• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی ادارے کراچی کو ریلیف پہنچانے میں ناکام

بھارت کے آمرانہ اور غاصبانہ اقدام کے خلاف ملک کے طول و عرض میں احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے سیاسی جماعتیں فی الوقت اپنے اختلافات بالائے طارق رکھ کر بھارت کے خلاف یک زبان ہوگئی ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص، ٹنڈوالہ یار، خیرپور سمیت پورے سند ھ میں یوم سیاہ منایا گیا جبکہ مزارقائد سے مختلف جماعتوں کی ریلیاں نکلی جو باہم ایک ہوگئیں ریلی سے پی پی پی، پی ٹی آئی، اے این پی اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ مسئلہ کشمیر پر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ اس فضا میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج ملتوی نظر آتا ہے۔ ادھر پی ٹی آئی کے رہنما اور وفاقی وزیر علی حیدر زیدی کی جانب سے کراچی کو صاف کرو مہم سست روی کا شکار ہے بارش اور عیدقرباں کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد میں گندگی کے ڈھیر لگ گئے جنہیں دس روز گزرجانے کے باوجود نہیں اٹھایا جاسکا۔ کراچی کے کئی علاقوں سے بارش کا پانی ہنوز نہیں نکالا جاسکا اور یہ علاقے کسی آفت زدہ علاقوں کا منظر پیش کر رہے ہیں بارش کے باعث کراچی کی تقریباً تمام سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں، کئی جگہ سڑکوں پر بڑے بڑے گڑھے پڑگئے ہیں جو ٹریفک کی روانی کومتاثر کر رہے ہیں۔ بارش کا پانی سیوریج کے پانی کے ساتھ مل کر پینے کے پانی کی لائنوں میں شامل ہوگیا ہے جس سے وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ ہے بارش کے بعد کہیں بھی جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ نہیں کیا گیا۔ میئر کراچی نے کراچی کو آفت زدہ شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے شہر کراچی کی گلیاں غلاظت کا منظر پیش کررہی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر کراچی کی تینوں بڑی جماعتیں کسی نا کسی طرح حکومت کاحصہ ہیں۔ پی ٹی آئی مرکزی حکومت کا حصہ ہے تو پی پی پی کے پاس صوبائی حکومت ہے ایم کیو ایم کے پاس بلدیاتی حکومت ہے تاہم تینوں جماعتیں کراچی کے عوام کو ریلیف دینے میں ناکام نظرآتی ہیں اب جبکہ بلدیاتی انتخابات میں ایک سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے سیاسی جماعتیں اس کے باوجود شہریوں کو ریلیف دینے کی کوشش نہیں کررہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کی نظریں کراچی کی میئرشپ پر ہے اور علی حیدر زیدی ہی ان کا امیدوار ہے دوسری جانب آصف علی زرداری کی جانب سے مہاجر عوام کے خلاف دیئے گئے بیان کی دھول نہیں بیٹھی سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے کسی نا کسی طرح اس بیان کا جواب دیا جارہا ہے آصف زرداری کے بیان سے کراچی میں پی پی پی کی اردو اسپیکنگ حمایت مزید کم ہوگئی ہے اس وقت پی پی پی میں اردو بولنے والے صرف دو افراد وقار مہدی اور راشد ربانی ہی فعال ہیں باقی افراد گوشہ نشین ہوگئے ہیں ایک زمانے میں نفیس صدیقی، فیصل عابدی، این ڈی خان، تاج حیدر، خلیل قریشی، آفاق شاہد، احترام الحق تھانوی، اقبال یوسف سیمت درجنوں افراد پی پی پی میں جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے تھے تاہم کچھ کو پی پی پی نے نظرانداز کردیا اور بعض پی پی پی کی پالیسیوں کی وجہ سے گوشہ نشین ہوگئے کہا جارہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں حیدرآباد اور کراچی کی حدتک پی پی پی وہ کامیابی حاصل نہیں کرپائے گی جیسی کہ انہیں امید ہے ادھر کے الیکٹرک نے کراچی کے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے کراچی کا بڑا مسئلہ اب کے الیکٹرک بن چکا ہے کے الیکٹرک اب گھنٹوں کی نہیں دنوں کی لوڈشیڈنگ کررہا ہے حیرت انگیز طور پر کے الیکٹرک کراچی کوستر فیصد ریونیو دینے والے کیماڑی ٹاؤن (ضلع غربی) پر خاص مہربان ہے۔ جہاں کئی کئی روز تک بجلی نہیں ہوتی حالانکہ اس علاقے میں نیوی کی اہم تنصیبات دو سی پورٹ کے پی ٹی اور ڈیپ سی پورٹ، شپ یارڈ، ڈاکیارڈ، فشری، تیل کی حساس تنصیبات، امریکی قونصل خانہ سمیت اہم تنصیبات موجود ہے اس علاقے میں طویل لوڈشیڈنگ سیکیورٹی رسک ہے تاہم کے الیکٹرک کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے تیس سے زیادہ ہلاکتوں کی نیپرا نے تحقیقات شروع کردی ہے تاہم کے الیکٹرک اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کے بجائے دیگر اداروں کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ کے الیکٹرک کے خلاف شہریوں کی ہلاکت کی ایک درجن کے قریب ایف آئی آر درج ہوچکی ہے نیپراکرنٹ لگنے سے ہلاکتوں اور طویل لوڈشیڈنگ پراپنی رپورٹ پندرہ روز میں دے گا ادھر پی ٹی آئی کی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر تھانہ بوراخان میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت سیاسی جماعتوں کے پیچھے پڑگئی ہے پیپلزپارٹی متحد ہے اور اس کا کوئی رکن اسمبلی کہیں نہیں جارہا پی ٹی آئی سیاسی میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے جبکہ پی پی پی کے وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے وفاقی حکومت کے 1 سالہ کارکردگی کو اس ملک کی سب سے بدترین کارکردگی قرار دیتے ہوئے موجودہ حکومت کو نااہل اور نالائق حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک سال کے دوران ملکی معیشت کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کیں اور نیب کو حکومتی آلہء کار بنایا۔ عمران نیازی کی حکومت نے گذشتہ ایک سال کے دوران مہنگائی، بیروزگاری، عوام کا معیار زندگی، عوام کو بے گھر کرنے اور ملک کو تباہی کے داہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگست 2018 کے مقابلے اگست 2019 میں ڈالر کی قیمت میں 35 روپے کا اضافہ جبکہ بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات، ادویات، کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ ساتھ عوام کی روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کئی سو فیصد اضافہ ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نیازی حکومت میں میڈیا کو غیر اعلانیہ سینسرشپ کا سامنا ہے۔ عدلیہ کے خلاف سازشیں شروع کیں، نیب کے چیئرمین کے خلاف ایک ویڈیو وائرل کرکے اسے بلیک میل جارہا ہے۔ وزراء اور مشیر اپنی حکومت کی کارکردگی کے بہتر ہونے کا راگ الاپ رہے ہیں وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ عمران نیازی نے وزیر اعظم بننے سے قبل عوام کو 50 لاکھ گھر اور 1 کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اس ایک سال کے دوران وہ عوام کو گھر اور نوکریاں تو دینے میں کامیاب نہیں ہوئے تاہم انہوں نے ہزاروں افراد کو بے گھر اور لاکھوں کو بیروزگار کردیا۔ آج اس ملک کا غریب عوام مکمل طور پر مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے تو دوسری جانب متوسط طبقہ بھی اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک میں سرمایہ داری ایک اہم جزو ہوتی ہے لیکن موجودہ نااہل حکومت کی ناقص پالیسیوں نے اس ملک میں سرمایہ داری کا گراف بہت حد تک نیچے گرا دیا یہ بات طے شدہ ہے کہ کراچی کے شہریوں نے شہری مسائل کی وجہ سے جو اذیتیں اٹھائی ہیں وہ انتخابات کے موقع پر ان اذیتوں کو نہیں بھولیں گے اور سندھ کے شہری علاقوں کی آئندہ سیاست شہری مسائل کے گردہی گھومے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین