• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’شہر ناپُرساں‘ شاید کسی کو اس شہر کی حالت زار پر ترس آجائے

کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث لوگ پرانی اور خستہ حال بسوں میں لٹک کر اور چھتوں پر بیٹھ کر جان لیوا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔تین سال پہلے شہریوں کو بہتر سفری سہولت کی فراہمی کےلئے گرین لائن پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جو آج تک مکمل نہ ہوسکا۔جنوری دوہزار سولہ میں کراچی کے شہریوں کے لئے شروع کیا جانے والا گرین لائن منصوبہ سفید ہاتھی بن گیا۔25 ارب روپے کی لاگت کے منصوبے کو ابتدا میں سرجانی ٹاون سے گرومندر تک رکھا گیا تھا، تاہم بعد میں اسے کے ایم سی بلڈنگ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔اس منصوبے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ لاہور اور اسلام آباد کی میٹرو بس سروس سے بھی زیادہ خوبصورت منصوبہ ہوگا۔

لیکن کراچی کے شہری اب تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے اور شاید انہیں اس کے مکمل ہونے کیلئے ابھی مزید انتظار کرنا پڑے.

یہ منصوبہ نوازشریف حکومت کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ٹریفک کے مسائل سے دو چار شہرکراچی کے لوگوں نے سکون کا سانس لیا تھا کہ چلوکم سے کم کسی حد تک ہی سہی ٹریفک کے مسائل میں تو قدرے کمی آجائے گی۔وفاقی حکومت نے جب اس منصوبے کا آغاز کیا تو یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ یہ دو برس میں یعنی جون 2018ء تک مکمل کرلیا جائے گا، جس تیز رفتاری سے اس منصوبے کا کام جاری تھا امکان یہی تھا کہ وقت مقررہ پر یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا، پھر سیاسی حالات نے ایسی کروٹ لی کہ ملکی سیاست کا منظر نامہ ہی تبدیل ہو گیا۔وفاق اور سندھ حکومت کی باہمی چپقلش کے باعث آج تک یہ منصوبہ مکمل نہ ہوسکا، جبکہ مسلسل ترقیاتی کام کے باعث شہریوں کو مشکلات کا بھی سامنا ہے۔پروجیکٹ پرکام کرنے والے لوگوں کو بروقت ادائیگی نہیں ہو رہی ۔اب اس عمل کا ذمے دارکسے ٹھہرایا جائے ۔یہ حقیقت ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی سرکاری نظام موجود نہیں، کراچی جیسے بڑے شہر میں لوگ کھٹارہ بسوں اور چنگ چی رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔کراچی میں بسنے والے غریب لوگوں کی اکثریت نے تو اسے اپنا مقدر ہی سمجھ لیا ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا کوئی والی وارث نہیںہے۔اس پروجیکٹ کے شروع ہونے سے پہلے سڑکوں کی حالت نسبتاََ اچھی تھی اور ٹریفک کا مسئلہ بھی اتنا سنگین نہیں تھا، بورڈ آفس تک آرام سے سفر ہوجاتا تھا لیکن جب سے کھدائی ہوئی ہے سڑکیں تباہ ہوگئیں ہیں اور بورڈ آفس تک کا سفر عذاب بن گیا ہے‘‘۔

ہزاروں زخم سہنے والے اس شہر کے عزم و استقلال کو زندہ دلان جیسا کوئی نام دینا چاہیے، مگر حال مست و چال مست مہربانوں کی بدولت اپنی تمامتر خوبیوں کے باوجود فی الوقت یہ شہر ناپُرساں ہی کہلا رہا ہے، حالانکہ جس قدر یہ شہر جاگتا ہے اتنا کوئی دوسرا نہیں جاگتا، جتنا یہ سوچتا ہے اتنا کوئی سوچتا بھی نہیں، جس قدر یہاں لوگوں کو روزگار ملتا ہے کہیں اور نہیں۔تہی دست و تہی دامنوں کو پناہ دینے میں فزوں تر ہے اسی لئے یہ ہر کس و ناکس کو پالنے میں ماں جیسا درجہ، درد، جذبہ اور وسعت قلبی رکھتا ہے، مگر اس کا اپنا شناور کوئی نہیں۔

شہرکراچی عروس البلاد، غریب پرور شہر، مگر یہ سب القابات ماضی کی باتیں ہیں۔ عصر حاضر میں جن القابات سے اس شہر کو نوازا جاتا ہے وہ القابات تحریر کرتے ہوئے بھی دل دکھی ہوتا ہے کیونکہ یہ وہی شہر ہے، جہاں پورے ملک سے لوگ فقط سیاحت کی غرض سے آتے اور اپنے آبائی شہروں میں واپس جاکر جب شہر کراچی کی خوبصورت و بلند و بالا عمارات اہم ترین تفریح گاہوں کلفٹن، چڑیا گھر، صاف ستھرے بازاروں کا تذکرہ کرتے توسننے والوں کو بھی تجسس ہوتا کہ کاش ہم بھی جلد کراچی جائیں اور سیاحت سے لطف اندوز ہوں۔ مگر افسوس اب ایسا نہیں ہے ۔

کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے لیکن کراچی میں سفر وسیلہ بنتا ہے پریشانی اورجنجھلاہٹ کا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں سفر کے لیے کوئی مناسب نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اوپر سے یہ گرین لائن منصوبہ، جس نے لوگوں کی زندگوں کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ۔ شہری دھول مٹی کے باعث سانس سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے اور غیر معیاری گاڑیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔جب عمران خان کی حکومت آئی تو گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے اجلاس میں یہ طے ہوا تھا کہ وفاقی حکومت اس منصوبے کو اپنے ہاتھ میں لے کر مکمل کرے گی، اور کراچی والوں کا یہ خواب جلد پورا ہوگا۔۔لیکن گرین لائن کا خواب کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک جام کے دوران خستہ حال سڑکوں پر تعبیر کو تلاش کرتا رہا۔ اس منصوبے کی افادیت اپنی جگہ مگر اہلیانِ کراچی نوحہ کناں ہیں کہ اس منصوبے کو ڈیزائن کرتے وقت متبادل سڑکوں کا انتظام اور مرمت کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا، جس کے باعث سارا دن شہری شدید ٹریفک جام اور ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں۔شہر کے اہم شاہراہوں، انٹرسیکشنز اور چوراہوں پر تعمیراتی کام کی وجہ سے ہیوی مشینری، پائپ، مٹی اور ریت بجری کا ڈھیر، سڑکوں پر سیوریج کا پانی موجود ہے، شہریوں کو روزانہ ان چینلجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہیوی مشینری، کنسٹرکشن میٹریل اور مٹی کی وجہ سے سڑکیں بہت تنگ ہوچکی ہیں،شہر قائد میں ترقیاتی کام عوام کے لیے درد سر بن گئے، شہری ٹریفک جام کے باعث منٹوں کا سفر گھنٹوں میں کرنے پر مجبور ہوگئےہیں۔انتظامیہ کی جانب سے یہ نہیں سوچا گیا کہ ٹریفک کہاں سے گزرے گا۔ ایم اے جناح روڈ اور نمائش ٹریفک کے لیے بند کردئیے گئے، ناگن چورنگی سے بورڈ آفس تک گرین لائن کے کام کی وجہ سے ٹریفک شدید متاثر ہے۔ نمائش اور صدرکابھی حال کچھ مختلف نہیں پورا کراچی ہی کھدائی کی نظر ہے۔دکانداروں کو کاروبار میں مشکلات کا سامنا ہے۔منصوبے کے اطراف میں واقعہ کاروباری مراکز، جہاں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے وہ اس منصوبے کی تعمیر کے حوالے سے کی جانے والی توڑ پھوڑ کے باعث گذشتہ تین برسوں سے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں جبکہ ان کے کاروبار کو بھی اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے، کیونکہ لوگ، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، دھول مٹی اور ٹریفک جام کی شکایات کے پیش نظر ان مارکیٹوں کے بجائے شہر کی دوسری مارکیٹوں میں جانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ مگر متعلقہ حکام کے کانوں پرتاحال جوں تک نہیں رینگی ۔

اس 19 کلومیٹر طویل ٹریک کے دونوں طرف رہنے والے لوگوں کی تعداد 80 لاکھ سے زائد ہے اور یہ حصہ شہر کراچی کا گنجان ترین علاقہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ اس منصوبے سے مستفید ہونے والوں کی ممکنہ تعداد، اس آبادی کے مقابلے میں، نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ جتنی بڑی لاگت کا یہ منصوبہ ہے، اتنی بڑی رقم میں کراچی کی 70 فیصد مرکزی شاہراہوں کی بہترین مرمت کرکے انہیں کشادہ کیا جاسکتا تھا، مگر اس منصوبے کے بعد جو بھی سڑک موجود تھی، اس میں سے کم از کم 20 فٹ چوڑائی مزید کم ہوگئی ہے اور یہ سب کچھ ایک بس سروس کےلیے کیا جارہا ہے۔منصوبہ تاخیر کا شکار ہونے کے باعث اس کی لاگت میں اربوں روپے اضافے کا خدشہ ہے۔وفاقی حکومت کے ذرائع کے مطابق اس منصوبے میں تاخیر کی بنیادی و جہ سیوریج،گیس اور دیگر زیر زمین لائنوں کی غلط منصوبہ بندی ہے۔

جن سڑکوں پر ابھی ٹریفک رواں دواں ہے وہ بھی اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، جس کے باعث ٹریٖفک کی روانی بے حد متاثر ہو رہی ہے۔ آلودگی سے زیادہ ترموٹر سایئکل سوار متاثر ہیں ترقیاتی کام کے نام پر شہر کے انفرااسٹرکچر کو اس طرح سے تباہ کیا گیا ہے کہ فضا سے کراچی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ دو سال میں مکمل ہونے والا منصوبہ چار سال کے بعد بھی عوام کے لئےعذاب بن کر کھڑا ہے۔

حکومت نے انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کا منصوبہ خیالی پلاؤ میں ترتیب تو دے دیا لیکن اس پر عملدرامد کرانے کے لئےکی جانے والی پلاننگ نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگرمنصوبے کی پلاننگ میں عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کو مد نظر رکھا جاتا تو عوام کے لئے ترتیب دیا گیا منصوبہ عوام کے لئے پریشانی کا باعث نہ بنتا۔ایک آس ہے کہ شاید کسی کو شہر اور شہریوں کی حالت زار پر ترس آجائے اور ان منصوبوں کو اتنی تاخیر کے بعد اب مکمل کرلیا جائے۔اس پروجیکٹ پر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنایا جائے، روشنی کا انتظام کیا جائے، فالتو مٹی کو ٹھکانے لگایا جائے، متبادل روٹس بنائے جائیں اور سب سے بڑھ کر جلد از جلد منصوبے کو مکمل کیا جائے۔

تازہ ترین