• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلڈ پریشر یعنی خون کے دباؤ کو سمجھنےسے پہلے چند بنیادی باتیں جاننا ضروری ہیں۔ جب ہمارا دِل خون کو ایک دباؤ کے تحت رگوں میں دھکیلتا ہے، تو اُسے عرفِ عام میں اُوپر کا بلڈ پریشر( Systolic Blood Pressure) کہا جاتا ہے اور جب یہ خون لچک دار رگوں میں دھکیلا جاتا ہے، تو قدرتی طور پر لچک دار رگیں نظام سےجو مزاحمت کرتی ہیں ،اُسے نیچے کا بلڈ پریشر(Diastolic Blood Pressure) کہتے ہیں۔ ہمارا دِل چوبیس گھنٹے میں چھے ہزار سے لے کر دس ہزار لیٹر تک خون پمپ کرتا ہےاوریہ خون ،ہر دھڑکن کے ساتھ پورے جسم میں چھوٹی، بڑی رگوں کے ذریعے گردش کرتا ہے۔ اگر انسانی جسم میں موجود تمام خون کی رگوں کو ایک سیدھی قطار میں رکھا جائے ،تو ان کی لمبائی تقریباً 65,000میل ہوگی۔ بظاہر یہ ایک چھوٹاسا عضو ہے، لیکن جس نوعیت کا اور جس قدر کام انجام دیتا ہے، اُس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دِل سے جسم کے مختلف حصّوں تک خون کی ترسیل شریانوں کے ذریعے ہوتی ہے، جب کہ خون کو دِل تک واپس لانا وریدوں کا کام ہے۔ جسم کے کسی بھی حصّے میں شریانیں اور وریدیں آپس میں نہیں ٹکراتیں، بلکہ انتہائی باریک رگوں کے جال کے ذریعے رابطہ رکھتی ہیں۔ ایک صحت مند فرد کے جسم میں تقریباً پانچ سےچھے لیٹرخون پایاجاتا ہے اور زندہ رہنے کے لیے اس خون کا مسلسل گردش میں رہنا ناگزیر ہے ۔اس عمل میں ایک منٹ کابھی تعطّل کسی طبّی نقصان سے دوچار کرسکتا ہے۔ دِل ایک دھڑکن سے دوسری دھڑکن کے درمیانی وقفے میں آرام کرتا ہے، لیکن اس دوران اس میں ٹوٹنے اور بننے کا عمل جاری رہتا ہے۔ کسی بھی فرد میں 30سے 40سال تک بننے کا عمل تیز اور ٹوٹنے کا عمل سُست رہتا ہے،مگر چالیس سال کی عُمر کے بعد عموماً بننے کا عمل سُست پڑ جاتا ہے اور ٹوٹنے کا عمل قدرتی طور پربننے کے عمل سے زیادہ ہوجاتا ہے، لیکن اگر دِل میں پیدایشی طور پر کوئی نقص ہو،تو یہ عمل بھی غیر ضروری طور پر متاثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہماری اپنی لاپروائی کے سبب دِل کے نظام میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے، تو وہ دِل کا عارضہ کہلاتی ہے۔

نُلند فشارِ خون ایک باقاعدہ بیماری ہے،اس کے برعکس ’’لوبلڈ پریشر ‘‘ایک علامت ضرور ہے، مگر مرض نہیں۔ اصل میں دِل پورے جسم میں خون پمپ کرتا ہے اور مسلسل کام کرتے رہنے سے جو پریشر بنتا ہے، وہ عام طور پر 80تا 120 کے درمیان ہوتا ہے۔ تاہم، کسی وجہ سے دِل کو یہ پریشر زیادہ بنانا پڑے، تو اسے ہائی بلڈ پریشر کہتے ہیں اورہائی بلڈ پریشر کےاس مرض کو ہائپر ٹینشن کہاجاتا ہے۔ عام طور پر اس مرض کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔اسی لیے یہ مرض’’خاموش قاتل‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ کئی مریض خصوصاً خواتین مرض سے ناواقفیت کی بنا پر کئی دوسری علامات کوبُلند فشارِ خون سے منسلک کردیتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگرمریض کے سَر میں کسی وجہ سے درد ہورہا ہے، تو اسے ہائی بلڈ پریشر سے موسوم کردیا جاتا ہے۔اسی طرح اگر دِل ڈوبتا محسوس تواسے لو بلڈ پریشر سمجھا جاتا ہے۔

بُلند فشارِ خون کا مرض لاحق ہونے کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً بڑی عُمر، ذہنی تنائو، موٹاپا، کھانے میں نمک کی زائد مقدار کا استعمال، جسمانی سرگرمیوں کا نہ ہونا یا بہت کم ہونا، سگریٹ اور شراب نوشی، مرغّن کھانوں کا بےتحاشا استعمال، موروثی امراض یعنی خاندان میں اس مرض کا ہونا وغیرہ۔ بعض امراض جیسے کولیسٹرول اور ذیابطیس وغیرہ بُلند فشارِ خون کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔اس کی مثال ایک اور ایک دو کی ہے، جسے11بھی کہاجاسکتا ہے۔ کیوں کہ اگر بُلند فشارِخون کے ساتھ ذیابطیس کا عارضہ بھی لاحق ہو، تو ایسے مریضوں کو قلب کےعارضے میں لاحق مریض کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ 95سے97فی صد افراد میں بلڈ پریشر بڑھنے کی وجوہ تشخیص نہیں ہوپاتیں۔ یعنی اس جدید سائنسی دَور میں بھی طبّی ماہرین معلوم نہیں کرسکے کہ بلڈ پریشر کیوں بڑھا ہے، البتہ نوجوانوں اور بچّوں میں وجوہ کی تشخیص سہل ہے کہ زیادہ تر کیسز میں گُردوں اور ہارمونز وغیرہ کے سبب خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔جب خون کا دباؤ بڑھ جائے، تو دِل کا کام بھی بڑھ جاتا ہے۔ یعنی اُسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جس مقدار میں جسم کو خون درکار ہو، اُس کے لیے اُسے مزید طاقت کے ساتھ خون پمپ کرنا پڑتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق40سال سے زائد عُمر کے 1/3افراد میں بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہوتا ہے، جن میں سے صرف آدھے سے کم مریض اپنے مرض سے باخبر ہوتے ہیں اور ان میں سے بھی 25فی صد علاج کرواتے ہیں،جب کہ 25فی صد مریضوں میں سے بھی صرف 25فی صد اپنے مرض پر قابو رکھتے ہیں۔

ہمارے یہاں نہ صرف ہائی بلڈ پریشر عام مرض ہے، بلکہ جب مریض معالج سے علاج کرواتے ہیں، تو بجائے بلڈ پریشر ادویہ کے مثبت اثرات حاصل کرنے کے یہ ان کے مضر اثرات تلاش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ادویہ کی تمام ملٹی نیشنل اور معیاری کمپنیز اس بات کی پابند ہیں کہ دوا کے جو بھی مضرِصحت اثرات ہوں، وہ دوا کے پرچے پر ضرور درج کیے جائیں۔ ویسے بھی ہمارے یہاں زیادہ تر افراد ادویہ کے مضرِ صحت اثرات جاننے میں بے حد دِل چسپی لیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اگر دُنیا میں کسی بھی دوا کو لاکھوں افراد نے استعمال کیا اور اس میں صرف20فی صد افراد کسی ایک مضرِصحت اثر سے دوچار ہوئے، تو کمپنی اسے بھی پرچے میں درج کرنے کی پابند ہے، مگر ہمارے یہاں کے عوام اسے سو فی صد درست مان کر دوا کا استعمال ترک کردیتے ہیں۔حالاں کہ مضراثرات مرتّب ہونے کی شرح کم ہوتی ہے۔ اگر کسی مریض پربلڈپریشر کی ادویہ کے استعمال سے مضراثرات ظاہر ہوں، تو وہ لازماً اپنے معالج سےمشورہ کرے، جب کہ سیلف مانیٹرنگ بھی ضروری ہے۔ یعنی خود ہی گھر پر یا دفتر میں بلڈپریشر چیک کرکےاسے کنٹرولرکھنے کی کوشش کی جائے، تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کےخطرے سے دوچار نہ ہوں۔ بلاشبہ دِل زندگی کی ڈور سنبھالے ہوئے ہے، لہٰذا ہائی بلڈ پریشر کے شکار افراد اپنے معالج کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کریں اور معمولی سی بھی تکلیف ہرگز نظر انداز نہ کی جائے۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال ،کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین