ہیں۔ سرفہرست تو مذاق اُڑانا ہی ہے کہ شاید اب یہ ہمارا قومی مزاج بن چُکا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی ہراسانی، افواہیں پھیلانا اور سازشیں کرنا بھی بُلینگ ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔ خواتین کو سب سے زیادہ جنسی نوعیت کی بُلینگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں ان کے لباس یا مَرد کولیگز سے بات چیت پر تنقید یا پھر انہیں ڈرا دھمکا کر دوستی پر مجبور کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ البتہ مَردوں کو عموماً کسی سازش کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر ان سے متعلق افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق افسر خواتین، ماتحت خواتین کو زیادہ تر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، جب کہ افسر مَردوں میں پیشہ ورانہ حسد یا ذات برادری کی بنیاد پہ تحقیر کا عُنصر پایا جاتا ہے۔ کام والی جگہوں پر ہراسانی سے بچنے کا بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ بات، بے بات تنقید کرنے، مذاق اُڑانے اور افواہیں پھیلانے والوں سے دُور رہا جائے۔ اگر مینیجمینٹ مددگار ہو، تو اپنا مسئلہ ان کے سامنے پیش کریں، البتہ جنسی طور پر ہراساں کرنے یا مار پیٹ کی صُورت میں پولیس سے رابطہ کیا جائے۔

گھروں میں ہونے والی ہراسانی:چند ماہ قبل فیصل آباد کے ایک علاقے، منصور آباد میں ایک چچا نے اپنی تین سالہ سگی بھتیجی کو نہر میں پھینک دیا اور بچّی ڈوب کر ہلاک ہوگئی۔ تفتیش پر چچا نے بتایا کہ اس کا بڑا بھائی اُسے سب گھر والوں کے سامنے مارتا پیٹتا تھا اور اسی بھائی کے بچّے اُس کا مذاق اُڑاتے تھے، جو اس سے برداشت نہیں ہوا۔ اخبار نے اس واقعے کو عدم برداشت کا نتیجہ قرار دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے، کیا واقعی یہ چچا کی عدم برداشت ہے یا بڑے بھائی کا نامناسب رویّہ؟ اسی طرح کے بےشمار واقعات کے سبب گھروں میں کی جانے والی ہراسانی کو سب سے حسّاس قسم قرار دیا جاتا ہے۔ والدین، بہن، بھائیوں یا سُسرال والوں کا مذاق اُڑانا، بار بار کسی جسمانی یا معاشرتی صلاحیت کی کمی کی بناء پر تنقید یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا کسی بھی فرد کی شخصیت پر ناقابلِ تلافی اثرات مرتّب کرتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ اسکول اور کام کی جگہوں پر ہراسانی کے شکار افراد گھر پر بھی مذاق کا نشانہ بنتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اس مسئلے کے حل کے لیے اہلِ خانہ سے مدد نہیں لے پاتے۔ دوسری جانب اہلِ خانہ بھی مدد کی بہ جائے ان ہی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں یا پھر خاموش رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ عام طور پر والدین معاشرتی دباؤ کے زیرِ اثر اپنے بچّوں کو تمام عیوب سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا ہوتا یہ ہے کہ والدین بچّوں میں پائی جانے والی جسمانی یا ذہنی کمی کو جان بوجھ کر نظر انداز کرکے بار بار اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ ’’ہمارے بچّے میں کوئی کمی نہیں۔‘‘ اور بچّے کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جو اس کے بس کی بات ہی نہیں۔ دوسری طرف کچھ والدین اس بات کا ادراک کرکے کہ بچّے میں کوئی جسمانی ،ذہنی یا معاشرتی کمی ہے، اس کےسدھار کے لیے مسلسل ناقابلِ عمل ہدایات دیتے رہتے ہیں، جو اس کے لیے ذہنی تکلیف ہی کا باعث بنتی ہیں،نتیجتاً یا تو وہ ضدّی ہو جاتا ہے، کوئی بات نہیں مانتا یا پھر کوئی بھی کام کرنے سے قبل خوف زدہ ہوجاتا ہے۔

کئی ذہنوں میں یہ سوال جنم لے گا کہ بھلا والدین اپنی اولاد سے اس طرح کا منفی سلوک کیوں کریں گے؟ تو اس کی بھی کئی وجوہ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ والدین ہمیشہ اولاد کا بھلا چاہتے ہیں، جب کہ منطقی نظر سے دیکھا جائے، تو ایسا ضروری نہیں۔ والدین بھی اولاد سے حسد کا شکار ہوسکتے ہیں۔ مثلاً اولاد میں اگر وہ صلاحیت پائی جاتی ہے، جس کی بنیاد پر ماں ،باپ کو اپنی زندگی میں بُلینگ سہنی پڑی، تو وہ لاشعوری طور پر اولاد کی اس صلاحیت سے حسدکرنے لگتے ہیں۔ نیز، بیٹے کی خواہش کے وقت بیٹی یا بیٹی کی چاہ میں بیٹے کا جنم لینا، نہ چاہتے ہوئے اولاد کا دُنیا میں آنا بھی وہ عوامل ہیں، جو اولاد کو بوجھ بنادیتے ہیں۔ اور اس کا اظہار والدین کے منفی روّیوں سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات مائیں بھی پوسٹ پارٹم ڈیپریشن (Postpartum Depression)کا شکار ہوکر نومولود کو اپنی پریشانی کی وجہ سمجھنے لگتی ہیں۔ ایسے میں اگر ماں کا مناسب علاج نہ کروایا جائے، تو اولاد سے متعلق منفی جذبات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پھر باپ کے کسی ایک بچّے سے منفی رویے کی وجہ اپنی اہلیہ پر شک بھی ہوسکتا ہے۔ تاہم، ایک عمومی وجہ والدین کا شدّت سے یہ چاہنا کہ جو پریشانی ہم نے دیکھی، وہ ہماری اولاد نہ دیکھے، خود پہ جبر کر کے اُن سے سخت رویہ اپنا نا ہے، تاکہ وہ معاشرے میں ’’اچھے والدین‘‘ کہلاسکیں اور ان کی اولاد کی تہذیب یافتہ، ذہین، باصلاحیت یا خُوب صُورت ہونے کی وجہ سے تعریف ہو، لیکن تعلیم اور شعور و آگہی کی کمی کے سبب والدین کی یہی نیک نیّتی آگے جاکر منفی روّیے میں ڈھل جاتی ہے۔

یاد رکھیے، ہراساں کرنے والے اور ہراسانی کے شکار دونوں کے تعلق میں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ہراساں کرنے والا کسی نہ کسی پہلو سے سہنے والے سے طاقت وَر ہوتا ہے اور اسی کا وہ فائدہ اُٹھاتا ہے۔ رہی بات بُلینگ ختم کرنے کی، تو اس حوالے سے سب سے اہم گھر میں بچّوں کے ساتھ مثبت روّیہ اختیار کرنا ہے۔ اس ضمن میں والدین کو سمجھانا دیگر افراد کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، رشتے داروں، عزیز اقارب، ملنے جُلنے والوں اور پڑوسیوں کا بھی یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ والدین کو ان کے منفی روّیے کا بار بار احساس دلائیں۔ نیز،والدین بچّوں کو گھر سے اعتماد دیں، بغیر کسی وجہ کے لاڈ و پیار کریں۔ چاہے وہ موٹے، دبلے، سانولے، پڑھائی میں کم زور ہوں، لڑکی ہونے کے باوجود خُوب صُورت نہیں یا لڑکا ہونے کے باوجود نازک اندام ہیں، انہیں اس بات کا یقین دلائیں کہ ان کی اہمیت جسمانی ساخت، ذہنی صلاحیت حتیٰ کہ تمیز اور بدتمیزی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہر فرد کومختلف صلاحیتوں سے ضرور نوازتا ہے، لہٰذا یہ صلاحیتیں تلاش کرنے میں بچّوں کے مددگار بنیں۔ انہیں اتنا اعتماد دیں کہ اگر وہ ہراسانی کا شکار ہوں تو ماں یا باپ کو بتاسکیں۔ بچّوں کو یہ بھی سمجھائیں کہ ہراساں کرنے والوں سے حتیٰ الامکان دُور رہیں اور ہاتھا پائی سے تو ہر صُورت گریز کریں۔ نیز، اسکول میں اُن بچّوں کے ساتھ فارغ وقت گزاریں، جو ناموافق حالات میں مثبت رویے اختیار کرتے ہیں۔ بچّوں کو یہ بھی بتائیں کہ دوستی ایسے بچّوں سے کی جاتی ہے، جو دوسروں کا مذاق نہیں اُڑاتے اور سب کی مدد کرتے ہیں۔ اس طرح بچّے خود بہ خود ہراساں کرنے والوں سے دُور رہیں گے۔اگر ہراسانی کے شکار افراد ذہنی طور پر زیادہ دباؤ کا شکار ہوں، تو اپنے طور پر مشورے دینے کی بجائے بہتر ہوگا کہ کسی مستند ماہرِنفسیات سے رابطہ کرلیا جائے، تاکہ اُن کا مسئلہ درست طریقے سے حل ہوسکے۔یاد رکھیے، ذہنی خاص طور پر معاشرتی مسائل کا حل، کسی ایک فرد کی ذمّے داری نہیں، جب تک ہم سب اپنی اپنی جگہ مثبت کردار ادا نہیں کریں گے، معاشرے سے منفی روّیوں کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔

(مضمون نگار،سائیکولوجسٹ ہیں)

تازہ ترین