• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14اگست 1947ءسےلے کر آج تک، بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ 1948ء میں کشمیر کی آزادی سلب کی اور تب سے آج تک کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے، جب کہ 5اگست 2019ءکو توشرم ناک ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ جمّوں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اُسے اپنی مملکت کا حصّہ بنانے کی جسارت بھی کرڈالی۔بھارتی فوج نے 1958ء میں مشرقی پاکستان کے علاقے، لکشمی پور پر حملہ کیا، 1965ء میں مغربی پاکستان میں ایک بڑا محاذ کھولا، 1971ء میں غدّاروں کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنوایا، 1984ء میں کوہِ قراقرم کی 20ہزار فِٹ بلند چوٹی پر سیاچن گلیشیر کا محاذ کھولا اور 1999ء میں کارگل کے برف پوش پہاڑوں پر پنجہ آزمائی کی۔ ان تمام فتنہ انگیزیوں اور کُھلی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے حد درجہ برداشت کے ساتھ صرف دفاعی جنگ لڑی اوراس دوران ہمارے جوانوں نے اپنے لہو سے پاک سرزمین کی حفاظت کی۔ وطنِ عزیز کے لیے شجاعت و بہادری کا فقید المثال مظاہرہ کرنے والے جاں باز مجاہدوں کو حکومتِ پاکستان مختلف اعزازات سے نوازتی ہے۔ ان میں ’’نشانِ حیدر‘‘ سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے، جو بعد از شہادت دیا جاتا ہے اور اب تک 11شیر دِل جوانوں کو دیا جا چکا ہے۔ آج سے چندروز بعد 6ستمبر کو’’ یوم دفاع‘‘ منایا جا رہا ہے ، جب کہ ایک بار پھر بھارتی جارحیت خطّے کے امن کے درپے ہے، لہٰذا اس موقعے پر ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کر نےاور’’نشانِ حیدر‘‘ کا اعزاز حاصل کرنے والے قومی ہیروز کی لازوال داستانیں پیشِ خدمت ہیں۔

نائیک سیف علی جنجوعہ

بھارتی فوج نے 1948ء میں جنّت نظیر کشمیر پر حملہ کرنے کے بعد پیر کلیدہ راجوری کی ایک بلند چوٹی پر قبضہ کر کے وہاں اپنی چوکی قائم کرلی۔ دفاعی نقطۂ نظر سے یہ چوکی بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ نائیک سیف علی جنجوعہ کو اس چوکی سے دشمن کا قبضہ ختم کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔ وہ ایک مختصر سی پلاٹون کے ساتھ مُہم پر روانہ ہوئے۔26 اکتوبر 1948ء کی صبح سیف علی نے، جو بھارتی چوکی کے قریب بنے ایک مورچے میں موجود تھے، اپنے اوپر سے ایک بھارتی طیّارہ گزرتے دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اور اُن کے ساتھی حملے کی زد میں آتے، انہوں نے مشین گن سے دشمن کے طیّارے پر فائرنگ شروع کر دی اور وہ قلابازیاں کھاتا زمین بوس ہو گیا۔ ابھی چوکی میں موجود بھارتی فوجی حیرانی و پریشانی کے عالم میں اپنے طیّارے کو زمین پر گرتے دیکھ ہی رہے تھے کہ نائیک سیف علی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ یہ حملہ اس قدر اچانک تھا کہ بھارتی فوجیوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا اور وہ اپنے ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ تاہم، ان میں سے ایک نے بھاگتے ہوئے توپ کا ایک گولہ داغا، جو سیف علی کے سینے پہ جا لگا اور وہ شجاعت کی عظیم داستان رقم کرنے کے بعد شہید ہو گئے۔ بعد ازاں، سیف علی کے ساتھیوں نے اس چوکی پر قبضہ کر کے پاکستانی پرچم لہرایا۔ آزاد کشمیر حکومت نے 14مارچ 1949ء کو سیف علی کو ہلالِ کشمیر سے نوازا، جسے 30 نومبر 1995ء کو حکومتِ پاکستان نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے نشانِ حیدر کے مساوی قرار دے دیا۔ نائیک سیف علی جنجوعہ 25اپریل 1922ء کو نکیال فتح پور ٹھکیالہ، ضلع کوٹلی، ریاست جمّوں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔ 18مارچ 1941ء کو برٹش آرمی جوائن کی اور 1947ء میں اُسے خیر باد کہنے کے بعد کشمیر میں حیدری فورس میں شمولیت اختیار کرکےبعدازاں پاک فوج کا حصّہ بنے۔ انہوں نے 26اکتوبر 1948ء کو 26سال 6ماہ کی عُمر میں رُتبۂ شہادت حاصل کیا ۔ 30اپریل 2013ء کو حکومتِ پاکستان نے نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کی یاد میں یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا ۔؎ہمارا خون بھی شامل ہے، تزئینِ گلستاں میں…ہمیں بھی یاد کر لینا، چمن میں جب بہار آئے۔

کیپٹن راجہ محمد سرور شہید (پہلا نشانِ حیدر)

بھارتی فوج نے جولائی 1948ء کی ایک شب پاکستان کی شہ رگ، کشمیر میں واقع، اوڑی کی سب سے بلند چوٹی پر قبضہ کر لیا۔ دفاعی نقطۂ نظر سے اہمیت کی حامل اس چوٹی سے بھارتی فوج کا قبضہ ختم کروانے کی ذمّے داری پنجاب رجمنٹ کو سونپی گئی۔ جب کیپٹن راجہ محمد سرور کو اس بات کا علم ہوا، تو انہوں نے اس مُہم کے لیے خود کو پیش کر دیا۔ 27جولائی 1948ء کو نمازِ تہجّد کی ادائیگی کے بعد کیپٹن سرور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مُہم پر روانہ ہوئے۔ چُوں کہ بلندی پر موجود دشمن ان کی نقل و حرکت سے آگاہ تھا، لہٰذا اُس نے ان پر آتش و آہن برسانا شروع کر دیا، لیکن وہ راہِ حق کے دیوانوں کے عزم و حوصلے کو شکست نہ دے سکا۔ سر فروشوں کا یہ قافلہ جوں جوں چوٹی کی جانب بڑھ رہا تھا، جامِ شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی تھی اور چوکی کے قریب پہنچنے پر صرف 6مجاہد باقی بچے تھے۔ اس موقعے پر کیپٹن سرور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دشمن اُن کے پہنچنے سے پہلے ہی چوکی کو خار دار تاروں کے حصار میں محفوظ کر چکا تھا۔ وہ نہایت سُرعت سے تار کاٹنے میں مصروف ہو گئے۔ اس دوران ایک گولی اُن کے شانے کی ہڈی توڑتی آر پار ہو گئی اور خون کا فوّارہ پُھوٹ پڑا۔ ابھی دو تار باقی تھے کہ ایک گولی سینے میں پیوست ہو گئی۔ تاہم، کیپٹن سرور نے ہمّت نہ ہاری اور شدید زخمی حالت میں بھی سارے خار دار تار کاٹ ڈالے۔ تاہم، جب آخری تار کاٹنے کے بعد انہوں نے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کو جوشیلی آواز میں چوکی پر حملے کا حکم دیا، تو گولیوں کی بوچھاڑ نے اُن کا جسم چھلنی کر دیا۔ پلاٹون میں شامل سپاہی دیوانہ وار دشمن کی جانب لپکے۔ دُو بہ دُو لڑائی کے دوران بھارتی فوجی فرار ہو گئے اور پاک فوج کے جاں بازوں نے چوکی پر قبضہ کر لیا۔ جاں بہ لب کیپٹن راجہ محمد سرور کی مُسکراتی آنکھوں نے یہ رُوح پرور منظر دیکھا، تو شُکر کے آنسو چھلک پڑے اور انہوں نے جان، جانِ آفریں کے سُپرد کر دی۔ 1959ء میں راجہ محمد سرور شہید کو پہلے ’’نشانِ حیدر‘‘ سے نوازا گیا، جو اُن کی بیگم، کرم جان نے اُس وقت کے صدرِ پاکستان، محمد ایّوب خان سے 1961ء میں وصول کیا۔ راجہ محمد سرور 10نومبر 1910ء کو راول پنڈی کی تحصیل، گوجرخان کے سنگوڑی نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ 1929ء میں بہ طور سپاہی بلوچ رجمنٹ میں بھرتی ہوئے، 1941ء میں رائل انڈین آرمی سے کمیشن لیا، 29اپریل 1944ء کو لیفٹیننٹ بنائے گئے،16مارچ 1946ء کو پنجاب رجمنٹ میں ان کا ٹرانسفر ہوا، یکم فروری 1947ء کو کیپٹن کے عُہدے پر فائز ہوئے، قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج جوائن کی اور27جولائی 1948ء کو شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔؎ہم تو کِھلتے ہوئے غُنچوں کا تبسّم ہیںندیم…مسکراتے ہوئے ٹکراتے ہیں طوفانوں سے۔

میجر طفیل محمد شہید (دوسرا نشانِ حیدر)

2 اگست 1958ء کی شب بھارتی فوج کی ایک پوری بٹالین مشرقی پاکستان کے سرحدی گائوں، لکشمی پور پر قابض ہو گئی۔ 3اگست کو میجر طفیل محمد کو قبضہ ختم کروانے کا حکم ملا، تو وہ اپنی پلاٹون کے ساتھ لکشمی پور پہنچ گئے۔ دشمن نے لکشمی پور میں ایک ایسی فیکٹری کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا تھا کہ جس کے تین اطراف پانی تھا اور خشکی والے راستے پر اُس نے بھاری توپیں اور مشین گنز نصب کر رکھی تھیں۔ میجر طفیل نے اس ہیڈ کوارٹر پر حملے کا منصوبہ بنایا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ فیکٹری کے قریب پہنچ گئے۔ ابھی وہ ہیڈ کوارٹر سے 15گز کے فاصلے پر تھے کہ بھارتی فوج نے فائرنگ شروع کر دی ۔ یکے بعد دیگرے تین گولیاں میجر طفیل کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ انہوں نے دستی بم کو پوری قوت کے ساتھ فیکٹری کی جانب پھینکا، تو مشین گن سمیت چند بھارتی فوجیوں کے جسم بھی پارہ پارہ ہوگئے۔ اب دشمن کی دوسری مشین گن کا رُخ میجر طفیل کی جانب ہوا اور چند مزید گولیوں نے اُن کا مضبوط جسم چھلنی کر دیا۔ میجر طفیل نے پھر بھی ہمّت نہیں ہاری۔ انہوں نے ایک اور دستی بم اُچھالا اور دوسری مشین گن بھی بھارتی سپاہیوں سمیت خاموش ہو گئی۔ اس عرصے میں اُن کے جاں باز ساتھی فیکٹری کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ بھارتی کمانڈر، دیو برمن پستول ہاتھ میں لیے باہر کی جانب بھا گا۔ گرچہ میجر طفیل کا جسم زخموں سے چُور تھا، لیکن جونہی کمانڈر اُن کے قریب سے گزرا، انہوں نے اپنی ٹانگوں کے اڑنگے سے اُسے زمین پر گرا کر سَر پہ ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ اتنے میں اُن کے ساتھی بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے بھارتی کمانڈر کو قتل کرنا چاہا، لیکن میجر طفیل نے روک دیا اور اُسے جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ میجر طفیل کو فوری طور پر ملٹری اسپتال، کومیلا منتقل کیا گیا، لیکن وہ جاں بَر نہ ہو سکے۔ تاہم، وہ اپنے مقصد میں کام یاب رہے اور فیکٹری پر سبز ہلالی پرچم لہرانے لگا۔ میجر طفیل محمد 22جولائی 1914ء کو مشرقی پنجاب میں واقع، جالندھر کے ایک گائوں، ساروبار میں پیدا ہوئے ۔ 1947ء میں اُن کا خاندان ساہی وال منتقل ہوا۔ وہ 1932ء میں فوج میں بھرتی ہوئے، 11نومبر 1944ء کو لیفٹیننٹ، 28مارچ 1945ء کو کیپٹن اور 1947ء میں میجر کے عُہدے پر فائز ہوئے۔ 1947ء میں انہوں نے پاک فوج جوائن کی، 1958ء میں ایسٹ پاکستان رائفلز میں اُن کا ٹرانسفر ہوا اور اسی سال اگست میں جامِ شہادت نوش کیا۔؎آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوش بُو…گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا۔

میجر راجہ عزیز بھٹّی شہید (تیسرا نشانِ حیدر)

6 ستمبر 1965ء کی صبح میجر راجہ عزیز بھٹّی کو فوری طور پر محاذِ جنگ پر پہنچنے کا پیغام موصول ہوا، تو چند گھنٹوں بعد ہی وہ سرحد پر واقع بی آر بی نہر سمیت برکی کے محاذ کی کمان سنبھالے نہایت برق رفتاری سے میدانِ جنگ کی جانب رواں دواں تھے۔ لاہور کے اس محاذ پر دشمن نے پوری ایک بٹالین (700فوجی) تعینات کی تھی، جب کہ میجر عزیز کے پاس دو پلاٹونز (کُل 74سپاہی)تھیں۔ تاہم، میجر عزیز بھٹّی اور اُن کے دستے میں شامل سپاہی پانچ دن اور پانچ راتوں تک بھارتی فوج کے دیو قامت ٹینکس، جدید توپوں اور مشین گنز سے متواتر برستے بارود کے سامنے سینہ سَپر رہے۔ انہوں نے نہ صرف دشمن کی پیش قدمی روکی، بلکہ اسے بے حد جانی نقصان پہنچانے کے ساتھ میدانِ جنگ سے بھاگنے پر بھی مجبور کر دیا۔ 12ستمبر کی صبح میجر عزیز نے درختوں، کھیتوں کی آڑ میں ہزاروں بھارتی سپاہیوں کو برکی سے شمال کی جانب پیش قدمی کرتے دیکھا، تو فوراً فائر کھولنے کا حکم دیا۔ نتیجتاً، سنبھلنے سے پہلے ہی متعدد بھارتی فوجی مارے گئے اور باقی بد حواس ہو کر بھاگ نکلے۔ دشمن کو پسپا کرنے کے بعد میجر عزیز نے شُکرانے کے نفل ادا کیے اورایک مرتبہ پھر دُور بین لے کر نہر کے پُشتے پر چڑھ گئے، تاکہ دشمن کی پوزیشن کا اندازہ لگایا جا سکے۔ وہ دشمن کی نقل وحرکت کا جائزہ لے رہے تھے کہ اچانک توپ کا ایک گولہ اُن کے سینے پر آ لگا اور وہ منہ کے بل نیچے گر گئے۔ سپاہی دوڑتے ہوئے اُن کے پاس پہنچے، تو دیکھا کہ وہ فرض شناسی، حُب الوطنی، دلیری اور شجاعت کی ایک نئی تاریخ رقم کر کے اپنے ربّ کے دربار میں حاضر ہو چکے ہیں۔ بعد ازاں، حکومتِ پاکستان نے میجر عزیز بھٹّی شہید کو نشانِ حیدر دیا، تو پاکستانی قوم نے انہیں ’’محافظِ لاہور‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ نیز، ایسے ہی جاں بازوں کے لیے مہدی حسن نے ’’اے خطۂ لاہور! تیرے جانثاروں کو سلام‘‘ کے بول پر مشتمل نغمہ گایا۔ میجر عزیز بھٹّی 6اگست 1923ء کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے، جہاں اُن کے والد، محمد عبداللہ ایک اسکول ٹیچر تھے۔ اُن کے والد کا آبائی تعلق ضلع جہلم کے گائوں، لادیاں سے تھا۔ دسمبر 1945ء میں میجر عزیز کا خاندان دوبارہ لادیاں منتقل ہوگیا۔ وہ 1950ء میں کمیشن حاصل کر کے پنجاب رجمنٹ میں شامل ہوئے اور اکیڈمی میں شمشیرِ اعزازی اور نارمن گولڈ میڈل حاصل کیا۔ لاہور سے واہگہ بارڈر کی جانب جاتے ہوئے راستے میں میجر عزیز بھٹّی کا مقامِ شہادت آتا ہے۔؎کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا…نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔

پائلٹ آفیسر، راشد منہاس شہید (چوتھا نشانِ حیدر)

20 اگست 1971ء، بہ روز جمعۃ المبارک، صبح 11بج کر 26منٹ پر پائلٹ آفیسر، راشد منہاس اپنے ٹرینر جیٹ طیّارے، ٹی 303کو لے کر تربیتی پرواز پر روانہ ہوئے۔ طیّارہ ٹیک آف کرنے ہی والا تھا کہ اُن کا بنگالی انسٹرکٹر، مطیع الرحمٰن ایمرجینسی سگنل لہراتے ہوئے اچانک سامنے آ گیا۔ راشد منہاس نے جونہی جہاز کا دروازہ کھولا، تو اُس نے طیّارے کا کنٹرول حاصل کر کے اُس کا رُخ بھارت کی طرف موڑ دیا۔ راشد منہاس نے فوراً خطرے کی بُو سونگھ لی۔ اتنے میں غدّار، مطیع الرحمٰن نے کراچی میں موجود اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ ’’مَیں طیّارے کو جودھ پُور لے جا رہا ہوں، تم فوری طور پر میرے بیوی بچّوں کو بھارتی سفارت خانے پہنچا دو۔‘‘ اب راشد منہاس کا شک یقین میں بدل چکا تھا۔ انہوں نے 11بج کر 29منٹ پر کنٹرول ٹاور کو پیغام دیا کہ ’’مُجھے اغوا کر لیا گیا ہے، لیکن تم غدّار کے ساتھیوں کو بھارتی سفارت خانے میں پناہ لینے نہ دینا۔‘‘ یہ پیغام دینے کے بعد راشد منہاس اُس غدّار سے گتھم گتھا ہو گئے۔ انہوں نے طیّارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن چُوں کہ مطیع الرحمٰن جسمانی طور پر طاقت وَر ہونے کے علاوہ زیادہ تجربہ کار بھی تھا، لہٰذا جہاز تیزی سے بھارتی سرحد کی جانب رواں دواں تھا۔ 11بج کر 33منٹ پر راشد منہاس نے ایک مرتبہ پھر کنٹرول ٹاور کو نہایت پُرجوش آواز میں یہ پیغام بھیجا کہ ’’طیّارہ اغوا کر کے بھارت لے جایا جا رہا ہے، لیکن مَیں اسے اغوا نہیں ہونے دُوں گا۔‘‘ 20سال کے ایک دُبلے پتلے نوجوان کی اس فولادی قوت اِرادی نے مطیع الرحمٰن کو ہلا کر رکھ دیا ،تو اُس نے کلوروفام سے بھیگا رومال راشد منہاس کے ناک پر رکھ دیا۔ جہاز چند ہی لمحوں میں نہایت نیچی پرواز سے دشمن کی سر زمین میں داخل ہونے والا تھا۔ راشد منہاس نے کلوروفام کے اثر سے بچنے کے لیے اپنی ناک سختی سے بند کر لی ۔ پھر نعرئہ تکبیر بلند کرتے ہوئے برق رفتاری سے جہاز کے لیور پر جھپٹے اور پوری قوت سے اس کا رُخ زمین کی جانب کر دیا۔ جہاز کو تیزی سے نیچے جاتا دیکھ کر غدّار، مطیع الرحمٰن کے اوسان خطا اور چہرہ سیاہ ہو گیا، جب کہ راشد منہاس کے معصوم، نورانی چہرے پر ایمان افروز مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے ایک نظر غدّارِ قوم کے کانپتے، لرزتے وجود پر ڈالی اور پھر نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ وِنڈ اسکرین سے باہر اَرضِ پاک کے لہلہاتے کھیتوں کو دیکھا۔ طیّارہ بھارتی سرحد سے 29کلو میٹرکی دُوری پر تھا اور قوم کے کم سِن ہیرو کے لبوں پر کلمۂ طیّبہ کے الفاظ تھے۔چند ساعت بعد ہی طیّارہ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا اور غدارِ وطن، مطیع الرحمٰن کا ناپاک وجود بھی آگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ہو گیا۔ بعد ازاں، اس واقعے کے عینی شاہد کسانوں نے بتایا کہ کہ جب طیّارہ زمین سے ٹکرایا، تو اس میں سے نور کی ایک کرن پُھوٹی، جو آسمان کی وسعتوں میں گم ہوگئی۔؎راہِ حق میں مسکراکر کھیل جاناجان پر…مجھ سے پوچھو تو یہی ہے زندگی کا بانکپن۔

میجر محمد اکرم شہید (پانچواں نشانِ حیدر)

بھارتی فوج 24نومبر 1971ء کو مشرقی پاکستان کے علاقے، دنیاج پور اور ہلی پر قبضہ کر کے پاک فوج کی رسد، کمک اور رابطہ منقطع کرنا چاہتی تھی، لیکن میجر محمد اکرم اور ان کی پلاٹون اس محاذ پر سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی۔ 13دسمبر 1971ء کو دشمن نے ایک بریگیڈ، درجنوں ٹینکس اور بہت سی بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بھرپور حملہ کر دیا، جس میں انہیں لڑاکا طیّاروں کی مدد بھی حاصل تھی، جب کہ میجر اکرم کے پاس گنتی کے سپاہی اور چھوٹے ہتھیار تھے۔ نیز، تازہ دَم دستوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تاہم، اس نازک مرحلے پر میجر محمد اکرم کی بہترین جنگی حکمتِ عملی نے دشمن فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ پوزیشن بدل بدل کر حملہ کرنے سے بھارتی فوج کئی روز تک یہی سمجھتی رہی کہ اس محاذ پر پاکستانی فوجی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ میجر اکرم کی پلاٹون نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ دشمن سمجھا کہ پاکستانی فوج نے پسپائی اختیار کر لی ہے۔ تاہم، بھارتی فوج نے جونہی پیش قدمی شروع کی، میجر اکرم اور اُن کے ساتھیوں نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ فتح کے نشے میں سرشار دشمن کو اس حملے کی قطعاً توقّع نہ تھی، چناں چہ وہ بوکھلا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھاگتے بھاگتے ایک بھارتی فوجی نے میجر اکرم کی جانب گرینیڈ پھینکا، جو ان کا سینہ چھلنی کر گیا اور یوں قوم کے اس بہادر سپوت نے اپنے بنگالی بھائیوں کے تحفّظ کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا۔ میجر اکرم 4اپریل 1938ء کو گجرات کے مشہور قصبے، ڈنگہ میں پیدا ہوئے۔ 1961ء میں کمیشن حاصل کیا، 1965ء میں کیپٹن بنے، 1970ء میں میجر کے عُہدے پر فائز ہوئے اور 13دسمبر 1971ء کو 33 سال کی عُمر میں شہادت پائی۔؎ہوموت کا جو سامنا،ڈرتے نہیں شہید…مَرکر بھی کیا کمال ہے،مَرتے نہیں شہید۔

میجر شبّیر شریف شہید (چھٹا نشانِ حیدر)

جنگِ65 ء کے دوران چھمب سیکٹر پر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے نوجوان سیکنڈ لیفٹیننٹ، شبّیر شریف کے چوڑے چکلے سینے پر دشمن کا گولہ آ کر پھٹا، تو اُسے شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا۔ اگلے روز جب اُسے ہوش آیا، تو خود کو پٹّیوں میں جکڑا پایا۔ تاہم، اس نوجوان نے اس حالت میں بھی محاذِ جنگ پر جانے کی ضد پکڑ لی۔ خاموش کروانے کے لیے ڈاکٹرز نے اُسے بے ہوش کر دیا، لیکن ہوش میں آنے کے بعد وہ پھر محاذ پر جانے کا اصرار کرنے لگتا۔ نتیجتاً، معالجین نے اُسے کئی مرتبہ کئی گھنٹوں تک کے لیے بے ہوش رکھا ۔ حکومتِ پاکستان نے اس مردِ غازی کو’’ ستارئہ جرأت‘‘ سے نوازا۔ 1971ء کی جنگ میں یہ شیر دِل جوان میجر کے عُہدے پر ترقّی پا چکا تھا۔ 3دسمبر 1971ء کو دشمن نے سلیمانکی ہیڈ ورکس کے قریب واقع، گور مکھیڑہ نامی گائوں کے ساتھ بنے ایک بلند اور اہم بند پر قبضہ کر لیا اور ٹینکس کی مدد سے اس کا محاصرہ کرنے کے علاوہ راستوں پر بارودی سُرنگیں بھی بچھا دیں۔ میجر شبّیر شریف کو یہ قبضہ ختم کروانے کے احکامات موصول ہوئے۔ گور مکھیڑہ کے مقام پر بہت بڑی تعداد میں بھارتی فوج جمع تھی، جب کہ اس کے مقابلے میں میجر شبّیر کی پلاٹون میں موجود جاں بازوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ میجر شبّیر نے اپنے جوانوں سے ایک ولولہ انگیز خطاب کیا، جس کے بعد گھمسان کا رَن پڑا۔ کئی روز کی مسلسل جدوجہد اور بہترین جنگی حکمتِ عملی کے وجہ سے میجر شبّیر کو فتح نصیب ہوئی اور دشمن کا خاصا جانی نقصان ہوا۔ بھارتی فوج نے دوبارہ اس مقام پر قبضہ کرنے کی سَر توڑ کوشش کی، لیکن ناکام رہی۔ اس دوران 6دسمبر 1971ء کو بھارتی ٹینک کا ایک گولہ میجر شبّیر شریف کے سینے پر آ لگا اور وہ شہادت کے منصب پر فائز ہو گئے۔ میجر شبّیر شریف 28اپریل 1943ء کو پنجاب کے ضلع، گجرات کے کنجاہ نامی قصبے میں میجر محمد شریف کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہیں 19اپریل 1964ء کو پاکستان اکیڈمی، کاکول سے کمیشن ملا ۔ انہوں نے پاسنگ آئوٹ کے موقعے پر شمشیرِ اعزازی حاصل کی۔ میجر عزیز بھٹّی کے بعد وہ نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والے دوسرے سپاہی ہیں کہ جنہیں اعزازی شمشیر سے بھی نوازا گیا۔ میجر شبّیر شریف، سابق آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی اور میجر عزیز بھٹّی شہید کے بھانجے تھے۔؎ہم رُوحِ سفر ہیں، ہمیں ناموں سے نہ پہچان…کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ۔

سوار محمد حسین شہید (ساتواں نشانِ حیدر)

سوار محمد حسین 18جون 1948ء کو ضلع راول پنڈی کی تحصیل، گوجر خان کے ایک گائوں، ڈھوک پیر بخش میں پیدا ہوئے۔ 3دسمبر 1966ء کو 17برس کی عُمر میں پاک فوج میں بہ طور ڈرائیور بھرتی ہوئے۔ 1971ء کی پاک، بھارت جنگ میں سوار محمد حسین آرمرڈ کور کی 20لانسر میں ڈرائیور تھے۔ چُوں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے ایک عظیم اعزاز مختص کر رکھا تھا، اسی لیے ان کے اَنگ اَنگ میں گویا بجلی سی بھر ی تھی۔ وہ رات کو تنِ تنہا اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر اگلے مورچوں پر دشمن کی نقل و حرکت کا پتا لگاتے اور صبح ہوتے ہی جوانوں کے ساتھ مل کر دشمن کا صفایا کر دیتے۔ 9دسمبر کو انہوں نے دشمن کو موضع ہرڑ خورد کے کھیڑا نامی گائوں پر قبضے کے لیے پیش قدمی کرتے دیکھا،تو تب وہ اکیلے تھے۔ اس موقعے پر انہیں خیال آیا کہ وہ جتنی دیر میں واپس جا کر اپنے ساتھیوں کو اس بات کی اطلاع دیں گے، تب تک بھارتی فوجی گائوں پر قبضہ کرچکے ہوں گے۔ سوار محمد حسین کی اسٹین گن اُن کے پاس تھی، جو اُن کے کمانڈنگ آفیسر نے اُنہیں بہ طور انعام دی تھی۔ انہوں نے کھیتوں کے اندر لیٹ کر دشمن پر فائرنگ شروع کر دی اوریہ فائرنگ چار مختلف مقامات سے کی، دشمن سمجھا کہ شاید پاکستانی فوج نے اُسے گھیر لیا ہے۔ چناں چہ بھارتی فوجی بد حواس ہو گئے اور بھاگنے کی کوشش کی۔ تاہم، اس دوران تنِ تنہا سوار محمد حسین نے متعدد بھارتی فوجیوں کو جہنم رسید کیا۔ 10دسمبر کی شب انہوں نے دشمن کے نئے مورچوں کا پتا لگایا ۔ ان ہی کی اطلاع پر پاک فوج نے علی الصباح دشمن پر حملہ کر دیا۔ اس دوران متعدد بھارتی فوجی مارے گئے ، نیز دشمن کے بے شمار ٹینکس اور دیگر سامانِ حرب تباہ ہوا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق، سوار محمد حسین تمام جوانوں سے آگے تھے اور انہوں نے16بھارتی ٹینکس تباہ کیے۔ پھر انہوں نے نعرئہ تکبیر لگا کر پسپا ہوتے دُشمن کا پیچھا شروع کیا اور اس موقعے پر بھارتی فوج کی فائرنگ کی زد میں آ کر شہید ہو گئے۔؎کن شہیدوں کے لہو کے یہ فروزاں ہیں چراغ …روشنی سی جو ہے زنداں کے ہر اک روزن میں۔

لانس نائیک محمد محفوظ شہید (آٹھواں نشانِ حیدر)

16 دسمبر 1971ء کو جنگ بندی کے اعلان کے احترام میں پاک فوج نے اپنی سرگرمیاں بند کر دیں، لیکن مکّار دشمن نے موقعے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے 17 دسمبر کی شب اٹاری سیکٹر میں پُل لنجری والا پر حملہ کر دیا۔ اس پُل پر 15پنجاب رجمنٹ کا قبضہ تھا اور لانس نائیک محمد محفوظ کا تعلق اسی رجمنٹ سے تھا۔ تب پاکستانی فوجی کُھلے میدان میں دشمن کے سامنے موجود تھے اور وہ انہیں گھیرے میں لینے کے لیے بہت تیزی سے پیش قدمی کر رہا تھا۔ اس موقعے پر یوں محسوس ہوتا تھا کہ بہت سے پاکستانی فوجی شہید ہو جائیں گے، لیکن پھر اللہ کی نصرت نازل ہوئی اور ایک شجیع جوان نے صفِ اوّل کے تمام بھارتی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتار کر دشمن کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے والے پاک فوج کے مایہ ناز مجاہد ، لانس نائیک محمد محفوظ تھے۔ چُوں کہ دشمن ہر حال میں یہ علاقہ واپس لینا چاہتا تھا، لہٰذا اُس نے بھاری نفری کے ساتھ دوبارہ بھرپور حملہ کیا۔ محمد محفوظ کی پلاٹون ہر اول دستے کے طور پر آگے تھی۔ لانس نائیک دیوار بنے دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے تھے کہ اچانک اُن کی مشین گن تباہ ہو گئی۔ انہوں نے ساتھی سے دوسری مشین گن لی اور زمین پر لیٹ کر دُشمن کی طرف بڑھنے لگے۔ اس دوران دونوں ٹانگیں شدید زخمی ہو چکی تھیں، لیکن انہوں نے ہمّت نہ ہاری اور بھارتی بنکر کے سامنے موت کا فرشتہ بن کر کھڑے ہو گئے۔ دشمن اُن کی دلیری اور جرأت پر حیران تھا۔ وہ بھارتی مورچوں سے صرف چند گز کی دُوری پر تھے کہ ایک گولہ اُن کے قریب آکر پھٹا، جس سےوہ مزید زخمی ہوگئے۔ نیز، اُن کی مشین گن بھی ناکارہ ہو گئی۔ دراصل، شہادت کا وقت قریب آن پہنچا تھا۔ فرشتے انہیں لے جانے کے منتظر تھے۔ اچانک نہتّے مجاہد نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے دشمن کے مورچے پر چھلانگ لگا دی اور اپنے مضبوط بازوئوں سے وہاں موجود گن مین کی گردن دبوچ کر دَم نکلنے تک نہیں چھوڑی۔ اس دوران ایک دوسرے بھارتی فوجی نے آ کر انہیں سنگین کے واروں سے شہید کر دیا۔ لانس نائیک محمد محفوظ 25اکتوبر 1944ء کو ضلع، راول پنڈی کے گائوں، پنڈ ملکان میں پیدا ہوئے۔ اب اس کا نام محفوظ آباد ہے۔ 1962ء میں 10پنجاب رجمنٹ میں بہ طور سپاہی بھرتی ہوئے اور 17دسمبر 1977ء کو شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔؎جب تک دنیا باقی ہے تم زندہ ہو…اے میرے وطن کے شہزادو تم زندہ ہو۔

کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نواں نشانِ حیدر)

کیپٹن کرنل شیر خان یکم جنوری 1970ء کو خیبر پختون خوا کے ضلع، صوابی کے ایک گائوں، نواں کلی میں پیدا ہوئے۔ 1994ء میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور جنوری 1998ء میں کارگل کے محاذ پر تعینات ہوئے۔ یہاں 18ہزار فٹ کی بلندی پر واقع، گلفری کے مقام پر کرنل شیر خان نے اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر 5چوکیاں بنائیں، جو دفاعی نقطۂ نظر سے بہت اہم تھیں۔ 7جون 1999ء کی رات دشمن فوج کی ایک بریگیڈ نے بھاری اسلحے کے ساتھ ان چوکیوں پر بھرپور حملہ کیا۔ کرنل شیر خان اور ان کے ساتھیوں نے نہایت بے جگری و دلیری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور وہ اپنے 40فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو گیا۔ 5 جولائی کی رات ہزاروں بھارتی فوجیوں نے کرنل شیر خان کی چوکیوں کو گھیر لیا۔ رات بھر گھمسان کی جنگ ہوتی رہی، مگر کرنل شیر خان اور ان کے ساتھیوں نے یہ شدید حملہ بھی ناکام بنا دیا۔ تاہم، اس معرکے کے دوران شیر خان شہید ہو گئے ۔ شہادت کے وقت بھی اُن کی اُنگلی مشین گن کی لبلبی پر تھی۔؎دو نِیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا…سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔

حوالدار لالک جان شہید (دسواں نشانِ حیدر)

حوالدار لالک جان بھی کارگل جنگ کے ہیرو ہیں۔ وہ یکم اپریل 1967ء کو گلگت بلتستان کی تحصیل، ہندور کے ایک گائوں، یاسین میں پیدا ہوئے اور 10دسمبر 1984ء کو پاک فوج میں شامل ہوئے۔ گرچہ وہ کارگل کے کمپنی ہیڈ کوارٹر میں خدمات انجام دے رہے تھے، لیکن جب جنگ شروع ہوئی، تو انہوں نے اصرار کر کے اپنی ڈیوٹی اگلے مورچوں میں لگوا لی۔ جولائی 1999ء کی ایک رات دشمن کی ایک بٹالین نے لالک جان کی چوکی پر حملہ کر دیا۔ رات بھر لڑائی ہوتی رہی، لیکن بھارتی فوج اپنے مقصد میں کام یاب نہ ہو سکی۔ دشمن نے مزید نفری اور بھاری اسلحے کی مدد سے 7جولائی کو تین اطراف سے شدید حملہ کیا، لیکن لالک جان نے بھارتیوں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ شدید زخمی ہونے کی وجہ سے کمانڈر نے انہیں واپس آنے کا پیغام بھیجا، لیکن قوم کے شیر دِل سپوت کو یہ گوارا نہ تھا کہ وہ چوکی دشمن کے لیے خالی چھوڑ دیں۔ چناں چہ زندگی کی آخری سانس تک دشمن سے مقابلے کا فیصلہ کیا۔ کارگل کے برف پوش پہاڑ گواہ ہیں کہ اللہ کے اس سپاہی نے کمک پہنچنے سے پہلے ہی تنِ تنہا شجاعت و بہادری کی ایک ناقابلِ فراموش تاریخ رقم کر دی تھی۔ شہادت کے بعد جب لالک جان کی رُوح آسمان کی جانب محوِ سفر تھی، تو اُس نے چوکی پر پوری شان سے سبز ہلالی پرچم لہراتے دیکھا۔ ؎اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو…تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔

تازہ ترین