• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور شہر سے تقریباً 30کلو میٹر دُور، رائے ونڈ روڈ پہ واقع 3ایکڑ پر محیط، ’’رفیع پیر کلچرل کمپلیکس‘‘ ایشیا کے سب سے بڑے پُتلی گھر میوزیم، اوپن ایئر تھیٹر، آرٹ کیفے، ڈراموں اور مختلف تقریبات کے لیے اسٹیج اور پُر آسائش مقامات کے علاوہ رفیع پیر تھیٹر کے مرکزی دفاتر پر مشتمل ہے۔ گھنے درختوں سے ڈھکی یہ عمارتیں پیر زادہ خاندان کی 80سالہ جدوجہد کی مظہر بھی ہیں۔ اس خاندان نے پاکستان میں فلم، تھیٹر، ڈراما، رقص، موسیقی، مصوّری اور پُتلی تماشے جیسے روایتی کھیل کو پروان چڑھایا۔ پیر زادہ فیملی کی داستان پون صدی سے زاید عرصے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے مرکزی کردار 1898ء میں بنّوں میں پیدا ہونے والے رفیع پیرزادہ ہیں۔ اُن کے دادا، پیر قمر الدّین بنّوں میں پولیٹیکل ایجنٹ تھے، جب کہ آبائو اجداد کشمیر سے گجرات آ کر آباد ہوئے ۔ پیر قمر الدّین نے 1868ء میں گجرات سے لاہور نقل مکانی کی اور یہاں گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔ وہ اس کالج سے فارغ التّحصیل ہونے والے پہلے بَیچ اور گنتی کے چند مسلمانوں میں شامل تھے۔ بعد ازاں، رفیع پیرزادہ کے والد، بیرسٹر پیر تاج الدّین اور خود انہوں نے بھی اسی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی۔ پیر قمر الدّین، علاّمہ اقبال کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور شاعرِ مشرق کی طرح انہوں نے بھی لندن سے وکالت کی تعلیم حاصل کی تھی، جب کہ اُن کے صاحب زادے، پیر تاج الدّین نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک برطانوی خاتون سے شادی کی۔ سو، رفیع پیرزادہ نے خالصتاً علمی و ادبی ماحول میں نشوونما پائی اور فنونِ لطیفہ سے محبت اوائلِ عُمری ہی سے ان کےدل کے نہاں خانوں میںپروان چڑھنے لگی۔ تاہم، اس کا ایک مظاہرہ 11،12سال کی عُمر میں دیکھنے کو ملا۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ رفیع پیرزادہ جب اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں اپنا شو دکھانے آئی۔ دوسرے شہریوں کی طرح وہ بھی شو دیکھنے گئے اور اس کے سحر میں گُم ہو گئے۔ اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچے، تو تھیٹر کمپنی اپنا سامان سمیٹ کر دلّی روانہ ہو رہی تھی۔ رفیع پیرزادہ بھی کمپنی کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ اہلِ خانہ ان کی گُم شدگی پر سخت پریشان ہوئے۔ تاہم، اتفافاً دلّی کے تھیٹر میں اُس شو کے مہمانِ خصوصی نے، جو اُن کے دادا کے دوست تھے، انہیں پہچان کر گھر والوں کو مطلع کر دیا۔ یوں وہ چند روز بعد بہ حفاظت لاہور پہنچ گئے۔ اس واقعے کے بعد رفیع پیرزادہ کے اہلِ خانہ کو اندازہ ہو ا کہ وہ اداکاری کے کس قدر دیوانے ہیں۔

لندن روانگی

رفیع پیرزادہ نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی اور وہ اس کے سرگرم رُکن تھے۔ انہیں اپنے دادا کےدیرینہ رفیق، مولانا محمد علی جوہر سے جنون کی حد تک عقیدت تھی ۔وہ اُن کی تقاریر کے رسیا تھے۔نیز، تحریکِ خلافت کے سلسلے میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں ہونے والے جلسوں کے ماحول کو مولانا محمد علی جوہر کی تقریر سے پہلے گرماتے بھی تھے۔ اسی دوران پولیس نے مولانا محمد علی جوہر کا تعاقب شروع کر دیا اور رفیع پیر زادہ بھی اُن کی نظروں میں آ گئے۔ اہلِ خانہ کو پتا چلا، تو انہوں نے رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ 1916ء میں انہیں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کے لیے اوکسفرڈ بھیج دیا گیا۔ واضح رہے کہ رفیع پیر انگریز حُکم رانوں کو ناپسند کرتے تھے اور اُن نوجوانوں میں شامل تھے کہ جنہوں نے انگریز سے ڈگری نہ لینے کی قسم اُٹھا رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے برطانیہ جانے کا فیصلہ مجبوراً قبول کیا ۔ پھر اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں اُن کی ایک انگریز کے ساتھ لڑائی بھی ہو گئی ۔ اس موقعے پر ایک ’’محکوم قوم‘‘ کے نوجوان نے ’’حاکم قوم‘‘ کے فرد کا جو حال کیا، وہ بہت مزے لے لے کر سُناتے تھے۔ اس واقعے کے بعد رفیع پیرزادہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں انہوں نے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لیا، جو اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ ہائیڈل برگ یونی ورسٹی میں 4برس گزارنے کے بعد وہ برلن جا پہنچے۔ گرچہ اُس زمانے میں جرمنی پہلی جنگِ عظیم میں شکست کھا چکا تھا، لیکن اس کے باوجود یہ پورے یورپ میں فن و ثقافت کا مرکز تھا۔ تب شکست خوردہ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے ذریعے اپنا کتھارسس کر رہے تھے اور یورپ بھر سے فن کار اپنے ذوقِ لطیف کی تسکین کے لیے جرمنی ہی کا رُخ کر تے تھے۔ نیز، یہی وہ دَور تھا کہ جب امریکا کے یہودی، جرمن ٹیکنیشنز کو امریکا لے جا کر ہالی وُڈ آباد کر رہے تھے۔ رفیع پیر اسی طلسماتی دُنیا میں زندگی بسر کر رہے تھے کہ ایک روز ان کی نگاہ ایک اشتہار پر پڑی، جس میں فنِ تقریر میں مہارت کے لیے تربیتی اسباق کی پیش کش کی گئی تھی۔ انہوں نے آڈیشن دیا اور کام یاب ہو گئے۔ جرمنی میں 4برس گزارنے کی وجہ سے وہ جرمن زبان سیکھ چُکے تھے۔ ایک روز وہ ایک بڑے سے ہال میں بیٹھے تھے کہ انہیں اچانک برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ نے اپنے پاس طلب کیا اور کہا کہ ’’ ہمارے تھیٹر میں کوئی انڈین نہیں ہے۔ اگر تم ہمارے تھیٹر میں کام کرو گے، تو تمہاری پبلک اسپیکنگ کورس کی فیس ہم ادا کر یں گے۔‘‘ یوں رفیع پیر برلن تھیٹر سے وابستہ ہو گئے اور اُن کی زندگی کو وہ راہیں میسّر آ گئیں، جن کے خدوخال بچپن ہی سے اُن کے دماغ میں جاگزیں تھے۔ مذکورہ تھیٹر سے وابستگی کے بعد رفیع پیرزادہ اُس یونٹ کا حصّہ بنے، جس نے دُنیا کی سب سے پہلی فیچر فلم، ’’ڈاکٹر میگزیز کیبنٹ‘‘ بنائی۔ یہ اُن کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ نیز، اس موقعے پر انہیں دُنیا کے معروف فن کاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ اسی عرصے میں رفیع پیر زادہ نے ایک جرمن خاتون سے شادی کر لی، جس کے بطن سے ایک بیٹی، مارزیہ پیدا ہوئی۔

برلن سے فرار

رفیع پیرزادہ یورپ کے فن و ثقافت کے سب سے بڑے گہوارے، برلن میں نِت نئے تجربات سے ہم کنار ہو رہے تھے کہ جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے اور دوسری عالمی جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ ایک روز ہٹلر کی خفیہ تنظیم، ’’گسٹاپو‘‘ کے اہل کار انہیں اُٹھا لے گئے اور تین دن زیرِ حراست رکھا۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
 رفیع پیر زادہ فلم، ’’نیچا نگر‘‘ میں، جس میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا

تین روز بعد انہیں سُوٹ پہننے اور ٹائی لگانے کا حُکم دیا گیا، پھر انہیں نازیوں کے ہیڈ کوارٹر پہنچا دیا گیا، جہاں ہٹلر کا ساتھی اور پروپیگنڈا منسٹر، جوزف گوئبلز اُن کا منتظر تھا۔ گوئبلز کے پاس رفیع پیرزادہ کے بارے میں ساری معلومات تھیں۔ اُس نے کہا کہ ’’ہٹلر وائس آف جرمنی کی اردو سروس شروع کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ کا انتخاب کیا گیا ہے، کیوں کہ آپ اردو اور جرمن دونوں زبانیں ہی جانتے ہیں۔‘‘ بعد ازاں، انہیں پتا چلا کہ ہندوستانی لیڈر، سبھاش چندر بوس انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے ہٹلر کی مدد چاہتے ہیں۔ بہر کیف، اس موقعے پر رفیع پیرزادہ کے پاس ’’ہاں‘‘ کہنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ تاہم، نازی ہیڈ کوارٹر سے واپسی کے بعد انہوں نے برلن سے فرار کے منصوبے بنانا شروع کر دیے، کیوں کہ انہیں فسطائیت اور سرمایہ داری سے سخت نفرت تھی اور ہٹلر کی چیرہ دستیاں بھی بہ تدریج سامنے آ رہی تھیں۔ بالآخر وہ کسی نہ کسی طرح ہندوستان پہنچنے میں کام یاب ہو گئے، جب کہ خطرات کے پیشِ نظر اہلیہ اور بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ بعد ازاں، اُن کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں، جب کہ بیٹی مارزیہ ، جو پروفیسر اور دو کُتب کی مصنّفہ تھیں، گزشتہ سال 87سال کی عُمر میں دُنیا سے رخصت ہوئی ہیں۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
’’رفیع پیر کلچرل کمپلیکس‘‘ میں واقع اپنی نوعیت کے واحد پپٹ میوزیم کا اندرونی و بیرونی منظر

نئی زندگی کا آغاز

رفیع پیرزادہ 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے، تو فنونِ لطیفہ کے نِت نئے آئیڈیاز سے لیس تھے۔ چُوں کہ وہ تھیٹر کی جدید تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے واحد ہندوستانی فن کار تھے، لہٰذا انہوں نے جدید رجحانات کو اپنی سر زمین کے ثقافتی و تہذیبی وَرثے میں ڈھالنے کا منصوبہ بنایا۔ ہندوستان واپس آ کر انہوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس کے تربیت یافتہ فن کار آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دُنیا کے نام وَر اداکار ثابت ہوئے۔ اسی زمانے میں رفیع پیر زادہ نے پنجابی کا مشہور ڈراما، ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسٹیج کیا اور بعد ازاں ان کے شاگردوں نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اُسی زمانے میں ان کے نظر ثانی شُدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ اعزاز بعد ازاں کسی دوسری بھارتی فلم کے حصّے میں نہیں آیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

برِ صغیر میں سرگرمیاں

ہندوستان آنے کے بعد رفیع پیر کی لاہور بھی آمد و رفت رہتی تھی۔ ایک بار لاہور آئے، تو والدہ نے اُن کی شادی کروا دی۔ والدہ کا تعلق گجرات کے ایک کشمیری خاندان سے تھا، جس کے جدِّ امجد پشتون تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل اُن کے سب سے بڑے بیٹے، سلمان کی پیدایش ہوئی، چناں چہ 1947ء میں جب وہ ہجرت کر کے پاکستان آئے، تو اہلیہ، عِصمت پیرزادہ کے علاوہ کم سِن، سلمان بھی اُن کے ساتھ تھا۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
رفیع پیر زادہ اور ان کی اہلیہ کم سِن، سلمان کو کھانا کھلانے کے ساتھ کہانی سناتے ہوئے

برلن سے واپسی کے بعد رفیع پیرزادہ نے ہندوستان میں کم و بیش 12برس گزارے اور اس دوران بمبئی، کلکتہ اور دہلی کے فلم نگر میں ان کی دُھوم مچ گئی ۔ اس عرصے میں انہوں نے جان اینڈرسن نامی تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ بمبئی میں قیام کے دوران وہ ’’وائس آف انڈیا‘‘ سے بھی منسلک رہے ۔اوم پرکاش، کامنی کوشل اور پرتھوی راج جیسے بڑے اداکاروں کا شمار ان کے گہرے دوستوں میں ہوتا تھا۔ نیز، پرتھوی راج نے اداکاری کی تربیت کے لیے اپنے بیٹے، راج کپور کو بھی اُن ہی کے سُپرد کیا تھا۔ پرتھوی راج نے اُن کے ساتھ مل کر ایک تھیٹر کمپنی بھی بنائی ، جس کے پیش کردہ شیکسپیئر کے ڈراموں میں مرکزی کردار خود رفیع پیر ادا کرتے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد دوسرے نام وَر فن کاروں کے برعکس انہوں نے ایک نوزائیدہ مُلک کو اپنی مہارتوں اور فنون سے فیض یاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں لاہور میں ہندوئوں کے اسٹوڈیوز میں موجود تیکنیکی سامان کو دستاویزی شکل دینے کی ذمّے داری سونپی گئی، جسے انہوں نے بڑی ایمان داری سے انجام دیا۔ اس کے بعد سامان کی حفاظت کی غرض سے ان اسٹوڈیوز کو سِیل کر دیا گیا، لیکن بعض افراد نے چند ماہ کے دوران ہی پچھلے دروازوں سے سامان نکال کر اپنے اسٹوڈیوز بنا لیے۔ بعد ازاں، رفیع پیرزادہ نے ’’تصویر محل‘‘ نامی تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی اور تب اُن کے تمام بچّے (5بیٹے اور2بیٹیاں) معیاری درس گاہوں میں زیرِ تعلیم تھے۔ چُوں کہ وہ ہندوستان سے کتابوں کے علاوہ اپنے ساتھ کچھ نہیں لائے تھے، لہٰذا اُن کی مالی حالت کم زور تھی۔ انہوں نے پاکستان کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور آواز کے دوش پر کئی کھیل پیش کیے، جن میں پنجابی کھیل، ’’اکھیاں‘‘ بھی شامل تھا۔ پھرخواتین کے مسائل اور اُن سے امتیازی سلوک پر اردو اور پنجابی زبان میں ایسے ڈرامے پیش کیے کہ جن کا اُس وقت تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رفیع پیر نے اپنی اولاد پر کبھی اپنی مرضی مسلّط کرنے کی کوشش نہیں کی ، ہمیشہ انہیں تعلیم یافتہ اور مہذّب بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے ریڈیو اور اسٹیج کے سیکڑوں اداکاروں کو تربیت فراہم کی ۔ ان کے شاگردوں میں اسلم اظہر، فضل کمال، ضیاء محی الدّین اور نعیم طاہر سمیت کئی دوسرے بڑے نام شامل ہیں۔ بعد ازاں، ان ہی فن کاروں نے پی ٹی وی کی بنیاد رکھی۔ رفیع پیر کو مطالعے کا بے حد شوق تھا ۔ کثرتِ مطالعہ اور موتیے کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لیے وہ بینائی سے تقریباً محروم ہو گئے تھے، جو بعد ازاں جُزوی طور پر بحال ہو گئی۔ اس عرصے میں ان کے بچّے انہیں کُتب اور اخبارات پڑھ کر سُناتے ۔ رفیع پیر نے لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔ وہ 1974ء میں 76برس کی عُمر میں اس دُنیا سے رُخصت ہوئے ،تو پاکستان و بھارت میں کوئی فن کار ایسا نہ تھا کہ جس نے اُن کے انتقال پر دُکھ کا اظہار نہ کیا ہو۔ حتیٰ کہ ہندوستان ریڈیو نے ان سے متعلق کئی خصوصی پروگرامز پیش کیے۔ رفیع پیرزادہ نے اپنے ترکے میں ہزاروں کُتب پر مشتمل ایک لائبریری چھوڑی، جب کہ وہ زندگی بھر کرائے کے مکان میں مقیم رہے۔ انتقال کے وقت اُن کے تمام بچّے زیرِ تعلیم تھے۔ تب سلمان پیرزادہ 25برس، تسنیم پیر زادہ 22برس، کوثر پیرزادہ21برس، عثمان پیرزادہ 20برس، عمران پیر زادہ 15برس اور جڑواں بھائی، فیضان پیر زادہ اور سعد ان پیرزادہ 12سال کے تھے۔

رفیع پیر تھیٹر اور ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیولز

رفیع پیر کی قائم کردہ روایات کو ترقّی و دوام دینے میں ’’رفیع پیر تھیٹر‘‘ کے قیام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ گرچہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کے بچّوں نے فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانا اور منوانا شروع کر دیا تھا، لیکن ان کی تمام تر کاوشوں کا نقطۂ عروج ’’رفیع پیر ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیولز‘‘ ہے۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
رفیع پیر زادہ اور عِصمت پیر زادہ کی شادی کے موقعے پر لی گئی یادگار تصویر 

یہ میلے 1978ء سے 2007ء تک منعقد ہوئے اور ان کے نتیجے میں فن و ثقافت اور شوبِز کی دُنیا پر گہرے اثرات مرتّب ہوئے۔ 1978ء کا فیسٹیول پہلا 25روزہ عالمی فیسٹیول تھا، جو امریکن انفارمیشن سروس اور رفیع پیر تھیٹر کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔ بعد ازاں، یہ میلے انٹرنیشنل پپٹ فیسٹیول، نیشنل ڈانس فیسٹیول، انٹرنیشنل تھیٹر اینڈ ڈانس فیسٹیول، صوفی سول ورلڈ میوزک فیسٹیول اور یوتھ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیول کے نام سے منعقد ہوتے رہے۔ 2003ء میں رفیع پیر تھیٹر ورک شاپ نے ان تمام انٹرنیشنل پرفارمنگ آرٹس فیسٹیولز کو ایک بڑے کلچرل پلیٹ فارم پر یک جا کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد تمام فیسٹیولز ’’ورلڈ پرفارمنگ اینڈ ویژول آرٹس فیسٹیول پاکستان‘‘ کے بینر تلے منعقد ہوئے اور 2007ء تک جاری رہے۔ ان میلوں کے انعقاد میں نمایاں کردار ادا کرنے والے فیضان پیرزادہ مرحوم (تمغۂ امتیاز) نے ایک موقعے پر بتایا تھا کہ 2007ء کے اختتام تک منعقد ہونے والے 25بین الاقوامی فیسٹیولز میں 76ممالک کے 12ہزار سے زاید فن کار پاکستان آئے اور 50لاکھ سے زاید افراد نے ان کی پرفارمینس دیکھی۔ فیضان مرحوم کا دعویٰ تھا کہ ان تقریبات کی وجہ سے پاکستان کا ’’سافٹ امیج‘‘ دُنیا کے سامنے آیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر فیسٹیولز کا افتتاح رفیع پیر کے صاحب زادوں نے اپنی والدہ سے کروایا۔

جاں گُسل لمحات کا سامنا

فن و ثقافت کی خدمت کے سفر میں پیر زادہ فیملی کو نامساعد حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر جب رفیع پیرزادہ نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی، تو انہیں تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے بچّوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ پھر اس خاندان کو 2012ء میں 52سالہ فیضان پیر زادہ کی ناگہانی موت کا دُکھ جھیلنا پڑا، جب کہ اس سے قبل الحمرا ہال میں منعقدہ انٹرنیشنل فیسٹیول کے دوران دھماکے نے اس خانوادے کو حوصلہ شکن حالات کے حصار میں لا کھڑا کیا تھا۔ اس افسوس ناک واقعے کے بارے میں عثمان پیر زادہ کا کہنا ہے کہ ’’ لوگ ہم سے پیار بھی کرتے ہیں اور ہم سے حسد کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ حسد کی آگ میں جلنے والے یہ لوگ اسلامی عقائد کی آڑ میں عوام کے جذبات اُبھارتے ہیں۔ 2007ء کے بین الاقوامی فیسٹیول کے دوران کریکر پھٹنے کے واقعے کو دھماکے کا نام دے کر پوری دُنیا میں پاکستان سے متعلق منفی پیغام پھیلایا گیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا مثبت چہرہ پیش کرنے کے لیے کی گئی ہماری تین عشروں کی محنت کو شدید دھچکا لگا، لیکن ہمارے عزم و ہمّت میں کوئی کمی نہیں آئی اور ہم نے ان منفی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ تاہم، فیضان کی ناگہانی موت ایک ایسا سانحہ تھا، جس کے اثرات سے نکلنے میں ایک طویل عرصہ لگ گیا۔‘‘

پیرزادہ فیملی کی خدمات

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
(دائیں سے) سعدان، سلمان، فیضان، عثمان اور عمران

 72 سالہ سلمان پیرزادہ، رفیع پیر کے سب سے بڑے صاحب زادے ہیں۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر’’ رفیع پیر تھیٹر‘‘ کی بنیاد رکھی۔ تاہم، اُن کی زندگی کا بیش تر حصّہ مُلک سے باہر گزرا اور انہوں نے بیرونِ مُلک بہ طور فن کار کئی ایشیائی اداکاروں سے زیادہ شُہرت حاصل کی۔ رفیع پیر تھیٹر کے قیام سے متعلق سلمان پیر زادہ کا کہنا ہے کہ ’’مَیں اس مقصد کے لیے خاص طور پر پاکستان آیا تھا، کیوں کہ ہم بھائیوں کا یہ ماننا تھا کہ اگر ہم تھیٹر کا قیام عمل میں نہ لائے، تو ہمارے والد کا نام وقت کے دھندلکوں میں گُم ہو جائے گا۔‘‘ سلمان پیر زادہ1963ء میں برطانیہ گئے اور لیاقت و محنت کی بہ دولت بہ تدریج ان کا شمار نام وَر برطانوی اداکاروں میں ہونے لگا۔ انہوں نے برطانوی ڈراما سیریل، ’’ایمرجینسی وارڈ نمبر 10‘‘ میں ڈاکٹر مُراد کا کردار ادا کیا تھا، جو دُنیا بھر میں خاصا مقبول ہوا۔ گرچہ سلمان اپنی برطانوی رفیقِ حیات کے ساتھ برطانیہ میں مقیم ہیں، تاہم ان کا دل رفیع پیر تھیٹر ہی میں دھڑکتا ہے۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
فیضان اور سعدان (جُڑواں بھائی) 20برس کی
عُمر میں، پتلیاں نچاتے ہوئے

انہوں نے جو پودا 1975ء میں لگایا تھا، وہ آج ایک شجرِ سایہ دار بن چکا ہے۔ رفیع پیر کی 70سالہ صاحب زادی، تسنیم پیر زادہ صحافی، کالم نگار، شاعرہ، ناول و نغمہ نگار اور ڈراما نویس ہونے کے ناتے رفیع پیر تھیٹر کی میڈیا ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ذرایع ابلاغ سے متعلقہ تمام اُمور کی نگرانی کرتی ہیں۔ تسنیم پیر زادہ کی شاعری کا ایک مجموعہ ’’لمحات کا دُکھ‘‘ کے نام سے شایع ہو چکا ہے، جب کہ وہ اس وقت ناول لکھنے میں مصروف ہیں۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد اُن کی تمام تر توانائیاں رفیع پیر تھیٹر کے لیے وقف ہیں۔ رفیع پیر کے دوسرے فرزند، عثمان پیرزادہ بتاتے ہیں کہ’’ گورنمنٹ کالج، لاہور ہی میں مجھ پر آرٹ، کلچر اور فنونِ لطیفہ کے دروازے کُھل گئے تھے۔ مَیں 1967ء سے 1974ء تک کالج کے ڈرامیٹک کلب کا سیکریٹری رہا اور کئی کام یاب ڈراموں پر انعامات بھی حاصل کیے۔ 1975ء میں جاوید جبار کی فلم، ’’بیانڈ دی لاسٹ مائونٹین‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا اور یہ میرے کیریئر کے لیے بریک تھرو ثابت ہوئی۔ پھر ’’سازش‘‘ اور سری لنکا میں فلمائی گئی فلم، ’’سیتا دیوی‘‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے کے بعد تھیٹر اور ٹی وی کی دُنیا میں واپس آ گیا۔ 1980ء سے 1985ء تک جنگل، ساحل اور دریا نامی ٹی وی ڈراموں میں کام کیا۔پھر اپنی پہلی فلم پروڈیوس اور ڈائریکٹ کی اور اسی فلم کے ذریعے میری اہلیہ، ثمینہ پیرزادہ نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ مذکورہ فلم نے 4نیشنل ایوارڈز حاصل کیے اور ثمینہ بہترین اداکارہ قرار پائیں۔‘‘ بعد ازاں، عثمان پیرزادہ نے خود کو رفیع پیر تھیٹر ورک شاپ کے لیے وقف کر دیا اور اسٹیج شوز کے لیے پورے پاکستان کے دورے کیے۔ انہوں نے 1990ء میں اپنی دوسری فلم، ’’گوری دیاں جھانجراں‘‘ بنائی، جسے 7 ایوارڈز ملے۔ 1992ء میں اپنے بڑے بھائی سلمان کے ساتھ مل کر ایک بین الاقوامی فلم، ’’زرگل‘‘ بنائی، جس نے بہترین غیر مُلکی فلم کا ایوارڈ حاصل کیا۔ 1995ء میں عثمان پیر زادہ کی ٹی وی سیریل، صوفیہ نے ریکارڈ کام یابی حاصل کی۔ رفیع پیر تھیٹر کے زیرِ اہتمام 1992ء میں منعقد ہونے والے پپٹ فیسٹیول (پُتلی تماشا) نے پیر زادہ فیملی اور فن و ثقافت میں دل چسپی رکھنے والے افراد کی توانائیوں کو یک جا کر کے انہیں رفیع پیر کے دیرینہ خواب کو عملی شکل دینے کے سفر پر گام زن کیا۔ عثمان پیرزادہ اس وقت رفیع پیر تھیٹر ورک شاپ کے تحت ہونے والے اسٹیج ڈراموں، پپٹ فیسٹیولز، چلڈرن فیسٹیولز، صوفی فیسٹیولز اور دیگر منصوبوں کے روحِ رواں ہیں۔ نیز، انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس میں فلم انسٹی ٹیوٹ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
عِصمت پیر زادہ بیٹیوں،تسنیم اور کوثر کے ساتھ

عمران پیرزادہ اداکار، لکھاری اور فوٹو جرنلسٹ ہونے کے ساتھ ایک ماہر پُتلی باز بھی ہیں۔ ٹورنٹو فلم فیسٹیول میں انہیں بہترین اداکار کی کٹیگری میں نام زد کیا گیا۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے رفیع پیر تھیٹر سے آرٹ ڈائریکٹر کے طور پر وابستہ ہیں ،ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں۔ بڑے بھائیوں کی طرح رفیع پیر کے جڑواں صاحب زادے، فیضان پیر زادہ اور سعدان پیرزادہ بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فنونِ لطیفہ کے سحر میں کھو گئے۔ فیضان فائن آرٹس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد رفیع پیر تھیٹر ورک شاپ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بنے ، جب کہ انہوں نے پپٹز آرٹسٹ، لائٹنگ اینڈ اسٹیج ڈیزائنر اور مصوّر کی حیثیت سے بھی نام کمایا۔ نیز، انٹرنیشنل فیسٹیول ڈویژن کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے پُتلی تماشے کے لیے 2,500سے زاید پتلیاں تیار کیں۔ علاوہ ازیں، فیضان پیر زادہ کو مصوّری میں بھی کمال حاصل تھا ۔ پاکستان کے علاوہ امریکا، برطانیہ، جرمنی اور سری لنکا میں ان کے فن پاروں کی سولو نمائش ہوئی۔ واشنگٹن میں نمائش کے دوران ان کی دو پینٹنگز کو خصوصی طور پر منتخب کر کے نیلام کیا گیا اور نیلامی سے ملنے والی رقم معذور بچّوں کی فلاح و بہبود کے لیے عطیہ کی گئی۔ فیضان کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ 9ویں سائوتھ ایشین گیمز کی افتتاحی و اختتامی تقاریب میں لائٹس کی ڈیزائننگ کا کام انہیں سونپا گیا۔ انہوں نے بین الاقوامی فیسٹیولز کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کیا اور فنونِ لطیفہ میں نمایاں خدمات انجام دینے پر انہیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
عثمان پیر زادہ اور ثمینہ پیر زادہ

2012ء اُن کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ تاہم، رفیع پیر کمپلیکس کے دفاتر میں اُن کی میز اور اُس پر رکھا سامان بالکل اُسی طور موجود ہے، جیسے وہ چھوڑ گئے تھے۔ نیز، دیوار پر آویزاں اُن کے اسٹیکرز اور پوسٹرز کو بھی کسی نے نہیں چھیڑا۔ سعدان پیر زادہ، رفیع پیر گروپ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ اپنے مرحوم بھائی کی طرح وہ بھی پُتلی تماشے کے ماہر ہیں، جب کہ پروڈیوسر اور گروپ کی ثقافتی سرگرمیوں کے نگرانِ اعلیٰ کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے ہیں۔ نیز، رفیع پیر تھیٹر کے میوزک ڈویژن کی سربراہی بھی ان کے سپرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعدان کو رفیع پیر تھیٹر کی’’ ڈرائیونگ فورس‘‘قرار دیا جاتا ہے۔ثمینہ پیر زادہ 1975ء میں عثمان پیر زادہ سے شادی کے بعد پیر زادہ فیملی کا حصّہ بنیں۔ اس حوالے سےعثمان کا کہنا ہے کہ ’’ جب ہماری شادی ہوئی، تو اُس وقت ہمارے گھرانے میں فن کاروں کا ایک ہجوم تھا، لیکن ثمینہ نے دن رات محنت کر کے شوبز انڈسٹری میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔ نیز، وہ پیر زادہ خاندان کی واحد بہو ہیں کہ جو شادی سے پہلے ابّا سے مل چُکی تھیں۔‘‘ ثمینہ پیر زادہ اگست 1955ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں اور گورنمنٹ کالج، کراچی سے کامرس اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 1980ء میں شوبز کی دُنیا میں قدم رکھا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے’’داستان‘‘، ’’زندگی گلزار ہے‘‘، ’’میری ذات ذرّۂ بے نشاں‘‘ ،’’ دُرّ شہوار‘‘ اور ’’بلا‘‘ سمیت درجنوں ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ثمینہ پیر زادہ کو نومبر 2013ء میں برطانیہ میں منعقد ہونے والے فلم فیسٹیول میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، جب کہ اس کے علاوہ بھی وہ کئی قومی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں۔ عثمان پیر زادہ اور ثمینہ پیر زادہ کی دو بیٹیاں، انعم اور امل ہیں۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
رفیع پیر تھیٹر کی سرگرم فن کارائیں، علینہ اور یمینہ

ستاروں سے آگے....

پیرزادہ خاندان کی اگلی نسل بھی رفیع پیر تھیٹرسے وابستہ رہتے ہوئے فن و ثقافت کے مختلف شعبوں میں پاکستان اور بیرونِ مُلک اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس وقت سعدان پیر زادہ کی دو بیٹیاں، علینہ اور یمینہ اپنے گھرانے کی ثقافتی روایات کو بھرپور انداز میں آگے بڑھا رہی ہیں۔ علینہ نے یونی ورسٹی آف ویسٹ منسٹر (برطانیہ) سے میڈیا اینڈ کمیونی کیشنز میں ماسٹرز کیا اور فلم سازی کی تربیت سینٹ مارٹنز یونی ورسٹی سے حاصل کی ہے۔ وہ 2001ء سے ڈائریکٹر پروگرامز اینڈ آپریشنز کی حیثیت سے رفیع پیر تھیٹر کے تمام ایونٹس کی نگرانی کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، انٹرنیشنل یوتھ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیول کی کریئیٹو ڈائریکٹر بھی رہ چکی ہیں۔ یاد رہے کہ 1999ء میں مقامی سطح پر شروع ہونے والا یہ فیسٹیول بعد ازاں ایک بین الاقوامی میلے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ ان کی بہن، یمینہ نے لندن کے اسکول آف ایکٹنگ سے ماسٹرز کیا اور اپنے فنی کیریئر کا آغاز ’’رنگیل پور ٹی وی شو‘‘ سے کیا، جب کہ ان کا دوسرا ٹی وی سیریل، ’’روگ‘‘ تھا، جسے 2010ء میں بابر جاوید نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ یمینہ ایک پُتلی باز کے طور پر پاکستان کے علاوہ بھارت، تُرکی، اٹلی، اسکاٹ لینڈ، فرانس، ناروے اور برطانیہ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چُکی ہیں۔ یمینہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں کہ جنہوں نے اگست 2008ء میں ایڈنبرا کے ایک فلم فیسٹیول میں ’’وَن ویمن پلے‘‘ کا اعزاز حاصل کیا۔ نیز، 2014ء میں انہیں ایک نجی ٹی وی چینل کے ڈراموں میں بہترین اداکاری کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

رفیع پیر کا گھرانا، فن و ثقافت کا آشیانہ
زارا اور نور پیرزادہ پُتلی تماشا دکھاتے ہوئے

عمران پیرزادہ کی بیٹی، عائدہ نے امریکا کی کارنیگی یورنی ورسٹی سے اداکاری، موسیقی اور رقص کی تربیت حاصل کی اور اس وقت شکاگو میں شیکسپیئرین کمیٹی کے لیے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ برطانیہ میں مقیم سلمان پیر زادہ کے بیٹے، بابر پیر زادہ کیلی فورنیا میں اداکاری کی تربیت حاصل کرنے کے بعد ہالی وُڈ میں اپنے فن کے جوہر دکھانے کے علاوہ تھیٹر اور ٹی وی کے لیے بھی کام کر رہے ہیں ۔ ان کی دو بیٹیاں، زارا اور مشعل نیویارک اسکول آف فلم سے تربیت یافتہ ہیں۔ اسی طرح رفیع پیر زادہ کی صاحب زادی، کوثر پیر زادہ کے، جو ایک اچھی مصوّرہ ہیں، بڑے بیٹے، شہر یار قریشی جیو ٹی وی کی سیریل، ’’وہ 30دن‘‘ میں اداکاری کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور اس وقت ہالی وُڈ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں، جب کہ اُن کے چھوٹے بھائی، اسفند یار قریشی امریکا کی ایم آئی ٹی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد سافٹ ویئر انجینئر کے طور پر ’’گوگل‘‘ سے وابستہ ہیں۔ عثمان پیر زادہ کی بڑی صاحب زادی، انعم مانٹریال (کینیڈا) کی یونی ورسٹی آف کنکاڈیا سے ویمن اسٹڈیز میں گریجویشن کے بعد اس وقت ٹورنٹو میں پروڈکشن ڈیزائنر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں، جب کہ چھوٹی بہن، امل ٹورنٹو (کینیڈا) کے انتاریو کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن کی گریجویٹ ہیں۔ وہ مصوّرہ بھی ہیں، جب کہ ان کے شوہر، طلال ایک موسیقار ہیں۔ فیضان پیر زادہ مرحوم کے دو بچّے ہیں۔ بیٹا، زین موسیقار اور گٹارسٹ، جب کہ بیٹی، نور اداکارہ ہیں۔ زین لاہور کے سنگرز کے ایک گروپ کے لیڈ گٹارسٹ ہیں۔

’’پیرزادہ ‘‘کیوں کہلائے؟

عثمان پیرزادہ کے مطابق، ’’ہمارے جدِّ امجد، خواجہ دائود بلخی، بلخ (افغانستان) سے کشمیر آئے تھے اور ہمارا شجرۂ نسب مشہور صحابیٔ رسولؐ،حضرت خالد بن ولیدؓ سے ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں ہمارا خاندان ’’خالدی‘‘ کہلاتا تھا۔ چوں کہ ہمارے جدِّ امجد، خواجہ دائود بلخی صوفی اور عالم ہونے کے ساتھ ایک ایسے عامل تھے کہ جو صرف ہاتھ سے چُھو کر مریضوں کو چنگا بھلا کر دیتے تھے، لہٰذا اُن کے خاندان کے افراد ’’پِیر‘‘ کہلانے لگے۔ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے دو بھائی گجرات منتقل ہو گئے ، جن کی ہم اولاد ہیں۔ تاہم، ہمارے والد صاحب نے اپنے نام کے ساتھ ’’پیر‘‘ کا سابقہ لگانا مناسب نہ سمجھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پیر تو نہیں، البتہ پیر زادہ کہلوا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پیر رفیع الدّین سے رفیع پیر زادہ بن گئے اور پھر یہ لفظ ہمارے خاندان کا حصّہ بن گیا۔‘‘

’’عوامی تھیٹر‘‘ سے راہِ فرار کیوں اختیار کی؟

رفیع پیر زادہ فیملی کے سرکردہ رُکن، عثمان پیر زادہ سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ اُن کے گھرانے نے عوامی تھیٹر سے علیحدگی کیوں اختیار کی، تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ چُوں کہ ہمارا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے ہے، لہٰذا ہم تھیٹر کی صحت مند روایات کو لچر پن، لایعنی قسم کے موضوعات، نچلے درجے کے رقص و سرود اور فحش جُگتوں سے آلودہ نہیں کر نا چاہتے تھے۔ ہمارے والد صاحب ڈرامے کی جو تعریف بیان کرتے تھے، وہ مُجھے آج بھی یاد ہے کہ ڈراما، شعر اور موسیقیت سے لب ریز آواز اور ناچتے، گاتے افراد کے خیالات کے سیلِ رواں کا نام ہے، جس کے مشاہدے سے وجود انسانی میں خوشی کے چراغ جل اُٹھتے ہیں۔ میرے نزدیک موجودہ بازاری اور عوامی تھیٹر انسان کے سطحی جذبات کی تسکین کا دوسرا نام ہے اور یہ ہماری صحت مند ثقافتی و تہذیبی روایات کی نفی ہے۔ اگر اسے جاری رکھنا ضروری ہے، تو پھر اسے ’’نائٹ کلب‘‘ کا نام دے کر ثقافتی سرگرمیوں سے الگ کر دیا جائے۔ لوگ ہم سے اکثر پوچھتے ہیں کہ اس دَور میں پُتلی تماشے کا کیا کام، تو مَیں انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پُتلی تماشا آج بھی دُنیا کے بیش تر ممالک میں روایتی کھیل کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں کہانیوں، کہاوتوں اور روایات کے ذریعے ہر عُمر اور طبقے کے افراد کو تفریح فراہم کی جاتی ہے۔ ہم نے پاکستان میں بھی اسے ایک مستقل صحت مند روایتی کھیل کی حیثیت دی اور ہمیں نئی نسل کو ایجوکیٹ کرنے پر فخر ہے۔ رفیع پیر کمپلیکس میں آج بھی پُتلی تماشا پیش کیا جا رہا ہے۔ نیز، پاکستان میں ثقافتی میلے متعارف کروانے کا اعزاز بھی پیرزادہ فیملی کو حاصل ہے۔ بد قسمتی سے بعض تنگ نظر افراد اور شدّت پسند حلقے ایسی بصیرت سے محروم ہیں۔ ہم نے حکومت سے ایک پیسا لیے بغیر بین الاقوامی ثقافتی میلوں کے ذریعے دُنیا بھر میں پاکستان کا سافٹ امیج پیش کیا۔ ہم نے اپنے والد اور شعیب ہاشمی صاحب سے پہلا سبق یہی سیکھا ہے کہ اپنے ثقافتی وَرثے سے محروم ہو جانے والی قوم کبھی ترقّی نہیں کر سکتی۔ بعض اوقات شوز کے اختتام پر اپنی گاڑیاں فروخت کر کے فن کاروں اور دیگر انتظامی امور کے اخراجات ادا کیے، لیکن کسی کو اس شکایت کا موقع نہیں دیا کہ پیر زادہ فیملی سے ہمیں اپنی محنت کا معاوضہ نہیں ملا۔ تھیٹر کی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے میرے دو بھائیوں سے اُن کی بیویوں نے طلاق لے لی۔ اُن کی بیویاں اکثر یہ کہتی تھیں کہ ’’یہ کیسے پاگل لوگ ہیں کہ فیسٹیول ختم ہوتے ہی لوگ ان سے پیسے مانگنے آ جاتے ہیں۔‘‘ اس وقت بھی رفیع پیر تھیٹر کے کم و بیش 60کارکن ہیں، جن کی روٹی روزی کا انتظام اللہ تعالیٰ ہمارے ذریعے کر رہا ہے۔ آج نئے پاکستان کی بات ہو رہی ہے، لیکن مَیں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ خدارا ہمیں پرانا پاکستان دے دو کہ جس میں روا داری اور تحفّظ کا احساس تھا۔ شام کو ماشکی جب کھلے صحن میں چھڑکائو کرتا، تو وطن کی مٹی کی سوندھی خوشبو سرشار کر دیتی، لیکن اب تو زندگی کی الجھنوں نے ہمیں چاند، ستاروں کے نظارے سے بھی محروم کر دیا ہے۔‘‘

خاندان کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے والی خاتون

رفیع پیر کی اہلیہ، عِصمت پیرزادہ نے ہر قسم کے حالات میں اپنے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا ۔ 1974ء میں شریکِ حیات کے انتقال کے بعد اُن کی وصیت کے مطابق اولاد کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجّہ دی۔ 

اپنی والدہ سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے تسنیم پیر زادہ نے کہا کہ ’’ وہ ایک معزز اور تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ میرے نانا ریلوے میں چیف انجینئر تھے۔ میرے والد صاحب کے ساتھ اُن کی شادی ہماری دادی نے کروائی تھی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے تمام بیٹوں ، بیٹیوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھا۔ انہوں نے ہم تمام بہن، بھائیوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھا اور انہی کی خواہش پر تمام بھائیوں کے مکانات ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعد تنگ دستی کے باوجود انہوں نے جس طرح ہمیں تعلیم دلوائی،وہ محنتِ شاقہ بھلائی نہیں جا سکتی۔وہ 2018ء میں 95برس کی عُمر میں اس دُنیا سے رخصت ہوئیں۔ ‘‘

تازہ ترین