• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم شیراز ،کراچی

صبح کا وقت تھا، فضا میں خنگی تھی اور اس ہلکی ہلکی ٹھنڈ میں بادلوں کی اوڑھ سے پڑنے والی سورج کی کرنیں ماحول کو خوشگوار بنا رہی تھی۔ چڑیاں درختوں پر چہچہا رہی تھیں۔ باغ میں جگہ جگہ کیاریوں میں رنگ برنگے اور مختلف اقسام کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ جو فضا میں خوشبو بکھیر رہے تھے۔ ان پھولوں میں ایک ’’بی چنبیلی‘‘ تھی، جو باغ کو خوشگوار ماحول سے بہت مطمئن اور لطف اندوز ہو رہی تھیں کہ اچانک پھولوں کے بادشاہ گلاب نے خاموشی کو توڑتے ہوئے بی چنبیلی سے کہا کہ، ’’کیا بات ہے، آج تو بہت خوش ہو‘‘۔

بی چنبیلی نے جواباً کہا کہ، ’’جی ہاں، گلاب جی آپ سنائیں کیسے مزاج ہیں؟‘‘

’’میں ٹھیک ہوں‘‘ گلاب جی نے کہا۔

دونوں کی گفتگو سن کر قریب ہی کھلے موتیا صاحب بھی خاموش نہ رہ سکے۔ گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے فوراً سوال کیا، ’’کیا باتیں ہو رہیں ہیں جی؟‘‘

’’کچھ خاص نہیں، بس ایسے ہی۔‘‘ دونوں نے ایک ساتھ کہا۔ پھر تینوں نے خوب باتیں کیں۔ رات کا اندھیرا ہوتے ہی باغ میں خاموشی چھا گئی۔ اگلی صبح بی چنبیلی اور موتیا صاحب نے دیکھا کہ گلاب جی اور سورج مکھی کسی سے بحث و تکرار میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ دونوں حیران تھے کہ صبح صبح گلاب اور سورج مکھی کے مزاج کس پر اور کیوں برھم ہیں، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ، ان کا جھگڑا باغ کے مالی سے ہو رہا تھا۔ جب بی چنبیلی نے سورج مکھی سے لڑائی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ، ’’تم لوگ تو جانتے ہو صبح سویرے چہل قدمی کرنا میری عادت ہے، میں حسب معمول چہل قدمی کر رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ، مالی گلاب کے پھولوں کی قطار کے قریب موجود تھا۔ وہاں تمام گلاب اس انتظار میں تھے کہ مالی ان پر پانی ڈالے گا، مگر مالی نے توقع کے بر خلاف نہایت بے زاری اور لاپرواہی سے پانی کے چند قطرے گلاب کے پھولوں پر ڈالے اور آگے بڑھ گیا۔ بس پھر کیا، اسی بات پر گلاب جی کو غصہ آگیا۔‘‘

سورج مکھی کی باتیں سن کر موتیا نے کہا کہ، ’’گلاب جی نے ٹھیک کیا، کیا ہم اتنے غیر اہم ہیں۔ جب کہ ہم تو لوگوں کو خوشبو مہیا کرتے ہیں۔ ہم سے ہی گل دستے اور ہار بنائے جاتے ہیں اور مختلف تقریبات پر کمروں کو سجایا جاتا ہے۔‘‘

سورج مکھی نے موتیا صاحب کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ’’واقعی، بات تو درست ہے۔ باغ کا مالی ہمیں بازار لےجا کر فروخت کرتا ہے۔ ہم تو اس کی آمدنی اور روزی کا ذریعہ ہیں۔ کیوں نہ ہم کلی سے پھول میں تبدیل ہی نہ ہوں۔ جب اسے ڈھیر سارے پھول میسر نہ آ سکیں گے تو پھر اسے ہماری قدر ہوگی اور ہماری اہمیت کا احساس ہو گا۔‘‘

سورج مکھی کی اس تجویز پر گلاب جی، بی چنبیلی اور موتیا صاحب خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اب کی بار جب مالی پھول توڑنے کی خاطر آیا تو باغ کو پھولوں سے خالی دیکھ کر حیران اور پریشان رہ گیا۔ اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا، اور جب تیسرے دن بھی لگاتار ایسی ہوا تو وہ اداس ہو کر باغ میں موجود ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ زمین پر اگی گھاس نے مالی سے پوچھا، ’’کیا بات ہے؟ بڑے اداس نظر آ رہے ہو، سب خیر ہے؟‘‘

’’جی ہاں، کیا بتاؤں‘‘ مالی نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا ’’کچھ دن پہلے تک تو باغ کا یہ عالم تھا کہ رنگ برنگے پھولوں سے بھرا رہتا تھا، مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ باغ پر خزاں کے بادل چھا گئے ہوں۔ اب تو پھولوں نے کھلنا ہی چھوڑدیا ہے۔‘‘

گھاس نے مالی کی پریشانی سنی تو اسے پھولوں کی آپس کی گفتگو کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ مالی نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ ’’اب میں کیا کروں؟‘‘

گھاس نے جواب دیا۔ ’’کرنا کیا ہے؟ بس پانی بھر کرلاؤ اور تمام کیاریوں کو روزآنہ خوب پانی دیا کرو۔‘‘

مالی نے گھاس کا شکریہ ادا کیا اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے تمام پودوں کو پانی سے تر کردیا۔ تقریبا ایک ہفتے کے بعد باغ میں ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔ مالی نےخوشی خوشی اپنی ٹوکری پھولوں سے بھری اور بازار کا رخ کرلیا۔ اب وہ روزانہ تمام پودوں، درختوں اور پھولوں کو خوش دلی کے ساتھ پانی دیتا اور ہر ہفتے رنگ برنگے پھولوں سے بھری ہوئی ٹوکری کے ساتھ گھر کی لوٹتا۔

دیکھا ننھے ساتھیو! ذرا سی لاپرواہی سے باغ کے سارے پھول مالی سے ناراض ہوگئے اور جب اسی مالی نے انہیں توجہ دی تو باغ کے پھول کس طرح کھِل اُٹھے اور باغ ایک بار پھر پہلے کی طرح مہکنے لگا۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے ارد گرد موجود لوگوں اور چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ وہ ہم سے روٹھ نہ جائیں۔ 

تازہ ترین