• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب مسلم لیگ کا گڑھ ہے، یہاں 1973 سے لے کر اب تک 10صوبائی اسمبلیاں قائم ہوئیں لیکن صرف ایک بار پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدار کا موقع ملا باقی 8 اسمبلیوں میں مسلم لیگ اقتدار میں رہی، اس دوران ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا مارشل لا بھی لگا لیکن تب بھی مسلم لیگ ہی بالواسطہ طور پر اقتدار میں رہی۔ پنجاب میں بہت نامی گرامی سیاستدانوں کو وزارت اعلیٰ پر فائز ہونے کا موقع ملا، پیپلزپارٹی کے دور حکومت 1972-75کے دوران ملک معراج خالد، غلام مصطفی کھر، حنیف رامے ، نواب صادق حسین قریشی جیسے تجربہ کار، منجھے ہوئے سیاستدان وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے، ضیا ء الحق نے 1977 میں آئین معطل کر دیا، اس کے بعد پنجاب میں فروری 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے لے کر 2018تک مسلسل نو اسمبلیوں میں مسلم لیگ برسراقتدار رہی اگرچہ اس عرصے میں مسلم لیگ جونیجو، نواز، چٹھہ، قائداعظم کے دھڑوں میں تقسیم رہی، مسلم لیگی وزرائے اعلیٰ میں نواز شریف، غلام حیدر وائیں، منظور وٹو، سردار عارف نکئی، پرویز الہیٰ، شہباز شریف جیسے بڑے نام شامل ہیں، شہباز شریف کو تین بار وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا، 2018کے انتخابات کے دوران پنجاب میں مسلم لیگ کو شکست ہوئی اور پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہو گئی اور سردار عثمان احمد بزدار کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا جنھیں وزارت اعلی کا منصب سنبھالے رواں مہینے ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار حکومت کی ایک سالہ کار کر دگی دیکھی جائے تو موجودہ اورسابق وزرائے اعلیٰ کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کے دوران پنجاب میں اقتدار کے لئے بلند بانگ دعوے کئے، اقتدار کے ایک سال بعد کتنے وعدے وفا ہوئے اس بارے میں اپوزیشن حلقے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے گزشتہ سال اپریل میں مینار پاکستان لاہور میں ہونے والے بڑے جلسہ عام میں انتخابی منشور اور اس کے بعد پہلے سو دنوں کا جو منصوبہ دیا جس میں واضح اعلان کیا گیا کہ انتظامی بنیادوں پر جنوبی پنجاب کو صوبہ کا درجہ دیا جائے گا لیکن اقتدار کے بعد ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنانے کا اعلان کر دیا، ایک سال گزر گیا لیکن ہنوز جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم نہیں ہوا حتی کہ ملتان میں سیکرٹریٹ کی جگہ بھی نہیں مل سکی، گورنر ہائوس لاہور میں یونیورسٹی بنانے کا وعدہ بھی پورا نہ ہوا صرف اتوار کے روز گورنر ہائوس میں عوام کے لئے ایک مختصر حصے کو سیر و تفریح کے لئے کھول دیاگیا، صوبہ میں کفایت شعاری اور سادگی کا وعدہ پورا کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے7کلب روڈ لاہور کی انیکسی میں رہائش، ذاتی گاڑی استعمال کرنے کا اعلان کیا لیکن 8کلب روڈ، 90شاہرا ہ قائد اعظم کی عالیشان عمارتیں خالی نہ کی گئیں، وزیر اعلیٰ کا سرکاری پروٹوکول اور ہیلی کاپٹر بھی بدستور چلتا رہا، صوبائی کابینہ میں اضافہ کے بعد 34 وزرا، 38پارلیمانی سیکرٹری، وزیر اعلیٰ کے 8معاونین خصوصی اور 3مشیر بھرتی کئے گئے، تقرری اور تبدیلی کا عمل مسلسل جاری ہے، پنجاب میں سیاسی رواداری اور مفاہمت کے بجائے اپوزیشن رہنمائوں کی پکڑ دھکڑ کے لئے نیب متحرک ہوگئی، پنجاب میں دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر اعلیٰ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز، مریم نواز شریف، قومی اسمبلی کے رکن خواجہ سعد رفیق، پنجاب اسمبلی میں ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق، رانا ثناء اللہ کو گرفتار کر لیا گیا، پنجاب اسمبلی کے رکن رانا مشہود، قومی اسمبلی کے ارکان جاوید لطیف، خواجہ آصف، را نا تنویر حسین کے علاوہ برجیس طاہر و دیگر رہنما نیب انکوائریاں بھگت رہے ہیں، پنجاب اسمبلی کے قواعد میں رواں سال اپریل میں ترمیم کر کے اسپیکر کو اختیار دیا گیا کہ وہ کسی گرفتار رکن کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اجازت کے لئے پروڈیکشن آرڈر جاری کر سکتے ہیں جس کے تحت حمزہ شہباز، خواجہ سلمان رفیق، تحریک انصاف کے عبدالعلیم خان کو اجلاسوں میں شرکت کی اجازت مل گئی لیکن وزیر اعظم کے احکامات پر جب اسپیکر قومی اسمبلی نے پروڈیکشن آرڈر کا اجرا بند کیا تو اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ نے بھی پروڈیکشن آرڈر بند کر دئیے، پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کو توڑنے کے لئے اس کے 6ارکان کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جنھیں ترقیاتی فنڈز دینے کا وعدہ کیا گیا، کسان حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبہ میں زراعت کا کوئی پرسان حال نہیں، گنے، گندم، آلو سمیت زرعی اجناس کی قیمتوںمیں کوئی اضافہ نہیں ہوا، شوگر مل مالکان کے خلاف کارروائی کے بجائے انھیں چینی کی من مانی قیمتیں وصول کرنے کے لئے ڈھیل دی گئی، سیاسی افراتفری، نیب کی پکڑ دھکڑ، ڈالر کی قیمت میں اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار سے صوبہ میں معیشت کا پہیہ سست اور صنعتیں بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں، صوبہ میں عدم استحکام کے باعث نجی شعبہ کو نقصان ہو رہا ہے، صوبہ میں سی پیک کے منصوبوں پر عملدرآمد کی رفتار ماند پڑ چکی ہے۔ بالخصوص لاہور سیالکوٹ موٹر وے، لاہور کراچی موٹر وے، اورنج لائن میٹرو ٹرین لاہور کے منصوبے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے، سڑکوں، تعلیم، صحت سمیت دیگر شعبوں میں گزشتہ حکومت کے منصوبوں کو ختم کر دیا گیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین