• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 11 برس بیت گئے


اُردو رومانوی شاعری کے تین ستونوں کی بات کی جائے تو بلاشبہ اختر شیرانی،فیض احمد فیض اور احمد فراز کے نام سامنے آتے ہیں، جنھوں نےاردو رومانوی ذوق کوجام و سبوو مینا سے نکال کرچاند، تارے ،صبا، پھول، شبنم، گھٹا،چاندنی، شاخ، کلیاں، دھنک، روشنی، بہاروں، خزاؤں اور بچھڑنے کے موسموں سے ایسے استعاروں اور تشبیہات و تلمیحات کے قالب میں ڈھال دیا کہ پسِ زنداں قید و بند کی تکالیف بھی محبوب کا مرمریں ہاتھ لگیں۔ فیض احمد فیض کے بعد اپنے منفرد رومانوی لہجے سےمحبت و شہرت کے آسمان چھونے والے دوسرے انقلابی، مزاحمتی اوررومانوی شاعر احمد فراز تھے، جو نوجوان شاعروں کے آئیڈیل بن کر ابھرے۔

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

نقشِ حیات

12جنوری1931ء کو کوہاٹ کے معزز سادات خاندان میں پیدا ہوئے، اصل نام سید احمد شاہ تھا ۔ احمد شاہ کوہاٹی کے قلمی نام سے شعری سفر شروع کیا، بعد ازاں فیض احمد فیض کے گراں قدر مشورے سے ’’احمد فراز‘‘ ہوئے۔ یوں رومانوی شاعری کی اساس فیض صاحب جیسے نفیس رومانوی و انقلابی شاعر کے دستِ شفقت سے بنی۔ فراز کی مادری زبان پشتو تھی، ان کے والد سید محمد شاہ برق ہرچند فارسی کے ممتاز شعراء میں شمار ہوتے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ فراز ریاضی اور سائنس کی تعلیم میں آگے بڑھیں، تاہم فطری میلان اور ’’پوئٹک جینیٹک کوڈ‘‘کو کیا کہیے، جو ادب وشاعری کی طرف مائل تھا، اس لئے پشاور کے ایڈورڈ کالج سے فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور باضابطہ ادب وشاعری کا مطالعہ کیا۔ ایڈورڈ کالج (پشاور) میںدورانِ تعلیم ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ گریجویشن کے دوران رومانوی طالب علم بن کر ابھرے۔ پہلارومانوی شعری مجموعہ ’’ تنہا تنہا ‘‘منظر عام پر آتے ہی نوجوان دلوں کی دھڑکن بن گئے۔

کیریئر اور الوداعِ حیات

ریڈیو پاکستان پشاور سےبحیثیت اسکرپٹ رائٹرکیریئر کی ابتدا ہوئی، پھرپشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ حکومت پاکستان نے 1976ء میںاکیڈمی آف لیٹرز کے نام سے اعلیٰ ترین ادبی ادارہ قائم کیا تو احمد فراز اس کے پہلےڈائریکٹر جنرل بنے۔ ان کی شاعری میں حق گوئی اور بے باکی تخلیقی فطرت کا بنیادی عنصر تھا۔ صرف گل وبلبل اور محبوب کی قصیدہ خوانی یا اس کی بے وفائی کے تذکرے ہی اپنے اشعار میں نہیں کیے۔ معاشرتی جبر واستبداد کے خلاف بھی بہت لکھا اورگرفتار ہوئے، زندانوں میں ڈالے گئے لیکن سچ اور حق کہنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔1977ء میں مارشل لاء لگا تو کچھ عرصے بعد اپنی مشہور زمانہ نظم ’’محاصرہ‘‘ لکھ ڈالی اور پھر گرفتار کرلیے گئے۔ آپ کو مجبوراً جلاوطنی کی زندگی بھی گزارنی پڑی۔1989ء سے1990ء تک چیئر مین اکادمی پاکستان،1991ء سے 1993ء تک لوک ورثہ اور 1993ء سے 2006ء تک ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن ‘‘کے سربراہ رہے۔چھ سال کنیڈا اور یورپ میں زندگی گزارنے کے بعد 25اگست 2008ء کو آسودۂ خاک ہوئے۔

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

اعزازات و انعامات

احمد فراز نے زندگی میں کئی اعزازات اپنے نام کیے، جن میں آدم جی ایوارڈ، اباسین ایوارڈ، اکیڈمی آف اردو لٹریچر ایوارڈ (کینیڈا)، اکادمی ادبیات پاکستان کا ’کمال فن‘ ایوارڈ، ستارہ امتیاز، نگار ایوارڈ اور دیگر شامل ہیں۔ جامعہ کراچی نے اُنہیں پی ایچ ڈی کی اعزازی سند بھی عطا کی تھی۔ کلامِ احمد فراز مسلم علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ دہلی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’احمد فراز کی غزل‘‘ اور بہاولپور میں’’ احمد فراز۔ فن اور شخصیت ‘‘کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ پیش کیا گیا۔ شعری کلام کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں جیسے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، روسی، جرمن اور پنجابی میں ہو چکے ہیں ۔

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

شاعرانہ ورثہ اور حرفِ محبت

احمد فراز کے شاعرانہ ورثے میں جاناں جاناں ، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو ، درد آشوب ،تنہا تنہا ، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ ، بے آواز گلی کوچوں میں ، پس انداز موسم ، شب خون ، بودلک، یہ سب میری آوازیں ہیں ، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفا پیشہ وغیرہ جیسی کتابیں شامل ہیں۔ مکمل شعری میراث ’’شہرِ سخن آراستہ ہے ‘‘ کے دیباچے ’حرف محبت‘ میں لکھتے ہیں،’’مجھے اپنے بارے میں یا اپنی شاعری کے بارے میں نہ کوئی زعم ہے، نہ دعویٰ ہے۔ ایک بات ضرور ہے، میرے پڑھنے والوں نے مجھے ہمیشہ محبت دی۔ میں جب موجودہ کلیات کی ضخامت دیکھتا ہوں، تو مجھے خود حیرت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ میں نے کیسے لکھ لیا۔ اچھی بُری کی بحث تو الگ ہے۔ ہوسکتا ہے ان میں کچھ تخلیقات وقت کے موسموں کے اثرات سے مرجھا گئی ہوں، مگر مجموعی طور پر کئی مضامینِ دل و دنیا اب بھی تازہ تر لگتے ہیں‘‘۔

رومان کی علامت مزاحمت کا استعارہ

احمد فراز آسمانِ شاعری میں رومان کی علامت اورمزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرے،ان کی شعری روایت اور تاثیر بے مثال تھی۔فیض احمد فیض کے بعد جس شاعر کی غزلوں کو سب سے زیادہ گایا گیا، وہ احمد فراز تھے۔ فراز کی لکھی کئی غزلوں کو شہنشاہِ غزل مہدی حسن نے اپنی آواز سے وہ دوام بخشا کہ وہ آ ج تک لوگوں میں مقبول ہیں۔

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

تازہ ترین